Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۲۹ھ فروری۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

6 - 10
مکالمہ بین المذاہب اور اس کا تصور
مکالمہ بین المذاہب اور اس کا تصور

آج پوری دنیامیں انٹرفیتھ ڈائیلاگ یعنی مکالمہ بین المذاہب کی بات ہورہی ہے‘ یہ صرف ایک موضوع ہی نہیں‘ بلکہ مسلمانوں کے لئے ایک چیلنج بھی ہے‘ کیونکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس موضوع کو بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے‘ اس لحاظ سے اس کے دونوں پہلو پیش نظر رہنے چاہئیں کہ اس وقت میں جہاں یہ ایک عالمی ضرورت ہے‘ وہاں ایک عالمی چیلنج بھی ہے۔ دنیا بوجوہ ایک گلوبل ویلج کی حیثیت اختیار کرچکی ہے‘ تجارت نے‘ سائنس وٹیکنالوجی نے اور خاص طور پر آمد ورفت کے ذرائع کی بہتات نے‘ بڑھتی ہوئی آبادی نے‘ اور اسی طرح میڈیا نے دنیا کو ایک گاؤں کی شکل دے دی ہے‘ اب وہ دور اور زمانہ نہیں رہا کہ ایک جگہ کی خبر دوسری جگہ تک مہینوں بعد پہنچے اور ایک جگہ سے اگر کسی نے دوسرے ملک یا شہر جانا ہو تو وہ قافلوں کا انتظار کرے‘ اور قافلہ بنے تو وہ جاسکے اور اصحاب القوافل کا نام اب کتابوں اور تاریخوں میں تو ملے گا لیکن اس معنی میں یا آج کے دور میں کہیں بھی نہیں ملے گا ۔ ماضی میں اگر ایک شخص سفر نہیں کرسکتا تھا‘ ذرائع نہیں تھے‘ سہولتیں نہیں تھیں‘ انتظار ہوتا تھا کہ قافلہ بنے اور سفر شروع کرے‘ اسی لئے ہمیں تاریخ کی کتابوں میں اصحاب القوافل کے نام کی اصطلاح ملتی ہے‘ آج ایک لمحے میں ”کراچی“ کی خبر ہی نہیں‘ بلکہ پاکستان کے پسماندہ ترین دیہات کی خبر بھی پورے ملک‘ بلکہ پوری دنیا میں پہنچ جاتی ہے‘فاصلے سمٹ گئے ہیں اور ایک جگہ کے حالات وہاں تک ہی محدود نہیں رہتے‘ وہ دوسروں کو بھی متاثر کرتے ہیں‘ اس کے اثرات یا ثمرات‘ اس کے فوائد یا نقصانات ہمہ گیر اور عالمگیر ہوتے ہیں اور لمحوں اور منٹوں میں کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ انسان کے تصور میں بھی جو چیز نہیں تھی آج ایک زمینی حقیقت بن کر سامنے آگئی‘ لہذا ایسے دور میں جب کہ انسانی برادری ‘ دنیائے انسانیت ایک گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر چکی ہو تو ایک دوسرے سے لاتعلق نہیں رہاجاسکتا‘ ایک دوسرے کے حالات سے متاثر نہ ہوں یہ ممکن نہیں ہے‘ یقینا ایک جگہ کے حالات دوسری جگہ پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ابھی آپ دیکھئے کہ ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں جناب نبی کریم اکے گستاخانہ خاکوں کی (نعوذ باللہ) اشاعت ہوتی ہے تو صرف کوپن ہیگن تک وہ بات محدود نہیں رہتی‘ وہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور پوری دنیا میں مسلمان سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر نائن الیون کا واقعہ ہوتا ہے تو وہ صرف نیویارک تک ہی محدود نہیں رہتا‘ وہ ورلڈٹرید سنٹر کو نہیں گراتا وہ پھر افغانستان‘ عراق اور دنیا کے کئی ملکوں کو گرادیتا ہے۔ بڑی تیزی سے پوری دنیا اس سے متأثر ہوتی ہے‘ صرف یہی نہیں کہ وہی علاقہ اس سے متأثر ہو‘ بلکہ پوری دنیا متأثر ہوتی ہے‘ تو یہ دنیا ایک گلوبل ویلج بن گئی ہے ‘ ایک گاؤں بن گئی ہے اور اس کو گاؤں اس لئے کہتے ہیں کہ عام طور پر شہروں کی آبادی میں وسعت ہوتی ہے اور وہاں ایک جگہ کی خبر دوسری جگہ دیر سے پہنچتی ہے اور دیہات چھوٹے ہوتے ہیں وہاں بڑی جلدی خبر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہے۔
مکالمہ بین المذاہب کی ضرورت
اسی طرح آپ جانتے ہیں اور میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ مبں اب تک دنیا کے جن ملکوں میں گیاہوں ان میں یورپ‘ امریکہ اور ایشیا کے بہت سے ممالک شامل ہیں‘ مجھے اب تک کوئی ملک ایسا نہیں ملا جس ملک کے اندر صرف ایک مذہب کے ماننے والے ہوں‘ ہر ملک میں اور ہرملک کے تقریباً ہر شہر میں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ وہاں ملے‘ کہیں کوئی مذہب والے اکثریت میں اور دوسرے اقلیت میں اور کہیں وہ اقلیت میں اوردوسرے اکثریت میں ہیں‘ تو اس لحاظ سے یہ نہیں ہے کہ ایک جگہ کے حالات اور معاملات دوسری جگہ اثر انداز نہیں ہوتے‘ بلکہ وہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ اب اس میں دو راستے ہیں: ایک راستہ ہے تصادم اور ٹکراو کا‘ اس سے امن اور انسانیت جس طرح تباہ ہوگی اس کو آپ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں‘ اس میں نقصان ایک کا نہیں ہوگا‘ بلکہ سب کا ہوگا اور دوسرا راستہ ہے مفاہمت اور ڈائیلاگ کا‘ مکالمے اور بات چیت کا‘ ظاہر ہے کہ ہرذی شعور انسان ایسے حالات میں اور ایسے اوقات میں تصادم اور ٹکراؤ کی بجائے مفاہمت اور ڈائیلاگ پر یقین رکھتا ہے‘ بات چیت ہوگی‘ مکالمہ ہوگا‘ اس بناء پر میں یہ سمجھتا ہوں اور میری طرح کے بہت سے لوگ یہ بات سمجھتے ہیں کہ آج کے موجودہ حالات میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ڈائیلاگ ‘ مکالمہ اور بات چیت وقت کی ضرورت ہے تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ متعلقہ مسائل اور ممکنہ مسائل کو بات چیت ‘ مکالمے ‘ گفت وشنید ‘ انصاف اور عدل کی بنیادوں پر ان کو حل کیا جائے اور دنیا بجائے تنازعات‘ جھگڑے اور بدامنی کے‘ سکون اور امن کے ساتھ زندگی گزارے۔ اس لئے کہ امن ہرایک کی ضرورت ہے‘ جہاں مشرق کی ضرورت ہے وہاں مغرب کی بھی ہے او ر جہاں مسلمانوں کی ہے‘ اتنی ہی ضرورت عیسائیوں اور یہودیوں کی بھی ضرورت ہے‘ اس بناء پر مکالمہ ‘ باہمی ڈائیلاگ‘ افہام وتفہیم بات چیت اور گفت وشنید کی اہمیت ‘ ضرورت اور اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اسلام اور مکالمہ بین المذاہب
بحیثیت مسلمان ہم تو صرف اس کے قائل ہی نہیں‘ بلکہ داعی ہیں‘ آج سے چودہ سو سال پہلے جناب نبی کریم انے قرآن کریم کی زبان میں یہ دعوت دی:
”قل یا اہل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللہ ولانشرک بہ شیئاً ولایتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللہ“ ۔
ہمیں اسلامی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ مکالمہ اور بات چیت کی نہ صرف یہ کہ اسلام کی طرف سے اس کی اجازت ہے‘ بلکہ پیغمبر اسلام ا کی سنت ہے۔
جناب نبی کریم اکو اپنے دور میں تین گروہوں سے واسطہ پڑا ‘۱- مشرکین اور کفار ‘ ۲- یہود ‘ ۳- نصاریٰ ۔
مکہ مکرمہ میں مشرکین مکہ سے آپ کا واسطہ پڑا اور مسلمانوں کو اپنے عملی مسائل کے لئے ان سے بہت سی چیزوں میں واسطہ اور سابقہ پڑا۔تو جناب نبی کریم انے نہ صرف مشرکین مکہ سے بات چیت کی‘ مکالمہ کیا‘ بلکہ حضور ا نے معاہدہ بھی کیا ۔ مکالمے سے بڑھ کر چیز معاہدہ اور ایگریمنٹ ہے‘ معاہدہ بھی کیا جو صلح حدیبیہ کے نام سے تاریخ کی کتابوں میں مشہور ومعروف ہے‘ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہاں آکر حضور ا کو مدینے کی آبادیوں میں وہاں کے شہریوں میں یہودیوں سے واسطہ پڑا‘ بنو نضیر‘ بنو قریظہ اور بنو قینقاع یہ یہودیوں کے مشہور قبیلے یہاں آباد تھے حضور انے ان سے بات چیت اور مکالمہ ہی نہیں‘ بلکہ معاہدہ بھی کیا‘ جو ”میثاق مدینہ“ کے نام سے مشہور ہے۔اور پھر حضور علیہ السلام کو اپنی حیات طیبہ میں نجران کے عیسائیوں سے بھی گفت وشنید کرنے کا موقع ملا‘ ان سے بھی مکالمہ ہوا‘ نجران اس زمانے میں یمن کا ایک شہر تھا اور موجودہ جغرافیے میں یہ سعودی عرب کا ایک شہر ہے‘ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا اور حضور علیہ السلام نے ان سے بھی بات چیت کی۔ چنانچہ حضور علیہ السلام نے اپنے دور میں مشرکین‘ یہودیوں اور عیسائیوں سے جو بات چیت اور مکالمے اور معاہدات کئے‘ یہ تمام چیزیں ہمیں بتاتی ہیں کہ سرکار دو عالم ا نے اس دور میں اگر مکالمے کئے تو جس ضرورت کی بناء پر کئے آج اس ضرورت میں اضافہ تو ہوگا کمی نہیں ہوگی۔ آپ امکہ مکرمہ میں رہتے تھے تو مشرکین سے واسطہ پڑا اور مدینہ طیبہ میں رہتے تھے تو یہودیوں سے واسطہ پڑا تو جیسے میں نے کہا کہ آج دنیا کے کسی ملک میں چلے جائیں وہاں آپ کو دوسرے مذاہب کے ماننے والے ملیں گے اور میں نے عرض کیا کہ کسی ملک میں آپ اکثریت میں ہیں وہ (یعنی غیر مسلم) اقلیت میں ہیں اور کہیں ہم مسلمان اقلیت میں ہیں اور غیر مسلم اکثریت میں ہیں۔
مکالمہ بین المذاہب کی حدود وقیود
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات عرض کردوں کہ جناب نبی کریم انے جو مکالمہ یا ڈائیلاگ کی دعوت دی یا معاہدے کئے ان میں شہری حقوق‘ امن اور مذہبی آزادی کے علاوہ حضور نے
”تعالوا الی کلمة سواء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللہ ولانشرک بہ شیئا ولایتخذ بعضنا بعضا ارباب من دون اللہ“۔
فرما کر واضح کردیا کہ ہمارے ڈائیلاگ کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہوگی‘ ہمارے مکالمے‘ مفاہمت اور بات چیت کی بنیادیں وہ نہیں ہوں گی جو ہماری عقل نے اختراع کی ہیں‘ وہ نہیں ہوں گی جس کو ہمارے دماغ تیار کریں‘ بلکہ ہمارے درمیان مشترکہ چیزیں وہ کہلائیں گی جو آسمانی کتاب اور وحی الٰہی میں ہیں‘ بنیادیں بھی ساتھ بتادیں‘ جو مذہب کی بنیادی تعلیمات ہیں اور حقیقی اور غیر محرف تعلیمات ہیں۔
مکالمہ بین المذاہب کے بارے میں غلط تصورات
آج کے اس دور میں یہ مکالمہ ضروری اس لئے ہوگیا کہ یہاں آپ نے دیکھا کہ پوری دنیا کے لوگ اکٹھے رہ رہے ہیں‘ لیکن اس مکالمہ بین المذاہب کا مقصد کیا ہے؟ ضرورت کیا ہے؟ اس کا تصور کیا ہے؟ پہلے میں ان خیالات اور تصورات کی بات کروں گا جو میں سمجھتا ہوں کہ مکالمہ بین المذاہب کے عنوان سے مطابقت نہیں رکھتے ان کو غلط اور خلاف دین (اسلام) یا خلافِ حقیقت کہہ لیں۔ مثال کے طور پر ایک مطلب مکالمہ بین المذاہب اور انٹرفیتھ ڈائیلاگ کا یہ سمجھا جاتا ہے کہ تمام مذاہب کے اندر جو مشترک چیزیں ہیں ان سب کو یکجا کرکے‘ اکٹھا کرکے ایک نیا مذہب تیار کر لیا جائے‘ گویا مکالمہ بین المذاہب کا مطلب ہوا کہ نئے مذہب کی تیاری‘ اسلام میں‘ یہودیت میں‘ نصرانیت میں‘ اسی طرح باقی قوموں میں جتنی بھی کا من اور مشترک چیزیں ہیں ان تمام کو اکٹھا کیا جائے اور مشترک چیزوں کی بنیاد پر ایک نیا مذہب تیار کر لیا جائے‘ یہ تصور اکبر کا تھا جس پر اس نے ”دین الٰہی“ کے نام سے کام کیا تھا‘ یہ غلط اور اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے یہ کبھی ممکن ہی نہیں ۔ جس نے بھی ایسا کیا اس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے بنیادی چیز توحید ہے‘ اس توحید کے عقیدہ کی بناء پر ہی آپ دیکھیں کتنا اختلاف ہے؟ یہودی کیا نظریہ رکھتے ہیں؟ عیسائی کیا نظریہ رکھتے ہیں؟ اور مسلمان کیا رکھتے ہیں؟ ایک تصور یہ ہے کہ مشترک چیزوں کو بنیاد بنایاجائے اس لئے بعض لوگوں نے کہا کہ اخلاقیات مشترک ہیں ہمارے پاکستان میں بھی اعلیٰ سطح کی شخصیات نے یہ کہا تھا اور خود ہمارے سابق وزیر تعلیم نے بھی کہا تھا جس کو یہ پتہ بھی نہیں تھا کہ قرآن پاک کے پارے تیس ہیں یا چالیس۔ مجھ سے ایک دفعہ وائس آف امریکہ کے پروگرام میں پوچھا گیا کہ پاکستان کی تعلیم کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ تو میں نے کہا کہ تعلیم کا سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کا وزیر تعلیم ہے‘ جو وزیر تعلیم کی بجائے وزیر جہالت کہلائے جانے کے قابل ہے‘ جس کو یہ معلوم نہیں کہ قرآن کے پارے تیس ہیں یا چالیس؟ ان لوگوں کی طرف سے کہا گیا کہ: ہم اسلامیات کا ایسا نصاب بنانا چاہتے ہیں جس میں اخلاقیات ہوں‘ نماز کے مسائل‘ مثلاً: رفع یدین پر اختلاف ہے یا اور چیزوں پر اختلاف ہے؟ تو انہوں نے اس کو بہانہ بنایا یعنی اسلامیات سے نماز نکال دو‘ اذان نکال دو‘ یہ تمام چیزیں اختلافی ہیں اور جو چیزیں اتفاقی ہیں یعنی اخلاقیات‘ مثلاً جھوٹ نہیں بولنا چاہئے‘ خیانت نہیں کرنی چاہئے‘ یہ چیزیں مشترک ہیں‘ نصاب میں صرف ان چیزوں کا ذکر ہونا چاہئے‘ اخلاقیات کو ذکر کردو ‘ عقائد اور نظریات کو نصاب میں سے نکال دو‘ میں سمجھتا ہوں کہ یہی مذہب اسلام کے خلاف سازش ہے‘ اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر ہم لوگ سادہ ہوتے ہیں‘ ہمیں پتہ نہیں چلتا‘ اور سوچتے ہیں کہ بات تو ٹھیک کررہا ہے‘ چلیں جو دین سیکھنا ہے‘ نماز‘ عبادات اور عقیدہ وغیرہ‘ وہ تو بچہ گھر میں سیکھ لے گا اور اسکول میں آئے گا توا سکول میں آکر اس کو توحید کے بنیادی عقیدے کی‘ رسالت کی‘ ختم نبوت کے عقیدے کی ضرورت نہیں ہے اور یہاں تو جناب والا! ا س کو صرف یہ سکھایاجائے کہ ماں کا احترام کرنا ہے‘ باپ کا احترام کرتا ہے‘ سچ بولنا ہے‘ جھوٹ نہیں بولنا‘ اس طرح کی کامن چیزیں جو اخلاقیات ہیں ان کو بنیاد بنایاجائے‘ عقائد ونظریات اور افکار اور فکری چیزوں کو ایک طرف کردیا جائے‘ تو اس لحاظ سے مکالمہ بین المذاہب کا یہ مطلب نہیں اور اگر کوئی یہ مطلب لیتا ہے تو وہ غلط ہے کہ تمام مذاہب کے اندر سے مشترک اور کامن چیزوں کو نکال کر ایک نیا مذہب دے دیا جائے‘ جس پر پوری دنیا اکھٹی ہوجائے۔ دوسرا اس عنوان سے جو غلط مطلب لیا جارہا ہے وہ ہے اتحاد مذاہب یعنی دنیا کے تمام مذاہب صحیح اور برحق ہیں اور انسان جو بھی مذہب اختیار کرلے ‘ وہ ناجی ہوگا‘ نجات پانے والا ہوگا اور یہ ہدایت کے راستے ہیں۔ یاد رکھئے! ہم لوگ اتحاد مذاہب کے نہیں ‘ اتحاد دین کے قائل ہیں‘ ہمارے نزدیک حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی کریم ا تک ایک ہی دین آیا ہے‘ ہم وحدت ادیان کی بات نہیں کرتے‘ ہم وحدت دین کی بات کرتے ہیں یعنی ہمارے نزدیک دین ایک ہی تھا‘ شروع دن سے اسلام اور اس کا آخری اور فائنل ایڈیشن قطعی اور حتمی وہ ہے جو امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ ا لے کر آئے اور باقی سب منسوخ ہیں۔ حضور ا نے فرمایا:” اگر آج حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو میری اتباع کے بغیر ان کو کوئی چارہ نہ ہوتا“۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو میرا کلمہ پڑھیں گے“ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک ہی دین تھا جس کو حضرت آدم علیہ السلام لائے‘ جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام لائے‘ جس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام لائے‘ اب اس دین واحد کی قطعی‘ حتمی ‘ دائمی اور ابدی جو شکل ہے وہ صرف شریعت محمدی ا ہے۔ لہذا یہ عنوان اور یہ کہنا کہ تمام مذاہب ٹھیک ہیں اور اس بین المذاہب ہم آہنگی کا یہ مطلب لینا جو میں نے عرض کیا کہ: ایک مطلب ہے کہ نیا مذہب تیار کرنا جس کو آپ عنوان ”اشتراک فی المذاہب“ کا بھی دے سکتے ہیں‘ مشترکہ مذہب کا بھی دے سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اتحاد مذاہب کی بات کرنا کہ تمام مذاہب ایک ہیں۔ پشاور میں ایک کانفرنس میں شرکت کرنے کا موقع ملا ‘ اس میں مختلف مذاہب کے لوگ بھی تھے‘ تو اس میں ایک ہندو رہنما نے اور اس کے بعد ایک سکھ رہنما نے اپنی گفتگو میں اپنی کتابوں کے وہ حوالے دینا شروع کردیے کہ آپ کے ہاں نماز کا تصور ہے‘ ہمارے ہاں بھی نماز کا تصور ہے‘ آپ کے ہاں روزہ کا تصور ہے ہمارے ہاں بھی روزہ کا تصور ہے اس کے بعد میں نے تقریر کی تو میں نے کہا کہ یہ باتیں موضوع کے خلاف ہیں اور نہ یہ اسلام کے اصولوں سے ہم آہنگ ہیں‘ ہم اسلام کو جو حضور علیہ السلام لے کر آئے ہیں اس کو آخری اور قطعی شکل سمجھتے ہیں ”اتحاد فی المذاہب“ یا ”اشتراک فی المذاہب“ یہ مذہبی ہم آہنگی کا معنی نہیں ہے‘ مکالمہ بین المذاہب نہیں ہے ۔
مکالمہ بین المذاہب کا مطلب
میں کہتاہوں کہ ایک تو پیش نظر رہے کہ یہ مذاہب کے درمیان ڈائیلاگ نہیں ہے‘ بلکہ مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ڈائیلاگ ہے‘ یہ مکالمہ بین المذاہب نہیں‘ بلکہ بین اہل المذاہب ہے۔ اب میں اس تفصیل میں نہیں جاتا کہ مذاہب میں مکالمے کا کیا مطلب ہے؟ یا بین اہل المذاہب کے درمیان مکالمے کا کیا مطلب ہے؟ آپ ماشاء اللہ سارے اہل علم ہیں‘ جانتے ہیں ۔ مختصراً یہ کہ مذاہب کے درمیان مکالمے کی بات یہ ہوگی کہ ہم مذہبوں کو اکٹھا کرلیں اور مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان گفتگو کا مطلب یہ ہے کہ ہم پُر امن بقائے باہمی ”جیو اور جینے دو“ کے فارمولے پر آپس میں گفتگو کرتے ہیں‘ جس طرح ایک محلے میں‘ ایک ملک کے لوگ ‘ ایک گاؤں کے لوگ‘ ایک خاندان کے لوگوں کا کوئی تنازع پیدا ہوجائے ‘ کوئی خطرہ سامنے آجائے‘ جھگڑا ہو یا خطرہ ہو تو بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں ‘ جھگڑے کو ختم کرنے یا خطرے سے بچنے کے لئے‘ اس کا مقصد پُرامن بقائے باہمی ”جیو اور جینے دو“ ہوتا ہے۔ یہ مطلب ہے مکالمہ بین المذاہب کا اور اس معنی کے اعتبار سے یہ آج کی ضرورت ہے۔
ایک مکالمہ بین المذاہب کی مثال
ناروے کے شہر اوسلو میں آج سے کئی سال پہلے ہمارا ایک وفد گیا ہواتھا اور وفد کے دورے کا بنیادی مقصد مدارس کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا تھا۔ اتفاق سے اس وقت پاکستان سے دو بشپ (پادری) بھی ”اوسلو“ گئے ہوئے تھے‘ ایک دفتر میں ان سے اتفاقیہ ملاقات ہوگئی‘ تعارف کے بعد گفتگو شروع ہوگئی‘ ملاقات اور گفتگو کا پہلے سے نہ تو کوئی پروگرام تھا اور نہ ہی کوئی طے شدہ ایجنڈا‘ دنیا کے حالات اور پاکستان پر بات ہوتی رہی‘ دوران گفتگو یہ بات بھی ہوئی کہ ہمارے جو تنازعات یا مسائل ہیں‘ ان کو گفت وشنید سے حل کرنا چاہئے۔ سڑکوں پر وہ مسائل حل ہونے والے نہیں‘ نہ کرنے چاہئیں‘ مثال کے طور پر ہم نے ان کے سامنے یہ بات ررکھی کہ پاکستان میں جو ”انسداد توہین رسالت“ کا قانون ہے اس قانون کے خلاف آپ جلسے اور جلوس کرتے ہیں‘ قرار دادیں اور ریزولیشن پاس کرتے ہیں کہ یہ جو قانون ہے اس کو ختم کرنا چاہئے‘ حضور علیہ السلام کی گستاخی پر سزائے موت کا قانون ہے اس پر آپ کی طرف سے احتجاج اور اس کو ختم کرنے کی آوازیں‘ صدائیں اور قرار دادیں منظور ہوتی ہیں۔ ہم آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کو اس پر کیا اشکال ہوتا ہے‘ آپ کہتے ہیں کہ: پاکستان میں یہ قانون اقلیتوں کو دبانے کے لئے بنایاگیا ہے‘ ہمیں اتفاق نہیں‘ یہ قانون آ پ کو دبانے ‘ آپ کو اذیت دینے‘ آپ کو تکلیف دینے‘ آپ پر جارحیت کے لئے نہیں ہے‘ بلکہ یہ تکلیف سے بچنے کے لئے ہے‘ یہ تکلیف دینے کے لئے نہیں‘ بلکہ تکلیف سے بچنے کے لئے ہے۔ دوسری بات یہ بھی کہ یہ قانون صرف نبی کریم ا کی گستاخی پر سزائے موت کا نہیں ہے ‘ بلکہ یہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ایک لاکھ تئیس ہزار نو سوننانوے نبی اور پیغمبر جو آئے ہیں ہرایک نبی اور پیغمبر کی عزت کو ہم اپنا ایمان سمجھتے ہیں‘ کسی ایک نبی کی بھی اگر توہین ہو تو ہم اس کی توہین کو اتنا ہی جرم سمجھتے ہیں جتنا کہ حضور علیہ السلام کی‘ تو جس طرح گستاخ رسول ا کی سزا قتل ہے‘ موت ہے‘ پھانسی ہے‘ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جو گستاخی کرے گا اس کے لئے بھی یہی سزا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ: کیا آپ توہین کی‘ انسلٹ کی اجازت دیں گے‘ کیا دنیا کا کوئی مہذب معاشرہ یاقانون اورر آئین کسی کی توہین کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ عام انسان کی انسلٹ کی اجازت نہیں دیتا‘ چہ جائیکہ جو ایمان اور عقیدت کا مرکز ہو‘ اس کی توہین کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے اور ایسے قوانین دنیا کے اور ملکوں میں بھی ہیں‘ حالانکہ وہ سیکولر ملک کہلاتے ہیں‘ یورپ کے بعض ملکوں میں بھی ہیں۔ برطانیہ میں بھی ایک دفعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین پر ایک شخص کو سزائے موت سنائی گئی ہے‘ اس لئے کیا آپ کہتے ہیں کہ توہین کا دروازہ کھلا رہے؟ اور یہ فرق بھی ہونا چاہئے کہ توہین اورر چیز ہے اور اظہار رائے کی آزادی اور چیز ہے‘ فریڈم آف سپیچ‘ آزائ اظہار رائے اور تحریر کی آزادی اور چیز ہے اور کسی کی توہین کرنا اور چیز ہے۔ آپ بتایئے کہ اگر پاکستان میں توہین رسالت کا قانون بالکل ختم ہوجائے اور کوئی شخص حضور علیہ السلام کی توہین کرے تو کیا وہ زندہ رہے گا‘ قانون نہ بھی ہو تو کیا مسلمان یہ برداشت کریں گے؟ وہ تو فوراً خود یہ فیصلہ کریں گے اور یہ قانون تو وہ ہے کہ جو غیر مسلموں کو تحفظ دیتا ہے کہ اگر کسی پر یہ الزام لگا ہے یا اس کے الفاظ کا یہ مطلب نہیں نکلتا تو وہ عدالت جائے گا‘ کورٹ جائے گا‘ بحث ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہو‘ جرم نہ ہو تو قانون ا س کو بری کردے گا۔ اگر اس قانون کو ہٹا دیں گے تو اور زیادہ نقصان ہوگا۔ قانون رہنے سے تو فائدہ ہے اور یہ توہین کا راستہ روکنے کے لئے ہے اور کیا آپ اس بات پر راضی ہوں گے کہ تو ہین کی اجازت دے دی جائے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ بڑی بحث وتمحیص کے بعد انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ہمیں اس قانون پر کوئی اعتراض نہیں‘ قانون کے غلط استعمال پر ہمارا اشکال ہے کہ ہوتی ذاتی دشمنی ہے‘ کارو باری دشمنی ہے‘ وہ جناب اس پر 295/Cلگادیتا ہے کہ اس نے حضور علیہ السلام کی توہین کی ہے۔ ہم نے انہیں یہ بھی بتایا کہ اس قانون کی زد میں آنے والوں کے خلاف مقدمات کا آپ پاکستان میں سروے کریں تو غیر مسلموں کے خلاف کم ہوں گے اور اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والوں کے خلاف زیادہ ہوں گے‘ اس لئے صرف یہ آپ کے خلاف نہیں ہے‘ بلکہ جو بھی توہین کرے خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان یہ اس کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا استعمال غلط ہورہا ہے۔ ہم نے کہا: آپ اس بات کو مانیں کہ قانون صحیح ہے‘ جہاں تک غلط استعمال کا تعلق ہے تو ہم اس پر بات چیت کرتے ہیں۔ کسی بھی قانون کا غلط استعمال اس قانون کو غلط نہیں بنادیتا۔ ہمارے ملک میں دفعہ ۳۰۲ قتل کا قانون ہے‘ کیا یہ غلط استعمال نہیں ہوتا؟ کیا اس کی وجہ سے دفعہ ۳۰۲ کا قانون ختم کردیا گیا ہے‘ ہم نے تحفظ حقوق نسواں بل پر بھی مہم چلائی تھی اور کہا تھا کہ یہ بل قرآن کے خلاف ‘ سنت کے خلاف‘ عورتوں کے حقوق کے خلاف ہے‘ جو قانون آپ لارہے ہیں یہ عقل کے بھی خلاف ہے اور صرف یہ کہتے ہوئے اس کو غلط قرار دینا کہ پولیس والے کہتے ہیں کہ بتاؤ ہم اس کا پرچہ زنا بالجبر میں درج کریں یا زنا بالرضا میں‘ حدود میں لکھیں یا تعزیر میں؟ تو ہم نے کہا کہ: پولیس کے غلط استعمال سے قانون کیسے غلط ہوگیا‘ کتنے قانون ہیں کہ پولیس غلط استعمال کرتی ہے‘ قانون کے غلط استعمال کو روکا جائے‘ قانون کو ختم کرنا یہ کوئی دانش مندی نہیں‘ لہذا آپ اس قانون کو صحیح مانیں‘ البتہ اگر اس کا کہیں غلط استعمال ہے تو اس پر بیٹھ کر بات ہوسکتی ہے‘ ہم بھی اتفاق کریں گے کہ کسی بھی بے گناہ شخص کے اوپر ایسا الزام لگ جائے تو اس کو سزا نہیں ملنی چاہئے۔ تو اس طرح کے ایشوز میں اور تنازعات میں بین المذاہب ہم آہنگی کا یہ مطلب ہے کہ جو تنازعات یا خطرات ہیں ان کو بیٹھ کر گفت وشنید سے حل کیا جائے اور اس کا نام ہے ”پر امن بقائے باہمی“ ”جیو اور جینے دو“ یہ ہے اس کا مقصد‘ اس کا مقصد مذاہب کے درمیان اتحاد ثابت کرنا ‘ نیا مذہب تیار کرنا‘ مذہبوں کے حق ہونے کے سرٹیفکیٹ دینا‘ اتحاد مذاہب کی بات کرنا‘ یہ بالکل نہیں ہے۔ حوبھی یہ مطلب لیتا ہے‘ وہ غلط سوچتا ہے۔ عدم برداشت مسلم معاشروں میں ہے یا غیر مسلم معاشروں میں؟ مجھے ایک سیمینار میں بیرون ملک جانا ہوا اور اس کا عنوان تھا: ”مسلم معاشروں میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے رجحانات ‘ اسباب اور سدباب“ کہ مسلم معاشروں میں جو عدم برداشت کا رجحان بڑھ رہا ہے اس کو کیسے کنٹرول کیا جائے اور اس کے اسباب کیا ہیں؟ تو میں نے اپنی گفتگوکا آغاز یہاں سے کیا کہ مجھے آپ کے اس عنوان سے اختلاف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے یہ طے کرلیا کہ عدم برداشت مسلم معاشروں میں ہے ‘ اس کو کیسے روکنا ہے؟ حالانکہ یہ دعویٰ درست نہیں ہے‘ حقائق کی روشنی میں دیکھنا ہوگا کہ مسلم معاشروں میں عدم برداشت زیادہ ہے یا غیر مسلم معاشروں میں عدم برداشت زیادہ ہے؟ آپ عنوان زمینی حقائئق کے مطابق تجویز کریں۔ میں نے کہا کہ میں دلائل سے بات کرتا ہوں‘ آپ دیکھیں کہ چین میں اس وقت مسلمانوں کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟ چیچنیا میں مسلمانوں کی اس وقت کیا صورت حال ہے؟ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے پہلے مسلمان کن مظالم کا شکار رہے ہیں؟ اور آج بھی تھائی لینڈ ‘ فلپائن اوربرما میں مسلم آبادی کن عدم برداشت کے رجحانات کا شکار ہے اور ہندوستان میں کتنے مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے؟ غیر مسلم معاشروں کو عدم برداشت کے بہت سارے جذبات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بوسنیا اور چیچنیا کے لاکھوں مسلمان مذہبی عدم برداشت کا شکار بنے ‘ آج افغانستان میں صورت حال دیکھئے ‘ کشمیر اور فلسطین میں دیکھیں‘ پوری دنیا میں اگر خون بہہ رہا ہے تو مسلمان کا خون بہہ رہا ہے‘ عدم برداشت سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اگر عدم برداشت سے آپ کی مراد یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں مسلم سوسائٹیوں اور معاشروں میں غیر مسلموں کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں، تو میں نے کہا کہ یہ بالکل غلط ہے۔ ہمارے مسلمان ملکوں میں بڑے بڑے کاروبار غیر مسلموں کے ہیں‘ان کو پوری طرح آزادانہ کاروبار ‘ تجارت اور خریدوفروخت کی اجازت ہے‘ ان کو وہاں پراپرٹی خریدنے اور ملکیت حاصل کرنے کے پورے حقوق حاصل ہیں‘ اگر عدم برداشت ہوتا تو کیا پھر کاروبارکرنے کی اجازت کوئی دیتا؟ غیر مسلم پراپرٹی لے سکتا؟ خرید وفروخت کرسکتا؟ ان کو آزادی حاصل ہے‘ ان کو آنے جانے کی آزادی حاصل ہے‘ بلکہ میں نے کہا انہیں اتنی آزادی حاصل ہے جتنی ہمیں حاصل نہیں ہے‘ ہمیں تو آپ کے ملک ویزے نہیں دیتے، جب کہ ہم نیشنلٹی دینے کو تیار ہیں۔ آپ بتایئے! آج تک کسی غیر مسلم مذہبی پیشوا کو پاکستان یا سعودی عرب نے ویزہ دینے سے انکار کیا ہے؟اور کتنے مسلمان علماء ہیں جن کو امریکہ نے ویزہ نہیں دیا‘ یورپ کے ملکوں نے ویزے نہیں دیئے‘ تاجروں کو نہیں دیئے۔ عدم برداشت ہماری طرف سے ہے یا ان کی طرف سے؟ ان کو تو آزادانہ آمد ورفت کی سہولتیں حاصل ہیں، جہاں آئیں جائیں ان پرکوئی پابندی نہیں اور مذہبی تعلیم پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔ آ پ بتایئے! کہ پاکستان میں عیسائیوں کے اسکول ہیں یا نہیں؟یونیورسٹیاں‘ کالج اور ادارے آزادی کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ اور انہیں اپنے پیروکاروں کو مذہبی تعلیم دینے کی اجازت ہے اور اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کی اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ حیثیت حاصل ہے‘ چرچوں اور مندروں میں ہرطرح کی اجازت حاصل ہے اور یہاں تو اقلیتوں کو زیادہ حقوق دیئے گئے ہیں (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , محرم الحرام ۱۴۲۹ھ فروری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: قولِ مقبول فی حجة حدیث رسول
Flag Counter