Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

7 - 11
انسان کی اہمیت و عظمت اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کردار
انسان کی اہمیت و عظمت اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کردار

آج کل ذرائع ابلاغ سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس بات کوپھیلایا جارہاہے کہ انسان کے بنیادی حقوق کے موجد ،بانی اورخیر خواہ اہل مغرب اور ان کے وہ ادارے ہیں جو آئے دن انسانی حقوق کا پرچار کرتے رہتے ہیں اور اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ہمار ے کچھ مسلمان نوجوان بھی جو حقیقت حال سے یقینا نابلد ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی حقوق کے اصل نگہبان صرف یہی مغربی ادارے ہیں۔تفصیل میں جانے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے انسان کے حقیقی مقام کوسمجھا جائے کہ اس حوالے سے اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے ۔
انسان ابتدا سے ہی اپنے بارے ایک غلط فہمی کا شکا ر رہاہے اور اسی غلط فہمی کی بناء پر کبھی تواس نے تکبر اور سرکشی کو اپنا وطیرہ بنایاجس کی وجہ سے پورا معاشرہ ظلم و فسا دکی لپیٹ میں آگیا اور کبھی یہی انسان اس درجہ تفریط کا شکار ہوا کہ اس نے ہر قابل منفعت اورخود سے زیادہ طاقتور شے کو خود سے برتر سمجھ کر اس کی عبادت شروع کردی ،چنانچہ اسلام نے دونوں تصورات کی نفی کرکے انسان کاحقیقی مقام اوراس کی حقیقت پیش کی اور اس کے خود ساختہ زعم کو توڑکر اسے اس کی اصل حقیقت سے آگاہ کیا ،چنانچہ قرآن کریم نے کئی آیات میں انسان کی حقیقت اور اس کے حقیقی مقام کی نشاندہی نہایت وضاحت کے ساتھ کی گئی ہے تاکہ اس کاوہ زعم ٹوٹ سکے جس کے نشہ اس کے سرپرچڑھ کر انسان کو انسانیت سے نکال دیتا ہے ،ارشاد ربانی ہے :
”اولم یرالانسان انا خلقنہ من نطفة فاذا ھوخصیم مبین ْ وضرب لنا مثلا ونسی خلقہ“ ( یٰسین،۷۷/۷۸)
ترجمہ :” کیاانسان کویہ نہیں معلوم کہ ہم نے اس کو نطفہ سے پیدا کیا ،اور پھر وہ جھگڑنے لگا اور اس نے ہماری شان میں ایک عجیب مضمون بیان کیا اور اپنی اصل کو بھول گیا “
اس آیت کریمہ کے تحت انسان کے اس زعم باطل ”اناربکم الاعلیٰ“کو توڑا گیا ، جس کاوہ شکار تھا ۔
اسی کے ساتھ اسلام نے نوع بنی آدم کویہ بھی بتا یا کہ وہ اتنا حقیر بھی نہیں ہے جتنا کہ وہ خود کو سمجھتا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
”ولقد کرمنا بنی آدم وحملنھم فی البر والبحر ورزقنھم من الطیبت وفضلنھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلا “ (سورة الاسراء ،۷۰)
ترجمہ: ” اور ہم نے آدم کی اولا دکو عزت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سوار کیا اور نفیس نفیس چیزیں ان کو عطافرمائیں اور ہم نے ان کو بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی“۔
اس کے ساتھ ہی اللہ جل شانہ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا فرماکر انسان کو خلافت سے بھی نوازا اور فرشتوں کے سامنے اعلان فرمادیا :
”واذقال ربک للملئکة انی جاعل فی الارض خلیفة “ (سورةالبقرة،۳۴)
ترجمہ: ”اورجس وقت آپ کے رب نے فرشتوں کے سامنے ارشاد فرمایا کہ ضرور میں بناوٴں گا زمین پر ایک نائب“۔
درحقیقت خلافت الٰہی اور نیابت خداوندی ہی وہ درجہ ہے جو حقوق انسانی کی اصل بنیاد وضع کرتا ہے ،حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبییناکی بعثت تک جوالٰہی ہدایات دی گئیں ان میں اطاعت الٰہی کے ساتھ مخلوقِ خدا کے لیے حقوق اور فرائض کا ایک ضابطہ بھی موجود تھا ،جن کے ذریعے انسانوں کو عبادات الٰہی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے حقو ق کے پہچاننے اور ان کااحترام کرنے کی ترغیب دی گئی ،جس سے آگے چل کر ایک ایسا پاکیزہ معاشرہ وجودمیں آیا جس کے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں اقوامِ مغرب نے گیارہویں صدی میں جاکرمسلمہ انسانی حقوق کو تسلیم کرنے کی ابتدا کی ،اقوام مغرب کی تاریخ میں آپ کوبعض ایسے مغربی منصفین بھی ملیں گے جنہوں نے اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا جس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ درحقیقت اسلام ہی وہ کامل مذہب ہے جو انسان کو حقیقی معنی میں تحفظ فراہم کرتا ہے بشر طیکہ اسلامی تعلیمات اور احکامات پر صحیح معنوں میں کاربند رہا جائے ۔
انسانی حقوق کی بات کرنا اور اس پر عمل کر کے دکھلا نادو متضاد باتیں ہیں، اسلام کے ماننے والوں نے صرف زبانی باتیں نہیں کیں بلکہ اس پرخود بھی عمل کر کے دکھلایا اور دوسروں کو بھی اس کا پابندبنایا ۔غزوہٴ احد میں جب سرکارودوعالم کے محبوب چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کوبے دردی سے شہید کیا گیااور آپ کی نعش کی بے حرمتی کی گئی تو اس وقت آپ نے قسم کھائی کہ میں اپنے چچا کا بدلہ لوں گا لیکن جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
”والکاظمین الغیض والعافین عن النا س واللہ یحب المحسنین“
ترجمہ :” غصہ کو پی جانے والے او ر لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں ،اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والو ں کو پسند کرتاہے “۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعدسرکارو دوعالم ا نے اپنے محبوب چچا کے قاتل کو بھی اپنے دامن عفو میں پناہ دیدی۔ اس کے علاوہ تاریخ میں ایسے کئی واقعات کا تذکرہ ملتا ہے ،جن سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے پیروکاروں نے عفو ودرگذر کی مثالیں قائم کیں۔ چنانچہ جب فاتح خیبر سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہ پرایک شخص ملجم ابن لوٴ لوٴ نے قاتلانہ حملہ کرکے انہیں زخمی کیا تو آپ نے اپنے متعلقین کویہ نصیحت فرمائی ” دیکھو اگر میں اس زخم کی وجہ سے شہید ہو جاتا ہوں تو میرا قصاص صرف اسی سے لینا اور کسی کو کچھ نہ کہنا اور اس کی لاش کامثلہ نہ کرنا“۔اسے کہتے ہیں انسانی حقوق کی پاسداری ،جس پر اس کے پیرو کاروں نے عمل کر کے دکھلا یا ، انہوں نے اقوام مغرب کی طرح ان حقوق کو کاغذوں تک محدود نہیں کیا بلکہ ان تما م قوانین کو نافذالعمل کر کے معاشرے کو امن وسکون کی دولت سے نوازا۔
انسانی حقو ق کے دعویدار تاریخ کے آئینے میں
اہل مغرب یوں تو پوری بنی نوع انسان کے لیے بنیادی حقوق کی علمبرداری کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن خود ان کا طرز عمل اس کے برعکس ہے ،چنانچہ فرانس کے منشور انسانی حقو ق کو جب ۱۷۹۱ء کے آئین میں شامل کیا گیا تواس کے ساتھ یہ وضاحت بھی موجود تھی :
”اگرچہ کالونیا ں اور ایشیا ،افریقہ اور امریکہ میں فرانسیسی مقبوضات سلطنتِ فرانس ہی کا ایک حصہ ہیں لیکن اس آئین کا اطلاق ان پر نہیں ہو گا “
(The Law of the Soviet State.The Macmillan Co.New York 1948 p.555)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرانس کے جس منشور کو ”منشور انسانی حقوق“ کہاجا تا ہے وہ دراصل فرانسیسی عوام کا منشورِ حقوق ہے،کسی اور قوم کو یہاں تک کہ فرانسیسی مقبوضات میں رہنے والے غیر فرانسیسی عوام کو ان حقوق کے مطالبے کا کوئی حق نہیں ، چنانچہ ان مقبوضہ علاقوں کے عوام نے جب اپنے حقوق کا مطالبہ کیا تو ان کے ساتھ جس درندگی اور بربریت کا مظاہرہ کیا گیا یقینا وہ عہد جدیدکی تاریخ کا ایک سیا ہ ترین باب ہے ۔
اسی طرح برطانیہ کے غیر تحریری دستور میں جو حقوق برطانوی شہریوں کو حاصل ہیں وہ تمام حقوق برطانوی باشندوں تک محدود تھے ،کسی اور قوم نے اگر برطانوی حکمرانوں سے ان حقوق کا مطالبہ کیا تو انہیں باغی اور غدار قرار دے کر ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔
ہندوستان میں۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد انسانیت کا جس طرح قتل عام ہوا اوروہاں کے مسلمانوں کو توپ کے دھانوں پر باندھ کرجس طرح ہوا میں تحلیل کیاگیا اس کی تصدیق خود انگریز موٴرخ کرتے ہیں،ان کے بقول دہلی کے مضافات میں کوئی درخت ایسا نہیں تھا جہاں کسی مسلمان عالم دین کی لاش نہ لٹکی ہو،یہ سب بھی حقوق انسانی کے نام نہاد علمبرداروں کے کارنامے ہیں۔
بعد ازاں ۳۰ نومبر ۱۹۷۳ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جب نسلی امتیاز کو قابلِ تعزیر جرم بنانے کے لیے ایک قرار داد منظور کی تو اس کے چار مخالفین میں امریکہ ،جنوبی افریقہ اور پرتگال کے ساتھ برطانیہ بھی شامل تھا ۔خود امریکہ کا حال بھی ان ممالک سے قطعی مختلف نہیں تھا۔
امریکہ کے سفید فام نوآبادکاروں نے اپنی نئی دنیا تخلیق کرنے کے لیے اس براعظم کے اصل باشندوں ریڈانڈینز کے ساتھ جو سلوک کیا،موٴرخین آج بھی اس کا حال لکھنے سے گریزاں ہیں۔یہی نہیں بلکہ اس نسلی امتیاز سے ہٹ کر عالمی دنیا کے ساتھ امریکہ کے کردار کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت اور بھی بھیانک صورت اختیار کر جاتی ہے ۔پہلی جنگ عظیم کے دوران ہیروشیما اور ناگاساکی پرایٹم بم گرا کر آن واحد میں۶ لاکھ بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاگیا ، ،ویت نام ،کمبوڈیا ،مشرق وسطیٰ ،عراق ، افغانستان کے چپے چپے پر ”انسانی حقوق کے علمبردار“کے ہاتھوں حقوق انسانی کی پامالی کی روح فرسا داستانیں بکھری ہوئی ملتی ہیں، اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق عراق اور افغانستان میں ہزاروں افراد لقمہٴ اجل بن چکے ہیں اور ہزاروں لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔افغانستان اور پاکستان سے سینکڑوں معصوم اور نہتے لوگوں کو القاعدہ کے نام پر گرفتار کیاگیا ، انہیں کنٹینروں میں بھیڑ بکریوں کی طرح بند کردیا گیا جہاں دم گھٹنے کی وجہ سے سینکڑوں بے قصور انسان شہید ہو گئے،ان گنت لوگوں کو گوانتا نامو بے بھیج دیا گیا جہاں انہیںآ ج بھی مادرزاد ننگا کر کے انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے اب تک نجانے کتنے لوگ ہلاک اور ذہنی معذور ہو چکے ہیں،اس سلسلے میں سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ امریکا کی اس قتل و غارت گری میں معصوم بچوں اور بوڑھوں کی بھی تفریق نہیں کی گئی بلکہ انہیں بھی بیدردی کے ساتھ شہید کیا گیا ، پاکستان کی مظلوم بیٹی ”ڈاکٹر عافیہ صدیقی “ کو افغانستان سے امریکہ منتقل کردیا گیا جہاں اس کی حالت انتہائی تشویشناک ہے اور ان کی زندگی خطرے میں ہے ۔
اس تمام تر صورتحال کو جاننے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اہل مغرب کے پروپیگنڈے کے زیر اثر آکر اسلام اور مسلمانوں کو مورد ِ الزام ٹہراتا ہے یا اہل مغرب کو انسانی حقوق کا دعویدار سمجھتا ہے تو اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے ،بقول شاعرمشرق :
شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب
مقامِ شوق میں ہیں سب دل و نظر کے رقیب
سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا
ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: اساتذہٴ کرام کا ادب واحترام
Flag Counter