Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1431ھ

ہ رسالہ

3 - 16
***
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
کرکٹ ٹورنامنٹ کی شرعی حیثیت
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں!
آج کل نوجوان کرکٹ میچ میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں اور جیتنے والی ٹیم کو انعام کے طور پر کچھ نقدی یا ٹرافی وغیرہ دی جاتی ہے ۔
مسئلہ کی نوعیت کچھ یوں ہے !
مثلاً ٹیم کے کپتان زید پوری ٹیم سے یا چند کھلا ڑیوں سے کچھ چندہ، پیسے جمع کرتا ہے ، جس کا مجموعہ پانچ سو روپے بنتے ہیں یا پھر زید اپنے ہی جیب سے پانچ سو روپے دیتے ہیں۔
اب زید نے دوسری ٹیم کے ساتھ میچ مقابلہ رکھا اور یہ مقابلہ جو بھی ٹیم جیتیگی وہ انعام کے پانچ سو روپے کے مستحق ہو گی، اب فرض کریں زید نے یہ مقابلہ جیتا ہے اور جیتنے کے بعد وہ پانچ سو روپے جوانہوں نے اپنے ساتھیوں سے جمع کیے تھے وہ ان ساتھیوں کو واپس کرتا ہے اور باقی جو پانچ سو روپے انعام میں ملے ہیں ٹیم کے ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے۔
پوچھنا یہ ہے کہ مقابلہ میں انعام کی شرعی حیثیت اور جیتے ہوئے پانچ سو روپے جو زید کے پاس ہیں، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
دوسری صورت مقابلہ کی یہ ہے کہ جس کو کرکٹ کی اصطلاح میں ٹورنامنٹ کہتے ہیں اور یہ ٹورنا منٹ بکر چلا رہے ہیں او راس ٹورنا منٹ میں ٹوٹل چھ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں اور فی ٹیم پانچ سو روپے فیس جمع کرتے ہیں، پھر کچھ مرحلوں سے گزرنے کے بعد دو ٹیمیں فائنل میں پہنچ جاتی ہیں ، پھر اس میں جو ٹیم جیتے گی اس کو بارہ سو روپے اور ہارنے والی ٹیم کو آٹھ سو روپے انعام کے طور پر دیے جاتے ہیں اور باقی جو رقم بچ جاتی ہے بکر اس کو کچھ ٹورنامنٹ کے دوران اخراجات پر خرچ کر لیتے ہیں او رباقی رقم اپنی جیب میں رکھ دیتے ہیں۔
پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی ٹیم کا شرعی حکم اور پھر جیتنے اور ہارنے والی ٹیموں کو جو انعام، نقدی یا ٹرافی وغیرہ کی صورت میں دی جاتی ہے اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
اور بکر جو اس ٹورنامنٹ کو چلا رہے ہیں اور باقی رقم اپنی جیب میں رکھ دیتے ہیں اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
اگر مندرجہ بالاصورتیں ناجائز ہیں تو ایساکوئی طریقہ اور بدل بتائیں کہ امت مسلمہ اس گناہ سے بچ سکے۔ بینوا توجروا․
جواب… سوال میں مذکورہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں، اس لیے کہ دونوں صورتوں میں جوا اور قمار پایا جاتا ہے ، قمار ہر اس معاملے کو کہتے ہیں جس میں کچھ زائد ملنے کی امید کے ساتھ ساتھ اپنا مال جانے کا خطرہ بھی ہو ، مذکورہ دونوں صورتوں میں بھی ہر ٹیم کو جیتنے کی صورت میں اپنی جمع کرائی ہوئی رقم سے زائد ملتا ہے اور ہار جانے کی صورت میں اپنی جمع کرائی ہوئی رقم بھی ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور اسی کو جوا اور قمار کہتے ہیں، جو کہ ناجائز اور حرام ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿إنما الخمر والمیسر والأنصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون﴾․ ( المائدہ:90)
اور جہاں تک اس کے جائز متبادل کی بات ہے تو پہلے مسئلے میں جہاں دو ٹیمیں آپس میں مد مقابل ہوتی ہیں جواز کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ:
یا تو شرط کسی ایک جانب سے لگائی جائے یعنی ایک ٹیم ، دوسری ٹیم سے کہے : اگر تم جیت گئے تو ہم ، تم کو اتنے روپے دیں گے اور اگر ہم جیت گئے تو ہم کچھ نہ لیں گے۔
اور یا پھر کوئی ثالث ( تیسرا فریق) جیتنے والی ٹیم کو بطور انعام اپنی طرف سے تبرع او راحسان کے طور پر دے دے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور ٹورنامنٹ کی صورت میں چوں کہ کئی ٹیمیں آپس میں مد مقابل ہوتی ہیں ، لہٰذا اس میں جواز کی صرف ایک ہی صورت ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ کوئی تیسرا فریق اپنی طرف سے جیتنے والی ٹیم کو بطور انعام کچھ رقم دے دے۔
واضح رہے کہ آج کل جس طرح سے یہود ونصاری نے مسلمانوں کے ذہنوں پر باطل کی محنت کرکے انہیں کھیل کود ، لہو ولعب اور سیرو تفریح جیسے ضیاع وقت کے اسباب میں مشغول کرکے اپنے مقصدِ اصلی سے ہٹا دیا ہے اور اس مختصر سی زندگی کے قیمتی لمحات وہ جس طرح سے لایعنی میں ضائع کرتے ہیں کہ انہیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا، اسلام قطعاً ایسی چیزوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔
بلکہ ہمارا فرضِ اولین یہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر ہر موڑ پر شریعت کے حکم کو معلوم کرکے اپنی تمام تر اغراض، خواہشات او رمفادات کو پس پشت ڈال کر ، حکم خداوندی کی تعمیل کریں، یقینا اسی میں ہمار ی ابدی کامیابی اور دنیا وآخرت کی سرخروئی ہے۔
نہ یہ کہ ہم ہر مسئلے میں دین اور شریعت کو اپنی خواہشات کے تابع سمجھیں اور اگر خواہشات پوری نہ ہوں تو اس حکم شرعی کو غیر فطری سمجھتے ہوئے یا ” تکلیف مالا یطاق“ گردانتے ہوئے پس پشت ڈال دیں۔
یقینا جس مرد مؤمن کو الله تعالیٰ کی خوش نودی مطلوب ہو اس کے لیے الله تعالیٰ کے ایک حکم کے سامنے اپنی ہزاروں خواہشات کو قربان کرنا آسان ہوتا ہے نہ کہ حکم خداوندی کو پامال کرنا۔
لہٰذا کرکٹ یا کوئی بھی کھیل اگر اس کو کھیل ہی کی حد تک محدود رکھا جائے او راس میں کسی حرام کا ارتکاب نہ ہو رہا ہو تو اسے کھیلنے میں حرج نہیں اوراگر خداناخواستہ ایسا نہ ہو تو اسے ترک کر دینا لازم ہے۔
سنتوں کے بعد اجتماعی دعاء کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء ومفتیان شرع اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے علاقے کی بعض مساجد میں سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کی جاتی ہے بعض علماء سنت کے بعد اجتماعی دعا کو ثابت بھی کرتے ہیں کہ سنت نبوی ہے او رمنع کرنے پریہ کہتے ہوئے بات کو ٹال دیتے ہیں کہ ہم تو ثواب سمجھ کر اجتماعی دعا کا اہتمام کرتے ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ سنت کے بعد اجتماعی دعا حضور صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے یا شریعت مطہرہ میں اس فعل کی کوئی گنجائش ہے؟ آیا کرنے والے کو واقعی ثواب ملتا ہے؟
سنت کے بعد اجتماعی دعا کرنا جائز ہے یا ناجائز دلائل کی روشنی میں جواب دے کر عندالله ماجور ہوں۔
جواب… حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ فرض نماز مسجد میں پڑھانے کے بعد سنت پڑھنے کے لیے گھر تشریف لے جاتے تھے اور روایات میں کہیں پر یہ ثابت نہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم دعا مانگنے کے لیے دوبارہ مسجد تشریف لاتے ہوں ، لہٰذا اس سے اتنی بات ثابت ہو جاتی ہے کہ سنتوں کے بعد اجتماعی دعا مانگنا مسنون نہیں، اس طرح چوں کہ سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کرنے میں لوگوں کا اجتماع اتفاقی نہیں ہوتا بلکہ اجتماع کا قصداً اہتمام ہوتا ہے جو کہ ثابت نہیں ، پھر اس کو ضروری سمجھنے اور دعا نہ کرنے والے امام پر نکیر کیے جانے کی وجہ سے یہ دعا بدعت کے حکم میں ہو جاتی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔
نافرمان اولاد کا جائیداد میں حصہ ہے یا نہیں؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں … شوہر کے انتقال کے بعد بڑا بیٹاانتہائی درجہ کی زیادتی کرے حتی کہ شوہر کی بیوی ( یعنی اپنی ماں) کو مارے ، پیٹے اور گالیاں دے اور ہاتھ پکڑ کر گھر سے نکال دے۔ کیا ایسی اولاد کا باپ کی جائیداد میں کوئی حصہ ہے؟
واضح رہے کہ بیوی نے اولاد کی نافرمانی اور زیادتی کی وجہ سے تنگ آکر دوسرا نکاح کیا ہے ، سابقہ شوہر نے اپنی وصیت میں لکھا ہے ، کہ اگر میری بیوی دوسرا نکاح کرے ، تو اس کا میری جائیداد میں کوئی حصہ نہیں؟
لہٰذا آپ سے یہ التماس ہے کہ قرآن وحدیث سے شرعاً وقانوناً اس کی کیا حیثیت ہے؟
جواب… قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں والدین کے حقوق کے بارے میں تاکید اور نافرمانی کرنے پر سخت وعیدیں آئی ہیں، لہٰذا ان کے حقوق کی بجا آوری واجب ہے او ران کی نافرمانی کرناگناہ کبیرہ اور موجب عذاب ہے، لہٰذا والدین کی نافرمانی سے بچنا نہایت ضروری ہے ، تاہم والدین کی نافرمانی کی وجہ سے اولاد میراث سے محروم نہیں ہوتی ۔
شوہر کے انتقال اور عدة شرعی گزارنے کے بعد عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا شرعاً حق حاصل ہے ، شوہر کی وصیت ( اگر میری بیوی دوسرا نکاح کرے تو میری بیوی کا میری جائیداد میں کوئی حصہ نہیں) شرعاً معتبر نہیں، لہٰذا دوسری جگہ نکاح کرنے کی وجہ سے عورت شوہر کی میراث سے محروم نہیں ہو گی ، بلکہ عورت کو حصہ دینا واجب ہے۔
عورتوں کے لیے بھنویں بنانے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ عورت کے لیے شریعت میں بھنویں بنانے کا کیا حکم ہے اور وہ عورت جو شرعی پردہ کرتی ہے اس کے لیے کیا حکم ہے ، اسی طرح جس عورت کا خاوند اجازت دے دے اس کا کیا حکم ہے؟
اور وہ عورت جو صرف بڑھے ہوئے بال کم کرتی ہے اس کو شرعی طور پر اجازت ہے یا نہیں؟ چہرے کے بناؤ سنگھار کا شریعت میں کیا حکم ہے؟ اگر بھنویں بنوانا جائز نہیں تو وجہ کیا ہے فوائد اور نقصانات بھی تحریر فرمائیں حکم کے ساتھ نصیحت بھی فرمائیں۔
جواب… عورت کے لیے محض زیب وزینت کے لیے بھنویں بنانا جائز نہیں اور یہ حکم سب عورتوں کے لے ہے ، جو عورت شرعی پردہ کرے، اس کے لیے بھی یہی حکم ہے ، خاوند اجازت دے یا نہ دے اس سے فرق نہیں پڑتا، بہرحال عورت کے لیے بھنویں بنانا جائز نہیں۔
عورت کے چہرے پر اگر زائد بال اُگ آئے ہوں ، تو ان بالوں کو صاف کرسکتی ہے اسی طرح اگر بھنویں بالکل آپس میں مل گئی ہوں، یا بھنوؤں سے اوپر نیچے کچھ منتشر بال ہوں، تو اس وقت ان کوچُن سکتی ہے لیکن باریک کرنا جائز نہیں ۔
عورت پر خاوند کے لیے چہرے کا بناؤ سنگھار شرعی حدود میں رہتے ہوئے ضروری ہے ، زیب وزینت میں خلاف شرع کام کی اجازت نہیں۔
حدیث شریف میں ہے کہ ایسی عورت پر الله تعالیٰ لعنت بھیجتے ہیں ۔
ایک مسلمان کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ اسے معلوم ہو کہ اس کام سے شریعت نے منع کیا ہے اور اس کام کے کرنے کا حکم دیا ہے ، یا اجازت دی ہے اور شریعت کے حکم پر عمل کرنے سے الله تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم خوش ہوتے ہیں اور حکم نہ ماننے سے ناراض ہوتے ہیں اور شریعت کے حکم کو ماننے سے دنیاوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں اور نہ ماننے سے نقصان، لیکن دنیاوی فوائد اور نقصانات کا جاننا ضروری نہیں۔

Flag Counter