تمام کامیابیوں کا ذریعہ ہے اور اسی سے مشکلیں آسان ہوتی ہیں، بے قیاس و گمان روزی ملتی ہے، گناہ معاف ہوتے ہیں، جنت ہاتھ آتی ہے، اجر بڑھتا ہے اور ایک عجیب قلبی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جس کے بعد کوئی سختی، سختی نہیں رہتی اور تمام پریشانیاں اندر ہی اندر کافور ہو جاتی ہیں … ہمارے حضرت عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے کیا خوب فرمایا …
زندگی پر کیف پائی گرچہ دل پُر غم رہا ان کے غم کے فیض سے میں غم میں بھی بے غم رہا
آگے ان انعامات سے متعلق چند واقعات ملاحظہ فرمائیں۔
(تقویٰ کا پہلا انعام … اور … واقعات)
واقعہ نمبر ١ : درخت نے جگہ چھوڑ دی
و عن جابرٍص قال: سرنا مع رسول اللہ ا حتی نزلنا وادیا اَفْیَح َفذھب رسول اللہ ا یقضی حاجتہ فلم یر شیئا یستتر بہ و اذا شجر تین بشاطئی الوادی فانطلق رسول اللہا الی أحدھما فأخذ بغصن من أغصا نھا فقال: انقادی علیّ باذن اللہ تعالی فانقادت کالبعیر المخشوش الذی یصانع قائدہ حتی أتی الشجرة الأخری فأخذ بغصن من أغضانھا فقال: انقادی علیّ باذن اللہ فانقادت معہ کذلک حتی اذا کان بالمنصف مما بینھما قال: التئما علیّ باذن اللہ فالتأمتا فجلست أحدث نفسی فحانت منی لَفْتَة فاذا أنا برسول اللہ ا مقبلا و اذا الشجرتین قد افترقتا فقا مت کل واحدة منھما علی ساق (رواہ مسلم، مشکوٰة ٢/٥٣٣)
حضرت جابر ص فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) ہم رسول کریم ا کے ساتھ سفر کر رہے تھے کہ ایک جگہ پہنچ کر ایک وسیع و عریض میدان میں اترے اور آپ ا قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے … وہاں آپ ا کو (ٹیلہ وغیر ہ کی طرح کی) کوئی چیز ایسی نظر نہیں آئی جس کی آڑمیں آپ ا لوگوں کی نگاہوں سے چھپ کر قضائے حاجت کے لیے بیٹھ سکتے، اچانک آپ ا کی نظر دو درختوں پر پڑی جو میدان کے کنارے پر کھڑے تھے … چنانچہ نبی کریم ا ان میں سے ایک درخت کے پاس پہنچے اور اس کی ایک ٹہنی پکڑ کر فرمایا: اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری اطاعت کر … یہ سنتے ہی وہ درخت آپ ا کے پیچھے اس طرح چلنے لگا جیسے نکیل