Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ

ہ رسالہ

11 - 12
نبوی اسلوب کے حامل معلم کی رحلت
تعلیم وتعلم ایسی انسانی ضرورت ہے‘ جس کے بغیر علم وآگہی نا ممکن ہے‘ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلی تعلیم حضرت آدم علیہ السلام کو دی ،پھر حضرت آدم علیہ السلام کو ملائکہ اور انسانوں کا معلم بنایاگیا۔
خاتم الانبیاء جناب رسول اللہا بھی معلم بناکر بھیجے گئے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو معلم بھی بنایا اور تعلیم کے کامل اسلوب اور طریقے بھی مرحمت فرمائے ۔اس کامل اسلوب تعلیم کی برکت تھی کہ مختصر عرصے میں عرب وعجم میں علمی انقلاب برپا ہوگیا۔ دنیا ظلمت کدہ سے بقعہٴ نور بن گئی‘ جہالت کی تاریکیاں نور علم میں بدل گئیں۔ امت میں جس کسی نے تعلیمِ نبوت پر عمل کیا‘ اللہ تعالیٰ نے اسے قبولیت اور ساری کائنات کی دعاؤں کا مستحق بنادیا
حضرت مولانا اشرف شاد مانکوٹ بھی اسالیب نبوی کے حامل معلم تھے‘ ان کی پینسٹھ سالہ زندگی تعلیم وتعلم میں صرف ہوئی‘ ان کی شب وروز کا وظیفہ قال اللہ وقال الرسول تھا‘ وہ اس میدان میں حضور ا کی سنتوں کے پیرو کار اور متبع تھے‘ ان کی پوری زندگی جہد مسلسل‘ صبر‘ قناعت اور مجاہدات سے عبارت تھی‘ انہوں نے علوم عربیہ کے بنیادی اور اساسی علوم صرف ونحو کو اپنی محنت کا میدان بناکر ایک بہت بڑی نرسی تیار کرکے علم کے ہزاروں باغات لگادیئے‘ ان کی شبانہ روز محنتوں‘ شفقتوں اور مربیانہ طرز سے مدارس عربیہ سے نفرت کرنے والے مدارس سے متعلق ہوکر فضلاء بن گئے۔
حضرت مولانا اشرف شاد مانکوٹمیاں چنوں کے ایک دور افتادہ گاؤں چک ایل ۱۵/۵۹ میں ۱۹۴۳ء میں پیدا ہوئے‘ ابتدائی تعلیم سے فارغ ہوکر کبیروالہ ضلع خانیوال میں میدان تدریس کے مشہور شاہسوار‘ جامع المعقول والمنقول استاذ العلماء حضرت مولانا منظور الحق کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا منظور الحق کو بے پناہ تعلیمی‘ تدریسی اوصاف سے نوازا تھا‘ وہ عقلی ونقلی علوم کے حافظ ہونے کی وجہ سے بجا طور پر علامہ معروف تھے‘ فن تدریس میں انہیں امام اور مجدد کا درجہ حاصل تھا‘ صرف ‘نحو‘ منطق اور فلسفہ میں انہیں امتیازی طور پر کمال حاصل تھا‘ مدارس دینیہ میں مذکورہ بالا فنون خشک اور دقیق سمجھے جاتے ہیں‘ بایں وجہ طلباء کی عموماً ان فنون سے دوری رہتی ہے‘ حضرت مولانا منظور الحق کے علمی کمال اور خصوصی ملکہٴ تدریس کی وجہ سے طلباء کو ان فنون سے بجائے وحشت کے نہ صرف موانست ہوتی‘ بلکہ طلباء کی دل لگی کا ذریعہ ہی یہی فنون ہوتے۔
حضرت مولانا منظور الحق نے اس نو وارد طالب علم ․․․حضرت مولانا اشرف صاحب․․․ کو اپنی دور بین نگاہوں سے بھانپ لیا کہ یہ سیپ مستقبل قریب میں گوہر یکتا ہوسکتا ہے‘ اسی وجہ سے حضرت مولانا محمد اشرف کو خصوصی توجہات اور شفقتوں اور محبتوں سے نوازنا شروع فرمایا‘ نتیجةً حضرت مولانا محمد اشرف اپنے استاذ محترم سے کسب فیوض کرتے کرتے ان کا عکس اور ان کے علوم کے ترجمان بن گئے اور بجا طور پر وہ مستقبل میں حضرت مولانا منظور الحق کے علمی جانشین کہلائے۔ حضرت مولانا محمد اشرف صاحب نے اپنی تعلیم کی تکمیل بھی اپنے استاد محترم حضرت مولانا منظور الحق کی زیرسرپرستی دار العلوم کبیروالا میں فرمائی۔
دارالعلوم کبیر والا میں آپ کو ایک سے بڑھ کر ایک یکتائے زمانہ صاحبِ تقویٰ‘ صاحب ِفراست اور صاحب ِعلم اساتذہ کی صحبت اور شرف تلمذ نصیب ہوا‘ حضرت مولانا منظورالحق کے علاوہ ان کے برادر اکبر حضرت علامہ مولانا ظہور الحق‘ حضرت مولانا سید فیض علی شاہ‘ شیخ الحدیث حضرت مولانا علی محمد‘ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد المجید دامت برکاتہم العالیہ‘ شیخ الحدیث حضرت مولانا صوفی محمد سرور صاحب مدظلہم جیسے اساتذہ نے اس سونے کو کندن بناکر نمایاں کردیا‘ چنانچہ حضرت مولانا محمد اشرف شاد ۱۳۷۰ھ میں سند فراغت حاصل کرنے کے بعد کبیر والا کے قریب ہی قصبہ ٹھوکر چاون میں اپنے اساتذہ کرام کے مشورہ سے محو تدریس ہوگئے‘آپ کی تدریسی محنت اس درجہ تک پہنچی کہ آپ کے استاد محترم حضرت مولانا منظور الحق جو اس وقت دار العلوم کے مہتمم تھے نے فرمایا کہ: مولانا محمد اشرف جیسے لائق مدرس کو تو دارالعلوم میں ہونا چاہئے‘ چنانچہ۱۳۷۱ھ میں دارالعلوم کبیروالہ کے مدرس مقرر ہوئے۔ یہاں دارالعلوم میں تقرری کے ساتھ ہی حضرت مولانا منظور الحق نے تعلیم صرف ونحو میں گویا آپ کو اپنا جانشین مقرر کرتے ہوئے صرف ونحو کی تدریس بھی آپ کے سپرد کردی‘ اس وقت سے وفات تک آپ کا اڑتیس سالہ دور تدریس ہے‘ ان اڑتیس سالوں میں حضرت نے دار العلوم کبیر والا ٹھوکر چاون شورکوٹ‘ جہانیاں منڈی شجاع آباد اور مانکوٹ میں علمی جوہر بکھیرے۔
حضرت بہلوی بھی آپ کی شخصیت سے بے حد متاثر تھے‘ یہی وجہ تھی کہ آپ نے اپنی صاحبزادی حضرت کے نکاح میں دیدی۔ یوں آپ بہلوی نسبت کے بھی حامل ہوگئے‘ حضرت بہلوی آپ سے بے حد محبت اور شفقتوں سے نوازتے‘ اس کے بعد آپ مدرسہ اشرف العلوم شجاع آباد میں قطب الارشاد حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلوی کے حکم سے تدریس کے لئے تشریف لائے‘ اور حضرت کی توجہات کا مرکز رہے۔
حضرت مولانا محمد اشرف صاحب اپنی تدریسی خصوصیات کی وجہ سے محبوب المشائخ والعلماء تھے ‘ پاکستان کے نامور علماء کرام اور مشائخ عظام اپنے صاحبزادگان کی تعلیم وتربیت کے لئے حضرت مولانا کا انتخاب فرماتے۔
آپ محبوب العلماء والمشائخ تو تھے ہی‘ طلباء دین بھی آپ پر نثار رہتے۔ باوجود یہ کہ آپ ایک سخت گیر معلم اور مربی تھے ۔عام درسگاہوں میں جو چیزیں قابل اعتنا نہیں سمجھی جاتیں‘ حضرت کے ہاں وہ قابل ِمواخذہ جرم ہوتیں اور اس پر سخت دار وگیر ہوتی۔ سبق میں ذراسی کوتاہی ‘ مطالعہ وتکرار میں عدم دلچسپی پر ہرطالب علم کا ایسا مواخذہ ہوتا کہ آئندہ کسی طالب علم کوایسی کوتاہی کی جرأت نہ ہوتی۔بایں ہمہ آپ کی شفقت آپ کی شدتوں پر غالب آجاتی اور آپ طالب علموں کے دلوں کو موہ لیتے۔
راقم الحروف کی تدریس بھی حضرت کی شفقتوں کا نتیجہ ہے‘احقر ۱۹۸۹ء میں دورہ حدیث سے فارغ ہوا تو حضرت مولانا محمد اشرف نے حضرت والد محترم حضرت مولانا رشید احمد سے تقاضا فرمایا کہ: مولوی زبیر کو میرے حوالے کردو، اور وہی سال جامعہ اشرفیہ مانکوٹ کے قیام کا تھا۔ حضرت کی شفقتوں اور حضرت کی عطاء کردہ تعلیمی تدریسی مئے نے ایسا مدہوش کیا کہ زندگی کے سب سے یادگار اور خوشگوار ایام بھی مانکوٹ کے ہی بن گئے‘ یہ حضرت کی شفقت تھی کہ شہروں میں پیدا ہونے والے‘ پنکھوں‘ ایئرکولروں اور اے سی میں زندگی گذارنے والے‘ اسی طرح انگلینڈ اور امریکہ کے ماحول میں آنکھیں کھولنے والے اس جنگل میں حضرت کی محبت اور شفقت کی وجہ سے سالہا سال علمی پیاس بجھا تے رہے۔
آپ نے اپنے اندر تعلیم کے وہ اسالیب اختیار فرمائے جو معلم کامل حضرت محمد رسول اللہ ا سے صادر ہوئے۔ ذیل میں چند ایسے اسالیب کا تذکرہ کیا جاتاہے:
کمال علم
حضرت مولانا محمد اشرف صاحب نے اپنے اندر کمال علم کو پیدا فرمایا‘ وہ حافظ قرآن بھی تھے اور سبعہ عشرہ کے قاری بھی‘ وہ ماہر عقلیات بھی تھے اور نقلیات بھی ‘ تقسیم اسباق کے وقت ہر مشکل سبق وہ اپنے ذمے لے لیتے۔ انہوں نے اپنی تدریس کے آغاز میں ہی اقلیدس‘ چیغمینی‘ شمس بازعہ جیسی کتابیں پڑھنا شروع کردی تھیں‘ عبد الغفور شرح جامی‘ کافیہ ہدایة النجو‘ ارشاد الصرف‘ زرادی‘ زنجانی اور فصول اکبری جیسی کتابوں کے تو وہ حافظ تھے‘ ان میں سے بیشتر کتب تو تقریباً پینتیس مرتبہ وہ باقاعدہ پڑھا چکے تھے۔ ارشاد الصرف جیسی کتب تو سال میں کم از کم دو مرتبہ پڑھاتے ‘ یوں صرف کی تدریس کا انہیں کم وبیش ایک سوبارموقع ملاہوگا۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی میں حضرت‘ راقم الحروف کے والد محترم حضرت مولانا رشید احمد بانی جامعہ فاروقیہ شجاع آباد کی رفاقت میں تحریک کے زخمی کارکنان کی عیادت کے لئے ہسپتال جاتے ہوئے دھر لئے گئے‘ چنانچہ شجاع آباد تھانہ میں جھوٹا مقدمہ دائر کرکے ان حضرات کو سنٹرل جیل ملتان بھیج دیا گیا‘ مجھے حضرت نے ایک سے زائد بار فرمایا کہ: جیل میں ہم دونوں ․․․․والد محترم واستاد محترم․․․․ اولاً قطبی کا تکرار اور پھر صحیح بخاری کا تکرار کرتے رہے ‘ یہ ان حضرات کے علمی استحضار کا بین ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کس قدر علم سے نوازا تھا اور انہیں علم سے کس حد تک پیار تھا۔
کمال تقویٰ:
مقبول علم وہی ہوتا ہے جو باعث عمل ہو‘ جناب رسول اللہ ا نے اس علم سے پناہ چاہی ہے جو نفع مند نہ ہو‘ حضرت مولانا محمد اشرف کو اللہ تعالیٰ نے سراپا عمل اور تقویٰ بنایا تھا‘ ان کی عفت وپاکدامنی اس قدر تھی کہ وفات تک ان پر ذرا بھی دھبہ نہ آیا‘ احتیاط اور تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ درسگاہ میں ․․․ایام جوانی میں․․․ دروازے میں تشریف رکھتے‘ تاکہ کوئی بے ریش طالب علم سبق پوچھنے آئے تو سب کے سامنے ہو اور موضع تہمت نہ بنے‘ کبھی تنہا کمرے میں ہوتے تو کسی بھی چھوٹے طالب علم کو کمرے میں داخلے کے لئے اجازت نہ ہوتی‘ حکم ہوتا کہ کسی اور طالب علم کو ساتھ لے کر آؤ‘ نماز کی امامت زمانہ مرض تک خود کرواتے رہے اور فرماتے: میں خود جماعت اس لئے کرواتاہوں کہ میری نماز تکبیر تحریمہ کے ساتھ ادا ہوجائے‘ بغیر کسی شرعی عذر کے شاید برسہا برس تک آپ کی تکبیر تحریمہ فوت نہیں ہوئی۔ حفظ قرآن کے زمانہ سے لے کر وفات سے ایک سال قبل تک تراویح میں ختم قرآن ہرسال کا معمول رہا اور یہ معمول کسی سال نہیں چھوٹا۔ صرف آخری سال مرض اور ضعف کی کثرت کی وجہ سے یہ معمول پورا نہ ہو سکا‘ یقینا اس سال کے ختم قرآن سنانے کا ثواب بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں ضرور مرحمت فرمایا ہوگا۔ حفاظ طلباء کو اکثر ہرسال تراویح میں قرآن سنانے کی تاکید فرماتے اور ختم قرآن پر پیسے لینے کی سخت ممانعت فرماتے‘ اور یہی انہیں اپنی والدہ محترمہ کی نصیحت تھی۔ نماز تہجد کی ادائیگی کا بھی ہمیشہ سے معمول تھا‘ عموماً رات کو صرف کے سبق سے بارہ بجے فارغ ہوتے‘ صبح تہجد کے لئے اٹھ جاتے‘ سفر وحضر میں تہجد کا یہ معمول جاری رہتا‘ بسا اوقات سفر سے رات دو بجے تشریف لاتے‘ تب بھی صبح چار بجے حسبِ معمول تہجد کے لئے اٹھ جاتے‘ زندگی بھر مدرسہ میں مہمانوں پر مدرسہ کا خرچ کرنے کی بجائے اپنی گرہ اور جیب سے مہمان نوازی کی‘جامعہ کے مہمانوں کی خدمت بھی اپنے گھر سے فرماتے‘ طلباء کے والدین‘ مدرسہ کے معاونین اور زائرین سب ہی کے لئے آپ کا دسترخوان بچھارہتا‘ وفات سے قبل اپنی بیوہ سے بھی یہی وصیت فرمائی کہ میرے بعد میرے مہمانوں کا خیال رکھنا۔
تقویٰ کا یہ عالم تھا ‘فرماتے کہ: میں نے پوری زندگی کبھی بھی مدرسہ کے مہتمم صاحب سے تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ نہیں کیا اور کبھی مہتمم صاحب نے از خود اضافہ فرمادیا تو میں نے شکریہ ادا نہیں کیا،تاکہ اس سے بھی طمع اور خواہش کی جڑ کٹ جائے۔ ذکر اللہ کا بھی دائمی معمول تھا‘ اپنے معمولات ہمیشہ پورے فرماتے‘ ذکر اللہ کے سلسلہ میں آپ مختلف مشائخ سے راہنمائی لیتے رہے‘ سلسلہ نقشبندیہ کے مشہور شیخ حضرت مولانا غلام حبیب نقشبندی سے آپ مجاز ہیں‘ ذکر اللہ کا سلسلہ وفات تک جاری رہا‘ حضرت کے صاحبزادگان کے بقول شہادة کی انگلی سے انگلیوں کی گرہوں پر وظائف پڑھنے کا معمول تھا‘ چنانچہ وفات تک زبان بھی متحرک رہی اور انگلی بھی حرکت کرتی رہی۔
طلبہ کی خیر خواہی:
متعلمین کے ساتھ نبی کریم ا کی ہمدردی نہ صرف اپنی ذات تک محدود تھی‘ بلکہ امت کے علماء کو طلاب دین کے ساتھ ہمیشہ ہمدردی کرتے رہنے کی آپ نے تاکید فرمائی۔
حضرت مونالا محمد اشرف صاحب اپنی حقیقی اولاد سے بڑھ کر اپنی روحانی اولاد کی خیر خواہی فرماتے‘ وہ زیادہ تروقت طلباء کرام میں ہی گزارتے‘ نماز صبح سے لے کر دوپہر تک پھر ظہر سے لے کر رات بارہ بجے تک ان کا وقت طلباء کے افادہ میں گزرتا‘ طلباء کی خیر خواہی میں اس قدر حریص تھے کہ سترہ سترہ اسباق روزانہ پڑھاتے۔ اپنی تدریس کے پہلے سال حضرت کو تسہیل المبتدی سے لے کر میبذی‘ شرح عقائد تک خود اسباق پڑھاتے دیکھا ہے‘ نماز عصر کے بعد مدرسہ میں طلباء اور اساتذہ سیر وتفریح کے ذریعہ ذہنی سکون حاصل کرتے ہیں‘ لیکن راقم نے عصر کے بعد بھی حضرت کو طلباء کی علمی تشنگی بجھاتے دیکھا۔
طلبہ کی خیر خواہی کا یہ عالم تھا کہ بعض طلباء کا کھانا اپنے گھر سے جاری فرمادیتے ‘اکثر اوقات پوری کلاس کو مستقلاً چائے تک پلاتے رہتے‘ کسی کی گھریلو پریشانی معلوم ہوجاتی تو حتی الوسع اس کو دور کرنے یا حل کرنے کی کوشش فرماتے۔
مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء کو اکثر مدارس میں تدریس کے لئے جگہ بنا کردیتے اور پوری پوری سرپرستی فرماتے‘ ملک بھر میں امتحانات کے لئے مدارس میں تشریف لے جاتے اور اپنے تلامذہ کے اسباق کا خصوصیت سے امتحان لیتے‘ اگر اسباق میں کوتاہی محسوس ہوتی تو تلامذہ سے سخت دار وگیر فرماتے‘ حضرت مولانا محمد اشرف کی شفقت کو دیکھ کر طلباء والدین اور گھروں کو بھول جاتے‘ ناز ونعم میں پلنے والے ان کے دامن ِ شفقت میں آکر شہری زندگی کو خیر باد کہہ کر برسہا برس تک حضرت کے ساتھ دیہات میں مقیم رہے۔
حسن اخلاق:
حسن اخلاق بھی وصف نبوی ا ہے‘ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھا کر آپ کے اخلاق عالیہ کی بلندی کا ذکر فرمایاہے‘ افادہ اور استفادہ بھی حسن اخلاق کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ استاذ محترم حضرت مولانا محمد اشرف پیکر اخلاق تھے‘ ان سے ملاقات کرنے والا انہیں اپنا پرانا ملنے والا سمجھتا‘ حالانکہ وہ پہلی ملاقات ہوتی‘ وہ ہر آنے والے کے دل کو موہ لیتے ‘ ہرکسی کو وقت مرحمت فرماتے‘ طلباء کرام سے گفتگو بھی نہایت شفقت بھرے لہجہ میں ہوتی‘ ”میرے عزیز“ ان کا تکیہ کلام تھا۔طلباء کو کوتاہیوں پر تنبیہ کے بعد شفقت بھرے لہجہ میں ”میرے عزیز“ فرماتے تو دل سے غم وغصہ کا فور ہوجاتا‘ آپ کے حسن اخلاق کی وجہ سے پورا علاقہ آپ کا گرویدہ اور ثناء خوان ہے‘ غریب امیر سب ہی سے آپ کا تعلق یکساں تھا‘ اور سب ہی آپ سے محبت کرتے۔
ملکہٴ تفہیم:
کامل استاذ وہی ہوتا ہے جو اپنی بات آسانی کے ساتھ اپنے تلامذہ کو ذہن نشین کرادیں‘ حضرت مولانا محمد اشرف صاحب کا یہی کمال تھا کہ وہ مشکل سے مشکل مضمون‘ دقیق علمی مباحث کو نہایت ہی بے تکلفی کے ساتھ اس طرح بیان فرماتے کہ طلباء نہ صرف سمجھ جاتے ‘ بلکہ فوراً یاد بھی کر لیتے‘ صرف ونحو کی گتھیوں کو سلجھانا ان کے لئے معمولی کام تھا‘ مشکل صیغہ جات کو مزاح کے انداز میں حل کرادیتے‘ ان کے نرالے انداز تفہیم کی وجہ سے ان کے درس میں شریک طلباء کبھی اکتاہٹ محسوس نہ کرتے‘ کافیہ‘ شرح جامی جیسی کتب کی مشکل مباحث اور ضروری فوائد کو سوال وجواب اور تمہیدی باتوں کے عنوان سے معنون کرکے بیان کرتے تو کتابیں حل ہو جاتیں۔
سیرت سازی:
تعلیم وتعلم سے مقصود سیرت ‘ کردار سازی اور عمل ہوتا ہے‘ حضرت استاذ محترم طلباء کی سیرت سازی پر زور دیتے‘ آپ کے اسباق میں موعظت کے لئے ایک حصہ مقرر ہوتا‘ خدمت دین ِمتین اور اس مقصد کے لئے تحمل‘ شدائد ومصائب کا جذبہ طلباء میں کوٹ کوٹ کر بھر دیتے‘ علماء کے لئے سرکاری ملازمتوں کے اختیار کرنے کو سخت ناپسند کرتے‘ طلباء کو اس سے منع فرماتے۔
صرف کے مبتدی طلباء کو ایک عہد نامہ تحریر کرواتے‘ گویا یہ طلباء کا اپنے استاذ سے معاہدہ ہوتا کہ وہ زندگی بھر دین کی خدمت کریں گے‘ سرکاری ملازمت ہرگز اختیار نہیں کریں گے۔طلباء میں اکثر اسلاف واکابر کے واقعات بیان فرماتے‘ اور اکابر پر اعتماد کرنے کا درس دیتے‘ انہیں سلف بیزاری سے سخت نفرت تھی‘ جو لوگ اسلاف کی راہ چھوڑ کر نئی نئی راہیں اختیار کرچکے ہیں‘ ان سے اعلانیہ اظہاربرأت فرماتے۔ ایک مرتبہ احقر کو پیغام بھیجا کہ ”ممدال“ میں سلف بیزاری کا فتنہ سراٹھا رہا ہے‘ آکر بیان کرو‘ بندہ حاضر ہوا‘ اور حضرت پورے بیان میں خود تشریف فرما ہوئے اور دعاؤں سے نوازتے رہے۔
طلباء کو تکبیر تحریمہ کے ساتھ نماز کی ادائیگی‘ تلاوت قرآن اور نماز تہجد کی تلقین فرماتے‘ آپ نے اپنی اولاد کو بھی اسی رنگ میں رنگا‘ چنانچہ چار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی بحمد اللہ حافظ‘ قاری اور عالم ہیں‘ اپنے والد کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگیں جو پنہاں ہوگئیں
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ, جلد 71, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: دعا مانگنے کا ضابطہ اور اس کے آداب
Flag Counter