Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ۱۴۲۷ھ جولائی۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

7 - 9
قومیت اور اس کے روح فرسا نتائج
قومیت اور اس کے روح فرسا نتائج


پچھلے چند دنوں میں خاص طور پرخونِ ناحق کی ارزانی وفراوانی اور جان ومال کے محافظوں کے ہاتھوں جان ومال کی تباہ کاری وبربادی کے جو دردناک وخون چکاں واقعات پیش آئے ہیں اور ان کا سلسلہ اب تک بھی ختم نہیں ہوا ہے‘ یہ تاریخِ پاکستان کے سیاہ ترین اوراق ہیں‘ جس طرح بھائی بھائی سے دست وگریباں ہے‘ بھائی بھائی کے ہاتھ قتل ہورہاہے‘ بھائی بھائی کے مکان ودکان کو آگ لگارہاہے‘ سامان کو لوٹ رہاہے‘ یہ تاریخِ پاکستان کا انتہائی دردناک دور ہے‘ نہ بھائی سے بھائی کی جان محفوظ ہے‘ نہ آبرو محفوظ ہے‘ نہ مال محفوظ ہے‘ انتہائی کرب انگیز صورتِ حال ہے‘ مسلمان کے خون کی یہ ارزانی‘ مسلمانوں کے ہاتھوں‘ مسلمانوں کے گھروں اور دوکانوں مارکیٹوں کی یہ تباہی وبربادی‘ تاریخِ پاکستان کے الم انگیز اور شرمناک واقعات ہیں‘ بلکہ پاکستانی قوم کی پیشانی کا سیاہ داغ ہیں‘ مہاجروں اور سندھیوں میں سفاکی کے یہ ہولناک منظر ہلاکو اور چنگیزی بربریت کی یادتازہ کرتے ہیں‘ بلکہ ان خدانا آشنا وحشیوں کو بھی شرماتے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون․
․․․․․․ لسانی تنازعہ کے عنوان سے ابھرنے والی ملعون ”قومیت“ کے نتائج انتہائی حسرت ناک ہیں‘ کاش! حکومت ذرا غور وتدبر سے کام لیتی اور اس نازک ترین مواقع پر اس قضیہ کو ابھرنے نہ دیتی اور موزوں وقت کا انتظار کرلیتی تو شاید یہ دردناک صورت پیش نہ آتی‘ اگرچہ یہ تو ظاہر ہی ہے کہ یہ نزاع واختلاف ان واقعات ومحرکات کی محض ظاہری صورت ہے‘ ورنہ پس پردہ کوئی اور مخفی طاقت ہے جو ان واقعات کو اچھال رہی ہے۔ لیکن حیرت تو اس پر ہے کہ اس طاقت کی تشخیص کے باوجود آخر کیوں اس کو زہر پھیلانے کا موقعہ دیا جارہاہے‘ زہر بھی وہ زہر جس سے خود صدرِ مملکت اور برسرِ اقتدار پارٹی بھی نہیں بچ سکتی‘ خیال تھا کہ مشرقی پاکستان کے واقعات کا اعادہ مغربی پاکستان میں نہ ہوگا اور مشرقی پاکستان کے واقعات سے مغربی پاکستان کو عبرت ہوگی‘ لیکن افسوس!کہ عبرت تو کیا ہوتی ان کی تقلید کی جارہی ہے ان کو مثال اور نمونہ بنایاجارہاہے۔
دراصل اسلامی اخوت کی نعمت سے جب مسلمان قوم محروم ہوجاتی ہے تو لسانی قومی وطنی عصبیتوں کی لعنت میں گرفتار ہوجاتی ہے اور عالم گیر اسلامی ملت اور قوم چھوٹے چھوٹے دیشوں اور قوموں میں تبدیل ہوجاتی ہے‘ پاکستان کے پیٹ سے ”بنگلہ دیش“ تو جنم لے ہی چکا ہے اور اگر ان قومی ولسانی لعنتوں کو ختم نہ کیا گیا تو بقیہ مملکت کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اور ”بنگلہ دیش“ کے بعد ”سندھودیش“ جنم لے گا اور پھر نہ معلوم اور کون کون؟ اور اس ملعون عصبیت کا سیلاب کہاں جاکر تھمے گا؟
بلاشبہ یہ جو کچھ ہورہاہے‘ ہماری طویل غفلت کی سزا ہے‘ بلکہ غلط اور غیر اسلامی نظامِ زندگی کو اپنانے کا نتیجہ ہے‘ ہم ”بینات“ کے صفحات میں بارہا یہ ماتم کرچکے ہیں اور باربار یہ تنبیہات کرچکے ہیں‘ لیکن ”صدائے برنخاست“ زبان پر نام اسلام کا ہو اور افکار اور اعمال تمام کے تمام کافروں کے ہوں‘استعمال تو زہر اور سمیات کا ہو اور نتیجہ میں امید ”تریاق“ کی ہو۔” ایں خیال است ومحال است وجنون“ بہت پرانی مثال ہے:۔” گندم از گندم بروید جَو زجَو“۔
پورے پچیس سال ہم نے خدا اور خدا کی مخلوق کو دھوکہ دیا ہے‘ اسلام کے نام سے اسلام کی بنیادوں کو ڈائنامیٹ لگایا ہے‘ ہر اس لعنت اور اس عمل کو جو حق تعالیٰ کے قہر وغضب کو دعوت دیتاہے اپنایا اور اس کی حوصلہ افزائی کی ہے اور یہ نفاق کا سلسلہ روز افزوں ہوتا جارہاہے‘ نہ تو سابق زندگی سے توبہ کی توفیق نصیب ہوتی ہے‘ نہ دردناک واقعات سے عبرت ہوتی ہے‘ نہ معلوم اس بدنصیب ملک کا کیا انجام ہوگا اور اس بدقسمت قوم کا کیا حشر ہوگا؟
اسلامی اخو ّت
قرآن عظیم
۱- ”انما المؤمنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم“۔ (الحجرات:۱۰)
ترجمہ:․․․”اس کے سوا نہیں کہ اہلِ ایمان تو (آپس میں) بھائی بھائی ہیں پس (اگرکوئی نزاع ہوجائے تو) اپنے بھائیوں کے درمیان صلح صفائی کرادو“۔
۲-”فاتقوا اللہ واصلحوا ذات بینکم“ ۔(الانفال:۱)
ترجمہ:․․․”سو ڈرو اللہ سے اور صلح کرو آپس میں“۔
۳- واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولاتفرقوا“۔ (آل عمران:۱۰۲)
ترجمہ:․․․”اور تھام لو اللہ کی رسی کو سب مل کر اور الگ الگ (قوموں میں) نہ بٹو“۔
حدیث پاک
۴- ”المسلم اخو المسلم لایظلمہ ولایسلمہ ومن کان فی حاجة اخیہ کان اللہ فی حاجتہ‘ ومن فرّج عن مسلم کربة فرّج اللہ بہا کربة من کرب یوم القیامة ومن ستر مسلماً سترہ اللہ یوم القیامة“۔ (بخاری ومسلم)
ترجمہ:․․․”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتاہے اور نہ اس کا ساتھ چھوڑتا ہے اور جو کوئی اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگے گا‘ اللہ اس کی حاجتوں کو پورا کرے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی مصیبت دور کرے گا‘ اللہ اس کی مصیبت‘ قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے دور کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کا پردہ رکھا‘ اللہ قیامت کے دن اس کا پردہ رکھے گا“۔
۵- ”السلم اخو المسلم لایخذلہ ولایکذبہ ولایظلمہ“ (ترمذی)
ترجمہ:․․․”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس کا ساتھ چھوڑتا ہے‘ نہ اس کو جھٹلاتاہے‘ نہ اس پر ظلم کرتاہے“۔
۶- ”المؤمن للمؤمن کالبنیان یشد بعضہ بعضاً“۔ (بخاری)
ترجمہ:․․․”مسلمان مسلمان کے لئے عمارت (کی اینٹوں) کی طرح ہے‘ ایک دوسرے کو مضبوط رکھتاہے“۔
۷- ”من مشی فی حاجة اخیہ کان خیراً لہ من اعتکاف عشر سنین“۔(الطبرانی)
ترجمہ:․․․”جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے چلے گا (جد وجہد کرے گا) یہ اس کے حق میں دس سال کے اعتکاف سے بہتر ہے“۔
۸- ”المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ“۔ (بخاری ومسلم)
ترجمہ:․․․”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں“۔
۹- ”مثل المؤمنین فی تواردہم وتراحمہم وتعاطفہم کمثل جسد ان اشتکی عضو منہ تداعی لہ سائر الجسد بالسہر والحمی“۔ (بخاری ومسلم)
ترجمہ:․․․”مسلمانوں کی مثال (صفت) آپس میں دوستی اور باہمی ترحم اور آپس میں شفقت کے لحاظ سے ایک جسم(اور بدن) کے مانند ہے‘ اگر اس (بدن) کا ایک عضو کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو بدن کے تمام اعضاء بخار اور بے خوابی میں اس کا ساتھ دیتے ہیں“۔
۱۰- ”الااخبرکم بافضل من درجة الصیام والصلاة والصدقة؟ قالوا: بلیٰ! قال: صلاح ذات البین فان ذات البین ہی الحالقة“۔ (ابوداؤد وترمذی)
ترجمہ:․․․”کیا میں تم کو ایسا عمل نہ بتلاؤں جو روزے‘ نماز اور صدقہ کے درجہ سے بھی افضل ہو؟ صحابہ نے عرض کیا: ضرور بتلایئے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: وہ عمل باہمی تعلقات کی درستی ہے‘ اس لئے کہ بلاشبہ آپس کے تعلقات کی خرابی ہی تو (تمام خوبیوں اور برکتوں کو) مٹادینے والی ہے“۔
ایسے بے شمار جواہرات ہیں جن میں سے بطور مثال یہ چند پیش کئے گئے ہیں جن سے اسلامی اخوت کے ایمانی رشتہ کی اہمیت اور ضرورت قومی اور اجتماعی زندگی کے بقا اور تحفظ میں واضح ہوتی ہے‘ بشرطیکہ کوئی عقل وہوش کے کانوں سے سنے اور دل سے سبق حاصل کرے‘ نیز عیاں ہوجائے کہ ایک مسلمان کا مسلمان کے ساتھ تعلق کیسا ہونا چاہئے؟ اور مسلمان کے مسلمان کے ذمے کیا حقوق ہیں اور مسلمان کی امداد واعانت کے کیا کیا درجات ہیں؟
ان آسمانی ہدایت وارشادات پر غور کریں اور جو کچھ ہورہاہے اور جس دردناک طریق پر مسلم خون کی ارزانی ہورہی ہے‘ اس کو دل کی آنکھوں سے دیکھیں‘ یقین نہیں آسکتا کہ جو قوم زبانی ہی سہی‘ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتی ہے وہ ان وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیسے کر سکتی ہے؟ درحقیقت ایسا معلوم ہوتاہے کہ دلوں سے اسلام کی روح نکل چکی ہے‘ حق تعالیٰ کے خوف سے دل خالی ہوگئے ہیں‘ قیامت پر ایمان نہیں رہے‘ ورنہ تو مذکورہ بالا آیات واحادیث کے علاوہ مذکورہ ذیل احادیث نبویہ دلوں کو لرزا دینے کے لئے بہت کافی ووافی ہیں۔
مسلمان کی جان کی اہمیت (قتلِ مسلم پر وعیدیں)
۱- رحمت عالم ا نے ارشاد فرمایاہے:
”لزوال الدنیا اہون علی اللہ من قتل رجل مسلم“۔ (نسائی ترمذی)
ترجمہ:․․․”ایک مسلمان کا قتل حق تعالیٰ کے نزدیک تمام کائنات کے تباہ ہوجانے سے بھاری ہے“۔
۲- ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:
”قتل المؤمن اعظم عند اللہ من زوال الدنیا“۔
ترجمہ:․․․”ایک مومن کا قتل اللہ کے نزدیک تمام دنیا کے زوال سے بڑھ کرہے“۔
۳- ایک اور حدیث میں جو ترمذی نے بروایت ابو سعید خدری وابوہریرہ  نقل کی ہے:
”اگر روئے زمین وآسمان کے باشندے کسی ایک مسلمان کے قتل کرنے میں شریک ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا“۔
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:
”اگر تمام انس وجن ایک مسلمان کے قتل پرجمع ہوجائیں تو سب کے سب جہنم میں جائیں گے“۔
۴- ایک اور حدیث میں جو ابن ماجہ وغیرہ میں آئی ہے ارشاد فرمایا:
”جو شخص کسی مسلمان کے قتل کرنے کے بارے میں ایک آدھ لفظ بھی زبان سے کہے گا تو قیامت کے روز اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا کہ یہ شخص حق تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے (یعنی محروم ہے)“۔ العیاذ باللہ۔
۵- صحیح بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں جن سات چیزوں کو امت کی تباہی کا ذریعہ بتلایاگیا ہے ان میں سے ایک ”مسلمان کا خونِ ناحق“ ہے۔
۶- ایک اور حدیث میں آیاہے کہ: مسلمان کی جان ومال حق تعالیٰ کے نزدیک بیت اللہ شریف سے بھی زیادہ قابلِ احترام ہے“۔
۷- ایک اور حدیث میں آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ:
”ایک قاتل کو کسی مسلمان کے قتل پر قیامت میں ایک ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا (یعنی ہرمرتبہ قتل کے بعد زندہ کیا جائے گا‘ پھر قتل کیا جائے گا)“۔
۸- ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایاہے:
”اگر قاتل کو مسلمان کے قتل سے روکا نہ گیا تو تمام امت عذاب میں مبتلا ہوگی“۔
یہی ہورہاہے‘ اس قسم کے اور بے شمار ارشاداتِ نبویہ موجود ہیں‘ ان کو ٹھنڈے دل سے پڑھئے اور پھر آج کل جو سر زمین سندھ میں ہورہاہے اس کا جائزہ لیجئے‘ یقین سا ہو جاتاہے کہ خاکم بدہن اس قوم کی تباہی کا وقت آگیا ہے‘ یہ دردناک صورتحال مسلمانوں کے جہل کا نتیجہ ہے یا بے دینی کا‘ خود کررہے ہیں یا کرایاجارہا ہے؟
․․․․․․․․․․
بدقسمتی سب سے بڑی یہ ہے کہ حکومت اصلاحِ احوال میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے‘ درحقیقت مسلمان قوم کو من حیث القوم خدا فراموشی کبھی راس نہیں آسکتی‘ افراد اس لعنت میں گرفتار ہوں تو معاملہ قابلِ برداشت ہوتا ہے‘ لیکن جب پوری قوم اس تباہ کن معصیت یعنی خدا فراموشی میں مبتلا ہوجائے تو نجات کیسے ہو!
ایک طرف تو یہ مصیبتِ عظمیٰ نازل ہے‘ دوسری طرف چھپے ہوئے دشمنانِ اسلام اور اس ملک کے اصلی غدار‘ بے ضمیر ملحد ودہریئے مارِآستین بنے ہوئے ہیں․․․․․ بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں یہ سب سے دردناک اور تباہ کن دور ہے۔
سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ملک تباہی کے کنارے آلگا ہے‘ لیکن دلوں کی قسادت وغفلت کی کوئی انتہاء نہیں‘ اببھی عبرت نہیں ہوتی‘ آج بھی اگر پوری قوم محکوم اور حاکم‘ پبلک اور پولیس وفوج‘ سب صدقِ دل سے اپنی بدکرداریوں سے تو بہ کرلیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے جرائم کی معافی مانگ لیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیں اور اس خدافراموش وخود فراموش زندگی کو ایک قلم ترک کردیں اور ہرشخص اپنے دائرہ اقتدار میں ایمانداری سے اصلاحِ احوال کا عزم کرلے اور اپنی زندگی خدا ترسی کی زندگی بنالے تو:
”ان رحمة اللہ قریب من المحسنین“۔(الاعراف:۵۶)
ترجمہ:․․․”بے شک اللہ کی رحمت مخلص نیکو کاروں سے قریب ہے“۔
بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ضرور نازل ہوگی‘ مملکت بھی محفوظ ہوجائے گی اور باشندگانِ مملکت بھی آرام کی نیند سوئیں گے۔
جب یہ بات یقینی ہے کہ اپنے اعمال کی سزا امت کو مل رہی ہے یعنی مرض کی تشخیص ہوگئی ہے تو تشخیص مرض کے بعد تو علاج بہت آسان ہوجاتاہے‘ قرآنِ حکیم نے اس قسم کے امراض کے لئے جو تیر بہدف نسخہ تجویز فرمایاہے وہ استغفار ہے‘ انابت الی اللہ ‘ اور اپنے اعمال پر ندامت ہے‘ صدقِ دل سے توبہ ہے‘ اس ملک میں صحیح معاشرہ کا قیام ہے‘ اس کے لئے اسلامی قانون جلد سے جلد نافذ کیا جائے‘ شراب خانے فوراً بند کئے جائیں‘ شرعی سزائیں جاری کی جائیں‘ مختصر یہ کہ غیر اسلامی زندگی کو فوراً ختم کیا جائے‘ یعنی حق تعالیٰ کے قہر وغضب کو دعوت دینے والی زندگی کو پہلی فرصت میں ترک کیا جائے‘ اللہ تعالیٰ کی رحمت وفضل وکرم کو دعوت دینے والی حیاتِ طبیہ کو قائم ورائج کیا جائے‘ پھر دیکھئے چند دنوں میں انقلاب آجائے گا‘ اسلامی اخوت کے مظاہرے ہونے لگیں گے‘ قلوب میں سکینت واطمینان پیدا ہوجائے گا‘ جان‘ مال‘ آبرو سب محفوظ ہوجائیں گے۔
۱۹۶۵ء میں حق تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ کا یہ نمونہ بھی اہلِ پاکستان کو دکھلادیا ہے‘ چند دنوں میں پوری قوم نے فسق وفجور کی زندگی سے تائب ہوکر صالحین کی زندگی اختیار کر لی تھی‘ مسجدوں اور گھروں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے فضائیں گونجنے لگی تھیں‘ پورے ملک کا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔
دیکھا آپ نے کہ کیسے اللہ تعالیٰ کی تدبیر کا ظہور ہوا اور کیسے لطیفہٴ غیبیہ کا اظہار ہوا ‘حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”ولو ان اہل القری آمنوا واتقوا لفتحنا علیہم برکات من السماء والارض“۔ (الاعراف:۹۶)
ترجمہ:․․․”اور اگر بستیوں والے (صدق دل سے) ایمان لے آتے اور نافرمانی ترک کردیتے تو ہم یقیناً ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں نازل کردیتے“۔
یہ آسمانی نسخہ اور قرآنی علاج ہے‘ تاریخِ عالم کا آزمایاہوا نسخہ اور علاج ہے۔ لیکن اگر خدا نخواستہ یہی خدافراموشی اور خود فراموشی کی زندگی قائم رہی‘ یہی لیل ونہار رہے تو اس کے دردناک عواقب ونتائج سہنے کے لئے بھی تیار رہنا چاہیئے۔”ولن تجد لسنة اللہ تبدیلا“۔ترجمہ:․․․”اور تم سنتِ الٰہیہ میں تبدیلی ہرگز نہیں پاؤگے“۔ حق تعالیٰ رحم فرمائیں اور امتِ پاکستانیہ کو توبہ وانابت کی توفیق نصیب فرمائیں اور قہر الٰہی سے نجات اور سعادت ورضاء الٰہی کے آثار ظاہر فرمائیں اور موجودہ وآئندہ شقاوت وبربادی وتباہی سے امت کوبچائیں۔
بحرمة سید المرسلین وامام المتقین وخاتم النبیین المبعوث رحمة للعالمین علیہ صلوات اللہ والملائکة والناس اجمعین
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, جمادی الاخریٰ۱۴۲۷ھ جولائی۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: تفسیر قرآن کریم کےآداب اور عصر حاضر کے جدید مفسرین
Flag Counter