Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

8 - 11
مغربی تہذیب تعارف‘ شرعی‘ اثرات‘ تعلیمی ضرورت
مغربی تہذیب تعارف‘ شرعی‘ اثرات‘ تعلیمی ضرورت
مغربی تہذیب کو سمجھنے کے چند بنیادی اصول:
مغربی تہذیب کو سمجھنے کے چند بنیادی اصول درج ذیل ہیں:
۱- تہذیب سے مراد کسی بھی قوم اور اس کے افراد کا نظریہ حیات اور اجتماعی طرز زندگی ہوتا ہے۔ مغربی تہذیب سے مراد وہ تہذیب ہے جو یورپ میں ظہور پذیر ہوئی اور اس وقت دنیا کے بیشتر حصوں پر چھائی ہوئی ہے۔
مغربی تہذیب اور اسلام میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مغربی تہذیب فلسفہ کی بنیاد پر قائم ہے اور اسلام وحی کی بنیاد پر قائم ہے‘چنانچہ مغربی تہذیب کسی خاص مذہب کا نام نہیں جو الہامی یا خدائی تعلیمات پر عمل کرنے کامدعی ہو‘ مغربی تہذیب اپنے اپنے مذہب پر نجی اور پرائیویٹ زندگی میں عمل کرنے کی اجازت ضرور دیتی ہے‘ لیکن یہ خاص مذہبی طرز فکر‘ عقائد اور وحی پر مبنی تعلیمات کا نام نہیں۔چنانچہ مغربی تہذیب کی بعض تعلیمات‘ دنیا کے تمام مذاہب کی مشتر کہ تعلیمات سے ہٹ کر بھی موجود ہیں‘ مثلاً شادی کے بغیر کسی عورت کے ساتھ تعلق تقریباً ہر بڑے مذہب میں شرم وحیا اور اخلاق کے منافی سمجھا گیا۔لیکن مغربی تہذیب اس کو کسی قسم کی ادنیٰ قباحت سمجھنے کو تیار نہیں۔ مادیت ‘ زرپرستی اور دولت سے انتہاء درجے کی محبت کو تمام مذاہب نے مذموم قرار دیا‘ لیکن مغربی تہذیب اس کو کسی قسم کا عیب سمجھنے کی روا دار نہیں۔مغربی تہذیب اور دین میں فرق یہ ہے کہ مغربی تہذیب میں فلسفہ کا وہ مقام ہوتا ہے جو دین میں عقیدہ کا ہوتا ہے۔
اسی طرح مغربی تہذیب میں دین کی اجتماعی تعلیمات کی جگہ پر نظام اور سسٹم کا لفظ بولا جاتا ہے‘ جیسے سیاسی نظام‘ معاشرتی نظام وغیرہ‘ جبکہ دین میں ان نظاموں کی جگہ پر دینی تعلیمات ہوتی ہیں۔
۲- مغربی تہذیب کے چند اہم نظریات وافکار یہ ہیں:
فرائیڈازم
انسان اپنے لاشعور کا غلام ہے اور انسان کالا شعور جنسی جذبات سے ہر وقت بھرا رہتا ہے‘ مذہب‘ اخلاق‘ معاشرتی روایات اور اعلیٰ اقدار جنسی جذبات کو کچلنے کے لئے تخلیق کئے گئے‘ لیکن اس کے باوجود انسان اپنی جنسی جبلت کی غلامی سے نہیں نکل سکتا۔ یہ نظریہ اپنے وقت میں سارے یورپ میں مقبول ہوا۔
ڈارونزم
کائنات میں مختلف حیوانی انواع ارتقاء کے مختلف مراحل طے کرکے اپنی موجودہ شکل میں آئی ہیں‘ چنانچہ انسان بھی بتدریج بندر کی نوع سے ترقی کرکے انسان بنا‘ اس نظریہ کے مطابق کائنات کی ایسی تعبیر قرار پاتی ہے جس میں کسی صاحب ارادہ ہستی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
ہیو من ازم
انسان کی فلاح ہر چیز سے مقدم ہے‘ انسان کی فلاح کے مقابلے میں کوئی بھی من گھڑت مذہبی اصول‘ اخلاقی ضابطہ حیات قابل قبول نہ ہوگا۔ نیز انسان اپنی فلاح کے بارے میں خود سوچ سکتا ہے اور اپنے لئے خود ضابطہ اخلاق بناسکتا ہے۔ یہ نظریہ عیسائیت کے زوال کے بعد مقبول ہوا۔
ریشنلزم
مابعد الطبیعی مسائل کے حل میں عقل اپنی حیثیت میں وحی پر مقدم ہے‘ دین کے عقائد اور اخلاقی روایات کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جاسکتا جب تک ان کی عقلی توجیہہ نہ ہوسکے۔
مادہ پرستی
اس کائنات میں مادہ ہی اصل ہے اور روح کا کوئی وجود نہیں جو مادیات سے بالاتر اور جدا ہو‘ انسانی زندگی صرف مادہ ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے‘ اس نظریہ کے ساتھ ہی روحانی تعلیمات اور تقاضوں کا وجود گویا ختم ہوگیا اور انسان کے سفلی نفسانی تقاضے عین فطرت اور حق قرار پائے۔ نیز خدا کا وجود بھی باطل قرار پایا کیونکہ وہ مادیات سے ماوراء ہے۔
اخلاق کا نظریہ اضافیت
خیر ونیکیاں اضافی ہوتی ہیں‘ دنیا میں کوئی نیکی اور خیر ایسی نہیں جو مستقل اور پائیدار ہو۔ ہم جس کو نیکی سمجھتے ہیں وہ ایک خاص ماحول‘ افراد‘ زمانے اور علاقے کے لحاظ سے نیکی سمجھی جاتی ہے‘ وگرنہ حقیقت میں کوئی نیکی پائیدار اور مستقل نہیں۔ اس نظریے کے ساتھ ہی تمام مذاہب کی بساط لپیٹ دی گئی‘ کیونکہ تمام مذاہب مستقل نیکیوں کے تصور پر ہی قائم ہیں اور اسلام کا تصور خیر وشر تو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک کے لئے یکساں ہے۔
سیکولرزم
یعنی مذہب ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے یعنی ایک انسان خواہ جو مرضی عقائد واخلاقیات رکھے‘ جو چاہے عبادت کرے‘ لیکن اجتماعی زندگی دین‘ مذہب اور اخلاق سے بالاترہوگی‘ اجتماعی سطح پر ملک میں وہ قانون نافذ ہوگا جو اکثر عوام کی خواہش ہوگی۔ عوام کے لئے ضروری نہیں کہ وہ کسی قسم کے مذہب کے پابندہوں۔ دنیا کے تمام تصورات برابر ہیں‘ انسان کی خواہشات چاہے جیسی ہی کیوں نہ ہوں وہ اپنے درجے میں برابر ہیں‘ چنانچہ ملکی قانون کے تحت جنسی آوارگی کو اخلاق کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا۔ ملکی قانون کے تحت ہالی وڈ اور بالی وڈ کو مذہبی پابندیوں سے آزادی ہوگی ‘ ملکی نظام تعلیم میں مادی علوم وفنون دینی تصورات سے آزاد ہوں گے۔ ملکی نظام میں صحافت‘ میڈیا‘ اور کیبل نیٹ ورک مذہبی تعلیمات سے آزاد ہوں گے‘ ملک میں سود‘ جوا‘ ارتکازِ زر اور اکتنا ز کی اجازت ہوگی‘ صارفین اپنی سفلی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہر طرح آزاد ہوں گے۔
نیشنلزم
قوم کا مفاد ہر قسم کے اخلاقی ‘ مذہبی اور دینی مفاد سے بالاتر ہے‘ نیشنلسٹ پہلے سیکولر ہوتا ہے پھر وہ مذہبی انسان ہوتا ہے‘ نیشنلزم کے فلسفہ کے مطابق قوم پرست کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے قوم پرست ہو اور پھر وہ مذہب پرست ہو‘ جبکہ اسلام کے نزدیک رنگ‘ نسل اور وطن کی تقسیم غلط ہے۔ انسان سب سے پہلے اخلاقی ضابطوں‘ عام انسانیت کی فلاح اور قانونِ الٰہی کا پابند ہو پھر وہ کسی قسم کی مادی‘ دنیوی تقسیم میں بٹے۔
ادب برائے ادب
اس نظریے کے مطابق ادب اور لٹریچر کو اخلاق‘ وعظ ونصیحت اور مذہب کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہونا چاہئے‘ ادب کسی قسم کے سیاسی نظریے ‘ مذہبی تلقین‘ اخلاقی روایات کا ناصح نہیں ہونا چاہئے۔ اس نظریے کے تحت ادب ولٹریچر میں حقیقت نگاری کے نام پر فحاشی اور معصوم بے ضرر عشق ومحبت کے نام بے مقصدیت اور آخرت بے زاری پورے لٹریچر میں سموئی گئی‘ اس طرح فن برائے فن کا نعرہ لگایاگیا کہ فنون لطیفہ کا کسی مذہب اور دین کے ساتھ گہرا تعلق نہیں ہونا چاہئے‘ فنکار کا کوئی وطن اور مذہب نہیں ہوتا‘وہ پوری دنیا کا مشترکہ سرمایہ ہوتا ہے‘ جبکہ اسلام میں کسی ایسی سرگرمی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جو اللہ تعالیٰ کے تصور اور آخرت کی یاد سے غفلت پر مبنی ہو۔
مغربی جمہوری نظریہ تعلیم
اس نظریہ کے مطابق طالب علموں کو اس انداز سے تعلیم دی جائے کہ ان پر کسی بھی نظریے کی تلقین کا الزام نہ آئے‘ طلبہ آزاد ہوں کہ وہ اپنی ذاتی رائے اور قوت فیصلہ سے کسی ایک نظریہ کو راجح قرار دیں۔ یہ علم برائے علم کا نظریہ ہے کہ عالم دل ودماغ میں معلومات کا خزانہ رکھتا ہو لیکن اسے غلط وصحیح‘ خطا وصواب‘ حق وباطل بتلانے سے دل چسپی نہ ہو۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے غلط اور صحیح‘ صواب اور خطا‘ حق اور باطل برابر درجے کے نہیں ہوسکتے‘ جو کسی نظریے کو تسلیم کرتا ہے اس کے لئے عقلاً‘ اخلاقاً اور شرعاً ممکن نہیں کہ وہ حق کی ترجیح ذہن نشین کرانے سے باز آئے اور مغرب میں علمی روا داری فقط ایک خاص دائرے تک محدود ہے‘ وگرنہ مغرب کے بنیادی فکر وفلسفہ کو جس نظریہ ٴ حیات سے خاص خطرہ محسوس ہوتا ہے اس کو جبراً روکا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کا مغربی تصور
مغرب میں انسانی حقوق یا بنیادی حقوق کا بڑا چرچا ہے‘ مغرب کے نزدیک تاریخ انسانیت میں انسان کی فلاح وبہبود کی آخری انتہاء یہ حاصل کی گئی ہے کہ مغرب نے عالم انسانیت کو بنیادی انسانی حقوق کا تصور بخشا ہے‘ مغرب کے نزدیک دنیا میں وہی ملک اور قوم قابل ستائش اور قابل فخر ہے جو اپنے ہاں انسانی حقوق کی پاسداری کرتی ہے‘ مغرب کے انسانی حقوق کے تصور کے مطابق انسان کے لئے دنیا کی بنیادی قدر ”آزادی اور حریت“ ہے۔ یہ آزادی کئی قسم کی ہے‘ مثلاً فکر کی آزادی‘ معاش کی آزادی‘ سیاست میں حصہ لینے کی آزادی وغیرہ۔ ان آزادیوں میں فکر وعقیدہ کی آزادی سرفہرست ہے۔ اس قسم کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے لئے جو چاہے خیر اور شر کا تصور پسند کرے‘ بالفاظ دیگر تمام قسم کے تصورات خیر وشر برابر ہیں‘ انسان کو ان کے انتخاب میں آزادی ہونی چاہئے‘ جب تمام انسانوں کو اپنے اپنے تصورات خیر وشر چننے کی آزادی ہو تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اللہ کو ایک مانے‘ کئی معبودوں کو مانے یا سرے سے کسی معبود کو نہ مانے‘ وہ زنا اور لہو ولعب کارسیا ہو یا انتہائی پاکباز انسان ہو وہ شراب اور جوئے پر جان دیتا ہو یا ان سے یکسر نفرت کرتا ہو وغیرہ وغیرہ۔
اسلام کے نزدیک مملکت اسلام میں غیر مسلموں کو غیر مسلم بن کررہنے کی اجازت ہے لیکن وہ مسلمانوں کو مسلمان بننے کے بعد اجازت نہیں دیتا کہ ان کے درمیان فحاشی‘ لادینیت‘ الحاد‘ زرپرستی‘ لہو ولعب اور حرام کاریاں واقع ہوں‘ مسلمان ملکوں میں جبکہ وہاں کی ۸۰-۹۰ فیصد آبادی مسلمان ہے‘ انسانی حقوق اور انسانی آزادی کے نفاذ کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتاہے کہ ان کو بے دین‘ جنس پرست اور لادین بنا یا جائے۔
مساوات مردوزن
مغرب کے لئے یہ بات انتہائی قابل فخر ہے کہ اس نے اپنی عورت کو مزعومہ آزادی بخشی ہے‘ مغرب کے نزدیک اس سے پہلے تاریخ انسانیت میں عورت کو وہ آزادی حاصل نہیں ہوئی جو مغرب نے عورت کو دی ہے۔مغرب کے نزدیک عورت ومرد تمام تہذیبی وتمدنی دائرہ کار میں بالکل یکساں حقوق اور ذمہ داریوں کے حامل ہیں۔ مرد کو عورت پر کسی قسم کی کوئی فضیلت حاصل نہیں‘ اس نظریہ سے مغربی ملکوں کے اندر خاندانی نظام جس طرح تہس نہس ہوا ہے وہ کبھی تاریخ انسانی میں نہ ہوا تھا‘ مرد وزن کے مغربی تصور مساوات سے مغربی معاشرہ کی عورت گھر بار کی ذمہ داریوں سے آزاد ہوکر ہر قسم کے کاروبار اور دکان کی زینت بنی‘ مغربی معاشرہ جنسیت کے سیلاب میں بہہ گیا‘ عفت وعصمت کا نام ونشان مٹ گیا۔
اسلام کے مطابق جو شخص مرد وزن کو اپنی ازدواجی ذمہ داریوں اور معاشرتی دائرہ کار میں یکساں درجے کا حامل سمجھتا ہے وہ اس الہامی تعلیم کا انکار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی فلاح کے لئے نازل کی اور جو تمام انبیاء کی مشترک تعلیم تھی‘ ایسے انکار کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اللہ کی ہستی‘ حیثیت اور مقام ومرتبے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔
حیوانی جنسیت
مذہبی اقدار کا خاتمہ‘ سیکولرازم‘ مساواتِ مرد وزن اور لادینیت کے نظریات کے بعد مغرب میں انسان کا سب سے بڑا مقصودو مطلوب حیوانی جنسی خواہشات قرار پائیں۔ مغربی فرددینی نظریہ زندگی اور دینی ضابطہ اخلاق سے عاری ہوا تو وہ جنسیت کے سیلاب میں غرق ہوتا چلا گیا‘ یہ جنسیت مغرب پر اس قدر غالب آئی کہ اس نے کسی قسم کی نفاست‘ انسانیت‘ عقل وفطرت اور شائستگی کو بھی درخور اعتنانہ سمجھا‘ مغرب میں جنسی تلذذ اور جنس کے نئے جہانوں کی تلاش میں ایسے ایسے ذرائع‘ اسلوب اور طریقہ ہائے کار اختیار کئے گئے کہ حیوان بھی ان سے شرماجائے‘ ابدی اور وقتی محرمات کی پامالی‘ موقع بہ موقع نئے جنسی پارٹنرکی تلاش‘ معصوم او رانجان بچوں اور بچیوں پر جنسی تشدد‘ جنسیت کے دوران جسمانی تشدد کا جنون‘ غیر فطری طریقوں سے لطف اندوز ہونا‘ جنسیت کے دوران غلاظت اور گندگی سے تلذذ‘ مردانہ اور زنانہ ہم جنس پرستی کی وبا‘ جنسی رسائل اور جنسی ویب سائٹس․․․ یہ مغرب کے جنسی کلچر کے نمایاں پہلو ہیں‘ یہ جنسی تصورات اس وقت تک ممکن نہیں جب کہ انسان دین‘ عقل اور شعور سے عاری نہ ہوجائے۔
کیپٹلزم (سرمایہ دارانہ نظام)
سرمایہ دارانہ نظام سرمایہ کی پرستش کا نظام ہے‘ چونکہ مغربی معاشرے میں بنیادی قدر آزادی ہے اور ہرطرح کی آزادی سے لطف اندوز ہونے کے لئے عملی طور پر سرمائے اور پیسے کی ضرورت ہے‘ اس لئے مغربی اقوام اور افراد میں زرپرستی‘ سرمایہ کی دوڑ اپنی آخری انتہاؤں تک پہنچ گئی‘ مغربی اقوام نے نت نئے استحصالی ہتھکنڈوں سے تیسری دنیا کی اقوام کو اپنی منڈی بنانے کی کوشش کی اور اپنے ملک کے عوام کا معیار زندگی اس قدر بلند کیا کہ عام آدمی اس کا تصور نہیں کرسکتا‘سود‘ جوا‘ انشورنس‘ جرائم‘ دھوکہ دہی‘وراثت کے فوری حصول کے لئے عزیز واقارب کا قتل‘ رشتوں ناطوں میں بے رحم مادیت کی سوچ‘ ازدواجی تعلقات اور معاشرتی تعلقات میں سفاکانہ طور پر غرض اور ضرورت کا دخل‘ عیش وعشرت پر جان قربان کرنا‘ جنسی لذات اور بے انتہاء خواہشات پر دیوانہ ہونا․․․ سرمایہ دارانہ نظام کے لوازمات ہیں۔ سرمایہ داری صرف ایک معاشی نظام ہی نہیں‘ بلکہ یہ ایک معاشرتی نظام بھی ہے جو معاشرے کو لامحدود خواہشات کی پرستش اور سفلی تلذذ کی بندگی پرابھارتا ہے۔ ایک مسلمان کے لئے دیگر تمام نظریات زندگی اور اسلامی تعلیمات کا نقطہ ٴ نظر یکساں اور برابر نہیں‘ اس لئے اسلام میں نہ تو مسلمان عوام کو بے انتہاء جنس وتعیش کی خواہشات کی اجازت ہے کہ جن کی بندگی کے لئے سرمایہ پر جان کھپانا پڑے اور نہ ہی اسلامی معاشرت میں محض غرض اور ضرورت کی اساس پر تعلقات استوار کرنے کی اجازت ہے‘ بلکہ صدقات‘ خیرات‘ زکوٰة کے تحت نادار عوام اور اللہ تعالیٰ سے محبت کا درس ہے۔
ڈیموکریسی
ڈیموکریسی یعنی جمہوریت مغرب کا مقبول ترین نظام حکومت ہے‘ ساری دنیا میں جمہوریت کو ایک اعلیٰ قدر تسلیم کیا جاتا ہے‘ مسلمان حکمران بھی جمہوریت کے مغربی معیار کو حاصل کرنے کے لئے بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں‘ لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ مغربی نظام جمہوریت اسلام کے لئے کس طرح مفید ہے؟ ڈیموکریسی ایک سیاسی نظام حکومت ہے جو مغربی افکار‘ مغربی معاشرت‘ مغربی طرز زندگی‘ مغربی قانون اور مغربی وطن پرستی کے تحفظ اور رواج کا نظام ہے‘ کوئی بھی نظام حکومت صرف نظام حکومت نہیں ہوتا‘ بلکہ وہ ایک خاص طرز کے فکر وفلسفہ‘ نظریہ حیات‘ طرز زندگی‘ معاشرت اور قانون کا محافظ بھی ہوتا ہے۔ اسلامی نظام حکومت کا قیام فقط ایک حکومت کا قیام نہیں‘ بلکہ ایسی قوم کی ولادت ہے جو اپنا نظریہ حیات رکھتی ہے جو اپنا نظریہ کائنات‘ اپنی معاشرت‘ اپنی تہذیب وتمدن‘ اپنا نظریہ فلاحی ریاست ‘ اپنا عالمی منشور اور عالمی خارجہ پالیسی رکھتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ امریکہ پوری دنیا میں ایک بھی اسلامی ریاست کی داغ بیل نہیں پڑنے دیتا‘ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسلامی ریاست کا قیام درحقیقت ایک پوری تہذیب‘ مخصوص معاشرے‘ اسلامی نظریات‘ دین کے فروغ کا قیام ہے۔
مسلمانوں کو جمہوریت کو سمجھنے میں بہت غلطی لاحق ہوئی ہے‘ ان کے گمان میں جمہوریت تو ایک اسلامی نظام تھا جو مغرب والوں نے مسلمانوں سے چرالیا‘ حالانکہ جمہوریت میں انسانی حقوق کی بالادستی ہے‘ دین اور مذہب کی نہیں‘ جمہوریت میں بنیادی قدر آزادی ہے اور مغرب کی نظر میں یہ ایک اعلیٰ جمہوری روایت ہے‘ لیکن اسلام کی نظر میں اس طرح نیکی اور بدی برابر قرار پائیں گے۔ جمہوریت میں معیار حق ہرشخص کا ذاتی ہوتا ہے‘ مغرب کی نظر میں یہ اعلیٰ جمہوری روایت ہے‘ لیکن اسلام کی نظر میں یہ دین کی سیاست سے علیحدگی ہے جو کہ نری ضلالت ہے‘جمہوریت‘ سیکولرزم کے تحت تمام تصورات زندگی اور معیار حق کو برابر قرار دیتی ہے۔ جمہوریت میں فرد کی اخلاقی حیثیت سے کوئی بحث نہیں کی جاتی۔
جمہوریت کی نظر میں شیطانی ذہن کا انسان اور انتہائی نیک‘ صاحب الرائے عالم برابر ہیں‘ جمہوریت جنسیت‘ فواحش کے فروغ کو قانونی تحفظ دیتی ہے‘ جمہوریت زرپرستی‘ حرص وہوس اور مادی تعلقات کو فروغ دیتی ہے‘ جمہوریت کفر والحاد کے روکنے کے لئے قانونی طور پر مجاز نہیں‘ چنانچہ جمہوریت میں ہرطرح کے الحادی افکار پھلتے پھولتے ہیں‘ جمہوریت سود‘ قمار‘ فواحش کے کاروبار کے ذریعے پیدا ہونے والے سرمایہ کو تحفظ دیتی ہے‘ جمہوریت وطن پرستی اور قوم پرستی کو دین اور اسلام پر ترجیح دیتی ہے‘ مغربی جمہوریت کی اسلامی نظام حکومت سے کوئی مماثلت نہیں‘ مغربی جمہوریت‘ مغربی فلسفہ نظریہ حیات پر مبنی ہے جبکہ ایک اسلامی حکومت اسلامی نظریہ وعقیدہ پر استوار ہوتی ہے۔
امپیریلزم (شہنشاہیت)
ایک قوم کا دوسری قوم کو بحیثیت مجموعی نسلی طور پر غلام بنالینا اور اس کا معاشی‘ سیاسی اور اخلاقی استحصال کرنا‘ امپیریلزم کہلاتا ہے‘ مغربی امپیریلزم کی تاریخ میں امریکہ‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ کے علاقوں کے قدیم باشندوں کا نسلی قتل عام ریکارڈ پر موجود ہے‘ امپیریلزم قوموں کی باہمی لوٹ کھسوٹ کا نام ہے‘ جس میں قومیں کسی قاعدے قانون کی پابند نہیں ہوتیں اور ان کا مقصود فاتح قوم کسی بھی مفتوح قوم کو نسلی طور پر غلام نہیں بناتی‘ بلکہ اگر وہ مسلمان ہوجائے تو اپنے برابر کے حقوق دیتی ہے اور قوموں کی فتوحات کا مقصد ایک عادلانہ اور منصفانہ نظام حکومت کا قیام ہوتا ہے‘ جس میں غیر مسلموں کی جان ومال اور عزت کا بھی تحفظ ہوتا ہے‘ مسلمانوں کی جنگوں میں مفتوحین کو نسلی طور پرنیست ونابود کرنا کسی بھی طرح مقصود نہیں ہوتا۔
مغربی تہذیب کے عناصر ترکیبی اور اسلام
(مغربی تہذیب اپنے بنیادی عناصر میں اسلام کی نقیض ہے)
مغربی تہذیب
اسلام
سیکولرزم (Secularism)
(مذہب بیزاری یا دین ودنیا کی علیحدگی)
دین کی کلی اطاعت
(ألا لہ الخلق والأمر)
مادیت پرستی (Materialism)
دنیا کی زندگی کو کلی ترجیح اور آخرت سے یکسر غفلت
آخرت پرستی وزہد
(فاما من طغی وآثر الحیٰوة الدنیا فان الجحیم ہی المأویٰ)
فواحش وحیوانی جنسیت
حیا‘ نکاح اور غض بصر وحفظ الفرج
(ولاتقربوا الفواحش ما ظہر منہا وما بطن)
مساوات ِمرد وزن
(عورت چادر‘ چار دیواری اور میاں بچوں کی ذمہ داری سے آزاد)
الرجال قوامون علی النساء
(عورت چادر‘ چاردیواری اور میاں بچوں کی ذمہ دار وپابند بحکم قوانین الٰہی)
سودی ارتکازی سرمایہ دارانہ نظام
(Capitalism)
زکوٰة اور حرمت سود پر مبنی اجتماعی عدل
کیلا یکون دولة بین الاغنیاء منکم)
انسانی حقوق
انسان کو قانوناً آزادی ہے کہ وہ چاہے تو اللہ کی اطاعت کرے یا نہ کرے۔
عبدیت الٰہی
انسان اجتماعی زندگی میں بھی اللہ کا غلام ہے۔
لادین جمہوریت (Democracy)
(قانون سازی کا کلی اختیار انسانی اکثریت کے پاس ہونا)
حاکمیت الٰہیہ اور خلافت وامارت
(ومن لم یحکم بما انزل اللّٰہ فاولئک ہم الفاسقون)
قوم پرستی (Nationalism)
(قومی مفاد کو مذہب اور اخلاق پر کلی ترجیح)
دین‘ اخلاق اور ایمان پر مبنی عالمی سیاست
(ولعبد مومن خیر من مشرک ولو اعجبکم)
شہنشاہیت (Imperialism)
مادی خوشحالی کے لئے قوموں کو غلام بنانا اور ان کا ہرطرح سے استحصال کرنا اور مفتوحین کا قتل عام کرنے سے نہ چوکنا۔
اسلامی خلافت
مادیات سے ہٹ کر نظریات کے لئے تلوار اٹھانا اور جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد مفتوحین کے ساتھ سلوک میں دین واخلاق کی پابندی
مغربی علوم اپنی فلسفیانہ بنیادوں میں دینی علوم کے دشمن ہیں لیکن اہل مدرسہ اس کے شعور سے یکسر عاری ہیں
ہمارے ملک میں دینی مدارس سے ہٹ کر کئی قسم کے تعلیمی نظام اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ سیکولر اور کالجز مختلف طبعی علوم‘ عقلی علوم‘ معاشرتی علوم اور اجتماعی علوم کے زیور سے قوم کے بچوں کو آراستہ کرتے ہیں۔ یہ تمام علوم مغربی فلاسفہ‘ مفکرین‘ سکالرز کے نظریات کے تحت پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ علوم اپنے ظاہر میں فقط معلومات کا خزانہ تصور کئے جاتے ہیں‘ سائنس مظاہر فطرت کا مطالعہ ہے جس کا معاشرتی اقدار سے بظاہر کوئی تعلق نہیں‘ نفسیات بھی ایک سائنس تسلیم کی جاچکی ہے‘ معاشرتی علوم یعنی سوشیالوجی‘ اکنامکس‘ پولیٹیکل سائنس‘ ایجوکیشن‘ تاریخ وغیرہ کو بھی غیر اقداری علوم سمجھ کر پڑھایا جاتاہے‘ حقیقت یہ نہیں جو ہم مسلمانوں میں رائج ہے کہ مغربی جدید علوم فقط غیر اقداری علوم ہیں‘ یعنی ان کا مقصد فقط معلومات دینا ہے اور یہ علوم کسی بھی نظریہٴ زندگی اور مقصد حیات کی تائید یا تردید نہیں کرتے‘ اس لئے ان کوجوں کا توں پڑھنے پڑھانے میں کوئی حرج نہیں‘ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ مغربی اجتماعی علوم اپنی فلسفیانہ بنیادوں میں سیکولرزم اور وحی کے انکار پر مبنی ہیں اور وحی کی ہدایت سے کوئی سروکار نہیں رکھتے بلکہ علوم وحی کی تغلیط کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ تمام انسانی علوم اسلامی تناظر کے ساتھ نہیں پڑھائے جاتے اور نہ ہی ان علوم پر کامل اسلامی نقد وجرح کی جاتی ہے جس کی وجہ سے معلومات کے خزانہ کے باوجود طالب علم اسلام کی حقانیت کے قائل نہیں ہوتے‘ بلکہ اسلام کے متعلق کئی قسم کے اشکالات ذہن میں رکھتے ہیں اور جن کے جوابات کی تسلی وتشفی ‘ وہ کسی سے نہیں پاتے۔
اسلام ان انسانی علوم کا منکر نہیں اور نہ ہی وہ کسی قوم سے علمی استفادہ کی راہ پر پابندی لگاتا ہے‘ لیکن اسلام یہ بات قطعاً برداشت نہیں کرتا کہ اس کے ماننے والے فلسفہ کو وحی پر ترجیح دیں۔ انسانی قانون کو اللہ کے قانون پر ترجیح دیں‘ ذاتی تخلیق کردہ اخلاقیات کو الہامی اخلاقیات پر ترجیح دیں‘ شہوات پر مبنی زندگی کو عبدیت پر مبنی زندگی پر ترجیح دیں۔ اسلام کے نزدیک جدید تعلیم اس صورت قابل تحسین ہے کہ طبعی علوم‘ عقلی علوم‘ معاشرتی علوم‘ فنی علوم اور تکنیکی علوم کے ساتھ ساتھ ان علوم کا ماہر اسلامی نظریہ حیات کا راسخ انسان ہو۔ ہمارے معاشرہ میں ان علوم کی تعلیم دی جاتی ہے‘ لیکن تعلیم کے بعد سکول‘ کالجز اور یونیورسٹیز سے فارغ ہونے والے طلبہ اسلامی نظریہ حیات‘ اسلامی عقیدہ اور بنیادی اسلامی کردار سے یکسر عاری ہوتے ہیں۔ یہ فقط ایک معمولی اور جزوی کوتاہی نہیں‘ بلکہ ایک انسانی زندگی کازیاں ہے‘ کیونکہ اسلامی عقیدہ کا رسوخ ہی تو اصل زندگی ہے‘ اسلامی عقیدہ سے عاری انسان محض ایک حیوان ہے جو نہیں جانتا کہ وہ دنیا میں کیوں آیا اور اسے واپس کس کے پاس لوٹنا ہے۔ اسلامی عقیدہ ہی تو انسان کو زندگی گزارنے کا مقصد بتلاتا ہے اور اس کو اس کے رب سے روشناس کراتا ہے اور آخرت کی سوچ پیدا کرتا ہے۔ہمارے معاشرے میں فزکس‘ کیمسٹری‘ بیالوجی اور دیگر سائنسی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے ‘ لیکن ایک سائنس کا طالبعلم بالعموم اس رسوخ سے عاری ہوتا ہے کہ اسلام کا نظریہ کائنات کیا ہے‘ ہمیں سائنس کی حیرت انگیز ترقی پر کس قسم کا رویہ اپنانا چاہئے‘ کائنات کی تسخیر کا سارا علم کائنات کے خالق کے ذکر سے بالکل خالی کیوں ہوتا ہے؟ ہمارا سائنس کا طالب علم کہکشاؤں‘ اجرام ِ فلکی اور ستاروں کے باہمی فاصلوں کی پیمائش کرنے والا‘ عام طور پر کائنات کے خالق کے بارے میں کوئی قلبی حس وحرکت محسوس نہیں کرتا۔ (بشکریہ ماہنامہ افکار لاہور جنوری ۲۰۰۹ء)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: انسان کی اہمیت و عظمت اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کردار 
Flag Counter