Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

1 - 14
مسائل حج کے موضوع پرخالص علمی و تحقیقی اجتماع کا انعقاد
مسائل حج کے موضوع پر خالص علمی و تحقیقی اجتماع کا انعقاد! لائق صد تحسین تجدیدی کارنامہ

الحمدللہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
تبدیل ہوتے جغرافیوں‘ پھیلتی آبادیوں‘ بڑھتے شہروں اور سمٹتے فاصلوں سے جہاں بہت ساری سہولتیں پیدا ہورہی ہیں‘ وہاں اس سے کئی ایک مشکلات بھی پیش آرہی ہیں‘ اگر کسی دور میں بادبانی کشتیوں اور بحری جہازوں کا صبر آزما اور تھکادینے ولا سفر تھا‘ تو امن و امان‘ ویزہ اور سفری دستاویزات کی مشکلات و پابندیاں بھی نہیں تھیں‘ آج اگر ہوائی جہاز اور تیز رفتار گاڑیاں سفری سہولتیں فراہم کررہی ہیں تو کئی ایک دوسری مشکلات و خطرات بھی منہ کھولے کھڑے ہیں۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ حج اور مسائلِ حج کے سلسلہ میں بھی درپیش ہے‘ چنانچہ مکہ مکرمہ کی آبادی کے پھیلاؤ اور منیٰ تک اس کی وسعت سے یہ معاملہ زیر بحث آنے لگا کہ اب منیٰ مکہ مکرمہ کا حصہ اور اس کا محلہ بن چکا ہے یا حسبِ سابق وہ مکہ مکرمہ سے الگ ہے؟ اگر منیٰ مکہ مکرمہ کا ایک محلہ ہے تو جو حاجی ایام حج سے قبل مکہ مکرمہ پہنچے ہوں اور منیٰ جانے تک ان کے قیامِ مکہ مکرمہ کے پندرہ دن پورے نہیں ہوئے‘ وہ مقیم شمار ہوں گے یا مسافر؟ اسی طرح موجودہ ازدحام اور کثرت حجاج کے باعث دس ذوالحجہ کے اعمال: رمی‘ ذبح اور حلق میں حسبِ سابق ترتیب لازم ہے یا اس میں کسی تخفیف کی گنجائش ہے؟ اگر اس میں تخفیف ہوسکتی ہے تو بذریعہ بینک حجاج کے لئے قربانی کرانے کی اجازت ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں ہندوپاک اور بنگلہ دیش کے علاوہ پوری دنیا سے تعلق رکھنے والے حنفی حجاج‘ ذہنی کشمکش اور اضطراب کا شکار تھے‘ چنانچہ ہندوپاک کے علماء کرام میں سے ایک جماعت نے اپنی تحقیق اور مشاہدہ کی رو سے یہ قرار دیا کہ منیٰ‘ مکہ مکرمہ سے متصل ہونے کی وجہ سے ‘اب مکہ مکرمہ کا ایک محلہ ہے‘ لہٰذا جن حجاج کرام کا مکہ مکرمہ اور منیٰ کا مجموعی قیام پندرہ دن کا ہو‘ وہ مقیم ہیں۔ اس کے برعکس علماء کی ایک جماعت اور اربابِ فتویٰ کا موقف یہ تھا کہ منیٰ کی اپنی ایک مستقل حیثیت ہے اوروہ اب بھی حسبِ سابق مکہ مکرمہ سے الگ ہے‘ اس لئے منیٰ نہ تو مکہ مکرمہ کا محلہ ہے اور نہ اس کی فنا ہے‘ لہٰذا جن حضرات کا منیٰ جانے سے قبل مکہ مکرمہ کا قیام پندرہ دن سے کم ہو‘ وہ مسافر ہیں۔ چنانچہ جو حضرات منیٰ کو مکہ مکرمہ کا حصہ اور محلہ سمجھتے تھے‘ انہوں نے اس پر ایک فتویٰ مرتب کیا اور اس پر مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے علاوہ جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد‘ مظاہر علوم سہارنپور‘ دارالعلوم دیوبندکے ایک استاذ‘ باب العلوم کہروڑپکا کے شیخ الحدیث مولانا عبدالمجید‘ دارالعلوم کراچی اور جامعہ اشرفیہ لاہور کے ارباب ِفتویٰ کے تائیدی دستخط ثبت تھے‘ جبکہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن ‘ جامعہ اسلامیہ راولپنڈی‘ مدرسہ عثمانیہ پشاور اور جامعة الرشید کراچی کے حضرات کی رائے اور فتویٰ اس سے مختلف تھا۔ اس اختلاف و انتشار کی کیفیت سے نجات دلانے اور کسی ایک متفقہ موقف پر امت کو جمع کرنے کے لئے حسبِ سابق جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے اربابِ حل و عقد نے انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے اربابِ تحقیق اور اصحاب فتویٰ کا ایک اجتماع منعقد کرنے کا پروگرام بنایا‘ چنانچہ اس موقع پر جامعہ علوم اسلامیہ کے مدیر حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کی جانب سے اندرون و بیرون ملک کے چیدہ چیدہ اہلِ تحقیق کے نام درج ذیل دعوت نامہ جاری کیا گیا:
”بخدمت جناب ……………………… زید مجدکم
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ‘
ہر سال حج کے موقع پر حنفی حجاج کے درمیان مختلف مسائل زیر بحث رہتے ہیں‘ جن میں سے تین مسائل اہم ہیں:
۱:… منیٰ‘ عرفات اور مزدلفہ میں قصر ہے یا اتمام؟
۲:… ۱۰/ ذو الحجہ کے دن رمی‘ قربانی اور حلق میں ترتیب کی رعایت اب بھی ضروری ہے‘ جیسے کہ ہمارے متون میں تصریح ہے یا کہ اب ازدحام کی وجہ سے اس میں رعایت دی جائے گی؟
۳:… بینک کے ذریعے قربانی کے جواز کا کیا حکم ہے؟
گزشتہ چند سالوں سے ان مسائل پر بحث میں کافی شدت آگئی ہے‘ حج کے موقع پر خیمہ ‘ خیمہ اس بحث کا شکار نظر آتا ہے‘ حج سے لوٹنے کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک تبصروں اور تنقید کا بازار گرم رہتا ہے‘ عوام الناس چونکہ مسائل کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے‘ اس لئے دورانِ بحث حدود کی رعایت نہیں رکھ پاتے اور نوبت علماء کرام کی توہین تک جاپہنچتی ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ان مسائل پر اجتماعی غور وفکر کا اہتمام کیا جائے‘ آراء و معلومات کا تبادلہ ہو اور ایک دوسرے کے دلائل سننے سمجھنے کے بعد بتوفیق الٰہی کسی ایک رائے پر اتفاق کیا جاسکے۔ اسی مقصد کے پیش نظر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی نے بتاریخ یکم‘ ۲ / مئی ۲۰۰۷ء بروز منگل‘ بدھ‘ دو روزہ‘ اجتماع کا اہتمام کیا ہے‘ جس میں آپ سے شرکت کی درخواست ہے۔ ان مسائل پر اجمالاً ایک مسودہ بھی منسلک کیا جارہا ہے‘ اس اجتماع کو بار آور بنانے کے لئے آپ سے یہ بھی گزارش ہے کہ ان تین مسائل پر خصوصیت کے ساتھ از سر نو تحقیق فرماکر مقالے کی صورت میں ہمیں پہلے سے ارسال فرمادیں۔
ملاحظہ: براہ کرم مقررہ تاریخ پر اپنی آمد کو یقینی بنائیں‘ نیز اس طور سے اپنا مقالہ ارسال فرمائیں کہ ۲۰/ اپریل ۲۰۰۷ء تک ہمیں پہنچ جائے‘ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کی اجتماعی کوششوں کو ذریعہ بناکر امت کو انتشار و افتراق سے بچائے۔آمین۔
ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر
رئیس جامعہ علوم اسلامیہ
علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی
اس دعوت نامہ کے ساتھ پروگرام کا پیش نظر خاکہ بھی ارسال کیا گیا:
پروگرام انشاء اللہ:
پہلا دن: یکم مئی بروز منگل ۲۰۰۷ء
پہلی نشست :از صبح نو بجے تا ایک بجے‘ وقفہ برائے نماز ظہر‘ طعام وقیلولہ ۔
دوسری نشست:شام پانچ بجے تا نماز عشاء، عشائیہ: بعد نماز عشاء
دوسرا دن: ۲/ مئی بروز بدھ ۲۰۰۷ء
تیسری نشست:شام پانچ بجے تا نماز عشاء ۔عشائیہ: بعداز فراغت۔“
اگرچہ بعد میں بعض حضرات کی درخواست پر دوسرے دن کی شام کی نشست کو صبح ۹ بجے تا ۲ بجے‘ کردیا گیا۔
جامعہ علوم اسلامیہ کے اس اقدام کی اہلِ علم‘ علماء‘ فقہاء‘ ارباب فتویٰ اور دینی حلقوں کی جانب سے خوب تحسین کی گئی اور اس پر جامعہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے نہایت خوشی اور مسرت کا ااظہار کیا گیا۔ حضرات اہل علم‘ اصحابِ تحقیق اور اربابِ فتویٰ نے جامعہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے نہ صرف اس اجتماع میں شرکت فرمائی، بلکہ بحث و تحقیق میں بھرپور حصہ لیا‘ جبکہ بیشتر حضرات نے اس موضوع پر تحقیقی مقالے اور مدلل تحریریں بھی جمع کرائیں۔ اس علمی و تحقیقی اجتماع کی تینوں نشستوں میں شریک ہونے والے حضرات علماء اور مفتیان کرام کے اسماء درج ذیل ہیں:
۱- مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر‘ رئیس جامعہ علوم اسلامیہ ۲- مولانا سیّد سلیمان بنوری‘ نائب رئیس جامعہ علوم اسلامیہ
۳- مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی‘ رئیس دارالعلوم کراچی ۴- مفتی محمد تقی عثمانی‘ نائب رئیس دارالعلوم کراچی
۵- مولانا عطاء الرحمن‘ جامعہ علوم اسلامیہ ۶- مفتی عبدالرؤف سکھروی‘ دارالعلوم کراچی
۷-مفتی زر ولی خان‘ رئیس احسن العلوم کراچی ۸-مولانا محمد حنیف جالندھری‘ ناظم اعلیٰ وفاق المدارس
۹-مولانا مفتی عبدالواحد ‘ جامعہ مدنیہ لاہور ۱۰-مولانا مفتی شیر محمد علوی‘ جامعہ اشرفیہ لاہور
۱۱-مولانا مفتی حمید اللہ جان‘ جامعہ اشرفیہ لاہور ۱۲-مولانا مفتی گل حسن‘ جامعہ رحیمیہ کوئٹہ
۱۳-مولانا مفتی محمد رضوان‘ ادارہ غفران راولپنڈی ۱۴-مولانا حسن جان‘ امدادالعلوم پشاور
۱۵-مولانا مفتی رضاء الحق‘ دارالعلوم زکریا جنوبی افریقہ ۱۶-مولانا مفتی انعام اللہ‘ جامعہ محمدیہ اسلام آباد
۱۷-مولانامفتی ابو لبابہ‘ جامعة الرشید کراچی ۱۸-مولانا مفتی محمد‘ جامعة الرشید کراچی
۱۹- مولانا منظور احمد مینگل‘ جامعہ فاروقیہ کراچی ۲۰-مولانا محمد مراد ہالیجوی‘ مظہر العلوم سکھر
۲۱- مفتی محمد اسماعیل طورو‘ جامعہ اسلامیہ راولپنڈی ۲۲-مولانا ملک عبدالحفیظ مکی‘ مکہ مکرمہ
۲۳-مولانا مفتی غلام قادر ‘جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک ۲۴-مولانا انوارالحق ‘اکوڑہ خٹک
۲۵-مولانا مفتی نذیر احمد‘ دارالفیوض ہاشمیہ سجاول ۲۶-مولانا مفتی حامد حسن‘ دارالعلوم عیدگاہ کبیر والا
۲۷- مولانا مفتی محمد روزی خان‘ جامعہ ربانیہ کوئٹہ ۲۸-مفتی عبدالقدوس ترمذی‘جامعہ حقانیہ ساہیوال
۲۹-مولانا مفتی غلام الرحمن‘ جامعہ عثمانیہ پشاور ۳۰- مفتی عبدالحمید ربانی ‘جامعہ اشرف المدارس کراچی
۳۱-مولانا مفتی محمد طیب‘ جامعہ امدادیہ فیصل آباد ۳۲-مفتی محمد عبداللہ شوکت‘ جامعہ بنوریہ کراچی
۳۳- مولانا مفتی محمد عبداللہ‘ جامعہ خیرالمدارس ملتان ۳۴-مولانا محمد انور بدخشانی‘ جامعہ علوم اسلامیہ
۳۵- مولانا مفتی محمد اسحاق‘ جامعہ خیر المدارس ملتان ۳۶-مفتی محمد فاروق‘ جامعہ فریدیہ اسلام آباد
۳۷-مولانا مفتی احمد ممتاز‘ خلفائے راشدین ماڑی پور ۳۸-مولانا مفتی عظمت اللہ ‘المرکز الاسلامی بنوں
۳۹-مولانا مفتی عبدالمجید دین پوری‘ جامعہ علوم اسلامیہ ۴۰-مولانا عبدالرؤف غزنوی‘ جامعہ علوم اسلامیہ
۴۱-مولانا مفتی انعام الحق‘ جامعہ علوم اسلامیہ کراچی ۴۲-مولانا مفتی محمد شفیق عارف ‘ایضاً
۴۳- مولانا مفتی عبدالسلام چاٹگامی‘ بنگلہ دیش ۴۴ -راقم الحروف سعید احمد جلال پوری‘ جامعہ علوم اسلامیہ
۴۵-مولانا مفتی عصمت اللہ‘ دارالعلوم کراچی ۴۶- مولانا تفضل علی شاہ‘ دارالعلوم کراچی
۴۷-مولانا مفتی عبدالقادر‘جامعہ علوم اسلامیہ ۴۸- مولانا سیف الرحمن المہند‘ مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ
۴۹-مفتی حبیب اللہ جامعہ اسلامیہ کلفٹن ۵۰- مولانا قاری مفتاح اللہ‘ جامعہ علوم اسلامیہ
۵۱- مولانا مفتی رفیق احمد بالاکوٹی جامعہ علوم اسلامیہ ۵۲- مولانا مفتی محمد عاصم زکی‘ جامعہ علوم اسلامیہ
۵۳-مفتی شعیب عالم‘ جامعہ علوم اسلامیہ
اس کے ساتھ ساتھ مقامی حضرات میں سے حضرت مولانا یحییٰ مدنی‘ مولانا مفتی مزمل حسین کاپڑیا‘ مفتی خالد محمود‘ مولانا مفتی محمد حنیف‘ مولانا محمد سالک ربانی‘ مولانا محب اللہ‘ مولانا فضل حق یوسفی‘ مولانا محمد شفیع چترالی‘ مولانا محمد عادل خان‘ اور قاری فیض اللہ چترالی وغیرہ کے علاوہ علماء کرام کی کثیر تعداد بحیثیت مبصر و سامع شریک رہی۔
بلاشبہ یہ اجلاس اور اجتماع اپنی نوعیت کا بہترین علمی و تحقیقی اجتماع تھا‘ جس میں جامعہ علوم اسلامیہ کی انتظامیہ‘ اساتذہ اور طلبہ نے دل کھول کر اپنے مہمانوں کی خدمت اور پذیرائی کی اور انہیں راحت و آرام پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی‘ ہر عالم کے لئے مائک‘ اس کے علاوہ ہر مہمان کی نشست پر اس کے نام کی تختی بھی نصب تھی‘ غرض یہ اجلاس انتظامات اور سہولتوں کے لحاظ سے کسی جدید اور بین الاقوامی سیمینار سے کسی اعتبار سے کم نہ تھا۔ پہلے دن چائے اور ناشتہ سے فراغت کے بعد تقریباً نو بج کر پچاس منٹ پر باقاعدہ اجلاس کا آغازہوا‘ اور تلاوت کے لئے جامعہ علوم اسلامیہ کے استاذ حدیث حضرت مولانا عبدالرؤف غزنوی کو دعوت دی گئی‘ جنہوں نے موقع کی مناسبت سے: الحج اشہر معلومات …الخ کی تلاوت کرکے شرکاء اجلاس کو موضوع کی طرف متوجہ فرمایا۔
چونکہ اجتماع کی کارروائی اور نظامت کی ذمہ داری جامعہ کے استاذ اور ناظم تعلیمات حضرت مولانا عطاء الرحمن صاحب کے سپرد تھی‘ اس لئے انہوں نے تلاوت قرآن کریم کے بعد جامعہ علوم اسلامیہ کے رئیس اور صدر اجلاس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر مدظلہ کو دعوت دی کہ وہ شرکاء اجلاس کا شکریہ ادا کریں اور اس اجلاس کی غرض و غایت بیان کریں‘ حضرت ڈاکٹر صاحب نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:
”میں اپنی طرف سے اور جامعہ کے اساتذہ کی طرف سے تمام مہمانانِ گرامی‘ علماء‘ فقہاء اور مفتی حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ حضرات ہماری دعوت پر سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے تشریف لائے‘ میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ میں آپ کا شکریہ ادا کرسکوں۔ بہرحال ہم ایک خاندان کے لوگ ہیں… بعضنا من بعض… بلاشبہ فقہ حنفی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں اول سے آخر تک محبت ہی محبت ملے گی‘ اللہ کرے ہمیں بھی یہ نصیب ہو اور ہم بھی اس کی برکات سے مستفید ہوسکیں۔ علماء کا فرض ہے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں جدید مسائل و مشکلات کا حل تلاش کریں اور اسے امت تک پہنچائیں‘ کیونکہ عوام اس کے مکلف ہیں کہ وہ دینی مسائل میں علماء کی طرف رجوع کریں ‘ اب یہ علماء کا فرض ہے کہ وہ جدید مسائل و مشکلات کا حل تلاش کرکے ان کی مشکلات دور کریں۔ بلاشبہ کتاب و سنت میں مذکور احکام محدود ہیں‘ جب کہ روز مرہ مسائل غیر محدود‘ اس لئے علماء قرآن و سنت کی روشنی میں غیر منصوص مسائل و احکام کے لئے اجتہاد کریں۔ اجتہاد نہایت ضروری ہے‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس طرف راہ نمائی فرمائی ہے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے ان سے فرمایا تھا:
”کیف تقضی ؟قال اقضی بکتاب اللہ،قال فان لم یکن فی کتاب اللہ ،قال فبسنة رسول اللہا ،قال فان لم یکن فی سنة رسول اللہا قال اجتھدرأیی،قال:فقال رسول اللہا ”الحمدللہ الذی وفق رسول رسول اللہا “ (مسند احمد،ج:۵،ص:۲۳۶)
ترجمہ:․․․․․”معاذ!… پیش آمدہ مسائل میں… کیسے فیصلے کروگے؟ عرض کیا: اللہ کی کتاب سے‘ فرمایا: اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ہو تو؟عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روشنی میں‘ فرمایا: اگر وہ مسئلہ سنت میں نہ ہو تو؟ عرض کیا: پھر… ان نصوص کی روشنی میں… اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا‘ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب تعریفیں اس ذات کے لئے‘ جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو اس کی توفیق بخشی۔“ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں فقہاء صحابہ کرام کو یہ راستہ بتادیا تھا کہ اگر نصوص نہ ہوں تو اجتہاد کریں۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رہے کہ دینی مسائل و احکام میں شخصی رائے کی کوئی اہمیت نہیں‘ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
”قال سألت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یا رسول اللہ! کیف تأمرنا فی مسائل لم تمض فیہا سنة ولم یکن فیہا کتاب؟ قال: شاوروا الفقہاء والعابدین ولا تمضوا فیہ رأی خاصة۔“ (رواہ الطبرانی فی الاوسط والکبیر ورجالہ موثقو ن من اہل الصحیح‘ کنزالعمال حدیث نمبر: ۴۱۸۸‘ مجمع الزوائد:ج:۱‘ص:۱۷۸)
ترجمہ: ”فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا‘ یا رسول اللہ! آپ ہمیں ایسے مسائل کے بارہ میں راہ نمائی فرمایئے‘ جن میں کوئی سنت وارد ہوئی ہو‘ اور نہ ان کا ذکر کتاب اللہ میں ہو‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فقہاء اور عابدین سے مشورہ کرو اور ان… مسائل… میں شخصی رائے پر عمل نہ کرو۔“ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی اجتہادکی طرف راہ نمائی فرمائی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ کے پاس چالیس علماء کی شوریٰ تھی‘ جو اجتہادی مسائل میں باہم دیگر مشورہ کرتی تھی۔ زمانہ قریب میں ہم نے اپنے اکابر‘ بزرگوں اور اساتذہ کرام کو بھی ایسے اجتہادی مسائل میں غور و خوض کرتے دیکھا ہے‘ چنانچہ حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوری قدس سرہ‘ حضرت مولانا مفتی محمود قدس سرہ‘ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس سرہ‘ ایسے مسائل میں علمی مباحثے کرتے اور ہم بھی ان کے علوم سے استفادہ کرتے تھے۔ اب وہ حضرات نہیں رہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی اس سنت کو جاری رکھیں‘ اس پر مجھے ایک بات یاد آئی، وہ یہ کہ: ایک بار ایک عالم ساتھی سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے عرض کیا کہ:اگر مرغی کے بچے کوئی خطرہ محسوس کریں تو وہ مرغی کے پروں کے نیچے پناہ تلاش کرتے ہیں‘ اگر مرغی نہ ہو تو وہ ایسے کسی خطرہ کے وقت آپس میں جمع ہوکر ایک دوسرے کو سہارادیتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح آج جب ہمارے وہ اکابر اس دنیا سے اٹھ گئے ہیں ‘ جن کی ہم ایسے خطرات میں پناہ تلاش کیا کرتے تھے‘ تو اب ہمیں بھی مرغی کے بچوں کی طرح آپس میں مل کر ان خطرات کا مقابلہ کرنا چاہئے۔“ آخر میں حضرت ڈاکٹر صاحب نے حج کے احکام‘ منیٰ اور مکہ مکرمہ کے اتصال اور عدم اتصال کے بارہ میں شواہد و قرائن کی روشنی میں نہایت مفید ارشادات بھی فرمائے اور اس سلسلہ کے اختلاف رائے کا حل بھی پیش فرمایا۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کے صدارتی کلمات کے بعد جامعہ علوم اسلامیہ کے نائب رئیس صاحبزادہ مولانا سیّد سلیمان یوسف بنوری کو دعوت دی گئی کہ وہ اجلاس کے پروگرام‘ طریق کار اور اس کے پس منظر و پیش منظر کو بیان فرمائیں‘ چنانچہ صاحبزادہ مولانا سیّد سلیمان یوسف بنوری نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:
”میں اوّلاً اپنی جانب سے اور ثانیاً جامعہ کے اساتذہ کی طرف سے آپ تمام حضرات کو صمیم قلب سے خوش آمدید کہتا ہوں‘ آپ معزز علماء کرام کی تشریف آوری سے صرف میں ہی نہیں بلکہ جامعہ کا ہر ہر فرد خوشی اور مسرت کے احساس سے لبریز ہے… بلاشبہ عرصہ دراز کے بعد رحاب جامعہ میں یہ علمی نشست منعقد ہورہی ہے‘ میں نے اپنے اساتذہ کرام اور اکابر سے سنا ہے کہ اس سے قبل اس قسم کی علمی مجالس والد ماجد حضرت بنوری نوراللہ مرقدہ‘ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اور حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کے دور میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن اور جامعہ دارالعلوم کراچی میں بکثرت منعقد ہوتی تھیں‘ اہلِ علم اور وقت کے فقہاء اور علماء ”مسائل حاضرہ“ پر بحث و تمحیص کے لئے جمع ہوتے تھے اور آپس میں ا یک دوسرے کا نقطہ نظر سننے اور مختلف آراء پر غور و خوض کے بعد کسی ایک فیصلہ پر پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔ آج کی یہ نشست بھی اکابرین کی انہی علمی مجالس کا تسلسل ہے اور بحمدللہ! پہلے سے زیادہ وسعت کے ساتھ ایک نئی کوشش کی ابتداء ہے‘ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے اس مل بیٹھنے کو امت کے لئے خیر و فلاح کا ذریعہ بنائے۔ اب میں اس پروگرام کو جاری رکھنے کے لئے اپنے استاذ محترم اور جامعہ کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا عطاء الرحمن صاحب سے گزارش کرتا ہوں کہ فلیتفضل ان سمح مشکورا۔“
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ اس اجتماع کی انتظامی کمیٹی نے طے کیا تھا کہ اجتماع کی کارروائی کے ذمہ دار حضرت مولانا عطاء الرحمن صاحب ہوں گے‘ چنانچہ رفقاء دارلافتاء نے اندرون و بیرون ملک سے موصول شدہ تمام علمی اور فقہی مقالات کا خلاصہ تیار کرکے حضرت مولانا عطاء الرحمن صاحب کے حوالے کردیا‘ چنانچہ مولانا موصوف متعلقہ شخصیت کو دعوت سخن دینے سے پہلے‘ اس کی رائے بیان فرماتے ،اور کہتے کہ : چونکہ مقالہ نگار اجلاس میں تشریف فرما ہیں‘ اس لئے ان سے عرض ہے کہ وہ اپنے مقالہ کے مختصر نقاط اور خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان فرمائیں‘ یوں پہلے دن کے دونوں اجلاسوں اور دوسرے دن کے تیسرے اجلاس میں تمام مقالہ نگار حضرات کو براہ راست اس خالص علمی اور فقہی اجلاس سے مخاطب ہونے کا موقع فراہم کیا گیا‘ اس کے علاوہ جن حضرات نے مقالے نہیں بھیجے تھے ،مگر وہ بہ نفس نفیس اجلاس میں شریک تھے اور اپنی رائے دینا چاہتے تھے، ان کو بھی اپنی رائے کے اظہار کا موقع فراہم کیا گیا‘ یوں تقریباً ۵۳/ علماء‘ فقہاء اور اہل تحقیق نے اس مسئلہ پر کھل کر اپنی دیانت دارانہ رائے کا اظہار فرمایا۔ آخری دن کے تیسرے اجلاس میں حضرت مولانا عبدالرؤف غزنوی صاحب نے بہت ہی عمدہ بات فرمائی کہ:
:” ہمارے امام اور امام الائمہ حضرت امام ابو حنیفہ سے لے کر موجودہ دور تک‘ ہمارے اکابر کا یہ طریقہ کار رہا ہے کہ حقائق واضح ہونے پر وہ اپنے قول اور فتویٰ سے رجوع کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ اور شرم محسوس نہیں کرتے تھے‘ اس لئے میں تمام شرکاء اجلاس سے عرض کرنا چاہوں گا کہ حقائق واضح ہونے پر وہ بھی اس رَوِش کو اپنائیں اور اپنے اسلاف و اکابر کے اسوہ پر عمل پیرا ہوں۔“
حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب نے اجلاس سے خطاب میں مسائل مذکورہ اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے موقف کی وضاحت کی‘ چنانچہ انہوں نے فرمایا:
”یہ مسئلہ مدت سے علماء کرام کے درمیان زیر بحث ہے‘ خود دارالعلوم کراچی کے دارالافتاء میں بھی اس سلسلہ کی متعدد مجلسیں ہوئیں‘ ان میں سے بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ منیٰ کی مستقل ایک حیثیت کے پیش نظر قصر کا ہی حکم لگے گا۔ اس کے بعد مزید متعدد مجلسیں ہوئیں جن میں یہ طے ہوا کہ حرمین کے ائمہ سے رابطہ کیا جائے‘ میں نے حضرت عبداللہ بن سبیل اور شیخ عبدالعزیز آل شیخ کو خط لکھا‘ اس کے جواب میں شیخ عبدالعزیز نے اپنے مسلک کے مطابق قصر نسک کا فتویٰ دیا‘ شیخ عبداللہ بن سبیل نے منیٰ کو مکہ کا محلہ قرار دیا ‘ اس جواب کے آنے کے بعد دارالافتأ کے اکثر حضرات کی رائے یہ ہوئی کہ چونکہ اس کا دارومدار عرف پر ہے، نہ اس بات پر کہ بلدیہ نے ایسا قرار دیا ہے‘ عرف میں چو نکہ اہل مکہ اعرف شعابہا ہیں ،اس بنا پریہ رجحان سامنے آیا کہ منیٰ‘ مکہ مکرمہ کا حصہ ہے۔ بے شک منیٰ ایک مستقل نسک کی جگہ ہے‘ اور اس کا مستقل ہونا منصوص ہے‘ اس لئے ان مقامات میں خصوصی مناسک کے اندر ردو بدل تو ممکن نہیں ہے‘ لیکن قصر و اتمام کا معاملہ مناسک سے متعلق نہیں ہے، بلکہ بات یہ نہیں ہے کہ مکہ منیٰ بنا ہے، بلکہ منیٰ مکہ کا حصہ بنا ہے‘ اس لئے مبیتِ منیٰ کا مسئلہ واضح ہے۔ اگر کھلا میدان یا صحراء کا حکم دیا جائے تو مبیتِ منیٰ پر اثر نہیں ہونا چاہئے‘ قریہ صالحہ للاقامہکا بھی یہ حکم ہوتا ہے‘ اگر کسی جگہ آبادی تھی ،بعد میں ختم ہوگئی تو جب تک نشانات باقی ہوں تو مصریت ختم نہ ہوگی ۔ احتیاط کا تقاضا بھی یہ ہے کہ قصر کی بجائے اتمام کا حکم دیا جائے‘ اس بنا پر ہمارے دارالافتاء کی رائے یہی ہے۔ ترتیب کے مسئلہ پر بھی صاحبین کے قول پر فتویٰ دیا جائے، لیکن میرے ذہن میں ایک قوی اشکال ہے کہ اگر صاحبین کے قول پر عمل کرنا ہے‘ اس میں آسانی تو ہے ،لیکن اس سے کہیں نص قرآنی: ”ولاتحلقواروٴسکم حتی یبلغ الھدی محلہ“ کی خلاف ورزی لازم نہ آئے اور غالباً اس نص قرآنی کی وجہ سے بعض فقہاء نے ان مناسک ثلاثہ میں سے نحر اور حلق کے درمیان ترتیب کو واجب قرار دیا ہے‘ اتفاق سے جو دشواری پیش آرہی ہے، وہ بھی اسی میں ہے‘ پھر اگر ایک مرتبہ ترتیب کے وجوب کو ختم کیا جائے تو لوگ اسے غلط استعمال کرسکتے ہیں۔ لہٰذا صاحبین کے قول پر عمل کرنے کے لئے سخت شرائط رکھی جائیں۔ موجودہ حالات میں بینک کی قربانی ناگزیر نہیں رہی ہے‘ گروپ کے ذمہ دار قربانی کرتے ہیں‘ اس لئے ان گروپوں کو تلقین کرکے اس مشکل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔دشواری یہ ہوتی ہے کہ لوگ جلد از جلد احرام سے فارغ ہوناچاہتے ہیں تو کیا اس کو اتنی بڑی مجبوری قرار دیاجائے کہ اس سے نص کے خلاف حکم میں سہولت دی جائے؟ بینک کے بارے میں حتمی جواب ممکن نہیں، جب تک بینک کے طریقہ کارکے بارے میں صحیح علم نہ ہو‘ اس کے بارے میں اس طریقہ کار کو معلوم کرکے اس کے تناظر میں حکم دیا جائے۔“
حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری دارالعلوم دیوبندکی رائے… جو ویزہ کی مجبوری سے نہ آسکے… ان کی نیابت میں مولانا مفتی عبدالرؤف غزنوی نے سنائی اور بتلایا کہ: وہ بھی منیٰ کو مکہ مکرمہ سے الگ جانتے اور مانتے ہیں‘ اسی طرح مدرسہ ہاٹھ ہزاری چاٹگام بنگلہ دیش کے رئیس دارالافتاء اور حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی کے خلیفہ مجاز‘ حضرت مولانا مفتی احمد الحق کی رائے بھی ان کی نیابت میں حضرت مولانا مفتی عبدالسلام چاٹگامی نے بتلائی کہ وہ بھی منیٰ کو مکہ مکرمہ سے الگ ایک مستقل مقام جانتے ہیں‘ اسی طرح راقم الحروف نے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید اور امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ کی رائے بھی عرض کی کہ: جب میں نے خود مکہ مکرمہ میں اس سلسلہ میں ان ہر دو حضرات سے سوال کیا تھا تو انہوں نے بھی منیٰ کو مکہ مکرمہ سے الگ قرار دیا تھا۔ علاوہ ازیں دارالعلوم کراچی کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے اجلاس سے خطاب فرمایا اور اس اجلاس کے انعقاد پر جامعہ علوم اسلامیہ کی انتظامیہ اور حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کو دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش فرمایا‘ اسی طرح حضرت مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس پاکستان اور مولانا قاری محمد حنیف جالندھری‘ ناظم اعلیٰ وفاق المدارس پاکستان ہر دو حضرات نے اس علمی و تحقیقی اجلاس کے انعقاد کو خوب سراہا اور جامعہ علوم اسلامیہ کے ذمہ داران کو اس اجلاس کے انعقاد پر مبارک باد پیش کی۔ الغرض تعداد کے اعتبار سے منیٰ کو مکہ مکرمہ کا حصہ اور متصل قرار دینے والے اور اس کو الگ شمار کرنے والے علماء کرام اور اربابِ فتویٰ تقریباً برابر تھے‘ تاہم جامعہ علوم اسلامیہ کے رئیس مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر‘ مولانا سیّد سلیمان یوسف بنوری‘ مولانا انور بدخشانی‘ مولانا مفتی عبدالمجید دین پوری‘ مولانا مفتی انعام الحق‘ مولانا مفتی شفیق عارف‘ مولانا مفتی عبدالرؤف غزنوی‘ راقم الحروف سعید احمد جلال پوری‘ مولانا مفتی عبدالقادر‘ جامعہ مدنیہ لاہور کے مفتی ڈاکٹر عبدالواحد‘ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مولانا مفتی حمید اللہ جان‘ جامعہ فریدیہ اسلام آباد کے مفتی محمد فاروق‘ جامعہ اسلامیہ راولپنڈی کے مفتی محمد اسماعیل طورد‘ جامعہ عثمانیہ پشاور کے مفتی غلام الرحمن‘ جامعہ خیر المدارس ملتان کے مفتی محمد عبداللہ‘ دارالعلوم زکریا جنوبی افریقہ کے مولانا مفتی رضاء الحق‘ جامعہ اسلامیہ ہاٹھ ہزاری کے استاذ حدیث اور مفتی مولانا عبدالسلام چاٹگامی‘ مکہ مکرمہ کے مولانا ملک عبدالحفیظ‘ جامعة الرشید کراچی کے مفتی محمد‘ جامعہ خلفاء راشدین کے مفتی احمد ممتاز کی رائے یہ تھی کہ منیٰ حسب سابق مکہ مکرمہ سے الگ ہے، وہ نہ مکہ مکرمہ کا محلہ ہے اور نہ ہی اس کی فنا ہے۔ چونکہ اس مسئلہ میں متعدد آراء تھیں اور مختلف حضرات نے دیانت دارانہ طور پر تحقیقی مقالات بھی سپرد قلم کئے تھے‘ اس لئے کسی ایک موقف پر مجتمع ہونے کے لئے یا تو ووٹنگ سے کام لیا جاتا یا پھر اس مسئلہ کے اجتماعی حل اور متفقہ موقف اختیار کرنے کے لئے کوئی کمیٹی تشکیل دی جاتی‘ جو اس کا متفقہ حل تلاش کرتی۔ لہٰذا شرکائے اجلاس کے متفقہ مشورہ سے طے ہوا کہ اس کے لئے ایک دس رکنی کمیٹی بنادی جائے جو اس پر غوروفکر کرے اور وہ جو کچھ طے کردے‘ اس سے سب حضرات کو اتفاق کرنا چاہئے۔ چنانچہ اس کے لئے درج ذیل دس حضرات پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی گئی:
۱:… حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی ‘ نائب رئیس دارالعلوم کراچی
۲:… حضرت مولانا مفتی عبدالمجید دین پوری‘ دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ کراچی
۳:… حضرت مولانا مفتی رضاء الحق‘ رئیس دارالافتاء مدرسہ زکریا ‘ جنوبی افریقہ
۴:… حضرت مولانا شیر محمد علوی‘ دارالافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
۵:… حضرت مولانا غلام الرحمن‘ رئیس دارالافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
۶:… حضرت مولانا منظور مینگل‘ دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
۷:… حضرت مولانا مفتی محمد اسحٰق‘ دارالافتاء جامعہ خیرالمدارس ملتان
۸:… حضرت مولانا مفتی گل حسن‘ جامعہ رحیمیہ کوئٹہ
۹:… حضرت مولانا سیف الرحمن المہند‘ مدرسہ صولتیہ‘ مکہ مکرمہ
۱۰:… حضرت مولانا ملک عبدالحفیظ‘ مکہ مکرمہ
ان دس حضرات نے علیحدہ ایک کمرہ میں بیٹھ کر قریب گھنٹہ بھر کے غورو خوض کے بعد طے کیا کہ:
”۱:… منیٰ میں قصر و اتمام کے مسئلے پر غور کرتے ہوئے یہ طے پایا کہ پہلے اس مسئلے کی تحقیق کی جائے کہ اگر بالفرض منیٰ کو مکہ مکرمہ کا حصہ تصور کرلیا جائے‘ پھر بھی ”مبیت مزدلفہ“ کی نیت مدت اقامت میں مانع ہوگی یا نہیں‘ کیونکہ اگر مانع ہے تو منیٰ کو جزء مکہ تسلیم کرنے کے باوجود خروج الی المزدلفہ کی بنا پر قصر کرنا ہی ضروری ہوگا اور اس مسئلے کا دارومدار اس پر ہے کہ اگر کوئی شخص کسی شہر یا بستی میں پندرہ دن اقامت کی نیت اس ارادے کے ساتھ کرے کہ وہ اس دوران ایک رات اس شہر یا بستی سے باہر کسی ایک جنگل میں گزارے گا‘ جو صالح للاقامہ نہیں ہے‘ تو وہ مقیم سمجھا جائے گا‘ یا مسافر؟ اس بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ شرکائے مجلس کی رائے ہے کہ یہ بھی تحقیق کی جائے کہ منیٰ اب بحالت موجودہ بستی کے حکم میں ہے یا ویرانے کے؟ اس کے لئے یہ بھی طے ہوا کہ ایک وفد مکہ مکرمہ جائے اور منیٰ کا مشاہدہ کرے کہ منیٰ کو مکہ مکرمہ کا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اسی تناظر میں حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے بعض شرکاء کی درخواست پر اعلان فرمایا کہ جب تک اتفاق کی صورت سامنے نہ آئے‘ ہم اکابر کے پرانے فتویٰ پر عمل کریں گے اور وہی فتویٰ جاری کریں گے۔
۲:… رمی ذبح اور حلق میں ترتیب امام ابو حنیفہ کے نزدیک واجب ہے اور باقی تمام حضرات کے نزدیک سنت‘ لہٰذا تمام حجاج کے لئے ضروری ہے کہ وہ حتی الامکان اس ترتیب کا پورا لحاظ رکھیں‘ بالخصوص ذبح سے پہلے حلق نہ کریں‘ کیونکہ نص قرآنی :
”ولا تحلقوا رؤسکم حتی یبلغ الہدیٰ محلہ“
اس کو بالکل ناجائز قرار دیتی ہے اور اس غرض کے لئے حج کے گروپس کو تاکید کی جائے کہ وہ اپنے گروپ کے لوگوں کے لئے قربانی کا انتظام کریں ،تاکہ قربانی یقینی طور پر حلق سے پہلے ہو‘ تاہم اگر کسی شخص سے ناواقفیت یا کسی شدید عذر کے تحت مذکورہ بالا ترتیب کی مخالفت (ہو) تو وہ توبہ واستغفار کرے اور صاحب وسعت ہو تو دم بھی دے‘ البتہ جو غریب حاجی اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو‘ اس کے لئے صاحبین اور جمہور کے مذہب پر عمل کی گنجائش ہے۔ بینک کے ذریعے قربانی (دم تمتع‘ دم قران) کرانے کے بارے میں یہ طے ہوا کہ اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے بینک کے طریقہ کار کی مکمل اور اطمینان بخش تحقیق ضروری ہے‘ جس سے مندرجہ ذیل امور واضح ہوجائیں:
الف:… کیا قربانی ۱۳/ ذوالحجہ اور اس کے بعد بھی کی جاتی ہے؟
ب:… جانوروں کے انتخاب میں شرعی شرائط ملحوظ رکھنے کی کیا ضمانت ہے؟
ج:… لاکھوں انسانوں کی قربانی کے لئے جتنا وقت رکھا گیا ہے‘ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس وقت میں یہ تمام قربانیاں ہونا ممکن ہے؟
د:… ذبح کا طریق کار کیا ہے؟ کیا اس سے عروق اربعہ میں سے اکثر کا کٹنا اور تسمیہ وغیرہ کی شرعی شرائط پوری ہوتی ہیں یا نہیں؟۔“
جیسا کہ متفقہ قرارداد میں آچکا ہے کہ آخر میں اس پر اتفاق ہوگیا کہ جب تک ان امور کی تحقیق نہ ہوجائے اور مامور کمیٹی تحقیق طلب امور سے متعلق اپنی حتمی رپورٹ نہ پیش کردے اور کوئی متفقہ فیصلہ نہ ہوجائے‘ اس وقت تک اکابر کے فتویٰ سے ہٹ کر کوئی فتویٰ نہ دیا جائے‘ چنانچہ اب حسب سابق تمام حضرات یہی فتویٰ دیں گے کہ منیٰ مکہ مکرمہ سے الگ ہے اور جس حاجی کے روانگیٴ منیٰ سے قبل قیام مکہ مکرمہ کے پندرہ دن پورے نہیں ہوئے‘ وہ مسافر ہوگا‘ آخر میں یہ اجلاس حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ کی دعا پر اختتام پذیر ہوا۔ خدا کرے کہ ہمیں آئندہ بھی اسی طرح دینی‘ مذہبی‘ فقہی اور جدید قومی مسائل میں متفقہ جدوجہد اور لائحہ عمل اپنانے کی توفیق میسر رہے۔ اس خالص علمی اور فقہی اجلاس کے انعقاد پر ہم جامعہ علوم اسلامیہ کے رئیس‘ نائب رئیس‘ اس کی انتظامیہ‘ اساتذہ‘ طلبہ اور کارکنان کو ہدیہ سپاس پیش کرتے ہیں‘ اس موقع پر خصوصی طور پر حضرت مولانا امداد اللہ صاحب‘ ان کے رفقاء‘ جامعہ علوم اسلامیہ کے مفتیان کرام ہماری جانب سے اور تمام علماء کی جانب سے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے دن رات ایک کرکے اس اجلاس کے تمام انتظامات کئے‘ اس کو کامیاب بنانے میں انتھک محنت کرکے بے مثال کارنامہ سر انجام دیا ہے۔
فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔

وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 
Flag Counter