Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ۱۴۲۷ھ جولائی۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

6 - 9
تفسیر قرآن کریم کےآداب اور عصر حاضر کے جدید مفسرین
تفسیر قرآن کریم کےآداب
اور عصر حاضر کے جدید مفسرین

تفسیر وتاویل کا مفہوم
تفسیر کے معنی ہیں کسی چیز کا کھولنا‘ ظاہر کرنا‘ بیان کرنا۔ اور اہلِ علم کی اصطلاح میں تفسیرِ قرآن کے معنی ہیں: ”قرآنِ کریم کے معانی کو بیان کرنا اور مرادِ خداوندی کی تعیین کرنا“۔
تاویل کے معنی ہیں: پھیرنا‘ لوٹانا۔ اور اہلِ علم کی اصطلاح میں تاویل سے مراد ہے: ”قرآنِ کریم کے الفاظ اور جملوں کو ان کی اصل مراد کی طرف لوٹانا“۔
تفسیر وتاویل کے الفاظ عموماً ہم معنی استعمال کئے جاتے ہیں۔ اور بعض اہلِ علم ان دونوں کے درمیان یہ فرق کرتے ہیں کہ تفسیر کا لفظ زیادہ تر مفرد الفاظ کی تشریح کے لئے استعمال ہوتا ہے‘ اور تاویل کا لفظ جملوں کا مفہوم بیان کرنے کے لئے۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جس فقرے کا مفہوم قطعی طور پر متعین ہو اور اس میں کسی دوسرے مفہوم کی گنجائش نہ ہو‘ ایسے مفہوم کو بیان کرنا تفسیر کہلاتاہے۔ اور جہاں متعدد معانی کا احتمال ہو وہاں غور فکر کے بعد ایک پہلو کو متعین کرنے کا نام ”تاویل“ ہے۔ اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جو مفہوم منقول ہو‘ اس کا نام تفسیر ہے اور جو اجتہاد واستنباط سے تعلق رکھتا ہو‘ اسے تاویل کہا جائے گا۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الاتقان نوع ۷۷) خلاصہ یہ کہ: ”علمِ تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآنِ کریم کے معنی بیان کئے جائیں اور اس کے احکام اور حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے“۔(معارف القرآن مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی جلد اول ص:۴۹)
ایک نازک ترین ذمہ داری
قرآنِ کریم کی تفسیر وتشریح ایک کٹھن کام اور نہایت نازک ترین ذمہ داری ہے‘ اس لئے کہ قرآنِ کریم حق تعالیٰ شانہ کا مقدس کلام ہے اور قرآنِ کریم کی تفسیر درحقیقت حق تعالیٰ شانہ کی ترجمانی کا نام ہے‘ جب ہم قرآنِ کریم کے کسی لفظ‘ کسی جملے یا کسی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہیں تو گویا ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یہی مراد ہے‘ اس طرح اپنے بیان کئے ہوئے مفہوم کو حق تعالیٰ شانہ کی طرف منسوب کرتے ہیں‘ ظاہر ہے کہ اس سلسلہ میں ذراسی لغزش اور سہل نگاری افترأ علی اللہ کا موجب ہوسکتی ہے‘ افترأ علی اللہ نہایت سنگین جرم ہے‘ حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے:
”ومن اظلم ممن افتریٰ علی اللہ کذباً او کذب باٰیاتہ‘ انہ لایفلح الظالمین“۔
ترجمہ:․․․”اور اس سے زیادہ کون بے انصاف ہوگا‘ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھے‘ یا اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھوٹا بتلاوے‘ ایسے بے انصافوں کی رستگاری نہ ہوگی“۔
(ترجمہ حکیم الامت حضرت تھانوی)
سربراہانِ مملکت اور شاہانِ عالم کی ترجمانی کے فرائض ادا کرنا سب جانتے ہیں کہ کس قدر نازک ذمہ داری ہے‘ اور جو شخص اس ذمہ داری پر فائز ہو‘ اس کے لئے کیسی لیاقت ومہارت شرط ہے؟ شاہانہ رسوم وآداب اور زبان ومحاورات سے اس کا کس درجہ باخبر ہونا ضروری ہے‘ پھر ترجمانی کے فرائض ادا کرتے ہوئے اسے کس قدر حزم واحتیاط اور بیدار مغزی سے کام لینا چاہئے‘ اور پھر دانستہ ونادانستہ غلط ترجمانی پر کس قدر عتاب شاہی کا اندیشہ ہے؟ جب سلاطین دنیا کی ترجمانی اس قدر نازک کام ہے‘ تو اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شہنشاہِ مطلق‘ احکم الحاکمین کی ترجمانی کا کام کس قدر مشکل اور کتنا نازک ہوگا۔
قرآنِ کریم کی تفسیر اپنے اندر نزاکت کا ایک اور پہلو بھی رکھتی ہے‘ اور وہ یہ کہ قرآنِ کریم ہی سے شاہراہ انسانیت کی نشاندہی ہوتی ہے‘ اسی سے عقائد وعبادات کی شکلیں متعین ہوتی ہیں‘ اسی سے معاملات ومعاشرت کی تشکیل ہوتی ہے‘ اسی سے حق تعالیٰ شانہ کی پسند وناپسند‘ جائز وناجائز اور حلال وحرام کی حد بندی ہوتی ہے‘ اسی سے اخلاقی قدریں وجود پذیر ہوتی ہیں‘ اسی سے انسانیت وعبدیت کے پیمانے ڈھلتے ہیں‘ اسی سے اسلام کا عالم گیر قانون وجود میں آتاہے۔ الغرض دین ومذہب‘ عقائد واعمال‘ اخلاق ومعاشرت‘ سیاست وتمدن اور عدل وانصاف کے قانونی‘ اخلاقی اور انسانی پہلوؤں کا مدار قرآنِ کریم ہے اور ظاہر ہے کہ قرآنِ کریم کی تفسیر وتشریح میں ذراسی بے احتیاطی بھی کتنے ہولناک مفاسد کا سبب بن سکتی ہے؟ اور ایسے بے احتیاط مفسر اور اس پر اعتماد کرنے والے کے حق میں شدید خطرہ ہے کہ یہ کتابِ ہدایت ”یہدی بہ کثیراً“ کے بجائے ”یضل بہ کثیراً“ کا منظر پیش کرے۔
تفسیر قرآن میں سلف صالحین کی احتیاط ورزی تفسیر قرآن کی اسی عظمت ونزاکت کے پیش نظر بہت سے سلف صالحین‘ صحابہ وتابعین تفسیر کے باب میں لب کشائی سے گریز کرتے تھے‘ چنانچہ جماعت صحابہ کے گل سر سبد اور انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد انسانیت کے سب سے افضل ترین شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں‘ ان کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے قرآن کریم کے کسی لفظ کے معنیٰ دریافت کئے گئے تو فرمایا:
”ای ارض تقلنی وای سماء تظلنی اذا قلت فی کتاب اللہ مالا اعلم“۔ (تفسیر ابن کثیر ج:۱‘ص:۵)
ترجمہ:․․․”مجھے کون سی زمین اٹھائے گی او رکون سا آسمان مجھ پر سایہ فگن ہوگا۔ اگر میں کتاب اللہ کے بارے میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں“۔
اور سید التابعین حضرت سعید بن مسیب کے بارے میں منقول ہے کہ جب ان سے قرآن کریم کی کسی آیت کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا جاتا تو فرماتے:
”انا لانقول فی القرآن شیئاً“۔ (ابن کثیر ج:۱‘ص:۶)
یعنی ”ہم قرآن کریم کی تفسیر میں کچھ نہیں کہا کرتے تھے“۔
یحیٰ ابن سعید کہتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب قرآن کریم کی صرف انہی آیات میں لب کشائی کرتے تھے‘ جن کا مفہوم قطعی طور پر معلوم ہوتا تھا۔ یزید بن ابی یزید کہتے ہیں کہ جب سعید بن مسیب سے حلال وحرام اور جائز وناجائز کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو معلوم ہوتا کہ یہ دنیا کے سب سے بڑے عالم ہیں‘ لیکن جب ہم ان سے قرآن کریم کی کسی آیت کے بارے میں سوال کرتے تو ایسے خاموش ہوجاتے گویا انہوں نے سناہی نہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ”اعلم الصحابہ“ ہیں اور حضرت سعید بن مسیب ”اعلم التابعین“ ہیں‘ لیکن علم وفضل‘ دانش وبصیرت‘ تقویٰ وطہارت اور نورِ قلب میں بلند مرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود وہ قرآن کریم میں لب کشائی سے گزیر کرتے ہیں‘ کیونکہ وہ اس کی نزاکت سے باخبر ہیں‘ اور جانتے ہیں کہ تفسیر میں معمولی بے احتیاطی کا وبال کتنا سنگین ہے۔
شرائط مفسر
قرآن کریم کی تفسیر کے لئے کیسی لیاقت درکار ہے؟ اور ایک مفسر قرآن میں کن اوصاف وشرائط کا پایا جانا ضروری ہے؟علمائے امت نے اس پر تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے۔ حافظ جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ) نے ”الاتقان“ کی ۷۸ ویں نوع میں اس کا خلاصہ درج کردیا ہے۔ امام سیوطی فرماتے ہیں کہ بعض اہلِ علم تو اس کے قائل ہیں کہ کسی شخص کے لئے ‘ خواہ وہ کیسا عالم وفاضل ہو‘ قرآن کریم کی تفسیر جائز ہی نہیں‘ بلکہ جو کچھ آنحضرت ا سے منقول ہے‘ اسی پر بس کرنا ضروری ہے۔ (مگر یہ قول عامہ علماء کے نزدیک صحیح نہیں۔ ناقل)
اور علماء کی ایک جماعت اس کی قائل ہے کہ جو شخص ان علوم میں مہارت رکھتا ہو‘ جو تفسیر کے لئے ضروری ہیں‘ اس کے لئے قرآن کریم کی تفسیر جائز ہے‘ اور یہ مندرجہ ذیل پندرہ علوم ہیں:
۱- علم لغت ۲- علم صرف ۳- علم نحو ۴- علم اشتقاق
۵-علم معانی ۶-علم بیان ۷- علم بدیع ۸- علم قرآء ات
۹-علم اصول الدین ۱۰- علم اصول فقہ ۱۳-علم فقہ ۱۴-علم حدیث
۱۱- علم اسباب النزول ۱۲- علم ناسخ ومنسوخ ۱۵- نور بصیرت اور وہبی علم۔
تفسیر کے آداب
اول: تفسیر کے مأخذ میں سب سے پہلا مأخذ قرآن کریم ہے‘ اس لئے مفسر کا فرض ہے کہ وہ کسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اس کے سیاق وسباق کے ساتھ ساتھ اس مضمون کی دوسری آیات کو بھی پیش نظر رکھے‘ کیونکہ قرآن کریم میں ایک ہی مضمون کو مختلف انداز وعنوان سے بیان کیا جاتاہے‘ ایک مضمون ایک جگہ مجمل ہوگا تو دوسری جگہ مفصل‘ ایک جگہ مختصر ہوگا تو دوسری جگہ مطول‘ ایک جگہ مطلق ہوگا تو دوسری جگہ مقید۔ پس قرآن کریم کی کسی آیت سے ایسا مفہوم کشید کرنا جائز نہیں ہوگا‘ جو خود قرآن کریم کی آیات بینات کے خلاف ہو۔
دوم: اسی طرح مفسر قرآن کا یہ بھی فرض ہے کہ کسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اس ضمن میں آنحضرت ا کے قول وفعل‘ ہدی وسیرت اور آپ کی سنت وطریقہ کو پیش نظر رکھے اور تفسیر قرآن میں کوئی ایسی بات نہ کہے جو آنحضرت ا کی سنت ثابتہ کے خلاف ہو‘ کیونکہ حق تعالیٰ شانہ نے جس طرح قرآن کریم کے الفاظ آپ ا پر نازل فرمائے ہیں‘ اسی طرح اس کی تشریح وتوضیح کا بھی خود ذمہ لیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
”ثم ان علینا بیانہ“ (القیامہ) ”پھر اس کا بیان کرادینا بھی ہمارا ذمہ ہے“۔ (ترجمہ حضرت تھانوی)
اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ آنحضرت ا کو قرآن کریم کی مراد (بیان) بھی حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے بتائی جاتی تھی‘ اس لئے قرآن کریم کے شارح ومفسر خود حق تعالیٰ شانہ ہیں اور چونکہ آنحضرت ا نے وحی جلی وخفی اور نور نبوت کے ذریعہ قرآن کریم کو سمجھا تھا‘ اسی لئے آپ قرآن کریم کی تشریح وتفسیر میں بھی تلمیذ الرحمن تھے اور امت کو قرآن کریم کے مفہوم ومقصود سے آگاہ کرنا بھی آپ کے فرائض میں شامل تھا ۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
”وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلہم یتفکرون“۔ (النحل:۴۴)
ترجمہ:․․․․”اور آپ پر بھی یہ قرآن اتارا ہے تاکہ جو جو مضامین لوگوں کے پاس بھیجے گئے ان کو آپ ان سے ظاہر کردیں اور تاکہ وہ فکر کیا کریں“۔ (ترجمہ حضرت تھانوی)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
”وما انزلنا علیک الکتاب الا لتبین لہم الذی اختلفوا فیہ وہدی ورحمة لقوم یومنون“۔ (النحل:۶۴)
ترجمہ:․․․”اور ہم نے آپ پر یہ کتاب صرف اس واسطے نازل کی ہے کہ جن امور میں لوگ اختلاف کررہے ہیں آپ لوگوں پر اس کو ظاہر فرمادیں اور ایمان والوں کی ہدایت اور رحمت کی غرض سے“۔ (ترجمہ حضرت تھانوی)
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
”انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللہ“۔ (النساء:۱۰۵)
ترجمہ:․․․”بے شک ہم نے آپ کے پاس یہ نوشتہ بھیجا ہے واقع کے موافق تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جوکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلایادیا ہے“۔ (ترجمہ حضرت تھانوی)
پس امت کے لئے قرآن کریم کے سب سے پہلے شارح ومفسر خود آنحضرت اتھے اور آنحضرت ا کے تمام اقوال وافعال ‘ احکام وفرامین اور آپ کی سیرت وسنت قرآن حکیم ہی کی شرح وتفصیل ہے۔ اسی حقیقت کو ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ نبت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
”کان خلقہ القرآن“۔ (صحیح مسلم ج:۱‘ص:۲۵۶)
ترجمہ:․․․”آپ کا اخلاق قرآن تھا“۔
مطلب یہ کہ آپ کے اخلاق وعادات ‘ طور وطریق اور سیرت وکردار سب قرآن کریم کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے اور آپ جو کچھ بھی فرماتے تھے‘ وہ سب قرآن کریم ہی کی تعلیم تھی‘ اس لئے آپ ﷺ کا ہرحکم قرآن کریم کا شارح تھا۔ اسی کو امام شافعی نے ذرا کھول کر یوں بیان فرمایا:
”کل ما حکم بہ رسول اللہ ا فہو مما فہمہ من القرآن‘ قال تعالیٰ: انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللہ فی آیات آخر“ (الاتقان فی علوم القرآن ص:۱۷۶‘ج:۲)
ترجمہ:․․․”رسول اللہ ا نے جو فیصلے بھی فرمائے وہ آپ ا نے قرآن کریم ہی سے سمجھے تھے‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”بے شک ہم نے آپ کے پاس یہ نوشتہ بھیجا ہے واقع کے موافق تاکہ آپ ان لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جوکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلادیا ہے“۔
ہمارے شیخ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ نے اپنے شیخ امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری قدس سرہ کا ارشاد نقل کیا ہے:
”اگر نور بصیرت کے ساتھ احادیث شریفہ پر غور کیا جائے تو نظر آئے گا کہ بہت سی احادیث قرآن کریم کے چشمہ صافی سے نکلی ہیں‘ یہاں تک کہ بہت سی احادیث شریفہ میں قرآن کریم کی تعبیرات کی طرف لطیف اشارات پائے جاتے ہیں“۔ (یتیمة البیان ص:۲۸)
قرآن کریم کی تشریح وتفسیر کے لئے قرآن کریم کے شارح اول حضرت محمد رسول اللہ ا کی تشریح وتبیین کس قدر ناگزیر ہے‘ اس کا اندازہ مندرجہ ذیل مثالوں سے ہوگا۔
۱- قرآن کریم میں بار بار اقامت صلوٰة کا حکم دیا گیا ہے‘کس وقت کی نماز کی کتنی رکعات ہیں؟ نماز کے شرائط وارکان کیا ہیں؟نماز کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہوتی ہے وغیرہ؟ بیسیوں سوالات ایسے ہیں جن کی تشریح آنحضرت ا نے اپنے قول وفعل سے فرمائی ہے اور ان تشریحات نبوی ا کے بغیر کسی شخص کے لئے یہ ممکن نہیں کہ قرآن کریم کے حکم ”اقامت صلوٰة“ کا مفہوم متعین کرسکے۔
۲- قرآن کریم میں بہت سی جگہ زکوٰة ادا کرنے کا حکم دیا گیاہے۔ لیکن زکوٰة کس مال پر فرض ہے‘ کس پر نہیں؟ زکوٰة کا نصاب کیا ہے؟ زکوٰة کی کتنی مقدار فرض ہے؟ یہ اور اس قسم کے تمام امور آنحضرت ا کی تشریح سے امت کو معلوم ہوئے ہیں‘ ورنہ کوئی شخص مراد خداوندی کو دریافت نہیں کرسکتا تھا۔
۳- قرآن کریم میں حج بیت اللہ کا حکم دیا گیا ہے‘ لیکن حج کا طریقہ کیا ہے؟ اور اس کے ارکان ولوازمات کیا ہیں؟ ان تمام امور کی تفصیل آنحضرت ا کی قولی وعملی تشریح سے معلوم ہوئی ‘ اس کے بغیر کوئی شخص ”قرآنی حج“ کا طریقہ کار متعین نہیں کرسکتا تھا۔
یہ چند مثالیں‘ اسلام کے اہم ترین ارکان کی عرض کی گئی ہیں‘ جن سے اندازہ ہوسکتاہے کہ قرآن کریم کی مراد آنحضرت ا کے قول وفعل اور ہدی وسیرت میں متشکل ہوکر سامنے آتی ہے۔
سوم: مفسر کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ تفسیر میں آنحضرت ا کے‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے انوار سے روشنی حاصل کرے‘ اور کسی آیت کی ایسی تفسیر نہ کرے جو حضرات صحابہ  کی تفسیر کے خلاف ہو‘ کیونکہ صحابہ کرام مدرسہٴ نبوت کے بلاواسطہ شاگرد ہیں‘ اور حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے آنحضرت ا ایسے معلم انسانیت کو ان کا معلم ومرشد اور ہادی بنایاگیا‘ جیساکہ متعدد مقامات پر فرمایاہے: ”ویعلمہم الکتاب والحکمة“۔ ظاہر ہے کہ آنحضرت ا کی تعلیم‘ کتاب وحکمت کے بعد قرآن فہمی میں صحابہ کرام کا ہمسر کون ہوسکتا ہے؟ پھر صحابہ کرام نزول وحی اور اس کی عملی تشکیل کے عینی شاہد ہیں‘ سیوطی نے الاتقان میں امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد نقل کیا ہے:
”واللہ ما نزلت آیة الا وقد علمت فیم انزلت واین انزلت ان ربی وہب قلباً مقولاً ولسانا مسئولاً“۔ (الاتقان نوع:۸۰)
ترجمہ:․․․”اللہ کی قسم! جو آیت بھی نازل ہوئی اس کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ کس بارے میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی ۔ میرے رب نے مجھے بہت سمجھنے والا دل اور بہت پوچھنے والی زبان عطا فرمائی ہے“۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے برسر منبر فرمایا:
”سلونی‘ فواللہ لاتسألون عن شئ الا اخبرتکم وسلونی عن کتاب اللہ‘ فواللہ ما من آیة الا وانا اعلم ابلیل نزلت ام بنہار‘ ام فی سہل ام فی جبل“۔
ترجمہ:․․․”مجھ سے سوال کرو پس اللہ کی قسم! مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے‘ اس کا جواب دوں گا اور مجھ سے کتاب اللہ کے بارے میں پوچھو‘ پس اللہ کی قسم! قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں جس کے بارے میں مجھے یہ علم نہ ہو کہ وہ رات کے وقت اتری تھی یا دن کے وقت میدان میں اتری تھی یا پہاڑ پر“۔
اسی طرح فقیہ الامت حضرت عبد اللہ بن مسعود  کا ارشاد نقل کیا ہے:
”والذی لا الہ غیرہ ما نزلت آیة من کتاب اللہ الا وقد علمت فیمن نزلت‘ واین نزلت‘ ولو اعلم مکان احد اعلم بکتاب اللہ منی تنالہ المطایا لاتیتہ“(حوالہ بالا)
ترجمہ:․․․”اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں کتاب اللہ کی جو آیت بھی نازل ہوئی اس کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ کس کے حق میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے معلوم ہو کہ کوئی شخص کتاب اللہ کا مجھ سے زیادہ علم رکھتاہے اور اس تک پہنچنا ممکن ہو تو میں ضرور اس کی خدمت میں حاضر ہوتا“۔
پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسی محنت وجانفشانی سے فہم قرآن میں مہارت حاصل کی تھی کہ کوئی دوسرا شخص اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس سلسلہ میں صحابہ کریم کے بہت سے عجیب وغریب واقعات نقل کئے گئے ہیں‘ ان تمام واقعات کو نقل کرنا‘ موجب طوالت ہوگا۔ یہاں حضرت ابو عبد الرحمن اسلمی کا صرف ایک فقرہ نقل کردینا کافی ہوگا۔ وہ فرماتے ہیں:
”حدثنا الذین کانوا یقرء ون القرآن کعثمان بن عفان وعبد اللہ بن مسعود وغیرہما‘ انہم کانوا اذ تعلموا عن النبی ا آیات لم یتجا وزوہاا حتی یعلموا ما فیہا من العلم والعمل قالوا! فتعلمنا القرآن والعلم جمیعاً ولہذا کانوا یبقون مدة فی حفظ السورة“۔ (الاتقان نوع:۷۸)
ترجمہ:․․․”جو حضرات ہمیں قرآن پڑھاتے تھے‘ جیسے حضرت عثمان‘ حضرت عبد اللہ بن مسعود اور دیگر حضرات رضی اللہ عنہم‘ انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ جب آنحضرت ا سے دس آیتیں سیکھ لیتے تھے تو آگے نہیں بڑھتے تھے‘ یہاں تک کہ ان آیات میں جو کچھ علم وعمل ہے اس کا علم حاصل نہ کرلیں۔ وہ فرماتے تھے کہ ہم نے قرآن کریم‘ علم اور عمل تینوں کو اکھٹے سیکھا تھا‘ اسی بناء پر وہ مدت تک ایک سورة کے حفظ میں مشغول رہتے تھے“۔
الغرض تفسیر نبوی اکے بعد صحابہ کرام کی تفسیر سب سے مقدم ہے اور حقیقت میں وہ بھی آنحضرت ا ہی کی تعلیم کا ثمرہ ہے‘ اس لئے ایک مفسر کے لئے اس کا نظر انداز کرنا کسی طرح ممکن نہیں اور اسی ضمن میں اکابر تابعین کی تفسیر آتی ہے جنہوں نے صحابہ کرام سے قرآن کریم کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی‘ اس لئے مفسر پر لازم ہے کہ وہ صحابہ وتابعین کی تفسیر کے خلاف نہ چلے۔
چہارم: مفسر کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اہل حق کے عقائد واعمال اور اخلاق کا پابند ہو۔ ”الاتقان“ میں امام ابوطالب طبری سے نقل کیا ہے:
”ان من شرطہ صحة الاعتقاد اولاً‘ ولزوم سنة الدین‘ فان من کان مغموصاً علیہ فی دینہ لایؤتمن علی الدنیا فکیف علی الدین‘ ثم لایؤتمن فی الدین علی الاخبار عن عالم فکیف یؤتمن فی الاخبار عن اسرار اللہ تعالیٰ ولانہ لایؤمن ان کان متہما بالالحاد ان یبغی الفتنة ویغر الناس بلیّہ وخداعہ“ (الاتقان نوع:۷۸)
ترجمہ:․․․”مفسر کے شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلے تو اس کا عقیدہ صحیح ہو ‘ دوسرے وہ سنت دین کا پابند ہو‘ کیونکہ جو شخص دین میں مخدوش ہو‘ کسی دنیوی معاملے میں بھی اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا تو دین کے معاملے میں اس پر کیا اعتماد کیا جائے گا۔ پھر ایسا شخص اگر کسی عالم سے دین کے بارے میں کوئی بات نقل کرے‘ اس میں بھی وہ لائق اعتماد نہیں‘ اسرار الٰہی کی خبر دینے میں تو کیا لائق اعتماد ہوگا۔ نیز ایسے شخص پر اگر الحاد کی تہمت ہو تو اس کے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ تفسیر لکھ کر کوئی فتنہ کھڑا کردے اور لوگوں کو اپنی چرب زبانی ومکاری سے گمراہ کرے“۔
پنجم:اسی طرح ہرقسم کی بدعت وکجروی سے مفسر کے ذہن کا پاک ہونا بھی ضروری ہے‘ ورنہ اس کی تفسیر ناقابل اعتماد ہوگی‘ کیونکہ وہ قرآن کریم کو اپنی بدعت کے رنگ میں ڈھالنا شروع کردے گا‘ نام تو ہوگا تفسیر قرآن کا‘ لیکن جو کچھ وہ لکھے گا‘ وہ قرآن کریم کی تفسیر نہیں ہوگی‘ بلکہ اس کے بدعت آلود ذہن کا بخار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں پر فہم قرآن کریم کو حرام کردیا ہے‘ جو بدعت وخواہش نفسانی کا چشمہ لگاکر قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ”الاتقان“ میں امام زرکشی کی ”البرہان“ سے نقل کیا ہے:
”اعلم انہ لایحصل للناظر فہم معانی الوحی‘ ولایظہر لہ اسرارہ‘ وفی قلبہ بدعة او کبر او ہویٰ او حب الدنیا او ہو مصر علی ذنب‘ او غیر متحقق بالایمان او ضعیف التحقیق‘ او یعتمد علی قول مفسر لیس عندہ علم‘ او راجع الی معقولہ‘ وہذہ کلہا حجب وموانع‘ بعضہا آکد من بعض“۔
(الاتقان نوع:۷۸ ج:۲‘ص:۸۱)
ترجمہ:․․․”جاننا چاہئے کہ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والے پر وحی کے معانی ظاہر نہیں ہوتے اور اس پر وحی کے اسرار نہیں کھلتے‘ جبکہ اس کے دل میں بدعت ہو‘ یا تکبر ہو‘ یا اپنی ذاتی خواہش ہو‘ یا دنیا کی محبت ہو‘ یا وہ گناہ پر اصرار کرنے والا ہو‘ یا اس کا ایمان پختہ نہ ہو‘ یا اس میں تحقیق کا مادہ کمزورہو‘ یا وہ کسی ایسے مفسر کے قول پر اعتماد کرے جو علم سے کورا ہو‘ یا وہ قرآن کریم کی تفسیر میں محض عقل کے گھوڑے دوڑا تاہو۔ یہ تمام چیزیں فہم قرآن سے حجاب اور مانع ہیں‘ ان میں بعض دوسری بعض سے زیادہ قوی ہیں“۔
تفسیر بالرائے
جس طرح مفسر کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے خیالات وافکار سے خالی الذہن ہوکر یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ اس آیت میں قرآن کریم کی دعوت کیا ہے‘ اور کن کن مسائل پر روشنی ڈالی جارہی ہے‘ خود اپنے خیالات وافکار قرآن کریم میں ٹھونسنے کی کوشش نہ کرے۔ اسی طرح اس کا یہ بھی فرض ہے کہ تفسیر بالرائے سے اجتناب کرے‘ کیونکہ تفسیر بالرائے حرام ہے‘ اور اس پر سخت وعید آئی ہے۔ آنحضرت ا کا ارشاد گرامی ہے:
”من قال فی القرآن برأیہ فلیتبؤا مقعدہ من النار․․․ وفی روایة: من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من النار“۔ (رواہ الترمذی‘ مشکوٰة ص:۳۵)
ترجمہ:․․․”جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے بغیر علم کے قرآن میں کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنائے“۔
ایک اور حدیث میں ہے:
”من قال فی القرآن برایہ فاصاب فقد اخطأ“۔ (رواہ الترمذی وابوداود)
ترجمہ:․․․”جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی‘ اس نے اگر ٹھیک کیا تب بھی غلط کیا“۔
ت
فسیر بالرائے سے کیا مرادہے؟
امام سیوطی ”الاتقان“ (نوع ۷۸) میں ابن النقیب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ تفسیر بالرائے سے کیا مراد ہے؟ اس میں اہل علم کے پانچ قول ملتے ہیں:
اول: یہ کہ تفسیر قرآن کیلئے جن علوم کی ضرورت ہے‘ کوئی شخص ان کو حاصل کئے بغیر تفسیر کرنے بیٹھ جائے۔
دوم: کوئی شخص ان متشابہات کی تفسیر کرنے لگے جن کی مراد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
سوم: غلط مذہب کو ثابت کرنے کے لئے تفسیر کرنا۔ یعنی کوئی شخص اپنے مذہب فاسد کو تو اصل بنائے اور تفسیر کو اس کے تابع کرے اور جس طرح بھی ممکن ہو کھینچ تان کر قرآن کریم کو اپنے مذہب پرچسپاں کرے۔
چہارم: بغیر دلیل کے کسی آیت کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی قطعی مراد یہ ہے۔
پنجم: محض اپنی خواہش وپسند کے مطابق تفسیر کرنا۔ (الاتقان: ص ۱۸۳ جلد دوم)
تحریف معنوی
خلاصہ یہ کہ یہ تمام صورتیں تفسیر بالرائے کے تحت داخل ہیں‘ ہمارے زمانے میں قادیانی‘ پرویزی وغیرہ دیگر گمراہ اورکجرو فرقوں کی تفسیروں کا یہی حال ہے‘ ان کی تفسیر بالرائے سے بڑھ کر قرآن کریم کی کھلی کھلی تحریف معنوی ہے‘ چنانچہ قرآن کریم کی آڑ لے کر قطعیات دین کا انکار کیا جاتا ہے، آنحضرت ا کی سنت متواترہ کو پس پشت ڈالا جاتاہے‘ اسلام کے قطعی واجماعی عقائد کو جھٹلایاجاتاہے۔
چودہ سو سالہ اکابر امت کے اجماع مسلسل سے (جس کو قرآن کریم نے ”سبیل المؤمنین“ فرمایا ہے) انحراف کیا جاتاہے اور لغت وزبان کے قواعد سے آزاد ہوکر قرآن کریم کو جاہلانہ تحریفات کا تختہٴ مشق بنایا جاتاہے ضروری تھا کہ ایسی تحریفات کی بھی چند مثالیں ذکر کردی جاتیں‘ لیکن افسوس ! کہ اس مختصر مضمون میں اس کی گنجائش نہیں۔
ترجمہ قرآن کے آداب
قرآن کریم کا ترجمہ بھی تفسیر وترجمانی ہی کی ایک صورت ہے‘ اس لئے ترجمہ قرآن میں بھی مندرجہ بالا اصول کا لحاظ رکھنا اشد ضروری ہے‘ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا صحیح ترجمہ کرنا اس کی تفسیر سے بھی مشکل اور نازک کام ہے‘ اس لئے اس میں حزم واحتیاط کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے ‘ ترجمہ کرتے وقت قرآن کریم کے الفاظ واسلوب کی رعایت رکھنا چاہئے اور یہ ایسی مشکل اور دشوار گذار گھاٹی ہے کہ اچھے اچھے لوگ اس میں لڑکھڑا جاتے ہیں‘ یہاں مؤرخ اسلام سید الملة والدین علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کا اقتباس نقل کرتاہوں جو مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی مدظلہ نے ”معارف القرآن“ میں ماہنامہ ”العلم“ کراچی کے حوالے سے نقل کیا ہے‘ سید صاحب لکھتے ہیں:
”اس سلسلے میں مجھے دو باتیں کہنی ہیں‘ ایک تو یہ کہ قرآن پاک کے ترجمے میں بے احتیاطی کو کام میں نہ لایاجائے‘ یہ تحریف ہے اور جس کی سزا کا حال معلوم ہے‘ ترجمہ بالکل لفظی کرنا چاہئے‘ پھر آپ اس کی تشریح اپنے ضروری مطلب کے ساتھ کرسکتے ہیں‘ یہ کسی طرح درست نہیں کہ ترجمہ میں الفاظ کی رعایت کے بغیراپنے مطلوب کے مطابق کوشش کی جائے‘ یہ شدید تحریف ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ پھر کسی دوسری ضرورت کے وقت آپ کو اس آیت کا دوسرا ترجمہ دوسرے ڈھنگ سے کرنا پڑے گا‘ اس وقت آپ پر یہ ثابت ہوجائے گا کہ ہم نے اتباع ہویٰ کا دانستہ ارتکاب کیا‘ دوسری چیز یہ ہے کہ جمہور اسلام جس مسئلہ پر اعتقادی وعملی طور پر متفق ہوں‘ ان کو چھوڑ کر تحقیق کی نئی راہ اختیار نہ کی جائے‘ یہ طریق تواتر وتوارث کی بیخ کنی کے مترادف ہے‘ اس گناہ کا مرتکب کبھی میں خود ہوچکا ہوں اور اس کی اعتقادی وعملی سزا بھگت چکا ہوں‘ اس لئے دل سے چاہتاہوں کہ اب میرے عزیزوں اور دوستوں میں سے کوئی اس راہ سے نہ نکلے‘ تاکہ وہ اس سزا سے محفوظ رہے جو ان سے پہلوں کو مل چکی“۔(معارف القرآن ص:۴۶ از مولانا قاضی زاہد الحسینی بحوالہ ماہنامہ العلم کراچی جنوری تا مارچ ۱۹۵۹ء)
چند مفید تفاسیر
تفسیر کے موضوع پر ان مختصر اشارات کو ختم کرتے ہوئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند مفید اور آسان تفاسیر کی طرف راہنمائی کردی جائے۔
۱- معارف القرآن: (آٹھ جلدوں میں) از مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی‘ اس میں قرآن کریم کے متن کے ساتھ حضرت شیخ الہند کا ترجمہ ہے اور خلاصہ تفسیر حضرت حکیم الامت تھانوی کی بیان القرآن سے ماخوذ ہے اور پھر ”معارف ومسائل“ کے عنوان سے ضروری تشریحات ونکات اور مسائل ذکر کئے جاتے ہیں۔ ہمارے دور کی یہ مفید ترین تفسیر ہے۔
۲- معارف القرآن: از مولانا محمد ادریس کاندھلوی محدثانہ انداز کی یہ بہترین تفسیر ہے‘ متن قرآن کے ساتھ شاہ عبد القادرمحدث دہلوی کا ترجمہ ہے۔ تفسیر میں بیان القرآن کی پیروی کی گئی ہے اور حدیثی‘ کلامی‘ فقہی اور تاریخی فوائد کا گراں قدر اضافہ کیا گیا ہے‘ حضرت مولانا رحمہ اللہ اس کی تکمیل نہیں فرما سکے تھے‘ ان کے صاحبزادہ گرامی حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی  شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور نے اس کی تکمیل فرمائی ہے۔
۳- فوائد عثمانی بر ترجمہ شیخ الہند: حضرت شیخ :الہند مولانا محمود حسن دیوبندی قدس سرہ نے حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی کے ترجمہ کو جدید قالب میں ڈھالاتھا اور سورہٴ بقرہ اور سورة النساء کے فوائد بھی تحریر فرمائے تھے‘ بقیہ فوائد حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی نے تحریر فرمائے‘ یہ تفسیر ایک ادبی شاہکار ہے اور قرآن فہمی کے لئے کلید کا حکم رکھتی ہے۔
۴- تفسیر کشف الرحمن: از سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی اس تفسیر میں بھی ترجمہ اور سیر کے لئے حضرت شاہ عبد القادر  کی تفسیر موضح القرآن کو بنیاد بنایاگیا ہے اور قرآنی مفاہیم کو دہلی کی ٹکسالی زبان میں کیا گیاہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, جمادی الاخریٰ۱۴۲۷ھ جولائی۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: عقیدہ حیات النبی اور حضرت عزیر علیہ السلام
Flag Counter