Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۰ھ - جنوری ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

6 - 11
انسانی حقوق اور اسلام
انسانی حقوق اور اسلام

اقوام متحدہ کے زیراہتمام انسانی حقوق کے حوالے سے ۳-۴اور۵ نومبر۲۰۰۸ء کو جنیوا (سوئزرلینڈ) میں منعقدہ بین الاقوامی سیمینار میں سینیٹر ڈاکٹر خالد محمود سومرو کی تقریر کا اردو ترجمہ افادہٴ عام کی غرض سے ہدیہٴ قارئین بینات ہے ‘ملاحظہ فرمائیں۔

سب سے پہلے میں آپ حضرات کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے اقوام متحدہ کے اس ہیڈ کوارٹر میں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع عنایت کیا۔ چونکہ یہ تین روزہ سیمینار انسانی حقوق سے متعلق ہے‘ جس میں دنیا بھر سے تقریباً ۵۹ ممالک کے منتخب نمائندے شریک ہیں‘ اس لئے میں کوشش کروں گا کہ عنوان کے حوالے سے کچھ باتیں آپ کے سامنے عرض کروں۔
ہیومن رائٹس (انسانی حقوق) کی بہت بڑی اہمیت ہے اور اب وقت آن پہنچا ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے محنت کو تیز کیاجائے اور اقوام متحدہ کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ حقوق انسانی کا عالمی چارٹر جس کو (Universal declayation of human)کہا جاتا ہے‘ اس کو ۱۹۴۸ء میں منظور کیا گیا تھا‘ ۴۸ ممالک نے اس ڈکلیریشن کی حمایت میں ووٹ دیا تھا‘ جن میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس کے بعد دنیا بھر کے اسلامی ممالک کی تنظیم OICنے ۱۹۹۰ء میں قاہرہ میں ایک اجتماع کیا تھا‘جس میں حقوق انسانی کے حوالے سے ایک چارٹر منظور کیا گیا تھا جس کو CDHRIکا نام دیا گیا تھا‘جس پر OICمیں شامل تمام اسلامی ملکوں کے وزراء خارجہ نے دستخط کئے تھے۔ UDHRکے بعد CDHRIانسانی حقوق کے حوالے سے ایک اہم دستاویز ہے‘ ہم جس طرح CDHRIکا احترام کرتے ہیں‘ اسی طرح UDHRکی بھی عزت کرتے ہیں اور ان دونوں دستاویزوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اسلام لفظ کے معنی ہیں: سلامتی۔ اور ایمان لفظ کے معنی ہیں: امن‘ یہی سبب ہے کہ ہم مسلمان امن اور سلامتی کی بات کرتے ہیں‘ کیونکہ ہمارا دین ہمیں امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے‘ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے لوگوں کو امن اور سلامتی نصیب ہو اور تمام لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق ملیں‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اور تمام آسمانی کتابوں میں حقوق انسانی کا تذکرہ فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے تمام نبیوں نے بھی انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر حضرت محمد ا نے حجة الوداع کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا تھا‘ وہ خطبہ انسانی حقوق کے سلسلہ میں ایک اہم پیغام تھا‘ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر کایہ خطبہ حقوقِ انسانی کا پہلا بین الاقوامی چارٹر تھا‘ اس وقت دنیا کی جو صورتحال بنی ہوئی ہے‘ اسی صورتحال میں امت مسلمہ یہ محسوس کررہی ہے کہ اقوام متحدہ کی تمام قرار دادیں اور UDHRکے تمام قوانین صرف کمزور ممالک کے لئے ہیں‘ طاقتور ملک اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر کی کوئی پرواہ نہیں کررہے۔ آج کی اس بین الاقوامی کانفرنس میں چند اہم باتوں کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتاہوں:
۱-اس وقت فلسطین‘ عراق اور افغانستان میں بیگناہ لوگوں کا جو قتل عام ہور ہا ہے‘ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انسانی حقوق کی Violationاور کھلم کھلا خلاف ورزی ہے‘ اس لئے اقوام متحدہ اسی قتل عام کو فوری طور پر بند کرائے۔
۲- اسی طرح پاکستان کے قبائلی علاقہ جات (FATA)میں جس طرح باہر کے لوگ جبری طور پر آکر ہمارے بے گناہ لوگوں کو مار رہے ہیں اور بیرونی ممالک کے طیارے ہماری سرحدات کو روندتے ہوئے فاٹا میں جس طرح بمباری کررہے ہیں‘ اس پر پاکستان کو سخت تشویش ہے‘ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ ہماری سرحدات کا احترام کیا جائے اور ہمارے قبائلی علاقوں پر کی جانے والی بمباری کو بلاتاخیر رکوایا جائے۔
۳-کچھ عرصہ قبل ڈنمارک کے اخبارات نے اور اس کے بعد کافی مغربی ممالک کے اخبارات نے ہمارے آقا‘ اللہ پاک کے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ اکے گستاخانہ کارٹون اورخاکے شائع کئے‘ اس عمل سے ہمارے جذبات مجروح ہوئے‘ ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر قابل احترام ہیں‘ کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کے گستاخانہ کارٹون چھاپے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے‘ اس عمل کو فوراً رکوایا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس عمل کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کی دل آزاری ہے‘ آزادی اظہار کا عنوان دے کر اس عمل کو کسی بھی قیمت پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا‘ کیونکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تمام مذہبوں کا احترام ضروری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس عمل کے ذریعہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی توہین کی گئی ہے‘ اس لئے میں مطالبہ کرتا ہوں کہ اس عمل کے کرنے والوں کو سخت سزائیں دلوائی جائیں اور آئندہ کے لئے اس عمل کو نہ دہرانے کی ضمانت مہیا کی جائے۔
۴- مسلمانوں کی بے گناہ بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی‘ جس نے دس سال امریکہ میں تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی وہ ۲۰۰۲ء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپس آئی اور دوبارہ ۲۰۰۳ء میں امریکہ واپس گئی‘ جہاں پر اس نے نوکری اور ملازمت کے لئے مختلف اداروں میں درخواستیں جمع کرائیں اور پھر پاکستان واپس لوٹی۔ کراچی میں وہ اپنی والدہ کے ہاں مقیم تھی‘ ۳۰/مارچ ۲۰۰۳ء کووہ گلشن اقبال کراچی سے اپنے تین معصوم بچوں سمیت ائرپورٹ کے لئے ایک ٹیکسی کار میں سوار ہوئی‘ اس دن اس کو کراچی سے راولپنڈی جانا تھا لیکن افسوس کہ کراچی ائرپورٹ پر پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں اسے انٹیلیجنس کے اداروں نے اٹھالیا اور فوری طور پر اسے امریکہ کی انٹیلیجنس ایجنسی FBI کے حوالے کردیا گیا‘ اس وقت اس کی عمر ۳۰ سال تھی‘ اس کے بڑے بیٹے کی عمر چار سال اور سب سے چھوٹے بچے کی عمر صرف ایک مہینہ تھی‘ کافی عرصہ تک وہ گم تھی‘ کسی کو پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے‘ اس کے وارث سخت پریشان تھے‘ اچانک برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیر احمد نے ہاؤس آف لارڈز میں تقریر کی کہ پاکستان کی ایک عورت بگرام جیل میں قید ہے‘ جسے قیدی نمبر ۶۵۰ کہا جاتا ہے۔اس پر وحشیانہ تشدد کیا جارہا ہے‘ جیل کے افسر اس کی عزت لوٹ رہے ہیں‘ اس عورت کو مرد قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا ہے‘ اس انکشاف کے بعد برطانیہ کی ایک صحافی خاتون مس رڈلی پاکستان آئی اور اس نے بتایا کہ یہ قیدی نمبر ۶۵۰ جو افغانستان کے بگرام ائربیس والی جیل میں موجود ہے‘ جس پر بے تحاشا تشدد کیا جارہا ہے‘ اس کی چیخ وپکار کی وجہ سے لوگ تڑپ اٹھتے ہیں‘ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں۔اس کے بعد ہم نے پاکستان کے سینیٹ میں احتجاج کیا‘ ہمارے ساتھیوں نے قومی اسمبلی میں احتجاج کیا‘ پورے پاکستان میں احتجاجی مظاہرے ہوئے‘ اس وقت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو افغانستان سے امریکہ منتقل کیا گیا ہے‘ زبردست کوششوں کے بعد اس کا ایک بچہ پاکستانی حکومت کے حوالے کیا گیا ہے‘ جبکہ اس کے دو معصوم بچے ابھی تک گم ہیں‘ ہمیں شک ہے کہ ان دونوں بچوں کو قتل کر دیا گیا ہے‘ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی حالت انتہائی خراب ہے‘ اس کی زندگی خطرے میں ہے‘ میں سمجھتا ہوں کہ یہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے‘ میں مطالبہ کرتاہوں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو فوراً آزاد کیا جائے‘ اقوام متحدہ اس سلسلہ میں ہماری مدد کرے۔
۵- ہمارا ایمان ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے پیغمبر محترم اور قابل احترام ہیں‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی کتابیں بھی محترم اور قابل احترام ہیں‘ کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی پیغمبر یا اللہ تعالیٰ کی کسی کتاب کے بارے میں گستاخی کرے۔ لیکن افسوس حال ہی میں نیدر لینڈ والوں نے قرآن پاک کے خلاف ایک فلم بنائی ہے‘ جس میں قرآن پاک کے خلاف گندی زبان استعمال کی گئی ہے اور قرآن پاک کو فتنہ اور فساد پھیلانے والی کتاب قرار دیا گیا ہے۔ یہ چیزکسی بھی قیمت پر برداشت کے قابل نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک منظم سازش کے تحت ہم مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے‘ جس کا سدباب ہونا چاہئے۔
۶-پاکستان سمیت دنیا بھر کے کافی ممالک ایسے ہیں جہاں پر غربت‘ بھوک‘ بیروزگاری‘ افلاس‘ تعلیم اور صحت کا فقدان ہے‘ لوگ سخت پریشان ہیں‘ میں اقوام متحدہ کی وساطت سے تمام امیر ملکوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ غریب ممالک کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ان کی مدد کریں۔
۷- اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور ہمارا ملک پاکستان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے‘ ہم عرصہ سے دہشت گردوں کا شکار بنے ہوئے ہیں‘ پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے بہت سارے نقصانات ہوئے ہیں‘ ہم دہشت گردی کی بھر پور مذمت کرتے ہیں‘ جہاں پر بھی کوئی دہشت گردی ہوئی ہے ہم نے اس کی مذمت کی ہے‘ لیکن یہ ضروری ہے کہ دہشت گردی کی تعریف مقرر کرنی چاہئے کہ دہشت گردی کیا ہے؟ کیونکہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آپ کس کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سی جگہوں پر کچھ لوگ اپنے تحفظ‘ اپنی دہرتی کے تحفظ‘ اپنے علاقہ کے تحفظ کے لئے جد وجہد کررہے ہیں‘ باہر سے کچھ لوگ آتے ہیں کسی علاقہ پر قبضہ کر لیتے ہیں اور اس علاقہ کے لوگوں پر جبری حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن مقامی لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے‘ اس لئے وہ اغیار کو بھگانے کے لئے جد وجہد کا راستہ اختیار کرتے ہیں‘ کیا آپ ایسے لوگوں کو دہشت گرد کہیں گے؟ ہم تو ایسے لوگوں کو آزادی کا علمبردار اور مجاہد سمجھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں بھی یہ وضاحت موجود ہے کہ اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک پرجبری قبضہ کرنے کی کوشش کرے تو اس علاقہ کے لوگوں کو اپنی دھرتی اور اپنے ملک کے تحفظ کا حق حاصل ہے‘ اس لئے میں گذارش کررہا ہوں کہ دہشت گردی کی تعریف مقرر کی جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک دہشت گردی کے بنیادی اسباب ختم نہیں ہوں گے‘ تب تک دہشت گردی سے جان نہیں چھوٹے گی۔میرے خیال کے مطابق طاقت کا ناجائز استعمال‘ کسی بھی ملک پر ناجائز قبضہ‘ لوگوں کو زبردستی اپنا غلام بنانے کی کوشش ‘ سیاسی اور سماجی نا انصافی دہشت گردی کے بنیادی اسباب ہیں‘ ان چیزوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ میرے خیال کے مطابق دہشت گردی کے عمل کو کسی بھی مذہب یا قوم کے ساتھ منسلک کرنا درست نہیں ہے۔
۸- میں آپ سے یہ بھی التماس کرتا ہوں کہ عدل وانصاف کے تمام قوانین دنیا بھر کے تمام ممالک پر یکساں طور پر لاگو کئے جائیں‘ کیونکہ اس وقت سارے قوانین کمزوروں پر لاگو کئے جارہے ہیں‘ جبکہ طاقتور ممالک ڈنڈے کے زور پر جو چاہتے ہیں کرلیتے ہیں اور ان کو روکنے اور ٹوکنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔
۹- اس وقت طاقتور ممالک جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا چمپئن کہلواتے ہیں‘ وہ خود انسانی حقوق کو پامال کررہے ہیں‘ جس کی واضح مثال گوانتاناموبے ‘ ابوغریب اور بگرام کے ٹارچر سیل ہیں‘ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ مذکورہ بالا تینوں بدنام زمانہ ٹارچر کیمپ فوری طور پر بند کروائے جائیں۔
۱۰- میں امید کرتا ہوں کہ اقوام متحدہ کے اہلکار اور عہدیدار اور اس اجتماع میں موجود دنیا بھر کے ممالک کے نمائندے میری گذارشات پر ہمدردی کے ساتھ غور کریں گے اور ایسا ماحول پیداکریں گے جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے تمام لوگ امن وسکون کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں گے اور اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اپنا وقت گذار سکیں گے۔(آپ کی توجہ کا شکریہ)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , محرم الحرام ۱۴۳۰ھ - جنوری ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: ارشادات سید السادات !
Flag Counter