Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جون 2010

ہ رسالہ

7 - 13
ملفوظات حضرت والا ہردوئی
ایف جے،وائی(June 3, 2010)

(گذشتہ سے پیوستہ)

۱۲؍ محرم الحرام ۱۴۹۹ھ

ارشاد فرمایا کہ ہر انسان جو عمل کرتا ہے وہ ان سات قسموں کے اندر ہوتے ہیں۔ فرض، وجب، سنت موکدہ، مستحب، مباح، مکروہ تحریمی، حرام۔ اسی طرح آدمی بھی دو قسم کے ہوتے ہیں عامی یا عالم پھر ہر ایک کی تین قسمیں ہیں۔ عامی عاصی، عامی صالح، عامی مصلح، اسی طرح عالم عاصی، عالم صالح، عالم مصلح۔

پس اصلاح کے لیے عالم عاصی محتاج ہوگا عامی مصلح کا۔ اس مثال سے یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے کہ بعض علماء نے اپنا مرشد غیر عالم تجویز کیا۔ جیسے عالم اگر قاری نہیں ہے تو قرأت سیکھنے میں قاری کا محتاج ہوگا مگر قاری صاحب مسائل میں ہمیشہ عالم صاحب کے محتاج رہیں گے۔

ان اقسام مذکور میں جو عالم مصلح ہوتا ہے وہ جامع ہوتا ہے اور محقق ہوتا ہے ؎

نہ ہر کہ چہرہ برافروخت دلبری داند

نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند

ارشاد فرمایا کہ معاصی سے نفرت واجب اور عاصی سے نفرت حرام۔ اگر باپ کے اوپر بچہ نے پیشاب کردیا تو باپ کے کپڑوں اور بدن کو ناپاک سمجھوگے لیکن کیا باپ کو حقیر سمجھو گے یا باپ سے نفرت ہوگی، یہی مثال گنہگار کی ہے گناہوں سے نفرت کیجئے مگر گنہگار کو حقیر نہ جانئے۔ ایک عابد اوپر رہتا تھا عبادت کا ناز تھا نیچے اس کا گنہگار بھائی رہتا تھا۔ ایک دن اس گنہگار بھائی کا ارادہ ہوا کہ چلو اپنے بھائی کے ہاتھ پر توبہ کرلوں اور اوپر عابد بھائی نے ارادہ کیا چلو جس طرح نیچے والا گنہگار بھائی گناہ سے مزہ لے رہا ہے میں بھی کچھ لے لوں۔ نیچے والا اوپر کو چلا اوپر والا نیچے کو چلا دونوں اچانک گر کر مرگئے بتائیے کہ دونوں کا خاتمہ کیسا ہوا؟ فیصلہ کرلیجئے۔

ارشاد فرمایا کہ دین سیکھنے کے لیے پہلے زمانے میں کیسا ذوق تھا۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک شخص دمشق سے مدینہ شریف حاضر ہوا صرف التحیات سیکھنے کے لیے کہ ہم کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم جیسے التحیات پڑھا کرتے تھے ویسی التحیات سکھادیجئے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس کے اس جذبہ سے رونے لگے اور فرمایا اﷲ اکبر کیا طلب ہے جنتی کا نمونہ معلوم ہوتا ہے۔

ارشاد فرمایا کہ بیعت ہوکر اپنے حالات کی اطلاع مرشد کو نہ کرے اور نہ اصلاح کرائے تو اس بیعت سے کیا فائدہ یہ تو وعدہ خلافی ہے۔

ایک صاحب کی بیوی کو فالج گرا ہوا ہے انہوں نے تبلیغ میں جانے کا مسئلہ معلوم کیا تو فرمایا حال غالب نہ ہونا چاہیے حال کو تابع اعمال کے رکھے اہلیہ کو یا ماں باپ کو بیمار چھوڑ کر تبلیغ میں نہ جائے اگرچہ کوئی اور خدمت کرسکتا ہو مگر شوہر سے جو تقویت بیوی کو ہوتی ہے وہ دوسروں سے نہیں ہوتی اسی طرح ماں باپ کو اولاد سے جو تقویت ہوتی ہے وہ دوسرے خدام سے نہیں ہوسکتی۔ اسی موقع پر بزرگوں کا یہ ارشاد ہے ؎

اے قوم بحج رفتہ کجائید کجائید

معشوق ہمیں جاست بیائید بیآئید

بقر عید کی نو تاریخ کو عرفات کے میدان میں تما م حاجی صاحبان جمع ہیں اور کوئی صاحب حال جذبۂ عشق الٰہی سے سرشار جاکر کعبہ کا طواف کریں اور عرفات نہ آویں تو ان کا حج بھی نہ ہوگا اور بجائے قرب الٰہی کے اور دوری میں مبتلا ہوگئے۔ کیونکہ اس دن تو کعبہ والا محبوب عرفات کے جنگل میں ہے ان کی خاص تجلیات قرب و رضا حدود عرفات کے اندر ہیں جہاں بھی شاہ خیمہ لگالے انعام وہیں ملے گا۔ پس بیوی یا ماں باپ کی بیماری میں اﷲ تعالیٰ انہیں کے پاس مل جائیں گے ان کی خدمات میں لگا رہے اور ان کے قریب رہتے ہوئے جو کچھ دین کی خدمت کرسکتا ہو کرتا رہے۔

ارشاد فرمایا کہ بیماری کی دو قسمیں ہیں اصلی اور عارضی جیسے قبض سے دردسر ہو تو اصلی بیماری قبض ہے اور درد سر عارضی ہے اسی طرح قلب کی غفلت اور خرابی اور سختی اصلی بیماری ہے پھر اس کی خرابی سے اعمال میں خرابی عارضی بیماری ہے پس اصلی بیماری کا علاج کرنا چاہیے یعنی دل کا علاج اﷲ والوں سے کرانا چاہیے پھر دل کی درستی سے اعمال اور اخلاق کی درستی خود بخود ہونے لگتی ہے۔

ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا عبدالرحمن کیمبل پوری محدث تھے ایک اشکال ہوا کتابوں سے حل نہ ہوا حضرت حکیم الامتؒ کو لکھا کہ حضرت زکوٰۃ ادا کرنے میں انشراح قلبی نہیں ہوتا تو نفس کی ناگواری کے ساتھ بدون انشراح یہ ادائیگی خلاف اخلاص معلوم ہوتی ہے۔ جواب ارشاد فرمایا کہ زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے اگر نفس پر آرے بھی چلیں تو بھی اخلاص کے خلاف نہیں بلکہ ایسی حالت میں اجر زیادہ ہے آپ وقت پر زکوٰۃ ادا کیا کریں بشاشت ہو یا نہ ہو بشاست اور اخلاص میں تلازم نہیں اخلاص ہوتا ہے اخلاص کے لیے بشاشت لازم نہیں بلکہ بدون بشاشت کی صورت میں دونا اجر ہے۔ مولانا کو جواب سے وجد آگیا۔

ارشاد فرمایا کہ نفس اجتماع احباب بھی نافع ہے خواہ کوئی دینی مذاکرہ ہو یا نہ ہو صلحاء کا آپس میں ملنا نافع ہے قلب کے اندر جو صفات حمیدہ ہیں ان کا عکس دوسرے پر پڑتا ہے رات کی رانی خاموش ہے مگر اپنی خوشبو سے معطر کردیتی ہے۔ بجلی کا بلب خاموش ہے روشنی پہنچارہا ہے اسی طرح اﷲ والوں کی صحبت نفع پہنچاتی ہے خواہ وہ خاموش ہی بیٹھے رہیں۔

حضرت حکیم الامت مولانا تھانویؒ کے پاس ایک صاحب نے خط لکھا کہ میرے اندر غصہ بہت ہے علاج تحریر فرمائیے۔ تحریر فرمایا کہ آپ مولوی محمد حسن صاحب انوار بک ڈپو لکھنؤ کی خدمت میں جاکر کچھ دیر بیٹھ جایا کریں انہوں نے شام کو ہر روز بیٹھنا شروع کیا مولوی محمد حسن صاحب نے کوئی تقریر نہیں کی نہ کوئی وعظ کہا مگر ان کا غصہ کم ہونے لگا تو بات کیا تھی چونکہ مولانا میں حلم اور ضبط کا مادہ بہت تھا اس باطنی صفت کا عکس اور فیض ان کے باطن پر آہستہ آہستہ اثر کرنے لگا۔ اس لیے گذارش کیا کرتا ہوں کہ دینی احباب کو آپس میں ملنے جلنے کا اہتمام ہونا چاہیے۔

ارشاد فرمایا کہ آج کل تاخیر جنازہ کی بیماری امت میں عام ہورہی ہے جذبات محبت و عقیدت میں اہل علم حضرات کے ماحول میں بھی یہ مسئلہ نظر انداز ہوجاتاہے کہیں تو جنازہ کو منتقل کرنے کی غلطی ہوتی ہے اور کہیں رونمائی میں تاخیر کی جاتی ہے حالانکہ اسرعوابالجنازۃ دون الجنب کا حکم ہے جنازہ کو جلد دفن کرنے کا حکم ہے اس میں دو حکمت ہے اگر نیک ہے تو اس کو اپنے کندھوں پر دیر تک کیوں رکھا جاوے۔ اس مسئلہ کی فقہاء نے تصریح فرمادی ہے کہ اگر جمعہ سے قبل تدفین ممکن ہے تو جمعہ کا انتظار کرنا جائز نہیں تھوڑے آدمی سنت اور رضائے حق کے مطابق نجات اور مغفرت کے لیے کافی ہیں برعکس کثیر تعداد جو خلاف سنت اور خلاف رضاء حق ہو یہ کچھ مفید نہیں۔ حدیث پاک میں ہے کہ مسافرت کی موت سے شہادت کا درجہ ملتا ہے پھر جنازہ کو وطن واپس لانے کی کیا ضرورت ہے بے اصولی اور قانونی شکنی جب اہل علم کی جانب سے ہونے لگے گی تو عوام کو کون سمجھا سکتا ہے۔ بعض اہل علم ایسے وقت اکابر کا عمل پیش کرتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا فقہ کی یہ سب کتابیں عمل کے لیے نہیں لکھی گئیں ہیں عمل کو کتاب سے ملائیے نہ کہ اشخاص سے البتہ کتاب کو اشخاص سے سمجھئے۔ جن اکابر کے ساتھ ایسا معاملہ کوئی پیش آچکا ہے وہ پسماندگان کے معاملات ہیں کہیں جذبات کہیں غلبۂ عقیدت کہیں خاموشی کہ شاید وہ کہیں گے شاید وہ کہیں گے بروقت نکیر کرنی چاہیے۔

ارشاد فرمایا کہ بعض اکابرین کی رونمائی میں تاخیر کی خبر مجھے ایک صاحب نے ہردوئی پہنچائی۔ میں نے ان سے کہا اس منکر پر کسی نے نکیر بھی کی تو وہ خاموش ہوگئے۔ ایک اہل علم بلکہ اہل فتویٰ و اہل فقہ کی حق پرستی سے بڑا دل خوش ہوا جب انہوں نے کہا مجھے نہایت ندامت ہے کہ ہم نے اس منکر پر اعلان کے ساتھ نکیر کیوں نہ کی اور استغفار کرتا رہتا ہوں۔

پھر گذارش کرتا ہوں کہ کسی شہر سے جنازہ کو منتقل ہرگز ہرگز نہ کیا جاوے اور نہ رونمائی وغیرہ کی رسم کی جاوے نہ جمعہ کا انتظار کیا جاوے نہ کسی رشتہ دار کا انتظار کیا جاوے جس قدر جلد ممکن ہوسکے نماز جنازہ اور تدفین میں جلدی کی جائے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کی برکت سے قلیل تعداد بھی مغفرت کے لیے کافی ہے۔ انتقال سے کفن پہنانے تک جس قدر لوگوں کو چاہیں جمع کرلیں اس کے بعد پھر تاخیر کی گنجائش نہیں۔ ماشاء اﷲ مولانا شبیر علی تھانویؒ نے اس مسئلہ پر خوب ہمت سے عمل کیا تھا۔ حضرت حکیم الامت تھانویؒ کا جنازہ تیار تھا اور شرکت جنازہ کے لیے اسپیشل ٹرین سہارنپور سے چل پڑی تھی بہت بڑی تعداد معتقدین اور خواص متعلقین کی حاضری میں زیادہ تاخیر نہ ہوتی کیونکہ سہارنپور سے تھانہ بھون کی مسافت زیادہ نہیں مگر مولانا شبیر علی صاحب تھانویؒ نے نماز جنازہ کا حکم دیا اور سختی سے اعلان کیا کہ قانون شریعت کا احترام کیا جائے گا ہرگز اب تاخیر نہ ہونی چاہیے۔ چنانچہ مولانا ظفر احمد صاحب تھانویؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور اسپیشل ٹرین کا انتظار نہ کیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو شریعت کے ہر قانون پر اہتمام سے توفیق عمل بخشیں، آمین۔

ارشاد فرمایا کہ جب دین شکنی اور دل شکنی کا تقابل ہو تو دین کو مقدم رکھا جاوے اور سب مصالح کو قانون شریعت کے احترام و عظمت پر مثل مصالحہ پیس دینا چاہیے۔ ایسے مواقع پر جذبات پر شریعت کو ترجیح دینی چاہیے۔ مخلوق کی چہ میگوئیاں اور طعن کی ہرگز پرواہ نہ کرنی چاہیے ؎

مانمی خواہیم ننگ و نام را

گرچہ بدنامی است نزد عاقلاں

(ضروری نوٹ) احقر مرتب محمد اختر عفا اﷲ عنہ موجودہ غلط رسم و رواج کے سبب اپنے ذمہ اس وصیت کو واجب سمجھتا ہے کہ اپنے پسماندگان اور احباب کو یہ وصیت کردوں کہ (۱) میرا جہاں بھی انتقال ہوجاوے وہیں پر دفن کرکے حق تعالیٰ کی مغفرت و رحمت واسعہ کے سپرد کردیا جاوے اور ہرگز وطن نہ لایا جاوے۔ (۲) رونمائی ہرگز نہ کی جاوے۔

مضمون بالا کو جب لکھ چکا تو حضرت مفتی رشید احمد صاحب سے اس مضمون کی اشاعت کے لیے مشورہ کیا تو فرمایا ضرور شائع کیا جاوے نیز فرمایا کہ حضرت اقدس دامت برکاتہم نے جو ذکر میرا کیا ہے وہ مبہم ہے میرا نام شائع کردیا جاوے تاکہ جو کوتاہی مجھ سے اعلانیہ ہوئی ہے اور اس کی توبہ بھی علانیہ مجھ پر واجب ہے اس اشاعت سے میرا واجب ادا ہوجاوے گا یعنی رونمائی پر نکیر نہ کرنے کا واقعی مجھے غم ہے جس کا ذکر میں نے خود حضرت سے کیا تھا۔

(جاری ہے۔)
Flag Counter