Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1431ھ

ہ رسالہ

9 - 14
***
ملک کا خطرناک رُخ اور دانشور طبقے کی ذمے داری
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
لیڈر اپنی جگہ پر ، سیاسی جماعتیں اپنی جگہ پر ، دانش گاہیں اپنی جگہ پر، لائبریری اپنی جگہ پر، خطیب ومقرر اپنی جگہ پر، ذہین (Intelligent) بلکہ (Geneus) قسم کے انسان اپنی جگہ پر ، لیکن وہ ضمیر کہاں ہے جو معاشرے کی اس پستی پر ، انسانیت کی اس بستی پر خون کے آنسو روئے؟ انسانیت کی حفاظت اسی ضمیر نے کی ہے ، تفنگ وشمشیر نے نہیں کی ہے ، سپاہ اور فوج نے نہیں کی ہے ، شاہی خزانوں اور دولت کی بہتات نے نہیں کی ہے ، علم انسانی کی ترقی نے نہیں کی ہے ، ٹیکنالوجی اور سائنس نے نہیں کی ہے، بلکہ ایک ضمیر انسانی ہے جو سب پر غالب آیا، جہاں وسائل نہیں تھے اس نے وہاں وسائل پیدا کر لیے، آپ دیکھیے جب کسی کے دل پر چوٹ لگتی ہے اور جب کوئی بے قرار ہوتا ہے ،وہ کیا کر لیتا ہے ؟ ایک آدمی کے پاس وسائل کا ڈھیر ہے، لیکن اس کے دل میں درد نہیں ہے اور کچھ کرنے کا ارادہ ہی نہیں ہے تو وقت گزر جاتا ہے اور وہ کچھ نہیں کرتا۔ مجھے جو خطرہ ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستانی معاشرے کا ضمیر تعطل کا شکار ہو گیا ہے، اس نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا ہے ، یہ خطرہ کی بات ہے، اس لیے کہ انسانیت کی آس اسی ضمیر سے ہے ۔ اس دنیا میں جو کچھ خیر وفلاح کی اُمید ہے وہ اسی ضمیر سے ہے۔ جب یہ ضمیر بیدار ہوتا ہے اس کو خدا کی طرف سے روشنی ملتی ہے ، پیغمبروں کی طرف سے اس کو غذا ملتی ہے اور یہ دولت پرستی کا شکار نہیں ہوتا، طاقت پرستی کا شکار نہیں ہوتا تو پھر یہ ضمیر وہ کام کرتا ہے جو بڑی بڑی سلطنتوں سے او ربڑی بڑی فوجوں سے نہیں ہو سکا، دیکھیے کچھ زندہ ضمیروں نے ، کچھ صالح ضمیروں نے ، کچھ درد مند ضمیروں نے اپنے اپنے زمانہ میں کیا کام کر لیا ۔ یہ بزرگان دین کیا رکھتے تھے ، ان کے پاس کیا سرمایہ تھا ، لیکن انہوں نے ایک نیا معاشرہ پیدا کر دیا ، ایک نیا دوران کی ذات سے شروع ہو گیا۔
آج ہمیں جس چیز کا شکوہ ہے وہ یہ کہ ہر طرح کی آواز یں سننے میں آتی ہیں ہر طرح کے منشور (Manifestos) سامنے آتے ہیں ، ہر طرح کے اعلانات ہمارے سامنے آتے ہیں، لیکن انسانیت کی پستی اور انسانی جان ومال اور انسانی حقوق کی پامالی پر کوئی رونے والی آنکھ اور کوئی درد محسوس کرنے والا دل نظر نہیں آتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی دانش گاہوں میں جہاں سب کچھ سکھایا پڑھایا جاتا ہے وہیں ایسے لوگ ملنے چاہئیں، وہیں ایسے لوگوں کو ڈھونڈنا چاہیے۔ چند نوجوان ہی سہی، جو اپنے مستقبل کی طرف سے آنکھ بند کر لیں، جیسے کہ ایک پیغمبر نے اسی طرح کے ایک بگڑے ہوئے معاشرہ میں اصلاح کا کام شروع کیا تو ان کی قوم نے طعنہ دیا تھا ، انہوں نے کہا ﴿لقد کنت فینا مرجو اقبل ھذا﴾ اے صالح (علیہ السلام!) تم سے تو بڑی بڑی امیدیں وابستہ تھیں، تم تو بڑے (Promising) آدمی تھے، تم سے تو بڑی بڑی توقعات قائم تھیں کہ تم اپنے گھر کو خوش حال بناؤ گے، تم اپنی قوم کا نام روشن کروگے ، اپنے وطن کا نام روشن کرو گے ، یہ تم کیا لے بیٹھے ، تم نے جھگڑا کہاں شروع کر دیا؟ قوم کے نزدیک یہ جھگڑا تھا۔ لیکن انسانیت کی ڈوبتی کشتی ہمیشہ انہیں لوگوں نے بچائی ہے جنہوں نے اپنے مفاد کو نہیں دیکھا، معاشرے کے مفاد کو دیکھا لیکن جس قوم میں نام لینے کے لیے بھی ایسے چند آدمی نہ پائے جائیں، جو کسی بڑے سے بڑے عہدہ اور منصب کو اپنے مقصد کے راستے میں خاطر میں نہ لائیں تو ایسی جماعت اور ایسی قوم کے متعلق کوئی بڑی امید قائم نہیں کی جاسکتی اور اس کا کوئی وزن نہیں خدا کے میزان میں بھی اور انسانیت کے میزان میں بھی ۔ ایسے صاحب عزیمت اور باہمت لوگ کم سے کم مسلمانوں میں ہر دور میں پائے گئے ہیں، جنہوں نے سلطنتوں اور بادشاہوں کو منھ نہیں لگایا۔ آج پھر ان کی ضرورت ہے ۔ کسی تعداد میں سہی لیکن ایسے لوگ ہونے چاہئیں جویہ کہہ سکیں #
برد این دام بر صید وگرنہ
کہ عنقارا بلند است آشیانہ
آج مصیبت یہ آگئی ہے کہ بار بار کے تجربوں سے مزاج دانوں او رتجربہ کاروں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس معاشرے میں ہر شخص کی ایک قیمت ہے اور اگر وہ اتنے دام میں نہیں بک سکے گا تو اتنے دام میں ضرور بک جائے گا ۔ لیکن خدا کے کچھ بندے ہمیشہ رہے اور رہنے چاہئیں جو کسی دام میں بھی نہ بک سکیں ، بڑے سے بڑا سنہرا جال آپ ان کے سامنے ڈال کر دیکھیے ، کہیں ان کے تصور میں بھی یہ آجائے کہ اعزاز قبول کرلوں تو ان کی راتوں کی نیند اڑ جائے ، میں کہتا ہوں خدا کے فضل سے ابھی ایسے لوگ اس دنیا میں ہیں #
خاکساران جہاں را بحقارت منگر
توچہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد
ابھی ہماری نسل میں بھی ایسے لوگ ہیں کہ بڑے سے بڑا عہدہ اور منصب ان کو اپنے اس جادہٴ حق سے اور مقام سے جس کو انہوں نے سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے اپنے اس بوریا ئے فقر سے ، اپنی خاک کی اس ڈھیر سے ہٹانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آج بھی خدا کے فضل سے ایسے لوگ موجود ہیں، اس لیے ہر شخص کے متعلق یہ خیال کرنا کہ یہ کسی نہ کسی قیمت میں بک جائے گا۔ یہ ہما سہی لیکن ہما کے بھی شکاری ہوتے ہیں ۔ یہ ہما بھی دام میں آجائے گی غلط ہے ، ایسی ہما انسانیت کی آبرو ہے۔ آپ سے میں اس لیے نہیں کہتا کہ آپ ان کو تلاش کریں ، میں کہتا ہوں آپ وہ ہما بنیں، جس کو بڑے سے بڑا شکاری بھی شکار نہیں کرسکتا۔ پھر آپ وہ ہما بنیں گے کہ جس کے سر پر سے اُڑ جائے گی، اس کے سر پر بادشاہی کا تاج رکھا جائے گا۔ وہ ہما ایک خیالی پرندہ ہے، لیکن آپ حقیقی معنی میں ہما بن جائیں گے ، آپ جس کے پاس سے گذر جائیں گے اسے عزت ملے گی ، طاقت ملے گی ، اس کو اعتماد ملے گا ، ایمان ملے گا۔
آج ہمارے ملک او رہمارے جاں بلب معاشرے کو بڑے بڑے فاضلوں، بڑے عالموں او ربڑے دانش وروں کی ایسی ضرورت نہیں جتنی صحیح اور دلیر انسانوں کی ، قربانی کے لیے تیار ہونے والے انسانوں کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ مسلم یونیورسٹی جس نے کبھی اس ملت اور اس ملک کو محمد علی جوہر جیسا فرزند دیا ہے جنہوں نے اس ملک میں صحیح طور پر جمہوری زندگی کا آغازکیا ۔ یہاں عوامی سیاست درحقیقت مولانا محمد علی نے شروع کی، وہی گاندھی جی کو میدان میں لائے ۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے ۔ ان سے پہلے سیاست دانش وروں اور دستور کی سمجھ رکھنے والوں میں تھی۔ دانش وروں کا ایک بہت اونچا طبقہ تھا جو سیاسی باتیں کرتا تھا، بازار میں سیاست کو لانے والے ، پارکوں میں سیاست کو لانے والے اور پبلک میں سیاست کو لانے والے محمد علی اور شوکت علی ہیں، وہ آپ کی اسی یونیورسٹی کے فرزند تھے۔ جنہوں نے اس ملک میں حریت پسند ی او رقومی ودینی غیرت کی آگ لگا دی اور جنہوں نے تحریک خلافت شروع کی اور پھر تحریک آزادی میں ہر اول دستہ بلکہ قائد کا کردار ادا کیا۔ آج پھر ہندوستان کا معاشرہ طالب ہے، اس نے اپنا دامن پھیلا رکھا ہے ، میں اس کی طرف سے ترجمانی کر رہا ہوں کہ ہمارا معاشرہ پھر آج آپ سے وقت کا سپاہی چاہتا ہے ۔ ہر وقت کا ایک سپاہی ہوتا ہے، ہر وقت کی ایک دعوت ہوتی ہے ، ہر وقت کی ایک ضرورت ہوتی ہے ۔ جب ضرورت تھی تحریک آزادی کی سورماؤں کی ، جب ضرورت تھی حریت کا صور پھونکنے والے سرفروشوں کی تو اس وقت علی برادران میدان میں آئے، آج ملک کو اخلاقی زوال سے بچانے والوں کی ضرورت ہے ۔ آج اس ملک میں ایثار وقربانی کا ایک مثالی نمونہ قائم کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ آج اس ملک میں اصحاب کہف جیسے نوجوانوں کی ضرورت ہے ،جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے ﴿انھم فتیة اٰمنوا بربھم وزدناھم ھدی وربطنا علی قلوبھم اذ قاموا فقالوا ربنا رب السمٰوات والارض، لن ندعو من دونہ الھا لقد قلنا اذا شططا﴾․ (کھف:14,13)
” وہ چند نوجوان تھے کہ اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے، ہم نے انہیں ہدایت میں اور زیادہ مضبوط کر دیا اور ان کے دلوں کی ( صبر واستقامت سے ) بندش کر دی، وہ جب ( راہ حق ) میں کھڑے ہوئے تو انہوں نے (صاف صاف ) کہہ دیا ، ہمارا پروردگار تو وہی ہے جو آسمان وزمین کا پروردگار ہے، ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو پکارنے والے نہیں ۔ اگر ہم ایسا کریں تو یہ بڑی ہی بے جابات ہو گی ۔“
آج ہمارے معاشرے کو ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو میدان میں آئیں او رملک کو اخلاقی زوال سے بچائیں ۔ اخلاقی زوال اپنی آخری حدتک پہنچ گیا ہے۔ ایک آدمی کی کار حادثہ کا شکار ہو جائے تو یہ تو ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے کہ اس کے قرب وجوار میں کہرام مچ جائے لوگ جمع ہو جائیں ، مائیں اپنے گھروں سے نکل آئیں، اپنے بچوں کو چھوڑ دیں، کوئی پانی لے کر آئے، کوئی دوالے کے آئے کہ ہمارے بھائی معلوم نہیں کہاں جارہے تھے حادثہ کا شکارہو گئے ۔ لیکن اس ملک کی اخلاقی گراوٹ کا حال یہ ہے کہ اس وقت لوگ ان مرے ہوئے کچلے ہوئے انسانوں کے ہاتھ سے گھڑیاں نکالے لیتے ہیں اوران کے پرس کی تلاشی لیتے ہیں ، اس وقت بجائے اس کے کہ ان خشک لبوں میں پانی کا ایک قطرہ ڈالیں، وہ ظالم ان کی قیمتی چیزیں لوٹنے میں لگ جاتے ہیں ۔ آپ یہ واقعات تاریخ میں پڑھتے تو یقین نہ کرتے اور دوسرے ملک کے لوگ یقین نہیں کریں گے، لیکن ہم کیا کریں ۔ ریلوں میں بارہا ایسے حادثے پیش آتے ہیں او رقریب کی دیہاتی آبادی ہے ۔ دیکھتی ہے کہ ایک آدمی دبا ہوا ہے، دو لکڑیوں کے بیچ میں اس کا بدن آگیا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میرا سب کچھ لے لینا، لیکن کسی طرح مجھے اس شکنجہ سے نکال دو تو انہوں نے اس کے ہاتھ سے گھڑی چھین لی اور اس کی جیب سے کچھ روپیے نکال لیے او راس کو مرتا ہوا چھوڑ کر چلے گئے ۔جو معاشرہ سنگ دلی کی اس حد تک پہنچ گیا ہو، اس معاشرہ کی کسی چیز کو دیکھ کر بھلا دل خوش ہو سکتا ہے ، اس سے کچھ اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ معاشرہ دنیا میں باقی رہے گا، کوئی بڑا قیادت کا رول ادا کرے گا؟
خدا کو انسان کی جو چیز سب سے زیادہ ناپسند ہے، جس پر اس کی غیرت کو جوش آتا ہے وہ ظلم ہے ، سب کچھ وہ معاف کر سکتا ہے ۔ عقائد کی حد تک قرآن اعلان کرتا ہے کہ شرک کی معافی نہیں کرے گا او رانسانوں کی قسمتوں کا جہاں تک تعلق ہے ، سلطنتوں ، تہذیبوں اور معاشرے کی قسمتوں کا جہاں تک تعلق ہے، ظلم ان کے لیے پیغام موت ہے ، ظلم کے بعد ان کو ڈھیل نہیں دی جاتی ۔ تو میرے عزیزو! مسلمان نوجوانو! آپ اس معاشرہ کو ظلم سے بچانے کے لیے میدان میں آئیں ، دیہاتوں اور شہروں میں جائیں او رپکار لگائیں کہ یہ ظلم نہیں ہونا چاہیے ، یہ فسادات نہیں ہونے چاہئیں، اس میں بے گناہ مارے جاتے ہیں ۔
میں نے کئی مرتبہ اس کا نقشہ کھینچا ہے کہ ایک مسافر بڑے ارمانوں کے ساتھ بمبئی سے آرہا ہے، تھوڑی سی پونجی بچا کر ، سنا ہے کہ ماں بیمار ہے، میں جاتے ہی دوالاؤں گا۔ وہ میری صورت دیکھ کر خوش ہوں گی، ان کے اندر طاقت آجائے گی، وہ آنکھیں کھول دیں گی ۔ ابھی وہ اسٹیشن سے چلا ہی تھا کہ اسے چھرا بھونک دیا گیا۔ ادھر ماں تڑپ رہی ہے اور یہاں بیٹے نے جان دے دی ۔ جس معاشرے میں یہ واقعات ہوں اس معاشرے میں کیاکوئی بھی ترقی ، اقتصادی، سیاسی اور علمی ترقی خوشی کی بات ہو سکتی ہے؟ اس ملک میں جو یونیورسٹیوں کی تعداد بتلائی جاتی ہے میں کہتا ہوں اس کے دس گنا یونیورسٹیاں ہو جائیں، جب بھی اس معاشرے کے لیے کوئی خوشی اور اطمینان کی بات نہیں ، کوئی عزت کی بات نہیں ، متوسط پڑھے لکھے لوگ ہوں، مگر ظلم سے نفرت ہو ، گناہ سے نفرت ہو Corruption سے نفرت ہو ، وہ معاشرہ زندہ ہے، طاقت ور ہے او رممکن ہے کہ دوسری قوموں کی قیادت کرے۔
میرے عزیز بھائیوں! میرے محترم اساتذہ اور فضلا! میں معافی چاہتا ہو #
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
اگر میں نے اپنے حدود سے تجاوز کیا ہو ، اگر میں نے بعض تلخ حقیقتیں تلخ انداز میں کہی ہوں تو مجھے معاف فرمائیں کہ جب حقائق کی تلخی حد سے بڑھ جاتی ہے تو کوئی شیریں کلامی اسے شیریں نہیں بنا سکتی، وہ فریب دہی ہوتی ہے۔ میں نے ایک تلخ حقیقت کو تلخ انداز میں کہا ہے ۔اس پر میں آپ سے معذرت خواہ ہوں ، ہماری سوسائٹی کا روگ یہ ہے کہ کوئی صاف بات کہتا نہیں ، بہت دور سے چل کر، اپنی پارٹی اور اپنے فرقہ کو محفوظ رکھتے ہوئے ۔ اس کو بچاتے ہوئے ۔ ہزار احتیاط کے ساتھ ایک بات ایسی کہی جاتی ہے کہ پھر کوئی پکڑ نہ سکے ، ان کو پکڑے جانے کی فکر زیادہ ہوتی ہے اور سوسائٹی کے تباہ ہونے کی فکر کم ہوتی ہے ۔ لیکن جب آگ لگی ہو تو یہ تحفظات باقی نہیں رہتے، گفتگو کے آداب باقی نہیں رہ سکتے۔ جب آگ لگ جاتی ہے تو پھر کسی زبان میں کیسے ہی بے ڈھنگے طریقے سے کہا جاتا ہے، بچہ بھی بول اٹھتا ہے کہ آگ لگی ہے ۔ اس وقت صورت حال یہی ہے، نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ ۔ اس وقت ہمارا معاشرہ کوہِ آتش فشاں کے دہانہ پر پہنچ گیا ہے او رکوئی تدبیر اس کو بچا نہیں سکتی ۔ اگر کوئی چیز اس کو بچا سکتی ہے تو وہی مذہبی انسانوں ، دانشوروں اور بے غرض انسانوں کا میدان میں آنا او رحالات سے پنجہ آزمائی کرنا اور اپنا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنا۔
میں پھر کہتا ہوں کہ اس یونیورسٹی نے محمد علی اور شوکت علی کو پیدا کیا ہے، حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خاں کو پیدا کیا ہے او رہمیں امید ہے کہ یہ جامعہ اب بھی ایسے آدمیوں کو پیدا کرسکتی ہے اور اس میں پیدا کرنے کی صلاحیت ہے ۔ میں آپ کے سامنے اقبال کا یہ شعر پڑھوں گا #
تو ھما کہ ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہانِ مرغ وماہی
آپ مرغ وماہی پر اپنی طاقتیں صرف نہ کریں، آپ نے اگر ایک چھوٹی سی چڑیا کا شکار کر بھی لیا تو کوئی فخرکی بات نہیں ۔ آپ کو سارا ہندوستان پیش نظر رکھنا چاہیے اور آپ کو اپنی توانائی چھوٹے چھوٹے مسائل پر نہیں خرچ کرنا چاہیے۔ آپ کی طاقت بڑی قیمتی ہے، اس کا اصل مستحق آپ کا معاشرہ ہے، آپ کا یہ پورا عہد ہے، آپ کا یہ پورا ملک ہے ، آپ کی ملت ہے ۔ اس لیے آپ اپنے ساتھ بھی زیادتی کریں گے اور ملک کی بھی حق تلفی کریں گے اورملت کی بھی حق تلفی کا ارتکاب کریں گے اگر آپ نے چھوٹے چھوٹے مسائل میں اپنی طاقت صرف کر دی ۔ یہ مسائل آپ کی عنقا شکار ہمت، آپ کی بلند نگاہی اور آپ کی اندرونی صلاحیتوں او رجس ملت کی میراث آپ کو ملی ہے اورجس کتاب الہٰی کے آپ حامل ہیں اس کے شایان نہیں ہیں ۔ جس کی آیت پڑھ کر میں نے آپ کو سنائی ہے ﴿ فلولا کان من القرون من قبلکم اولو بقیة ینھون عن الفساد فی الارض﴾․
ارے ان نسلوں میں کچھ بچے کھچے انسان تو ہوتے، درد مند انسان تو ہوتے ، شعور والے انسان ہوتے وہ فساد سے لوگوں کو روکتے، منع کرتے۔ اگر وہ نہیں تھے تو ان قوموں کا تختہ الٹ دیا گیا، ان کی داستان بھی داستانوں میں نہیں رہی ، وہ حرفِ غلط کی طرح تاریخ کے اوراق سے مٹا دیے گئے اور ہمیں اندیشہ ہے کہ ہندوستان کا یہ موجودہ معاشرہ خدانخواستہ کہیں ایسے ہی کسی انجام سے دو چار نہ ہو، اس لیے میں آپ سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ آپ اپنی توانائی ، اپنی ذہانت ، اپنی قوت عمل، اپنی (Energy) اور اپنا (Talent) چھوٹے چھوٹے مسائل پر خرچ کرنے کے بجائے ملک کو بچانے کے لیے او رملت کو اس کی عزت کا مقام دلانے کے لیے صرف کریں۔
میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے پورے صبر وسکون کے ساتھ او راس متانت وثقاہت کے ساتھ جواس یونیورسٹی کی ہمیشہ روایت رہی ہے میری معروضات سنیں۔
واٰخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین

Flag Counter