Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1431ھ

ہ رسالہ

1 - 16
***
شوال المکرم 1431ھ, Volume 26, No. 10
خود نا آشنائی
مولانا عبید اللہ خالد
اس وقت سارا پاکستان سیلاب کی نذر ہو چکا ہے، اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ اس سیلاب سے جو تباہی ہوئی ، وہ گزشتہ سو سال کے ریکارڈ کو توڑ چکی ہے۔ اس سیلاب کو عذاب کہیں یا آزمائش، ہر دو صورتوں میں پاکستانی مسلمانوں کے لیے مشکل گھڑی ہے جو باشندے اس سے محفوظ ہیں، ان کے لیے بھی امتحان ہے کہ وہ کیسے آگے بڑھ کر اپنے محروم اور مجبور مسلمان بھائی، بہنوں کی مددکرتے ہیں۔سیلاب کی تباہ کاریوں نے جس طرح دم کے دم میں بڑی بڑی فصلوں اور آبادیوں کو تہس نہس کر دیا ، اس سے قرآن کی وہ آیت یاد آجاتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہبحر وبر کی تباہی انسانی کرتوت کا نتیجہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں انسان کے گھاٹے اور نقصان کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، لاتعداد واقعات ہیں، جنہیں پڑھنے والے سرسری نظر سے پڑھتے اورکوئی سبق لیے بغیر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے کہ انسانی تاریخ کے واقعات سے سبق لینے کے لیے علم اور تعلیم کی نہیں بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے یہ بصیرت انسان کو الله سے قرب کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور الله کا قرب الله کے کلام میں غور وفکر اور الله والوں کی صحبت سے مہیا ہوتا ہے ، چوں کہ مادیت کے سیلاب نے دنیا کی محبت میں غرق کر دیا ہے اس لیے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ سیلاب سے بہت ہی کم دلوں نے سبق لیا۔
اس کا اندازہ ہمیں رہ نماؤں کے بیانات اور عوام کی آہ وزاری سے بہ خوبی ہوتا ہے کیوں کہ ہر دو جانب سے سوائے طفل تسلیوں اور الزام تراشیوں کے کچھ خاص نظر نہیں آتا۔
افسوس اس بات کا بھی ہے کہ الله کی جانب سے آنے والی فطری آفات کا اصل مقصد ، سبق دلانا ہوتا ہے، لیکن موجودہ حالات میں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ شاید اب دل ایمان کی روشنی سے خالی ہو گئے ہیں ، چناں چہ غوروفکر اور عبرت وسبق حاصل کرنے کی صلاحیت چھین لی گئی ہے ،دل کی اس بے نوری اور تاریکی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ اگرچہ انسان دنیاوی اعتبار سے تو خسارے میں آیا لیکن اخروی اعتبار سے بھی گھاٹے کا سودا کرے گا۔ انسانی سرشت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ٹھوکر کھا کر سنبھلتا ہے۔ لیکن قومی سطح پر ہم نے کتنی ہی ٹھوکریں کھائی ہیں، مگر ہم نہیں سنبھلے ہمارا قومی مزاج ایسا بن چکا ہے کہ ہم بار بار ٹھوکر کھانے کے باوجود سنبلھنے کو تیار نہیں اور نہ سنبھلنے کے لیے غور کرتے ہیں۔
ہم میں سے بہتوں کا حال یہ ہو چکا ہے کہ محض عارضی فائدے اور وقتی مزے کی خاطر آخرت کی فکر اور خدا شناسی کو بالکل تج دیا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہ کیفیت بے اعتنائی اور ہواوہوس سے پیدا شدہ مزاج کے باعث ہے اور یقین جانیے ہوا وہوس کا مارا انسان اپنے وقتی فائدے کے لیے سب کچھ کر سکتا ہے۔
خود غرضی اور خود پرستی کی حدتک جب کوئی انسان پہنچ جاتا ہے تو اسلام کی رو سے یہ کیفیت اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ خدا اسے بھلا چکا ہے اور خدا جب کسی کو بھلادیتا ہے تو انسان خود کو بھی بھلا دیتا ہے، خود کو بھولنے کے بعد انسان اپنے اچھے برے سے بھی ناواقف اور نا آشنا ہو جاتا ہے۔
خدا کرے ہم خود کوپہچان لیں تاکہ خدا کو بھی جان سکیں اور خدا ہمیں اپنے محبوب بندوں میں شامل کر لے خدا کے محبوب بندے دنیا میں کامیاب ہیں اور آخرت میں بھی بامراد!

Flag Counter