Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول۱۴۲۷ھ اپریل۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

6 - 11
عالم اسلام کی زبوں حالی اور اس کے اسباب
عالم اسلام کی زبوں حالی اور اس کے اسباب


۳:․․․”عن ابی قتادہ  ان رسول اللہ ا قام فیہم‘ فذکر لہم: ان الجہاد فی سبیل اللہ‘ والایمان باللہ افضل الاعمال فقام رجل فقال یا رسول اللہ ارایت ان قتلت فی سبیل اللہ یکفر عنی خطایای؟ فقال لہ رسول اللہ ا نعم‘ ان قتلت فی سبیل اللہ وانت صابر محتسب‘ مقبل غیر مدبر‘ ثم قال رسول اللہ ا: کیف قلت؟ فقال ارایت ان قتلت فی سبیل اللہ ایکفر عنی خطایای؟ فقال رسول اللہ نعم وانت صابر محتسب مقبل غیر مدبر الا الدین‘ فان جبریل قال لی ذلک “۔
(مشکوٰةالمصابیح‘ص:۳۳۰)
ترجمہ:․․․”حضرت ابو قتادہ  فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اس خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور ایمان باللہ سب سے بہتر اعمال ہیں‘ تو ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے یہ بتائیں کہ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کر دئے جائیں گے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ہاں‘ بشرطیکہ تم اللہ کی راہ میں اس حال میں مارے جاؤ کہ تم صبر کرنے والے اور ثواب کے طالب ہو‘ پیٹھ دکھاکر بھاگنے والے نہ ہو‘ بلکہ دشمن کے مقابلے میں جمے رہنے والے ہو پھر رسول اللہ نے ان سے پوچھا: تم نے کیا کہا تھا ؟ انہوں نے عرض کیا کہ: مجھے یہ بتایئے کہ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کردئے جائیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں‘ بشرطیکہ تم صبر کرنے والے ہو‘ اور ثواب کے طالب ہو اور پیٹھ دکھا کر بھاگنے والے نہ ہو‘ سوائے قرض کے ‘ مجھ سے جبریل امین نے یہی فرمایا۔ (یعنی قرض کے علاوہ تمام گناہ معاف ہوجائیں گے)“۔
۴:․․․”وعن انس  قال: انطلق رسول اللہ ا واصحابہ حتی سبقوا المشرکین الی بدر‘ وجاء المشرکون‘ فقال رسول اللہ ا: قوموا الی جنة عرضہا السموات والارض‘ قال عمیر بن الحمام: بخ بخ! فقال رسول اللہ ا: ما یحملک علی قولک: بخ بخ؟ قال: لا واللہ یا رسول اللہ! الا رجاء ان اکون من اہلہا‘ قال: فانک من اہلہا‘ قال فاخرج تمرات من قرنہ‘ فجعل یاکل منہن‘ ثم قال لئن انا حییت حتی اکل تمراتی انہا لحیاة طویلة‘ قال: فرمی بما کان معہ من التمر‘ ثم قاتلہم حتی قتل “۔ (مشکوٰة المصابیح‘ص:۳۳۱)
ترجمہ:․․․”حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ا اور آپ ا کے اصحاب غزوہ بدر کے موقعہ پر روانہ ہوئے اور مشرکین سے پہلے بدر کے میدان میں پہنچ گئے‘ جب مشرکین کا لشکر آیا‘تو آنحضرت ا نے ارشاد فرمایا: جنت کے راستے پر کھڑے ہوجاؤ‘ وہ جنت جس کا عرض زمین وآسمان کے عرض کے برابر ہے‘ حضرت عمیر بن حمام انصاری نے یہ ارشاد سن کر کہا: خوب! خوب! رسول اللہ ا نے پوچھا: تم نے خوب‘ خوب کیوں کہا؟ حضرت عمیر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے یہ الفاظ اپنی اس آرزو کے اظہار کے لئے کہے کہ میں جنتی بنوں‘ آنحضرت ا نے فرمایا: اس میں کوئی شک نہیں تم جنتی ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمیر نے سرکار دو عالم ا کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر اپنی ترکش سے کچھ کھجوریں نکالیں اور کھانے لگے ‘ پھر کہنے لگے: اگر میں ان کھجوروں کے کھانے تک زندہ رہا تو یہ ایک طویل زندگی ہوگی‘ چنانچہ انہوں نے ان کھجوروں کو جو ان کے پاس تھیں پھینک دیا اور کفار سے لڑنے لگے‘ یہاں تک کہ شہید ہوگے“۔
تشریح: مسلمانوں کی زبوں حالی کے دو اسباب آنحضرت ا نے ارشاد فرمائے: ایک دنیا کی محبت اور دوسرا موت کو ناپسندکرنا‘ آج عالم اسلام پر جو مردنی چھائی ہوئی ہے اور مسلمانوں میں جو بے حسی پیدا ہوگئی ہے دوسری جانب عالم کفر نے جس طرح اپنی مہم جوئی کو جارحیت کا رنگ دے کر مسلمانوں کے خلاف کمرکس لی ہے اور اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ایک عالمی اتحاد تشکیل دے کر مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے نابود کرنے کی منصوبہ بندی جو عرصہ سے انہوں نے کر رکھی تھی پر عمل درآمد شروع کردیا ہے اور عالم اسلام کی طرف سے ان کو کسی مزاحمت یا دفاع کا خطرہ نہیں رہا‘ اس کی بنیادی وجوہات یہی دو چیزیں ہیں جو آنحضرت ا نے اپنے اس ارشاد میں فرمائیں۔
دنیا میں انسان زندگی گذارنے کے لئے رہتاہے‘ دنیوی اسباب کو اختیار کرنا اور ان سے فائدہ حاصل کرنا ایک ضرورت ہے‘ ہرانسان کو اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے اسباب کو اختیار کرنا لازمی ہے‘ دنیوی اسباب اختیار کئے بغیر نہ انسان خود اپنی صلاحیتوں سے مستفیض ہوسکتاہے اور نہ ہی کسی دوسرے کو مستفیض کرسکتا ہے‘ اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے دنیوی اسباب کا سہارا ایک کافر بھی لیتاہے اور ایک مسلمان بھی ‘ پھرمسلمانوں کے لئے دنیا کی محبت کو امت کی زبوں حالی کیوں قرار دیا گیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ دنیوی اسباب کو اختیار کرنا اور ان سے مستفیض ہونا نہ ناجائز ہے اور نہ ہی کوئی گناہ کا کام ہے‘ کافر بھی ان اسباب کو اختیار کرتاہے اور مسلمانوں کو بھی یہ اسباب اختیار کرنے چاہئیں‘ کافر اسباب کو منزل مقصود کے طور پر اختیار کرتاہے اور مسلمان اسباب کو اسباب کی حد تک اختیار کرتا ہے اور ان اسباب کو منزل مقصود تک رسائی کا ایک ذریعہ سمجھتاہے نہ کہ منزل مقصود۔
امت کی تباہی‘ بربادی اور تنزلی اس وقت سے شروع ہوئی جب سے امت مسلمہ نے دنیاوی اسباب کو کفار کی طرح مقصود اور کامیابی کی کا ذریعہ سمجھ لیا‘ آج دنیا میں جس طرح کفار مختلف طبقات رکھتے ہیں‘ کوئی امیر ہے کوئی غریب ‘ کوئی تعلیم یافتہ ہے‘کوئی ان پڑھ اور جاہل ہے‘ اسی طرح مسلمانوں میں بھی مختلف طبقات ہیں‘ لیکن کفار اپنی دنیوی برتری‘ تعلیمی برتری‘ اورجدید ترقی کی برتری کی بنا پر اپنے کسی کافر بھائی کو کم تر نہیں سمجھتے‘ بلکہ اس کی ہرطرح کی امدادکرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور مسلمان اپنی مادی برتری کی وجہ سے اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو کم تر اور ناقابل توجہ سمجھتے ہیں ‘ اپنی ظاہری شکل وصورت‘ بود وباش‘ نقل وحرکت‘ انداز گفتگو اور چال ڈھال میں‘ وہ اپنے آپ کو کفار کے نزدیک تر کرنے کی کوشش کرتاہے اور جس طرح ایک کافر دنیا کے مال ومتاع کا دلدادہ ہوتاہے اور دنیا کے لئے وہ اپنی عزت وناموس کا خیال نہیں رکھتا‘ دنیا کے حصول کے لئے اس کی نظر میں غیرت وبے غیرتی نام کی کوئی چیز نہیں‘ دنیا کی محبت میں وہ دین دھرم کا خیال نہیں رکھتا‘ دنیا کی محبت میں وہ خاندان‘ نسب‘ معاشرتی اقدار‘ تہذیبی اور ثقافتی روایات کا خیال نہیں رکھتا‘ اپنے مطلب کے حصول کے لئے وہ ہرکسی کا ہوتاہے اور مطلب کے پورا ہونے کے بعد وہ اپنے ماں باپ کا بھی نہیں ہوتا‘ بعینہ یہی صورت حال آج اکثر مسلمانوں نے اپنا رکھی ہے۔
آج پوری دنیا میں مسلمان مظلوم ہے‘ فلسطین میں مسلمان مظلوم ‘ کشمیر میں مسلمان مظلوم ‘ چیچنیا میں مسلمان مظلوم ‘ بوسنیا میں مسلمان مظلوم ‘ ستر سال کا عرصہ مسلمانوں نے سوویت میں مظلومیت کا گذارا جہاں مسلمانوں پر نماز پڑھنے کی پابندی ‘ روزہ رکھنے کی پابندی ‘ قرآن کریم پڑھنے‘ مساجدآباد کرنے‘ داڑھی رکھنے‘ دینی علوم حاصل کرنے اور دین کے ساتھ وابستگی ظاہر کرنے کی پابندی تھی‘ آج بہت سارے اسلامی ممالک میں بھی دین کے ساتھ وابستگی ظاہر کرنے اور دین پر عمل کرنے والوں پر طرح طرح کے الزامات عائد کرکے ان کو اذیتیں دی جاتی ہیں‘ اس وقت جہاں کہیں بھی مسلمان مظلوم ہے اور دوسرے مسلمان جن کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہرطرح کی دنیاوی نعمتوں سے مالا مال کررکھا ہے‘ ان مظلوموں کے حق میں کلمہ خیر بلند کرنے سے عاجز اور قاصر ہیں۔
اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان نام نہاد مسلمان ممالک کو ڈر ہے کہ کفار اقوام متحدو‘ امریکہ اور برطانیہ کہیں ہم پر بنیاد پرستی کا الزام نہ لگادیں‘ اور ہمارے ساتھ سفارتی تعلقات نہ منطقع کرلیں‘ اور کہیں ہم پر اقتصادی پابندی نہ عائد کردیں‘ حالانکہ اگر مسلمان ممالک ہمت کرکے صرف ایک چیزیعنی تیل کی ترسیل بند کردیں تو تمام کافر قوتیں تاریکی میں ڈوب جائیں اور ان کی چکا چوند ترقی کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ جائے گا‘ لیکن مسلمان ممالک کے سربراہ وہن کی بیماری میں مبتلا ہیں‘ حب جاہ اور حب مال میں اس طرح غرق ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ دنیاوی ساز وسامان نہ رہا تو ہم کہیں کے بھی نہیں رہیں گے‘ رسول اللہ ا نے بنی اسرائیل کے ہلاک ہونے اور دنیا سے ان کے ختم ہونے کی وجہ بھی حب الدنیا‘ دنیوی مال متاع میں رغبت اور دنیا پر تن من دھن سے قربان ہونا ارشاد فرمائی ہے‘ اگر یہ بیماری جیساکہ آج کل مسلمانوں کو لگی ہوئی ہے‘ اس طرح چلتی رہی تو جو حشر گذشتہ اقوام کا ہوا تھا‘ اس جیسا یا اس سے بدتر حشر مسلمانوں کا ہوگا۔
مسلمانوں کے زوال اور ابترحالت کی دوسری وجہ آنحضرت ا نے کراہیة الموت ارشاد فرمائی‘ مسلمان جب تک موت کو ناپسند نہیں کرتے تھے اور اللہ کی راہ میں جان دینے سے زیادہ محبوب کوئی چیز ان کی نظر میں نہ تھی تو عددی برتری ‘ اورساز وسامان کی برتری ان کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتی تھی۔ حضرت ابو وائل  کہتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص  نے قادسیہ کے میدان میں پڑاؤ ڈالا تو ہم سات آٹھ ہزار سے زیادہ نہ تھے‘ جبکہ مشرکین کی تعداد اس وقت ساٹھ ہزار تھی اور ان کے پاس دیگر اسلحہ کے علاوہ ہاتھی بھی تھے۔ ان کفار نے ہمیں کہا اگر خیریت چاہتے ہو تو واپس چلے جاؤ‘ اس لئے کہ تمہارے پاس نہ نفری ہے اور نہ ہی طاقت اور نہ ہی اسلحہ‘ ہم نے کہا کہ ہم تو واپس جانے والے نہیں ہیں‘ وہ ہمارے نیزوں کا مذاق اڑاتے اور ہمیں گرے پڑے لوگ سمجھتے۔ جب ہم نے واپسی کا انکار کیا تو انہوں نے کہا کہ: ایک عقلمند آدمی ہمارے پاس بات چیت کے لئے بھیج دو‘ حضرت مغیرہ  نے فرمایا کہ: میں جاتاہوں‘ یہ سیدھا جاکر رستم کے ساتھ تخت پر بیٹھ گئے‘ رستم سمیت دربار والوں نے اس پر ناک چڑھائی تو حضرت مغیرہ نے فرمایا کہ: تخت پر بیٹھنے سے میری شان میں کچھ اضافہ نہیں ہوا اور تمہارے ساتھی کی شان میں کچھ کمی نہیں ہوئی۔ رستم نے کہا کہ:تمہیں اس کسمپرسی کی حالت میں کیا چیز تم کو تمہارے ملک سے ہمارے ہاں لائی ہے کہ نہ تو تمہاری کوئی تعداد اور نہ تم کوئی اسلحہ رکھتے ہو؟‘ حضرت مغیرہ نے فرمایا کہ: ہم انتہائی گمراہی اور بدبختی میں مبتلا تھے‘ اللہ نے ہم کو ہدایت دی اور اپنے نبی ا کے ذریعہ ہمیں ہدایت کے ساتھ رزق بھی دیا‘ اس رزق میں یہاں کا اناج بھی تھا‘ ہمارے ساتھیوں نے وہ اناج کھایا‘ اپنے بال بچوں کو کھلایا‘ تو انہوں نے کہا کہ: اب ہمیں وہاں کا اناج وہاں جاکر کھائے بغیر چین نہیں آتا۔ رستم نے کہا کہ: ہم تم کو قتل کردیں گے‘ حضرت مغیرہ نے کہا : اگر تم ہم کو قتل کروگے تو ہم جنت میں چلے جائیں گے اورہم تمہیں قتل کریں گے تو تم جہنم میں چلے جاؤگے‘ اگر دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہو تو ہمیں جزیہ دو‘ جب حضرت مغیرہ نے ان سے جزیہ کا مطالبہ کیا تو وہ اس پر چیخا‘ ناک چڑھائی‘ اور کہنے لگا کہ اب ہماری تمہاری صلح نہیں ہو سکتی‘ حضرت مغیرہ نے فرمایا کہ: اچھی بات ہے‘ اب تم دریا عبور کرکے آنا چاہتے ہو یا ہم آجائیں‘ رستم نے کہا کہ ہم شجاعت وبہادری کے ساتھ دریا عبور کرکے آئیں گے‘ مسلمان کچھ پیچھے ہٹ گئے‘ یہاں تک کہ جو دریا عبور کرسکتے تھے انہوں نے دریا عبور کیا‘ اورپھر مسلمانوں نے ان پر یکبارگی حملہ کردیا یہاں تک کہ ان کو شکست دے دی ۔ (کتاب الخراج)
حضرت عبد اللہ بن حجش کہتے ہیں کہ ہم خندق عبور کرتے تو ہمارے پاؤں کفار کی پشت پر پڑتے‘ زمین پر ہمارا قدم نہ لگتا تھا اور ان کو ہمارے اسلحے نے نہیں بلکہ خود انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا تھا۔
حضرت عبد اللہ بن جحش کہتے ہیں کہ ایک جگہ ایک شخص ہمیں ملا‘ اس نے اسلحہ ایک قبر میں چھپاکر رکھا تھا‘ اور اس نے سونے کے گنگن پہن رکھے تھے‘ وہ ہماری طرف آیا‘نہ اس نے ہمارے ساتھ بات کی اور نہ ہم نے اس کے ساتھ بات کی ‘ ہم نے اس کو قتل کیا ان کی پوری فوج کو ہم نے شکست دی‘ یہاں تک کہ وہ فرات تک پہنچے‘ ہم ان کے پیچھے فرات تک گئے‘ وہ لوگ وہاں سے شکست خوردہ ہو کر سورا پہنچے‘ وہاں سے صراة پہنچے‘ وہاں سے شکست ہونے کے بعد وہ مدائن آئے‘ اور کوئی مقام پر ٹھہرے جہاں مشرکین کے اسلحے کے ڈپو تھے‘ وہاں ہمارے شہ سوار پہنچے‘ان سے لڑائی کی‘ مشرکین کو قتل کیا‘ وہ مشرکین پھر مدائن پہنچے اور دجلہ کے کنارے چلتے رہے‘ ہم میں سے کچھ لوگ وادی کے اوپر کی جانب سے داخل ہوئے اور کچھ مدائن کے نیچے کی جانب سے۔ ہم نے ان کا محاصرہ کیا‘ ان کے کھانے کے لئے سوائے کتوں ‘ بلیوں کے کچھ نہ رہا‘ ایک رات میں انہوں نے کوچ کیا اور جلولاء مقام پر پہنچے‘ حضرت سعد نے ان کا پیچھا کیا اور فوج کے مقدمہ پر ہاشم بن عتبہ تھے‘ اور یہ اپنی نوعیت کا ایک عجیب واقعہ تھاکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کیا اوروہ شکست خوردہ ہوکر نہاوند جا چھپے۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کی بازی لگانے کا ایک عجیب وغریب واقعہ حضرت ابو محجن کا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص  نے ان کو شراب پینے کے جرم میں جنگ قادسیہ کے موقعہ پر گرفتار کرکے ہتھکڑیاں پہنادی تھی‘ حضرت سعد  رخمی ہونے کی وجہ سے گھر سے باہر نہ آسکے‘ ان کو مکان کی چھت پر بٹھادیا گیا تھا‘ تاکہ وہ میدان جنگ کا نظارہ کر سکیں ‘ ادھر حضرت ابو محجن نے جنگ کی صورت حال دیکھی تو ان سے رہا نہ گیا‘ انہوں نے حضرت سعد کی اہلیہ سے درخواست کی: آپ مجھ کو آزاد کردیں‘ میں اللہ کے نام کا عہد دیتاہوں کہ اگر میں اس معرکہ میں مارا جاؤں تو تمہاری جان چھوٹ جائے گی اور اگر زندہ بچ گیا تو واپس آکر ہتھکڑیاں پہن لوں گا‘ وہ حضرت سعد کے بلقاء نامی گھوڑے پر سوار ہوکر دشمنوں کی صف میں گھس گئے‘ وہ دشمن کے جس حصے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان کو شکست دیتے ہیں‘ لوگ حیران ہوئے ان کی کارگردگی دیکھ کر کہتے: یہ کوئی فرشتہ ہے‘ حضرت سعد  مکان کے اوپر سے منظر ملاحظہ کرکے فرمانے لگے کہ : یہ ڈٹ جانا تو بلقاء (گھوڑے) کا لگ رہاہے اور نیزہ بازی کا انداز ابو محجن کا ہے‘ جب کہ ابو محجن قیدی ہیں‘ جب اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست دی تو حضرت ابو محجن آئے ‘ اپنے پاؤں میں دوبارہ بیڑی ڈالدی حضرت سعد کو صورت حال کا پتہ چلا تو انہوں نے فرمایا: میں اب اس آدمی کو نہیں ماروں گا‘ جس کی وجہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اتنی بڑی آزمائش سے بچایا ہے‘ حضرت ابو محجن نے کہا کہ پہلے تو میں شراب پیتا اور مجھ پر حد لگتی اور مجھے پاک کردیا جاتا اب جب کہ مجھ کو اسی طرح چھوڑ دیا گیا تو اللہ کی قسم میں اب کبھی بھی شراب نہیں پیؤں گا ۔ (کتاب الخراج)
یہ اور ان جیسے سینکڑوں واقعات سیر ومغازی کے ابواب کی زینت ہیں‘ مسلمان جب اللہ کی راہ میں جان دینا جانتے تھے‘ تو کوئی قوت ان کو خوفزدہ نہ کر سکی اور کوئی قوت ان کو ان کے موقف سے دستبردار نہ کر سکی‘ دشمن کی افرادی قوت دشمن کے اسلحہ کی برتری ان کو اس وجہ سے کمزور اور خوفزدہ نہ کرسکی کہ وہ جان کے نذرانے کو ناپسند نہیں‘ بلکہ محبوب اور مرغوب مشغلہ سمجھتے تھے‘ دنیا کے تمام لذائذ سے زیادہ لذیذ ان کی نظر میں اللہ تعالیٰ کے لئے جان دینا تھا‘ انہی کی قربانیوں کی بدولت قرنِ اول ہی میں چہار سو عالم اسلام کا ڈنکا بجنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے کفر کی گٹھائیں چھٹنے لگیں اور دنیا کا گوشہ گوشہ نور اسلام سے منور ہونے لگا‘ آج مسلمان مجموعی طور ۵۶ ممالک پر حکمرانی کررہے ہیں‘ دنیا کا بہترین جغرافیائی خطہ اللہ نے مسلمانوں کو عنایت فرمایاہے‘ دنیا کے بہترین معدنی وسائل اللہ نے مسلمانوں کو دئے ہیں اور دنیا کے اعلیٰ دماغ افراد اللہ نے مسلمانوں کو دیئے ہیں‘ لیکن دنیا کی محبت اور کراہیت قتال‘ اور حکمرانوں کی حکمرانی ہوس نے مسلمانوں کو اس حالت تک پہنچادیا کہ مسلمان اپنے مسلمان ہونے پر شرمندہ نظر آتاہے‘ کفار کے سامنے تمام مسلم حکمرانوں کا رویہ معذرت خواہانہ ہے‘ کافر کفر اور شرک کرکے بھی مسلمانوں کے سامنے کسی وضاحت کا محتاج نہیں اور مسلمان اسلام اور دین حق پر اول تو عمل کرنے کا روا دار نہیں‘ اور اگر ہے تو معذرت خواہانہ لب ولہجہ سے‘ اور یہی مسلمانوں کی پستی اور زوال کی علامت ہے؟ آج بھی اگر مسلمان آنحضرت ﷺ کے ارشادات پر عمل کرکے کفار کو للکاریں تو پورا عالم کفر ان کی جھولی میں آکر رہے گا‘ بات ہمت کی ہے۔ اللہ ہمیں اورتمام مسلمان حکمرانوں کو ہمت کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین․
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ربیع الاول۱۴۲۷ھ اپریل۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: جامعہ کے نصاب تعلیم میں ایک مفید اضافہ
Flag Counter