Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۲۷

ہ رسالہ

8 - 10
استاذ محترم شاہ جی
استاذ محترم شاہ جی

”اس دنیا میں آنا اور یہاں سے جانا اللہ نے کسی کے اختیار میں نہیں رکھا “،”کسی بھی ذی روح کی پیدائش درحقیقت اس کی موت کی تمہید ہے“ ،” موت کے لئے وقت ، دن اورمقام مقرر نہیں“،یہ اور اس جیسے بیشمار جملے مختلف تعزیتی مواقع پر اکثر وبیشتر سننے میں آتے رہتے ہیں ،کوئی بھی چیز جب زیادہ ہوجائے تو اپنا اثر کھو بیٹھتی ہے ،شایداسی لئے موت کی یاد اور خوف سے دل خالی ہے،لیکن استاذ محترم مولانا سید عنایت اللہ شاہ صاحب رحمہ اللہ کی جواں سالی میں اس اچانک اور حادثاتی موت نے ان سنی ہوئی باتوں کو یقین میں بدل ڈالا ، حاشیہٴ خیال میں بھی نہ تھا کہ ہمارے شاہ جی اتنی جلدی ہم سے جدا کردیے جائیں گے ،صبح بالکل خوش ہشاش بشاش جامعہ کی مسجد میں سالانہ امتحان کی نگرانی اور دفتری امور نمٹاتے ہوئے آپ کودیکھا ،حتی کہ ساڑھے بارہ بجے شاہ جی سے مل کرجامعہ سے نکلا ،کس کو خبر تھی کہ یہ شاہ جی سے الوداعی مصافحہ ہے ،کسے اندازہ تھا کہ آج کے بعد ان سے ملاقات نہ ہوسکے گی، راستے کے کام نمٹاتے ہوئے پونے تین بجے کے قریب ابھی گھر پہنچا ہی تھا کہ آپ کے انتقال کی اطلاع ملی،یوں اچانک اس حادثے کی خبر سن کر دل بیٹھ سا گیا،اپنی سماعت پر یقین نہ آتا تھا،لیکن جوہونا تھا وہ ہوچکاتھا،بھلا موت کو آج تک کسی نے شکست دی ہے ۔
شاہ جی مرحوم جامعہ علوم اسلامیہ کے سابق شیخ الحدیث وناظم تعلیمات حضرت مولانا سید مصباح اللہ شاہ صاحب قدس سرہ کے تیسرے نمبر کے صاحبزادے تھے ،مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ آپ کے والد ماجد حضرت شاہ صاحب کا مختصر تذکرہ کردیا جائے ،حضرت شاہ صاحب کا تعلق ”چنار کوٹ تحصیل مانسہرہ “ (ہزارہ) سے تھا، حضرت مولانا سید مصباح اللہ شاہ صاحب کی تعلیم کا آغاز۱۳۵۵ئھ میں دارالعلوم دیوبند کی مبارک اور نورانی فضا میں ہوا،اس وقت آپ کی عمر صرف چھ سال تھی ،۱۳۷۲ئھ/۱۹۵۳ءء میں جب کہ آپ کی عمر ۲۳ سال تھی دارالعلوم ٹنڈوالہ یار میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری ، محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری  اور حضرت مولانا اشفاق الرحمن سے دورہٴ حدیث کی تکمیل کی ،۱۹۶۵ءء میں حضرت بنوری  کے ایماء پر آپ تدریسی خدمات انجام دینے کے لئے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن تشریف لے آئے ،جامعہ میں تقریباتیس سال کے طویل عرصے تک آپ اخلاص وللہیت کے ساتھ قرآن وحدیث کی تدریس میں مشغول رہے اور۱۹۹۵ءء میں سفر آخرت پر روانہ ہوگئے ۔
استاذ محترم مولاناعنایت اللہ شاہ صاحب کے والد جس طرح ”شاہ صاحب“ کے لقب سے معروف تھے اسی طرح آپ بھی اپنے حلقہ احباب اور متعلقین میں ”شاہ جی“ کے نام سے مشہور تھے، شاہ جی نے میٹرک تک عصری تعلیم حاصل کرکے مادرِ علمی جامعہ علوم اسلامیہ میں درس نظامی میں داخلہ لیا ،درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد جامعہ میں ہی مدرس اور معاون دفتری امور کے طور پر آپ کا تقرر ہوگیا،شاہ جی نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے صحیح معنوں میں مکمل طور پروقف کیا ہوا تھا،ان کی دین کی اس خدمت میں کہیں دنیا چھپی نہیں دکھائی دیتی تھی ،شاہ جی کی زندگی کا دائرہ مدرسہ مسجد اور گھر کی تکون میں محدود تھا ،لیکن یہی در اصل لا محدود زندگی کی تیاری تھی جس کا نتیجہ کچھ یوں نکلا کہ ظہر کی نماز پڑھاکر مسجد سے جامعہ کی طرف آنے کے لئے نکلے اور راستے میں ہی ٹریفک حادثے کے سبب ۲۵رجب ۱۴۲۶ھ بمطابق ۳۰اگست ۲۰۰۵کو تمغہٴ شہادت حاصل کرلیا،شاہ جی اپنے ہمعصروں میں عجز وانکسار کا مثالی نمونہ تھے، آپ کی ہرادا سادگی کی گواہی دیا کرتی تھی ،نام ونمود سے کوئی غرض نہ تھی ،اپنے کام سے کام میں لگے رہنے کے عادی تھے ،جامعہ کے دفتر میں کافی اہم ذمہ داریاں آپ کے سپرد تھیں،کام کیسا ہی کیوں نہ ہوشاہ جی تمام امور سے بڑی خوبی سے عہدہ برآہوتے ،رسمی الفاظ وتکلفات سے بالاترہوکر واقعتا وہ اپنے آپ کو جامعہ کا خادم سمجھتے تھے۔
شاہ جی کے ساتھ پہلے پہل میرا تعلق برادرانہ اور کچھ دوستانہ نوعیت کاتھا ،جس میں احترام کے ساتھ ساتھ کچھ بے تکلفی بھی شامل تھی ،لیکن یہ بے تکلفی بھی ادب کے دائرے میں بند تھی ، خوش قسمتی یہ ہوئی کہ وہی سابقہ تعلق استاذ اور شاگرد کے رشتے میں بدل گیا ،شاہ جی جس سال دورہٴ حدیث کے طالب علم تھے اس سال میں اعدادیہ سوم میں تھا، یہ ۱۹۹۶ء کی بات ہے ،اور غالبا کچھ عرصہ قبل ہی حضرت شاہ صاحب کی وفات کا سانحہ پیش آیا تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وفاق المدارس کے سالانہ امتحانات میں شاہ جی، میرے بڑے بھائی اور راقم پرچہٴ امتحان شروع ہونے سے قبل جامع مسجد بنوری ٹاوٴن کے برآمدے میں اس دن کے ہونے والے پرچے پرایک دوسرے سے تبادلہٴ خیال کیا کرتے تھے ،ہم تینوں میں سے ہر کوئی اپنی اپنی مشکلات اور تیاری نہ ہونے کا رونا رو رہا ہوتا تھا ،امتحانات گذرگئے ،سالانہ چھٹیاں بھی ختم ہوگئیں ،نیا تعلیمی سال شروع ہوگیا ، پہلا دن تھا ،ہر گھنٹے میں ایک تجسس رہتا تھا کہ اب کون سے استاذ درسگاہ میں تشریف لائیں گے؟ وقفے کے بعد تیسرے گھنٹے میں پتہ چلا کہ اس سال شاہ جی کاجامعہ میں تقررہوگیا ہے اور اب انہی کا سبق ہے ،” تاریخ اسلام “کی تدریس آپ کے سپرد تھی،پورے سال بہت محنت عرق ریزی اور پابندی کے ساتھ آپ نے پڑھایا ،طلبا کو یہ کتاب آپ نے ازبر کرادی،آپ سبق کے دوران ہمیں عربی مضمون نگاری کی بھی رغبت دیا کرتے تھے ،عربی میں لکھنے کا شوق اس انتہا کو پہنچاکہ ایک بار درسگاہی امتحان میں چند لڑکوں نے ”تاریخ اسلام “کا پرچہ عربی میں حل کیا،جس پر شاہ جی بہت خوش ہوئے اورحوصلہ افزائی کے طور پر انعام بھی دیا، اس کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار آپ ”نماز مدلل “بھی پڑھایا کرتے تھے ،کبھی کبھار اس لئے کہ” نماز مدلل “کی تدریس محدث العصر حضرت بنوری نور اللہ مرقدہ کے بڑے صاحبزادے استاذ محترم مولانا سید محمد بنوری قدس سرہ مرحوم کے ذمے تھی ،آپ نے شاہ جی کو کہہ رکھا تھا کہ جس دن کسی مصروفیت کے باعث میں نہ آسکوں تو آپ سبق پڑھا دیا کریں ،یوں درجہ اولیٰ کے سال شاہ جی سے وہ سابقہ تعلق اوردوستی استاذ اور شاگرد کے مقدس رشتے میں بدل گئی،شاہ جی سے پرانا تعلق بھی تھا اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ میرے استاذ بھی تھے اس لئے جب کبھی شاہ جی کی جامعہ میں اپنے ساتھی اساتذہ سے کچھ دلچسپ سی نوک جھونک ہوتی تو و ہ شاگرد ہونے کی بنا پراز راہ مذاق فوری محاکمے کے لئے مجھ سے فرمائش کرتے،اور میں شاہ جی کے حق میں فیصلہ کردیتا ،شاہ جی چونکہ جامعہ کے دفتر میں بیٹھا کرتے تھے ، اس لئے عرصہ دس سال سے تقریبا روزانہ اور دن میں کئی بار آپ سے ملاقات معمول کا ایک حصہ تھی ، شاہ جی کو شاید جلدی جانا تھا ، اس لئے وہ ہم سے جلد رخصت ہوگئے ، اللہ کے ہاں ان کے مقبول ومحبوب ہونے کی یہ نشانی ہے کہ فتنوں کے اس دور میں اللہ نے شاہ جی سے دین کی خدمت لیتے لیتے اپنے پاس بلا لیا ، اللہ سے دعا ہے کہ استاذ محترم شاہ جی کی بال بال مغفرت فرمائے ، ان کے درجات بلند فرمائے ، اور ہم شاگردوں کو شاہ جی اوراپنے تمام اساتذہ ٴ کرام کے لیے صدقہ جاریہ بنائے ، آمین۔
نذر اشک بے قرار از من پذیر
گریہٴ بے اختیار از من پذیر
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, محرم الحرام ۱۴۲۷ھ بمطابق فروری۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: اباحیت کا فتنہ 
Flag Counter