Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۰ھ - جنوری ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

10 - 11
۱۹۶۵ء کی پاک وہند جنگ
۱۹۶۵ء کی پاک وہند جنگ

یہاں زخم ایک نہیں جس کے لئے رویا جائے، جس طرح برطانیہ وامریکہ نے اسرائیل کے ذریعہ مصر وغیرہ کی فوجی طاقت کو ٹھکانے لگانے کی سازش کی اور انہیں کامیابی ہو گئی‘ ٹھیک اسی طرح امریکہ وبرطانیہ چین کا ہوا دکھا کر ہندوستان کو مضبوط سے مضبوط تر کررہے ہیں اور روس بھی اس سازش میں ان کا ہمنوا اور بھارت کا ممد ومعاون ہے۔ بھوکا بھارت ۹/ ارب سے لے کر ۱۱/ ارب روپیہ صرف دفاع پر خرچ کررہا ہے۔روس اور امریکہ کی مشترکہ مدد سے ۲۲/ اسلحہ ساز کار خانے دن رات کام کررہے ہیں‘ روس اور دیگر ممالک سے کثیر مقدار میں جنگی جہاز‘ مگ طیارے اور جدید ترین اسلحہ فراہم کررہا ہے‘یہ ایک نئی اسرائیلیت ہے جس کی خاکم بدھن صرف پاکستان کو مٹانے کے لئے پرورش کی جارہی ہے‘ ان حالات کے پیش نظر ہمیں ہروقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے‘ ہمارے لئے غفلت کا ایک لمحہ بھی تباہ کن ثابت ہوگا‘ ضرورت ہے کہ جہاں سے بھی مل سکے جدید اسلحہ فراہم کیا جائے‘ اندون ملک اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کئے جائیں‘ رضا کاروں کو باقاعدہ فوجی تربیت دی جائے او رعام نوجوانوں کے لئے فوجی تربیت لازم قرار دی جائے ‘ حق تعالیٰ کے فضل واحسان سے ہمیں ستمبر ۱۹۶۵ء کی جنگ میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی، لیکن ہمیں زیادہ مغرور نہیں ہونا چاہئے‘ دس سال پہلے مصر کو بھی کامیابی حاصل ہوئی تھی‘ یہ ہمارے لئے مستقل عبرت ہے‘ عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ شکست خوردہ قومیں نئے سرے سے تیاری شروع کردیتی ہیں اور فاتحین نشہٴ فتح میں سست روی اختیار کر لیتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں کچھ مدت بعد پانسہ پلٹ جاتا ہے‘ اس لئے ہمارے عزم‘ استحکام اور جہد مسلسل میں ادنیٰ رخنہ ہمارے ساتھ خطرناک ہوگا۔
الحمد للہ کہ ۶/ستمبر ۱۹۶۵ء مطابق ۹/جمادی الاولیٰ ۱۳۸۵ھ کے ”مبارک دن“ مملکتِ خداداد پاکستان میں ایک ”جدید اور مقدس باب“ کا افتتاح ہوگیا ‘ یہ تاریخ پاکستان کی قومی زندگی کی کتاب میں ایک ”نئے باب“ کا آغاز ہے اور پاکستان کی عزت ومجد کے عنوانات میں ایک ”شاندار عنوان“ کا اضافہ ہے‘ مہاجر قوم کے بعد مجاہد قوم! اور ہجرت کے بعد جہاد! سبحان اللہ اورنور علی نور‘ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی قابلِ قدر اور لائقِ صد تشکر ”نعمت“ ہے۔
چند اہم ”حقیقتیں“ اور قابلِ عبرت ”بصیرتیں“ بھی اس مبارک افتتاح میں منظرِ عام پر آگئیں:
۱- ہندوستانی حکومت کی بدنیتی‘ مکاری ‘ عیاری اور نفاق۔
۲- ان سے حسنِ معاشرت اور بہتر ہمسائیگی کے تعلقات کی توقعات‘ سراب سے زیادہ کچھ نہیں:
خود غلط بود آنچہ ما پندا شتیم
۳- پاکستانی عساکر وافواج ِ قاہرہ کے مجاہدانہ ولولے اور عزائم‘ سرفروشانہ جذبات واحساسات‘ دین ووطن پر مرمٹنے کی پوری اہلیت وصلاحیت او رمیدان کارزار میں استقلال واستقامت اور ذوق وشوق شہادت۔
۴- پاکستانی افواج منصورہ کی فنی مہارت وقابلیت‘ بحری‘ بری اور فضائی افواجِ قاہرہ کے فوق العادة حیرت انگیز ”کارنامے“ جن سے سلفِ صالحین کے محیر العقول کارناموں کی یاد تازہ ہوگئی اور اقوام عالم کے سامنے پہلی مرتبہ پاکستانی فوجوں کے ”جوہر“ اس طرح کھلے کہ دشمنانِ اسلام پر بھی سکتہ طاری ہوگیا اور آخر ان کو بھی پاکستانی افواج کی برتری اور قابلیت ،نیز سرفروشانہ وجاں نثارانہ ”خصوصیت“ کا اعتراف کرنا پڑا‘ والفضل ما شہدت بہ الاعداء (بزرگی وہ ہے جس کی دشمن بھی شہادت دیں)۔
۵- دشمن قیدیوں کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کے بعد انتہائی ہمدردانہ شریفانہ اور حوصلہ مندانہ‘ انسانیت نواز سلوک۔
۶- پاکستانی افواج اپنے ملکی دفاع کی پوری قابلیت اور صلاحیت رکھتی ہیں اور وہ حملہ آور دشمن کی دوچند فوجی طاقت اور سامانِ جنگ کی فراوانی کے باوجود ہر محاذ پر منہ توڑ جواب دے سکتی ہے۔
۷- فیلڈمارشل محمد ایوب خان (ایدہ الله بنصرہ) کے حسن تدبر‘ مجاہدانہ عزیمت‘ اہلیت‘ قیادت اور شجاعت وجواں ہمتی کے ساتھ ہی ساتھ سیاسی تدبر کے ”جوہر“ بھی اس طرح منظر عام پر آگئے کہ دنیائے اسلام کو اس کا یقین ہوگیا کہ موصوف دنیائے اسلام کی قیادت کی صلاحیت کے مالک ہیں۔
۸- پاکستانی قوم بھی اس قدر باشعور اور سمجھدار ہے کہ ملکی دفاع کے نازک ترین مرحلہ پر اپنے تمام باہمی اختلافات اور ذاتی منافع کو یکسر پس پشت ڈال کر اپنے حکمرانوں کی ہر آواز پر لبیک کہنے ‘ تعاون کرنے اور تن ‘ من‘ دھن سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئی‘ اور زندگی کے ہر شعبہ میں اتحاد اور تنظیم کا مکمل مظاہرہ کیا اور اس قدر حوصلہ مند ہے کہ دشمن کی تباہ کن بمباریوں سے ہراساں ہونے کے بجائے اس کے جوش وخروش اور ذوق وشوق شہادت میں چند در چند اضافہ ہوتا ہے۔ والحمد للہ علی ذلک۔
قابلِ عبرت نتائج وحقائق
ان بصیرت افروز ”حقائق“ اور عبرت انگیز ”واقعات“ سے جو عظیم نتائج نکلے ہیں وہ بھی قوموں کی زندگی کی تاریخ میں ”آب زر“ سے لکھنے کے قابل ہیں۔
۱- جہاد فی سبیل اللہ اور اعلاء کلمة اللہ کا فریضہ انجام دینے کے لئے پاکستانی قوم میں ایک نئی روح پیدا ہوگئی۔
۲- دشمنانِ اسلام کے دلوں پر پاکستانیوں کا رعب“ چھاگیا۔ ”ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم“ تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر اس سے ہیبت اور رعب طاری کردو‘ کی تفسیر سامنے آگئی۔
۳-مسلمان اگر اللہ تعالیٰ پر مکمل اعتماد وتوکل سے بہرہ ور ہوں تو ان کی امدادونصرت کے لئے اب بھی اللہ تعالیٰ کی ”غیبی امداد“ نو بنو انداز میں ضرور آتی ہے۔
۴- امریکہ ہو یا روس‘ برطانیہ ہو یا فرانس یہ سب کفر کی طاغوتی طاقتیں ہیں‘ ان سے کسی بھی خیر کی توقع رکھنا خالص حماقت ہے اور اخروی سے پہلے دنیوی خسران کا مو جب ہے۔
۵- پاکستان کو صرف اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ رکھنا چاہئے اور ارشاد خداوندی: ”واعدوا لہم ما استطتم من قوة“ ۔”اور جو بھی طاقت وقوت تم ان کے مقابلہ کے لئے مہیا کر سکتے ہو اس کی تیاری کرو“ پر مکمل طور سے عمل کرنا چاہئے اور اس سلسلہ میں کسی بھی قسم کی تقصیر یا تغافل ہرگز روا نہ رکھنا چاہئے۔
بہرحال ہندوستانی حکومت نے تمام بین الاقوامی اصول پس پشت ڈال کر بغیر کسی سابقہ اعلان جنگ کے‘ رہزنوں کی طرح پوری فوجی طاقت وقوت اور تیاری کے ساتھ پاکستان پر چو طرفی حملہ کردیا اور اپنی بربریت اور بہیمانہ سلوک میں بھی اصلاً کوتاہی نہیں کی‘ لیکن احکم الحاکمین کے قانونِ قدرت نے کمزوروں کا ساتھ دیا اور آیت کریمہ کی:
”ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلہم ائمة ونجعلہم الوارثین“۔ (القصص:۵)
ترجمہ:․․․․”اور ہم چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو روئے زمین پر کمزور سمجھ لیا گیا ہے ان پر احسان فرمائیں اور انہی کو مقتدیٰ (بین الاقوامی قائد) بنادیں اور انہی کو ان (کے ملک وسلطنت) کا وارث بنادیں“۔
تفسیر وتشریح ایک بار پھر دنیا کے سامنے آگئی کہ مٹھی بھرنا تو ان اور (ہرلحاظ سے) کمزور افراد کو اللہ تعالیٰ نے وہ قوت وطاقت بخشی کہ دشمن کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے اور آج دشمن کے ۱۶/ سو سے زیادہ مربع میل رقبہ پر پاکستانی فوجی قابض ہیں اور پاکستانی پرچم لہرا رہا ہے‘ صدر مملکت سے لے کر چپڑاسی تک اور تاجر وصنعت کار سے لے کر معمولی مزدور اور آجر تک خواص وعوام ساری قوم میں حیرت انگیز اور بے مثل اتحاد وتعاون کی روح پورے طور پر کار فرما ہے اور پوری قوم دشمن کے سامنے بنیان مرصوص (آہنی دیوار) بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔
نعمت خداوندی اور اس کا شکریہ
۲- اللہ تعالیٰ کی اس لائقِ فخر نعمتِ عظمیٰ کا شکر یہی ہے کہ ہم صلاح وتقویٰ کی اسی پاکیزہ زندگی کو مستقل طور پر اختیار کرلیں جو اس وقت ہنگامہ رزم وحرب نے پوری قوم کے اندر پیدا کردی ہے اور خوف ووحشتِ خداوندی اور ذکر الٰہی کو اپنا شعار بنالیں اور منکرات وفواحش کو جو اس اسلامی ملک میں ”غیر ملکی“ تہذیب وتمدن کے تسلط اور ان یورپین خداناشناس قوموں کی قابل شرم نقالی کی بنا پر رائج ہوچکے ہیں ‘یک قلم ترک کردیں اور مغرب کی گندی‘ مہنگی اور بزدل بنا دینے والی معاشرت کے بجائے سیدھی سادی اور سستی اسلامی معاشرت کو مستقل طور پر اپنالیں‘ معاشرتی زندگی میں فوق العادة طبقاتی تفاوت کو جہاں تک ممکن ہو ختم کردیں‘ شجاعت وبہادری کے احساسات کو بیدار کرنے والے خصائل‘ ایثار ومروت‘ جفا کشی وسخت کوشی‘ جوانمردی وحوصلہ مندی کو اختیار کرلیں‘ راحت پسندی وتن پروری‘ بے روح نام ونموداور نمائش پسندی کو خیر باد کہہ دیں‘ خصوصاً غریبوں او رکمزوروں پر ترحم وشفقت کے جذبات کو زیادہ سے زیادہ بیدار کریں‘ ہر نوجوان فوجی بنے اور مجاہدانہ احساسات سے سرشار ہو‘ الغرض ایک ایسے ”صالح معاشرہ“ کی تشکیل کی جائے جو ”باللیل رہبان وبالنہار فرسان“ (رات میں تہجد گذار اور دن میں شہسوار) کی تفسیر ہو۔
کسی قوم کی موت
حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قوم میں دو مرض پیدا ہوجائیں:
۱- ایک دنیا کی محبت۔۲- دوسرے موت کا ڈر ۔تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ قوم مرچکی اور جب کسی قوم کو ان دونوں بیماریوں سے نجات نصیب ہوجاتی ہے تو وہ قوم حیاتِ ابدی سے ہمکنار ہوجاتی ہے‘ ”صحیح بخاری شریف“ میں ایک حدیث آئی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حضور علیہ الصلاة والسلام نے ارشاد فرمایا کہ: ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم پر دنیا کی قومیں اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھانے والے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ”صحابہ کرام نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ! کیا اس زمانہ میں ہم مسلمانوں کی تعداد اتنی تھوڑی ہوگی؟ فرمایا: نہیں‘ تم اتنے زیادہ ہوگے کہ اس سے پہلے کبھی تمہاری اتنی تعداد نہ ہوئی ہوگی مگر تمہاری مثال ایسی ہوگی جیسے سیلاب پر خس وخاشاک‘ دشمنوں کے دل سے تمہاری ہیبت نکل جائے گی اور تمہارے دلوں میں وہن پیدا ہوجائے گا۔ پوچھا کہ وہن کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا: ”دنیا کی محبت اور موت سے خوف“۔
اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کی کامیابی وکامرانی کا ”عددی اکثریت“ پر کبھی بھی مدار نہیں رہا ہے‘ نہ ہی ”عددی اکثریت“ میں اسلام کی قوت مضمر ہے بلکہ مسلمانوں کی طاقت وقوت کاراز یہ ہے کہ ان کے قلوب دنیا کی محبت سے پاک اور موت کے خوف سے ان کے دل آزاد ہوں۔
آپ نے دیکھا کہ اس موجودہ ”معرکہ ٴ حق وباطل“ میں مسلمانوں کا جو جوہر سب سے زیادہ نمایاں رہا ہے وہ مسلمان نوجوانوں کے دلوں میں دنیوی زندگی کی بے وقعتی اور شہادت کی موت کو لبیک کہنے کا ذوق وشوق ہے۔ دنیا نے ایک بار پھر اسلامی روح اور اسلامی قوت وطاقت کا منظر دیکھ لیا اور مسلمان افواج کی بے نظیر شجاعت اور شوق شہادت نے تاریخ میں ایک نئے اور ”شاندار باب“ کا اضافہ کردیا‘ یہ واقعہ دور حاضر کی تاریخ کا سنہرا باب ہے جس کو عصر حاضر کا مؤرخ زریں حروف میں لکھے گا۔
کاش! اگر ہماری قوم کی غالب اکثریت میں یہ ہی روح کار فرما ہوجائے تو دنیا اور اس کی قیادت کا نقشہ ہی بدل جائے۔ پھر نہ دنیا پر امریکہ کی بالا دستی نظر آئے‘ نہ روس کی۔
مسلمانوں کی بنیادی قوت
یہ حقیقت بالکل ظاہر وعیاں ہے کہ موجودہ اسباب ووسائل کی مادی دنیا میں ہم مسلمان ان کفر کی طاغوتی طاقتوں اور اسلام دشمن قوموں کے مقابلہ پر خواہ روس ہو یا امریکہ‘ جرمنی ہو یا برطانیہ‘ بہت پسماندہ ہیں‘ مادی وسائل اور حیرت انگیز سائنسی ترقیات میں ہم ان سے بہت پیچھے ہیں‘ ایسی صورت میں ہمارے لئے عقلاً بھی ان کے مقابلہ کا یہی مختصر اور محکم راستہ ہے کہ ہم اس رب العالمین سے رشتہ مضبوظ جوڑ لیں اور عبدیت کا تعلق استوار کرلیں جو ان تمام مادی وسائل کا خالق حقیقی ہے اور اس کی قدرت کاملہ اور قوت قاہرہ کے سامنے ان کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔ بھلا اس ”خالق کائنات“ کی قدرت کاملہ کے سامنے ان ایٹم بموں اور ہائیڈروجن بموں کی کیا حقیقت ہوسکتی ہے‘ جن کا وہ خود پیدا کرنے والا اور حقیقی موجد ہے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہ سمجھا جائے کہ ہم مادی اسباب ووسائل سے بے نیازی اختیار کرنے اور غفلت برتنے کا درس دے رہے ہیں‘ یہ تو خود خداوندی حکم کہ ”جتنی بھی طاقت وقوت تمہاری استطاعت میں ہو دشمنانِ اسلام کے مقابلہ کے لئے اس کو فراہم کرنے میں مطلق کوتاہی نہ کرو“ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اعتماد کا اصل سرچشمہ وہ ذات قدسی صفات ہونی چاہیے جس کے قبضہٴ قدرت میں یہ تمام محیر العقول وسائل ہیں اور وہی ان کا حقیقی مالک ومتصرف ہے۔ آپ نے دیکھا چینی قوم جو اب سے بیس سال پہلے تک دنیا کی پست ترین ” قوم“ سمجھی جاتی تھی‘ آج وہ قوم اپنی ہمت وجرأت اور تنظیم واتحاد ‘ جفا کشی وسخت کوشی اور سرفروشی کی بدولت نہ صرف صنعت وحرفت میں بلکہ فنی وحربی قوت اور فوجی طاقت میں امریکہ اور روس کے لئے بھی وبال جان بنی ہوئی ہے اور وہ دنیا جو کبھی ”سرخ خطرہ“ سے لرزہ براندام ہوا کرتی تھی اب ”زردخطرہ“ سے پریشان اور حواس باختہ ہے‘ حتی کہ اس نے اب امریکہ وروس کے ایوانِ سیاست وتدبر کو بھی متزلزل کردیا ہے‘ اگر ستر کروڑ چینی امریکہ وروس کو مرعوب کرسکتے ہیں تو کیا دنیا کے ستر کروڑ مسلمان اگر آج تنظیم واتحاد‘ ہمت وعزیمت ،ایثار ومحنت اور سرفروشی کی نعمت سے سرفراز ہوجائیں تو وہ طاغوتی طاقتوں کو مغلوب ومقہور نہیں کرسکتے؟
آج اگر دنیا کی مسلمان قومیں اور حکومتیں ”اغیار“ کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ ومأمون ہو جاتیں اور ”قدرتی ذخائر“ جوان بلادِ اسلامیہ میں قدرت نے پیدا کئے ہیں‘ ان سے ان ”عیار سفید فام“ قوموں کے بجائے خود وہ مستفید ہونے لگیں تو دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور اور باعزت قوم ”مسلمان“ بن جائیں۔
الغرض وقت کا تقاضہ ہے کہ مادی ترقیات میں بھی ہم زیادہ سے زیادہ اغیار سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں‘ مگر اس سے پہلے اللہ جل شانہ سے اپنا رشتہ جوڑیں اور تعلق استوار کریں تو آخرت کی نعمتوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی نعمتوں سے بھی مسلمان ہی سرفراز ہوں گے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔ حق تعالیٰ ہماری اور تمام عالم اسلام کی حفاظت فرمائیں اور امت مسلمہ کو اپنی مرضیات کی توفیق نصیب فرمائیں۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , محرم الحرام ۱۴۳۰ھ - جنوری ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: حضرت مفتی محمود  کا طلبہ سے خطاب 
Flag Counter