Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1431ھ

ہ رسالہ

1 - 14
***
شعبان المعظم 1431ھ, Volume 26, No. 8
سب خدا سے دوری کا نتیجہ ہے!
مولانا عبید اللہ خالد
گزشتہ دنوں طوفان کی خبر نے کیا چھوٹے کیا بڑے، کیا مرد اور کیا عورت، کیا غریب اور کیا امیر․․․ سبھی کو ایک طرح سے فکری عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا، حال آنکہ اس موسم میں بارشیں ہونا نہ صرف یہ کہ معمول کا حصہ ہے، بلکہ شدید انسانی ضرورت بھی۔ لیکن جس انداز سے بارش کا شور و غوغا مچا اور خاص طور پر ٹی وی چینلز نے پاکستانی عوام کی نیندیں حرام کر دیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو چاہے تو کسی اچھی اور مفید شے سے بھی اتنا خوف زدہ کرسکتا ہے، جتنا کہ انسان کسی نقصان دہ چیز سے خوف کھا سکتا ہے۔ 
انسانی زندگی میں یوں تو روزمرہ کے مسائل بے شمار ہیں، اور ان کے لیے الله تعالیٰ کے فراہم کردہ وسائل بھی بے شمار ہیں۔ ان میں سے ایک بنیادی مسئلہ پانی کی ضرورت بھی ہے، اور اس ضرورت کو ماضی اور حال میں انسان بارش کے ذریعے پورا کرتا رہا ہے۔ چنانچہ آدمی موسم برسات کے موقع پر اللہ تعالیٰ سے خاص طور پر مینھ اور بارش کے لیے دعائیں کرتا ہے بلکہ بعض اوقات نماز استسقاء بھی تعلیم کی گئی کہ جب قحط سالی کا ڈر ہو اور بارش کی شدید ضرورت ہو۔ لہٰذا یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جب کبھی موسم برسات آیا ہے اور اس موسم میں بارشوں کا امکان واضح ہوا ہے، اس علاقے کے باشندوں نے خوب خوشیاں منائی ہیں یا اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدئہ شکر بجالائے ہیں۔ اس کے برخلاف اس باریہ ہوا کہ موسم برسات کے آغاز کے ساتھ ہی طوفان کی پیشین گوئی نے اہلیانِ پاکستان کے دلوں کو دہلا دیا اور سب لوگ خود کو غیر محفوظ اور پُرخطر سمجھنے لگے۔ 
یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اس نے ایک انسانی ضرورت کو جس کے لیے سال سال بھر تمنا کی جاتی ہے اور دعائیں کی جاتی ہیں، یہاں بسنے والوں کے لیے باعث زحمت اور خوف کا ذریعہ بنا دیا۔ لوگوں کی نیندیں حرام ہوگئیں اور وہ طوفان میں بہنے کے خدشات کا شکار ہوگئے۔ ایسا اس لیے بھی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دکھا دیا کہ اگر کوئی قوم اللہ کے احکام سے رو گردانی کرتی ہے تو وہ کس کس طرح انتہائی مفید شے کو ان گناہ گار لوگوں کے لیے خوف اور تکلیف کا ذریعہ بنا دیتے ہیں۔ دوسری جانب اللہ تعالیٰ کی یہ شان بھی ہے کہ وہ خوف اور خطرے کے تمام ظاہری اسباب کے ہوتے ہوئے لوگوں کو امن اور عافیت عطا فرماتے ہیں۔
سورة القریش میں اللہ تعالیٰ اپنی اسی شان و قدرت کو بیان فرماتے ہوئے جتاتے ہیں کہ کس کس طرح ہم نے قریش کو ان حالات میں امن عطا فرمایا جب بہ ظاہر خوف اور ڈر کی کیفیت لوگوں پر طاری تھی۔ 
حالات کا بدلنا اور خوف کی جگہ امن اور عافیت کی جگہ زحمت ، درحقیقت اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری اور نافرمانی سے تعلق رکھتا ہے۔ یوں تو یہ عقیدہ ہماری اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے، اور اس پر ہمارے لیے شعوری طور پر عمل کرنا بھی ضروری ہے، تاہم دین اور خدا سے دوری کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے مسائل سے پریشان اور خوف زدہ ہوجاتے ہیں، اور خدا سے بے نیاز!
کسی پریشانی یا مسئلے کے وقت پریشانی تو چلو، فطری بات ہے، لیکن خدا کی طرف رجوع نہ کرنا انتہائی خطرناک بات ہے۔ کیوں کہ اپنے مسائل و مشکلات کے وقت خدا کی طرف رجوع نہ کرنا اور محض اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانا، فکری عذاب ہی کی ایک شکل تو ہے، جس میں ہم پاکستانی بالحیث المجموع بہت زیادہ مبتلا ہیں۔ اور یہ مزاج علامت ہے کہ ہم خدا سے بہت دور ہوچکے ہیں۔ حالیہ موسم برسات میں ہمارا یہ مزاج اور رویہ اس بات کی بین دلیل رہا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ اس پر پوری قدرت رکھتے ہیں کہ وہ عافیت کی حالت میں ہمیں تکلیف میں مبتلا کردیں، اور زحمت کی ظاہری شکل میں امن و عافیت سے رکھیں۔ اگر ہم نے اللہ تعالی کی طرف رجوع نہ کیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سے بھی ہلکی تکلیف میں ہم شدید کرب میں مبتلا کردیے جائیں۔
فیصلہ اور عمل ہمیں کرنا ہے، اور یہی اس کا وقت ہے۔

Flag Counter