Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

9 - 14
تفردات کے نقصانات
تفردات کے نقصانات


قارئین کرام! یہ چند سطور آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں جن میں جمہور امت کی رائے کے برعکس راہِ تفردات اختیار کرنے کی مذمت بیان کی گئی ہے‘ کیونکہ ہم جیسے لوگوں کے لئے سلف صالحین کی پیروی کرنا اور جمہور امت کا اتباع کرنا ایک سلامتی کی راہ ہے‘ جس میں کسی قسم کا خطرہ نہیں ۔ کسی بھی مسئلہ میں اکابر سلف ِ صالحین کی راہ سے ہٹ جانا اور بزرگانِ دین سے کٹ کر رہ جانا کسی بڑے خطرے اور فتنے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے‘ لہذا ہم جیسے اصاغر کے لئے تفردات کی پُرخار وادی میں قدم نہ رکھنا ہی مناسب ہے‘ واضح رہے بندہ عاجز کا روئے سخن عصر حاضر کے اہل علم کی طرف ہے‘ جہاں تک ادوارِ سابقہ کے اہلِ علم کے تفردات کا تعلق ہے تو وہ قطعاً میری گذارشات سے مستثنیٰ ہیں:
اولاً: اس لئے کہ وہ عالم دنیا سے عالم قبر وبرزخ میں پہنچ چکے ہیں‘ لہذا ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کی شان کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے۔
ثانیاً:اس لئے کہ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد صرف ان کی کتابیں ہیں‘ جن سے اکا دکا تفرد محسوس ہوتا ہے‘ لیکن ان کی عبارات میں کئی احتمال ہیں‘ لہذا بندہ عاجز ایسے اہل علم کے حق میں حسن ظن رکھتا ہے اور اپنے طالبعلم بھائیوں کو بھی حسن ظن کی تلقین کرتا ہے‘ کیونکہ دنیا سے رفتگان کے متعلق یہی سلامتی کی راہ ہے‘ معاف رکھنا! میری مراد علماء اہل السنة والجماعت ہیں‘ ناکہ مرزا غلام احمد قادیانی جیسے داعیان ضلالت ! یہ وضاحت اس لئے میں نے ضروری سمجھی کہ میرا روئے سخن ادوار سابقہ کے علماء کی طرف نہیں ہے‘ تاکہ عصرِ حاضر کا کوئی تفرد وتجدد پسند شخص گذشتہ اہل علم کو بیچ میں لاکر اپنے تفرد کو تحفظ دینے کی کوشش نہ کرے۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد اب تفردات کے نقصانات ملاحظہ فرمایئے:
۱-: دنیا میں جتنے فرقے معرضِ وجود میں آئے ہیں ان سب کی بنیاد کسی نہ کسی اہل علم کے تفرد پر ہے‘ جس کو فرقہ پسند لوگوں نے ہاتھ میں لے کر ایک نئے فرقے کی داغ بیل ڈال لی ہے‘ لہذا کسی بھی مسئلہ میں راہ تفرد اختیار نہ کی جائے‘ تاکہ یہ تفرد جلد یا بدیر کسی فرقہ کا سبب نہ بنے۔ راہ ِ تفرد اختیار کرنا گویا باطل پرستوں کو ہتھیار مہیا کرنا ہے‘ لہذا تفردات سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
۲:- تفردات کی راہ پر چلنے کی وجہ سے سلف بیزاری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور سلف بیزاری بعض اوقات خطرناک صورت بھی اختیار کرلیتی ہے‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سلف صالحین کی راہ کو صراط مستقیم قرار دیا ہے‘ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”صراط الذین انعمت علیہم “
لہذا ایسے راستے پر مت چلنا چاہئے جو سلف بیزاری کا باعث بنتا ہو۔
۳:- آدمی بعض اوقات تفردات اختیار کرتے کرتے عملی یا ذہنی طور پر جلد یا بدیر غیر مقلد بن جاتاہے اور ترک تقلید کے بھیانک انجام آئے دن لوگوں کے سامنے آرہے ہیں‘ حتی کہ خود علمائے اہلحدیث بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ترک تقلید الحاد وزندقہ کی دہلیز ہے لہذا جس کام سے غیر مقلدیت کی طرف رجحان پیدا ہو وہ ترک کے قابل ہے۔
۴:- جب کوئی شخص کسی غیر اہم مسئلہ میں راہ تفرد اختیار کرتا ہے تو لازماً وہ اپنے تفرد میں غلو کا شکار ہوجاتاہے‘ حتی کہ ہر جگہ اپنے تفرد کا پرچار کرتا نظر آتاہے اور اس پر مناظر ے اورمباحثے کرتا ہے‘ اس کی اس شدت کی وجہ سے وہ غیر اہم مسئلہ‘ ایک گونہ اہمیت اختیار کرلیتا ہے‘ جب کہ شریعت کا مزاج یہ ہے کہ ہر مسئلے کو اپنے مقام اور اپنی حیثیت پر رکھا جائے‘ اس میں افراط وتفریط نہ کی جائے‘ چونکہ تفرد کی وجہ سے مسئلے کی اصل حیثیت برقرار نہیں رہتی‘ لہذا تفرد اختیار نہیں کرنا چاہئے۔
۵:- جب کوئی شخص بزرگان دین کی راہ سے ہٹ کر راہِ تفرد اختیار کرتا ہے ابتداءً چند دنً تو ان اکابر کا احترام کرتا ہے‘ جن کی راہ کو چھوڑ دیا‘ لیکن آگے چل کر اس کا تفرد ایک ایسی صورت اختیار کرلیتاہے کہ صاحبِ تفرد ان اکابر کے حق میں سوءِ ظن کا شکار ہو جاتاہے اور بعض اوقات ان اکابر کے حق میں توہین آمیز کلمات استعمال کرتاہے اور یہ بات اس کے لئے ناگزیر بن جاتی ہے‘ کیونکہ لوگ اسے یہ طعنہ دیتے ہیں کہ: تیری رائے تو یہ ہے‘ بزرگ تو یوں کہتے ہیں۔ اس بے چارے کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں ہوتا تو وہ مجبوراً اکابر کا وزن گرانے کی کوشش کرتا ہے اور ان کی رائے کو غلط قرار دیتا ہے اور ان کے حق میں نازیبا الفاظ کہہ دیتا ہے۔ واضح رہے کہ بزرگانِ دین کے حق میں سوءِ ظن خود صاحبِ تفرد میں پیدا ہوجاتاہے‘ اگر بالفرض وہ اس سے بچ بھی نکلے تو اس کے تفردات کے پیروکار یقیناً اس کا شکار ہو ہی جاتے ہیں۔
۶:- بعض اوقات راہِ تفرد اختیار کرنے والے کو تفردات میں پڑنے کی عادت پڑجاتی ہے‘ وہ ایک تفرد سے دوسرا پھر تیسرا تفرد اختیار کرتا چلاجاتا ہے‘ حتی کہ درجنوں مسائل میں تفردات اختیار کرلیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک تفرد بھی کہیں جاکر نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے تو نہ معلوم یہ درجنوں تفردات کتنا نقصان کر ڈالیں گے‘ لہذا ایسی راہ اختیار ہی نہیں کرنی چاہئے۔
۷:- بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شروع شروع میں راہ تفرد اختیار کرنے والا معمولی اور غیر اہم مسائل میں جمہور امت سے ایک جداگانہ رائے اختیار کر لیتا ہے‘ پھر جب اسے تفردات کی راہ اختیار کرنے کی عادت پڑجاتی ہے تو وہ غیر اہم مسائل سے نکل کر اہم اور اجماعی مسائل میں بھی تفرد کرنے لگ جاتاہے اور اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ اجماع امت ایک شرعی حجت ہے‘ جس کی خلاف ورزی کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اجماع امت کے خلاف رائے قائم کرنا اور اجماع کا انکار کرنا کتنا سنگین جرم ہے‘ حتی کہ بعض علماء اسلام اجماع کے انکار کو کفر قرار دیتے ہیں۔
۸:- ایک شخص اہل علم ہے اور قرآن وحدیث کے علوم میں پوری پوری مہارت رکھتا ہے‘ اس کی لیاقت ‘دیانت اور اہلیت بھی مسلمہ ہے‘ اگر ایسا اہل علم کسی غیر اہم مسئلہ میں تفرد اختیار کرلیتاہے تو اس کے تفرد کو دیکھ کر ہر آدمی جو اس جیسی اہلیت وعلمیت نہیں رکھتا‘ وہ بھی مسائلِ شرعیہ میں رائے ظنی کرنے لگتاہے اور تفردات میں پڑنا شروع ہو جاتاہے ۔ لہذا اہل علم حضرات کی خدمت میں گذارش ہے کہ جمہور امت کی رائے کا احترام کریں اور اسی پر قائم رہیں کسی بھی مسئلہ میں راہ تفرد اختیار نہ کریں‘ تاکہ کم علم اور نااہل لوگوں کو ان کے تفرد سے حجت پکڑنے کا موقع ہاتھ نہ آئے۔
۹:- راہ تفرد اختیار کرنے والا شخص دن رات اسی فکر میں رہتا ہے کہ میرے تفرد کو جمہور امت کی رائے پر فوقیت اور برتری حاصل ہوجائے اور ایسی برتری کہ میرا تفرد برحق نظر آنے لگے اور جمہور امت کی رائے ناحق بن کر رہ جائے۔ ظاہر ہے کہ اپنے تفرد کو یہ رنگ دینا کہ وہ حق اور جمہور امت کی رائے ناحق بن جائے‘ کسی منصف مزاج کے نزدیک یہ اقدام صحیح نہ ہوگا۔
۱۰:- صاحب تفرد اپنے تفرد کو قرآن وحدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور علماء اسلام کی عبارات سے بھی وہ مطلب کشید کرتا ہے جس سے اس کے تفرد کو تقویت حاصل ہو‘ حالانکہ اس کے تفرد کی کوئی دلیل نہیں ہوتی ‘ بلکہ وہ زبردستی اپنے تفرد کے لئے دلائل خود گھڑتاہے اور یہ طریقہ استدلال اہل علم کے ہاں مردود ہے کہ اولاً اپنے ذہن سے مسئلہ بنایاجائے ‘پھر اس کے متعلق دلائل بنائے جائیں۔ علماء اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ وہ قرآن وحدیث سے مسائل کا استنباط کرتے ہیں یعنی وہ قرآن کریم اور حدیث نبوی کو اصل قرار دیتے ہیں جب کہ بے راہ لوگ اپنے مسئلہ کو‘ اپنے عقیدے کو اصل بناکر قرآن وحدیث کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں‘ عموماً ہرراہ تفرد اختیار کرنے والا اس بے راہ روی میں مبتلا نظر آتا ہے۔
۱۱:- جب کوئی شخص کسی مسئلہ میں تفرد اختیار کرلیتا ہے تو اس کو قرآن وحدیث میں موجود ایسے دلائل نظر آتے ہیں جو اس کے تفرد کے بالکل موافق نہیں ہوتے‘ اب ایسا شخص قرآن وحدیث کی تاویلات باطلہ کرنے پر مجبور ہوجاتاہے‘ تاکہ قرآن مجید کی کوئی آیت اور حضور اکرم ا کی کوئی حدیث اس کے تفرد کے ناموافق نہ رہے‘ بلکہ تاویلات باطلہ کی بھینٹ چڑھ کر اس کے تفرد کے موافق نظر آنے لگے جب کہ قرآن وحدیث میں نا روا تاویلات کرنا اہل حق کا شیوہ نہیں ‘ بلکہ ہوا پرستوں کا وطیرہ ہے۔
۱۲:- یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ تفرد ہمیشہ امت مسلمہ کے حق میں سود مند ثابت نہیں ہوا‘ بلکہ نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔
۱۳:- جمہور علماء اسلام کا فیصلہ ہے کہ تفرد چاہے کسی بڑے سے بڑے آدمی کا کیوں نہ ہو‘ اسے نہیں اپنانا چاہیئے‘ بلکہ اتباع جمہور ضروری ہے‘ چنانچہ حضرت اقدس مفتی رشید احمد لدھیانوی فرماتے ہیں:
”علاوہ ازیں یہ امر مسلم ہے کہ کوئی کتنا ہی بڑا محقق جمہور کے خلاف قول کرے تو اس کا اتباع جائز نہیں‘ مسلک جمہور ہی واجب الاتباع ہے‘ جب دائرہ مذہب کے اندر بھی جمہور کے خلاف‘ قول کا اتباع ممنوع ہے تو خلاف مذہب قول کا اتباع بطریق اولیٰ ناجائز ہوگا‘ چنانچہ محقق ابن الہمام مجتہد فی المذہب ہیں‘ آپ کا مقام تفقہ صرف مشائخ احناف ہی نہیں‘ بلکہ پورے عالم اسلام میں مسلم ہے‘ مع ہذا یہ بھی مسلمات میں سے ہے کہ آپ کی جو تحقیقات خلاف مذہب ہیں‘ ان کا اتباع جائز نہیں“۔ (شرح عقود رسم المفتی ص:۲۵‘ احسن الفتاویٰ ج:۴‘ ص:۱۷۷‘ مطبوعہ ۱۴۰۳ء)
معلوم ہوا تفرد چاہے کتنے بڑے آدمی کا ہو‘ اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے‘ بلکہ اتباع جمہو ر لازم ہے‘ لہذا تفرد کرنا ایک بے سود کام ہے۔
۱۴:- تفردات جب اپنی حدود سے نکل جاتے ہیں تو امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔
۱۵:- علماء حق کے قلوب میں ایک دوسرے کی محبت ہوتی ہے جس کی وجہ سے اکرام واحترام کی فضا بن جاتی ہے‘ لیکن جب کسی کا تفرد شہرت پکڑ لیتا ہے اور اس پرچہ میگوئیاں شروع ہوتی ہیں تو وہ پر خلوص محبت برقرار نہیں رہتی‘ بلکہ اس میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور بعض اوقات محبتوں کی جگہ نفرتیں جڑ پکڑ لیتی ہیں۔ لہذا جو چیز نفرتوں کا باعث بنے‘ اس سے اجتناب لازم ہے۔
بندہ عاجز گذارش کرتا ہے کہ سلف صالحین میں سے کسی بزرگ کے تفرد کو اپنے تفردات کے لئے نہ تو سند جواز بنایا جائے اور نہ ہی اس بزرگ کے متعلق سوءِ ظن رکھا جائے‘ کیونکہ میرے مخاطب اس زمانہ کے اہل علم ہیں یا پھر آنے والی نسلیں! میری گذارش کا خلاصہ یہ ہے کہ:” گذشتہ را صلوات آئندہ را احتیاط“ بندہ عاجز اہل علم اور اصحاب تحقیق سے پُر امید ہے کہ وہ میری ان گذارشات پر خفا نہ ہوں گے‘ بلکہ سنجیدگی سے ان میں غور فرمائیں گے۔ اگر میری ان تجاویز میں کسی قسم کی غلطی واقع ہوئی ہو تو اہل حق حضرات ضرور میری اصلاح فرمائیں۔ بندہ عاجز یقین دہانی کراتاہے کہ اہل علم حضرات کی ہر اصلاح کو خندہ پیشانی سے قبول کیا جائے گا اور ساتھ ساتھ ان کا شکر گذار بھی ہوگا۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جمہور امت‘ سلف صالحین اور اکابر بزرگان دین کی سچی پیروی نصیب فرمائے اور انہی کے نقش قدم پر چل کر کتاب وسنت ‘ اجماع امت اور قیاس شرعی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہرقسم کی بے راہ روی‘ ذہنی آوارہ گردی اور اسلاف بیزاری سے محفوظ رکھے۔اٰمین
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: قرآن حکیم کی تین ہدایات 
Flag Counter