Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ

ہ رسالہ

2 - 12
دورِ حاضر میں علماء وطلباء کے خلاف خطرناک سازش
یہ زمانہ ڈپلومیسی اور چالبازی کا ہے۔ جس مخالف اور بزعمِ خود دشمن طبقہ اور اس کے مراکز کے خلاف جنگ کرنی ہوتی ہے‘ میدانِ حرب وضرب اور جبر واستبداد میں ”گرم جنگ“ لڑنے سے برسوں پہلے میدانِ صحافت میں ”سرد جنگ“ لڑی جاتی ہے‘ یعنی پہلے اس کے خلاف اخبارات ورسائل میں مضامین ومقالات شائع ہوتے ہیں‘ تاکہ زمین یعنی ”رائے عامہ“ کو اس کے خلاف ہموار کر لیا جائے‘ اس کے بعد حکومت کی ”کنٹرولنگ مشینری“ حرکت میں آتی ہے اور ابتداءً صرف حکومت سے رکگنیشن یعنی الحاق کی دعوت دی جاتی ہے، ساتھ ساتھ ”ایڈ“ ․․․․مالی امداد․․․․ کا لقمہٴ چرب وشیریں اربابِ مراکز ومدارس کے منتظمین کے سامنے ڈالا جاتا ہے‘ اگریہ حربہ کامیاب نہیں ہوتا تو پھر قانون کے ذریعہ رکگنیشن ․․․الحاق․․․ پر مجبور کیا جاتا ہے‘ اس کے بعد نصاب اور درسی کتابوں میں کتربیونت کی جاتی ہے‘ قدیم علوم کی ٹھوس قابلیت پیدا کرنے والی کتابیں نکال کر ان کی جگہ عصری علوم وفنون کی کتابیں لائی جاتی ہیں‘ اس طرح دینی علوم کی جان تو نکال ہی لی جاتی ہے‘ اسی کے ساتھ ان ملحقہ مدارس کی سندوں کو وزارتِ تعلیمات سے منظور کرادیا جاتاہے اور سرکاری ‘ نیم سرکاری‘ تعلیمی اور غیر تعلیمی اداروں میں ملازمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں‘ یہ طلبہ کے لئے لقمہٴ چرب وشیریں ڈالا جاتا ہے اور پورے ملک سے ماہرین ِ علوم دینیہ کو کھینچ لینے اور آزاد عربی مدارس کو ویران کردینے کی غرض سے ان نیم سرکاری یا سرکاری درس گاہوں میں کام کرنے والے ماہرین ومحققین علومِ دینیہ کے لئے گرانقدر مشاہروں اورالا ؤنسز کے اعلانات کئے جاتے ہیں‘ ان کی سالانہ ترقی اور آخری تنخواہ کے ”منہ میں پانی بھر لانے والے“ گریڈ مقرر کئے جاتے ہیں۔ یہ آزمودہ کار علماء ومحققین کی زبان وقلم کو حکومت کے خلاف بولنے اور لکھنے سے باز رکھنے کے لئے ”طلائی زنجیریں“ تیار کی جاتی ہیں ‘ ان تدبیروں کے بعد بھی جو دین کو دنیا پر ترجیح دینے پر ایمان رکھنے والے علماء حق اور آزاد مدارس ِ دینیہ عربیہ کے اساتذہ اور مبلغین وواعظین وخطباء اس ”دام ہمرنگ زمین“ میں گرفتار ہوکر اپنی کلمہ ٴ حق کہنے کی آزادی قربان کرنا نہیں چاہتے‘ ان کے خلاف حکومت کا قانون حرکت میں آتا ہے‘ اول ان کی قدر کفاف روزی پر حملہ کیا جاتا ہے اور ڈپٹی کمشنر کی منظوری کے بغیر پبلک سے چندہ وصول کرنا قانوناً ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے‘ پھر ان کے گوشہٴ عافیت پر یورش ہوتی ہے اور محکمہٴ اوقاف کے ذریعہ یادگار ”صفہٴ مسجد نبوی“ علی صاحبہ الصلوٰة والسلام یعنی مدارس ِ عربیہ اور مکاتب دینیہ کی عمارتوں پر قبضہ کرکے انہیں خانماں برباد کردیا جاتا ہے‘ خدا کے گھروں یعنی مسجدوں پر قبضہ کیا جاتا ہے اور محکمہٴ اوقاف کے ذریعہ غیر سند یافتہ مؤذنین‘ ائمہ اور خطباء کے لئے مسجدوں کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں‘ اوقاف کی قائم کردہ منتظمہ کمیٹی کے سیکرٹری سے اعلان کرا دیا جاتا ہے کہ سیکرٹری کی اجازت کے بغیر کوئی بھی عالم دین مسجد میں وعظ نہیں کہہ سکتا‘ پبلک جلسوں میں علماء کو کلمہٴ حق کہنے سے روکنے کے لئے دفعہ ۱۴۴ لگادی جاتی ہے‘ ان علماء ومبلغین وواعظین کو جن سے حکومت کے خلاف بولنے کا خطرہ ہوتا ہے، کسی خاص علاقہ میں ”ان کی بستی میں“ یا ”گھروں میں“ قانون تحفظ امن عامہ کے تحت نظر بند کردیا جاتاہے یا زبان بندی کردی جاتی ہے ،اور جن علماء حق کے ملک میں موجود ہونے کو ہی حکومت اپنے مفاد کے لئے مضر سمجھتی ہے، ان کو جلاوطن کردیا جاتا ہے‘ تا آنکہ علماء حق کے لئے قانون شکنی کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا اور وہ قانون شکنی پر آمادہ ہوجاتے ہیں‘ تب گرم جنگ شروع ہوتی ہے اور جیلوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں‘ اگر جیلوں کی وحشیانہ اور ننگِ انسانیت ایذاء رسانیاں بھی ان کو حق بات کہنے سے نہیں روک سکتیں تو حکومتیں ان کو سولی پر چڑھادینے میں بھی دریغ نہیں کرتیں اور علماء حق امام مالک ‘ امام ابوحنیفہ اور امام احمد کی سنت کو بے دریغ زندہ کرتے ہیں اور قید وبند کی تمامتر سختیوں بلکہ موت فی سبیل اللہ کو بھی لبیک کہتے ہیں۔
یہ ہوتے ہیں علماء حق پیدا کرنے والی علوم دینیہ کی درس گاہوں اور علماء حق کے بابرکت وجود کو کسی روئے زمین سے مٹانے کے دہ سالہ اور پنجسالہ منصوبے اور ان کے مختلف مرحلے۔ سادہ لوح عوام ان سے قطعاً ناواقف ہیں‘ مگر علماء حق ان سے خوب اچھی طرح واقف ہیں اور اعلاء کلمة اللہ کی راہ میں ہر مزاحمت کا مقابلہ کرنے اور ہرظلم وجور کو سہنے اور ہرقربانی دینے کے لئے تیار ہیں ،مگر کسی مرحلہ پر بھی علوم دینیہ کی حفاظت کا فرض انجام دینے اور حکومت کے اثرسے آزاد دینی خدمت انجام دینے کی سعادت سے کسی قیمت پر بھی دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔وما توفیقنا الا باللہ ہو مولانا نعم المولیٰ ونعم النصیر۔
یہی وہ ہتھکنڈے ہیں جس کے ذریعہ موجودہ عہد میں تمام اسلامی ملکوں کی حکومتوں نے آزاد علوم عربیہ دینیہ کی درس گاہوں اور مکتبوں کو علوم آخرت اور علوم انبیاء سے یکسر خالی کیا ہے۔ انہی اسلامی ملکوں کا نام مدارس عربیہ کے خلاف حالیہ سردجنگ میں بار بار لیا جارہا ہے‘آج یہ تمام اسلامی ممالک علوم کتاب وسنت یعنی علم تفسیر واصول تفسیر‘ علم حدیث واصول حدیث‘ علم فقہ واصول فقہ اور ان کے معاون علوم کی ٹھوس اور باضابطہ تعلیم اور درس وتدریس سے یکسر محروم اور خالی ہوچکے ہیں‘ اس وقت برصغیر پاکستان وہندوستان کے سوا اور کسی ملک میں حکومتوں کے اثر سے آزاد علوم دینیہ کی درس گاہوں اور دینی مکتبوں کا وجود باقی نہیں رہا ہے اور صرف انہی دونوں ملکوں میں مذکورہ بالا علوم کتاب وسنت کی باضابطہ درس وتدریس اور تحفیظ وتجوید کلام اللہ کے سلسلے جاری ہیں اور اس آخیر زمانہ کے حسبِ حال علماء وحفاظ ومجودین قرآن‘ واعظین ومبلغین انہی دوملکوں میں ان درسگاہوں سے فارغ ہوکر نکل رہے ہیں اور مختلف دینی خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان کی مساعی کی بدولت دینی روح جس درجہ میں بھی ہے، زندہ ہے۔ اور ان دونوں ملکوں کے مسلمانوں کا مزاج بہرحال دینی ہے‘ جو لوگ عہد حاضر کے ممالک اسلامیہ کی درسگاہوں کو قریب سے دیکھ چکے ہیں یا ان کی اصلیت سے باخبر ہیں ،وہ ہمارے اس بیان کی تصدیق وتائید کریں گے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ علوم شرعیہ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں شیخ التفسیر‘ شیخ الحدیث اور شیخ الفقہ جیسے خالص دینی منصبوں پر تقرر کی پہلی اور لازمی شرط یہ ہے کہ امید وار عالم دین حقیقی معنی میں ہو یا نہ ہو، مگر امریکن یا یورپین ممالک کی کسی یونیورسٹی سے اس نے پی ایچ ڈی ضرور کیا ہو یعنی ”یورپ رٹرن“ اور مغرب زدہ ضرور ہو۔ یہودیوں اور نصرانیوں کا تریاق نما زہر جو اسلامی روح کے لئے سم قاتل ہے‘ اس نے چار سال تک ضرور پیا ہو۔
اس لئے اب علوم دینیہ عربیہ اور علماء دین پیدا کرنے والی عربی درس گاہوں کی حفاظت ان ملکوں کے علماء حق پر فرض کفایہ نہیں رہی‘ بلکہ فرض عین ہوگئی ہے۔
اگر فی الحقیقت حکومت کی نیت نیک ہے اور وہ واقعی ان مدارس عربیہ کے فارغ التحصیل طلبہ کو عصری علوم‘ عالمی حالات حاضرہ اور انگریزی زبان سے واقف بناکر ان کو دینی خدمات انجام دینے کے لئے زیادہ کار آمد اور ان کی اسلامی دینی خدمات کو زیادہ مؤثر اور دوررس بنانا چاہتی ہے تو جیساکہ اس کو اب سے تین سال پہلے وفاق المدارس العربیہ کی جانب سے مشورہ دیا جاچکا ہے۔ان مدارس عربیہ اور مکاتب دینیہ کو اور ان کے درسی نصابوں کو علی حالہ قائم رہنے دے اور کام کرنے دے۔ ہاں ان کے فارغ التحصیل طلبہ کے لئے علماء حق کے مشورہ سے صرف علوم عصریہ اور انگریزی زبان کا ایک چہار سالہ نصاب الگ تجویز کرے اور اس کے لئے دو تین مستقل درس گاہیں مرکزی شہروں مثلاً :کراچی‘ لاہور‘ راولپنڈی اور پشاور میں قائم کرے یا موجودہ بڑے بڑے مدرسوں میں ہی یہ ”چہار سالہ نصاب“ اپنے خرچ پریا اگر ان مدارس کے فنڈ میں گنجائش ہو تو انہیں کے خرچ پر قائم کرے اور صرف دینی خدمات کے مناصب کے لئے اس کی سند کو تسلیم کرے‘ دفتری ملازمتوں کے لئے نہیں۔تو ان علماء کی دینی خدمات زیادہ مؤثر اور دوررس ہوسکیں گی اور قدیم علوم‘ حالات ِ حاضرہ اور انگریزی زبان سے ناواقفیت کے نقص کو دور کرسکیں گے اور حقیقی معنی میں ”علوم عصریہ“ سے واقف علماء دین بن سکیں گے اور اندر دن ملک وبیرون ملک دینی خدمات انجام دے سکیں گے۔
محکمہٴ اوقاف کا ترتیب کردہ قدیم علوم دینیہ اور جدید علوم عصریہ کا ”مخلوط“ نصاب۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر‘ جو اس وقت محکمہٴ اوقاف کی درس گاہ جامعہ اسلامیہ بہاول پور میں رائج ہے‘ علوم دینیہ عربیہ کے لئے تو تباہ کن ہے ہی‘ علوم عصریہ اور حالات حاضرہ کی کما حقہ واقفیت اور انگریزی زبان کی قابلیت پیدا کرنے میں بھی ناکام ہے۔ جن ناطرفدار لوگوں نے جامعہ اسلامیہ بہاول پور کے نصاب اور اس کی تعلیم وتدریس کی تفصیلات کہ بخاری سال میں جتنی ہوتی ہے اور ہدایہ کتنا ہوتا ہے اور جلالین کتنی ہوتی ہے کو قریب سے دیکھا ہے، وہ اس کے شاہد ہیں۔
علم اقسام اور اس کے فوائد
علم‘ دین کا ہو یادنیا کے کسی شعبے کا‘ وہ بہرحال انسانیت کے لئے تمغہٴ فضیلت اور طرہٴ امتیاز ہے اور تعلیم کا مقصد فضل وکمال سے آراستہ ہونا اور میراث ِ انسانیت کا حاصل کرنا ہے‘ موضوع کے لحاظ سے علم کی دوقسمیں قرار پاتی ہیں:۱- دینی علوم ۔۲- دنیا وی علوم ۔
دینی علوم کے اصل ثمرات وبرکات تو آخرت ہی میں ظاہر ہوں گی‘ تاہم جب تک دنیا میں اسلام کی عزت ورفعت کا دور دورہ رہا، دنیا میں بھی اس کی منفعتیں ظاہر ہوتی تھیں۔ علمائے دین‘ قاضی‘ قاضی القضاة‘ مفتی اور شیخ الاسلام کی حیثیت سے محاکم عدلیہ اور محاکم احتساب کے مناصب پر فائز ہوتے تھے‘ ملک وملت کے لئے ان کا وجود سایہٴ رحمت سے کم نہیں تھا‘ ان کی خداترسی‘ حق پسندی اور عدل پروری کی بدولت معاشرہ میں امن وعافیت کی فضا قائم تھی اور اسلام کے عادلانہ احکام کا نفاذ بہت سے معاشرتی امراض سے حفاظت کا ضامن تھا۔
الغرض دینی مناصب کے لئے علمائے دین ہی کا انتخاب وتقرر ہوتا تھا،اور آج بھی جن ممالک میں اسلامی نظام کسی حد تک رائج ہے‘ اس کے کچھ نمونے موجود ہیں، اور دنیوی علوم جن کا تعلق براہ راست دنیا کے نظام سے تھا‘ مثلاً فلسفہ‘ منطق‘ تاریخ‘ جغرافیہ ریاضی‘ ہیئت‘ حساب‘ طب وجراحت وغیرہ ان کے لئے تو حکومتی مناصب بیشمار تھے‘ اور علوم کی یہ تقسیم کہ کچھ علوم دینی ہیں اور کچھ دنیاوی‘ محض موضوع کے لحاظ سے ہے مگر اس کے معنی دین ودنیا کی تفریق کے ہرگز نہیں‘ چنانچہ دنیوی علوم اگر بے ہودہ اور لایعنی نہ ہوں اور انہیں خدمتِ خلق‘ اصلاحِ معاش اور تدبیر سلطنت کی نیت سے حاصل کیا جائے تو وہ بھی بالواسطہ رضائے الٰہی کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور دین ودنیا کی تفریق ختم ہوجاتی ہے اور اس کے برعکس جب دینی علوم کی تحصیل کا مقصد محض دنیا کمانا ہو تو یہ علوم بھی بالواسطہ دنیا کے علوم کی صف میں آجاتے ہیں اور اس کے لئے احادیثِ نبویہ میں سخت سے سخت وعیدیں بھی آئی ہیں‘ مثلاً ایک حدیث میں ہے:
”من تعلم علماً مما یبتغی بہ وجہ اللہ لایتعلمہ الا لیصیب بہ عرضاً من الدنیا لم یجد عرف الجنة یوم القیامة ‘ یعنی ریحہا“ ۔(مشکوٰة: ۳۴‘۲۵)
ترجمہ:․․․․”جس شخص نے وہ علم سیکھا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہوسکتی ہے اور پھر اس کو متاعِ دنیا کا ذریعہ بنایا تو ایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا“۔
ایک اور حدیث میں ہے:
”من طلب العلم لیجاری بہ العلماء او لیماری بہ السفہاء او یصرف وجوہ الناس الیہ ادخلہ اللہ النّٰار“۔ (مشکوٰة :۳۴)
ترجمہ:․․․”جس شخص نے اس غرض سے علم حاصل کیا کہ اس کے ذریعہ علماء سے مقابلہ کرے یا کم عقلوں سے بحث کرے یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف مائل کرے‘ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو آگ میں ڈالیں گے“۔
بہرحال ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ دینی علوم بھی دنیا کے علوم بن جاتے ہیں اور دنیوی علوم بھی رضائے الٰہی اور طلب آخرت کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور دین ودنیا کی تفریق ختم ہوجاتی ہے ‘ گویا اصل مدار مقاصد ونیات پر ہے کہ اگر مقصد رضائے الٰہی ہے تو دنیوی علم بھی دین کے معاون ومددگار‘ اور صنعت وحرفت کے تمام شعبے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے وسائل بن جاتے ہیں۔
علوم خواہ قدیم ہوں یا جدید اور دینی ہوں یا دنیوی ان سب سے مقصد رضائے الٰہی کے مطابق ایک صالح معاشرہ کا قیام ہونا چاہئے اور یہ مقصد اسی صورت میں حاصل کیا جاسکتا ہے کہ جو شخص جس شعبہٴ زندگی سے منسلک ہو‘ وہ اس شعبہ سے متعلق بقدر ضرورت دینی مسائل سے بھی واقف ہو‘ مسلمان تاجر ہو تو تجارت سے متعلقہ دینی مسائل کا عالم ہو‘ انجینئر ہو تو عالم ہو‘ طبیب اور ڈاکٹر ہو تو عالم ہو‘ حضرت فاروق اعظم کے عہد میں جو خلافت راشدہ کا تابناک دور ہے‘ ایک قانون یہ تھا:”لایبع فی سوقنا ہذا من لم یتفقہ فی الدین“۔․․․”جو شخص فقیہ ․․․دینی مسائل کا ماہر․․․․ نہ ہو‘ اس کو ہمارے بازار میں خرید وفروخت کی اجازت نہیں“۔گویا دنیا کمانے کے لئے بھی علم دین کی ضرورت ہے‘ تاکہ حلال وحرام اور جائز وناجائزکی تمیز ہوسکے اور خالص سود‘ سودی کاروبار اور غیر شرعی معاملات میں مبتلا نہ ہو۔
الغرض ایک دور ایسا تھا کہ ہرہنر وکمال کا مقصد آخرت اور رضائے الٰہی تھا اور اب ایک دور ایسا آگیا ہے کہ ہرچیز کا مقصد دنیا ہی دنیا بن کر رہ گیا‘ بلکہ اب تو اس میں بھی اس قدر تنزل رونما ہوا ہے کہ دنیا کی بھی تمام حیثیتیں ختم ہوکر رہ گئیں‘ اب تو واحد مقصد صرف ”پیٹ“ رہ گیا ہے‘ دنیا کے ہرعلم وہنر اور فضل وکمال کا منتہائے مقصود بس یہ سمجھا جاتاہے کہ کسی نہ کسی طرح یہ جہنم بھر جائے۔
جدید تعلیم اور اس کا مقصد
قدیم اصطلاح میں تو دینی علم ہی علم کہلانے کا مستحق تھا‘ دنیاوی علوم کو فنون یا ہنر سے تعبیر کیا جاتا تھا‘ مگر آج کی اصطلاح یہ ہوگئی ہے کہ قدیم علوم کے ماہر کو عالم کہا جاتاہے اور جدید علوم کے ماہرین کو ”تعلیم یافتہ“ کے خطاب سے یاد کیا جاتاہے۔ امریکہ اور یورپ وغیرہ کے جو ممالک جدید علوم کے امام ہیں‘ وہاں آج بھی کسی ”تعلیم یافتہ“ کے لئے ضروری نہیں کہ وہ کسی اسکول میں ٹیچر‘ کسی کالج میں پروفیسر یا سرکاری دفتر میں ملازم ہو‘ بلکہ وہاں تعلیم کا مقصد ہنر وکمال کی تحصیل سمجھا جاتا ہے‘ تاکہ ہر شعبہٴ حیات میں ہنر وکمال کے مالک افراد موجود ہوں‘ان ممالک میں ٹیکسی ڈرائیور اور بسوں کے کنڈیکٹر بھی گریجویٹ ہوتے ہیں‘ یہ کہیں بھی نہیں سمجھا جاتا کہ بی اے یا ایم اے ہونے کے بعددکان پر بیٹھنا یا کارخانے میں جانا یا ڈرائیور بننا باعثِ توہین ہے‘ پھر نہ معلوم ہمارے ملک میں یہ کیوں ضروری سمجھ لیا گیا ہے کہ جو شخص تعلیم یافتہ یا گریجویٹ ہو‘ اس کے لئے سرکاری ملازمت لازم ہے‘ ورنہ اس کی حق تلفی اور اس کی ڈگری کی توہین متصور ہوگی۔
برطانوی دور میں اس جدید تعلیم کا مقصد بلاشبہ یہی سمجھایا گیا تھا کہ اسکولوں ‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے تیار ہونے والے افراد سرکاری مشینری کے کل پرزے بنیں گے‘ کیونکہ اس اجنبی ملک میں حکومت کی انتظامی ضرورت پوری کرنے کے لئے ان کو ایک ایسی نسل کی ضرورت تھی جس سے ان کی حکومت کاکا رو بار چل سکے‘ وہ انگلستان سے اتنے انگریز یہاں نہیں لاسکتے تھے کہ اتنے بڑے بر کوچک کا تمام کام سنبھال سکیں‘ انہیں دنیا کے دوسرے ممالک پر بھی حکمرانی کرنی تھی‘ کلیدی مناصب تو ضرور وہ اپنوں ہی کو دیا کرتے تھے یا پھر ان کو جو سو فیصد ان کے حاشیہ بردار بن جائیں‘ مگر نیچے درجہ کے لئے انہیں یہیں سے آدمی مہیا کرنے تھے۔
علاوہ ازیں اس جدید تعلیم سے انگریز کا ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانی لوگ انگریزی تہذیب وتمدن کے اتنے دلدادہ ہوجائیں کہ ظاہر وباطن میں انگریز ہی انگریز نظر آئیں اور لارڈ میکالے کی پیش گوئی پوری ہوجائے۔
الغرض یہ ذہنیت انگریزی دور کی پیداوار ہے کہ تعلیم حاصل کرنا صرف ملازمت کے لئے ہے‘ ظاہر ہے کہ تعلیم کی رفتار میں ہر سال تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور سرکاری مناصب اور ملازمتیں محدود ہیں‘ تعلیمی تناسب سے ان میں اضافے کا امکان نہیں‘ نہ یہ ممکن ہے کہ تمام تعلیم یافتہ افراد کو سرکاری ملازمتوں میں کھپایا جاسکے اور یہ تو طلبہ کا مسئلہ تھا‘ اس پر مستزادیہ کہ طالبات بھی اب تعلیم کے میدان میں اسی تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہیں اور وہ بھی ملازمت کی خواہاں ہیں‘ جب نئی نسل کو مستقبل تاریک نظر آتا ہے تو ان میں بے چینی پھیلتی ہے اور اس کا نتیجہ اس عبرت ناک منظر کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جو گذشتہ دنوں کراچی یونیورسٹی میں تقسیم اسناد کے موقعہ پر دیکھنے میں آیا کہ گورنر تک کے لئے آبرو بچانا مشکل ہوگیا‘ یہ ہیں جدید تعلیم کی برکات ! اور یہ ہیں جدید تعلیم یافتہ حضرات ”ان فی ذلک لعبرة لاولی الابصار“ یہ صورت حال تمام اہل دانش اور اربابِ اقتدار کے لئے لمحہٴ فکریہ ہے‘ اگر جدید نسل کے اس ذہنی کرب کا صحیح حل تلاش نہ کیا گیا تو اس کے نتائج اس سے زیادہ ہولناک ہوں گے۔

اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ, جلد 71, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: نصرت الٰہی سے محرومی کے اسباب
Flag Counter