Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی صفر المظفر 1431ھ

ہ رسالہ

3 - 19
***
تجارت۔۔۔جنت کی شاہراہ یا جہنم کا راستہ
مفتی ابوہریرہ
تجارت کسی قوم کے لیے اقتصادی نظام کی جان ہوتی ہے او راس کے استحکام سے ملک کی معاشرتی اور تہذیبی پختگی کا پتہ چلتا ہے ۔ نبی صلی الله علیہ وسلم جس شہر میں پیدا ہوئے، وہ تجارت کا مرکز تھا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا خاندان تجارت کے معزز پیشے سے وابستہ تھا۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے بھی بعثت سے پہلے تجارت کو ہی معاش کا ذریعہ بنایا۔ آپ کے تجارتی اسفار تاریخ سے ثابت ہیں او رحضرت خدیجہ رضی الله عنہا نے آپ کی تاجرانہ مہارت وصداقت کی بنیاد پر ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کو اپنا مال دے کر بھیجا تھا۔ قرآن وحدیث میں با ربار تجارت کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کے فضائل بیان کیے گئے ہیں ۔ جیسا کہ ارشاد بار ی تعالیٰ ہے ” جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور الله کے فضل ( یعنی رزق)کو تلاش کرو۔“( الجمعہ)
اسی طرح فرمایا ” اپنے اموال کو آپس میں باطل کی راہ سے نہ کھاؤ، بلکہ باہمی رضا مندی کے ساتھ تجارت کی راہ سے نفع حاصل کرو ۔“ ( النساء) ایک اور جگہ فرمایا ” اے ایمان والو! تم خرچ کرو ان چیزوں میں سے جو تم نے کمائی ہیں ۔“ (البقرہ)
حضرت ابو سعید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” سچا او رامین تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا۔“ (ترمذی) نیز فرمایا کہ ” قیامت کے دن تاجر فاسق وفاجر اٹھیں گے الایہ کہ انہوں نے تقویٰ ، بھلائی اور سچائی سے کاروبارکیا ہو ۔“( مشکوٰة) ایک او رجگہ فرمایا کہ ”حلال کمائی حاصل کرنا الله کے مقرر کردہ فرض کا درجہ رکھتا ہے ۔“ (بیہقی)
قرآن وسنت میں اسلوب تجارت کے سلسلے میں دو طرح کے اصول وقواعد ملتے ہیں ، ایک یہ کہ تجارت کو کن صحیح اصولوں پر ہونا چاہیے اور دوسرا یہ کہ وہ کون سے مفاسد ہیں جن سے تجارت کو پاک وصاف رکھنا ضروری ہے ؟ قرآن وسنت کے اصولوں پر عمل کرنے سے تجارت ایک مقدس پیشہ اور عبادت بن جاتی ہے۔ تجارت کا وجود چوں کہ باہمی تعاون پر قائم ہے، اس لیے جانبین کا درست تعاون بنیادی اہمیت کا حامل ہے او را س معاملے میں لوٹ کھسوٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ” بھلائی اور پرہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو او رگناہ وظلم پر ہر گز کسی کے ساتھ تعاون نہ کرو ۔“( مائدہ)
تجارت کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ جانبین کی حقیقی رضا مندی ضروری ہے ۔ خریدنے او رفروخت کرنے والے کا معاملے پرراضی ہونا نہایت ضروری ہے ، لہٰذا اضطرار اور جبری رضا مندی معتبر نہیں ہو سکتی، جب کہ قرآن پاک میں ہے ” اے ایمان والو! ایک دوسرے کا مال باطل طریقے پر نہ کھاؤ، الاّیہ کہ تجارت کی راہ سے باہمی رضا مندی کے ساتھ ہو۔“ (النساء)
تیسری اہم بات یہ کہ معاملے میں کسی قسم کا دھوکا ضررو معصیت کا دخل نہ ہو ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین کسب بیع مبرور اور دست کاری سے معاش پیدا کرنا ہے ۔ نیز فرمایاکہ نہ نقصان اٹھانا اور نہ نقصان پہنچانا۔ فقہاء نے فرمایا ہے کہ بیع مبرور وہ خرید وفروخت ہے جس میں جانبین ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور بھلائی کا طریقہ اختیار کریں اور اس میں دھوکا، خیانت اور خدا کی نافرمانی نہ ہو ۔ تاجر کے اخلاق میں سب سے اچھا خلق ایفائے عہد اور صداقت ہے ۔ اس سے تجارت کو فروغ حاصل ہوتا ہے او رمعاشرے کی مالی حالت مستحکم ہوتی ہے۔
قرآن وسنت نے اس کی بھی وضاحت فرمائی ہے کہ وہ کون سے طریقے ہیں جو تجارت کو غیر اسلامی اور غیر انسانی بنا دیتے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں اسے بیع فاسد کا نام دیا گیا ہے۔ جھوٹ، ناپ تول میں کمی ، دھوکا او رفریب ، سود ، بددیانتی ، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور ناجائز منافع خوری وغیرہ اسی کا حصہ ہیں ۔ حضرت ابو قتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن الله تعالیٰ بات نہیں کرے گا ، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔“ حضرت ابو ذر رضی الله عنہ نے پوچھا” یارسول الله ! وہ بدبخت اور بھلائی سے محروم اشخاص کون ہیں؟ “ فرمایا ” تہبند کو لٹکا کرچلنے والا، احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنے والا۔“
تجارت میں اہم بات پیمانوں کو صحیح رکھنا ہے ۔قرآن پاک نے اسے عدل قراردیا ہے اور اس میں کمی کرنے کو جرم۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی تباہی کا بنیادی سبب یہ تھا کہ وہ ناپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے ۔ ناپ تول میں کمی بیشی کرنا حقیقت میں دوسرے کے حق کو غصب کرنا ہے ۔ جو کوئی لینے میں تو ل کو بڑھاتا ہے او ردینے میں گھٹاتا ہے، وہ دوسرے کی چیزپر قبضہ کرتا ہے اوریہ بھی چوری کی ایک قسم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ پیمانہ پورا بھرا کرو اور ترازوسیدھی رکھ کر تولا کرو اور لوگوں کوان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور ملک میں فساد نہ کرتے پھرو۔سورة بنی اسرائیل میں جو اخلاقی نصیحتیں کی گئی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ” اورجب کوئی چیز ناپ کر دینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور ( جب تول کر دو تو) ترازوسیدھی رکھ کر تولا کرو۔ یہ بات انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے ۔“
نفع وافزائش مال کا ایسا معاملہ جس میں ایک فریق کا سرا سر نقصان اور دوسرے فریق کو یقینی نفع ہو ، ممنوع ہے جیسے جوا، لاٹری، سٹہ وغیرہ۔ الله تعالیٰ نے فرمایا ”یہ لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم سے شراب اور جوئے کے متعلق دریافت کرتے ہیں ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم فرما دیجیے ان دونوں باتوں میں بڑا گنا ہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ نفع کا سامان ہے۔“ (البقرہ)
حصول نفع کا وہ معاملہ جس میں اضطرار او رمجبوری پائی جائے یا جبری رضا مندی کو حقیقی رضا مندی کے قائم مقام کر دیا گیا ہو، مثلاً سود یا کسی مزدور کو محنت سے کم اجرت دینا وغیرہ ، یہ بھی ناجائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ” الله تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش کرتا ہے اور الله کا فربد کار کو پسند نہیں کرتا۔“ (البقرہ)
حضرت جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” سود کھانے والے اور سود دینے والے او رگواہوں پر لعنت اور یہ سب برابر ہیں ۔“ (مشکوٰة)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ” لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ سوائے سود کھانے والوں کے کوئی باقی نہیں رہے گا۔ اگر کوئی شخص ہو گا بھی تو اس کوسود کابخار پہنچے گا اور ایک روایت میں ہے کہ اس کو سود کا غبار پہنچے گا۔“ ( مشکوٰة)
حضرت علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجبوری کی خرید وفروخت، بیع ضرر اور پھلوں کے پکنے سے پہلے فروخت کرنے سے منع فرمایا ۔ (ابوداؤد)
شاہ ولی الله رحمہ الله جبری اور اضطراری رضامندی کو اسلامی لحاظ سے غیر معتبر قرارا دیتے ہوئے فرماتے ہیں مفلس مضطر او رمجبور ہوتا ہے کہ جس چیز کے پورا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اسے اپنی بیچارگی کی وجہ سے اپنے ذمے لازم کر لیتا ہے اور یہ رضا ہر گز حقیقی نہیں ۔ پس ربا جیسا معاملہ پسندیدہ معاملات میں سے ہے اور نہ کاروبار کے صالح اور درست معاملات میں سے، بلاشبہ یہ معاملہ باطل اور ظلم ہے ۔ (حجة الله البالغہ)
وہ معاملات جن میں جانبین کے درمیان نزاع ومناقشہ کی صورتیں موجود ہوں یا کوئی ایسا پہلو ہو جس میں اختلاف یا ابہام رہ جائے تو ان میں کسی بھی فریق کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور یہ چیز تجارت اسلامی کے اصولوں اور مقاصد کے خلاف ہے ۔
مال کا عیب چھپانے اور خریدار کو فریب دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ ایکمرتبہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ غلے کے ڈھیر میں ڈالا تو انگلیوں میں کچھ تری محسوس ہوئی ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے غلے والے سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ دکان دار نے کہا یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم )!اس ڈھیر پر بارش ہو گئی تھی ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ” پھر تم نے بھیگے ہوئے غلے کو اوپر کیوں نہیں رکھ دیا، تاکہ لوگ اسے دیکھ لیتے؟ جو شخص دھوکا دے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“
قیمتیں بڑھنے کے انتظار میں کھانے پینے کی چیزیں روک کر خدا کی مخلوق کو پریشان کرنے سے بچنا چاہیے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”ذخیرہ اندوزی کرنے والا گناہ گار ہے ۔“ ایک اور موقع پر فرمایا ”ذخیرہ اندوزی کرنے والا کیسا بُرا آدمی ہے جب الله تعالیٰ چیزوں کو سستا فرما دیتا ہے تو وہ غم میں گھلتا ہے او رجب قیمتیں چڑھ جاتی ہیں تو اس کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے ۔“ (مشکوٰة)
آج اگر ہم اپنے اطراف میں نظر دوڑائیں تو ہمیں محسوس ہو گا کہ ماضی کے مقابلے میں تجارت او رکاروبار کے مواقع سینکڑوں گنا بڑھ چکے ہیں، روز بروز شاپنگ سینٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ،جگہ جگہ سپر اسٹورز کھل رہے ہیں، جہاں سوئی سے لے کر گاڑ ی تک انسانی ضرورت کی ہر شے دست یاب ہے ، اشیاء کی طلب بڑھنے کے باعث ہی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے، حتی کہ ہمارے ملک کے تجارتی خسارہ میں اربوں ڈالر کا اضافہ محض اسی وجہ سے ہو رہا ہے کہ ہماری برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کئی گنا زیادہ ہیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں یہاں اپنی شاخوں کے قیام میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے کوشاں ہیں۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ہر تاجر، صنعت کار اور دکان دار پریشان ہے؟ ایک ٹھیلے والے سے لے کر فیکٹری کے مالک تک، ہر کاروباری شخص اس بات کا رونا رو رہا ہے کہ گھر کا خرچ چلانا بھی مشکل ہو رہا ہے اور بجائے منافع کے اصل رقم کھا رہے ہیں ؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے عبادات اورمعاملات کو تقسیم کر دیا ہے ، ہم اپنے اس خود ساختہ فارمولے پر عمل پیرا ہیں کہ عبادت الله کی مرضی سے ، تجارت او رمعاملات اپنی مرضی سے اور یہی فارمولا ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے۔
گزشتہ دنوں میں ایک صاحب سے ملنے گیا تو کہنے لگے، اب بڑھاپا ہے، موت کا کچھ پتہ نہیں اور آخرت کی بھی تیاری کرنی چاہیے۔ میرا بیٹا دکان سنبھالتا ہے میں تو یہاں بیٹھا تلاوت کرتا رہتا ہوں یا تسبیح پڑھتا رہتا ہوں۔ حتیٰ کہ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے واقعات سنا کر رونے لگے۔ میں بڑا متاثر ہوا۔ آخر میں کہنے لگے کہ کوشش تو کر رہاہوں، بس الله کرے کہ بینک والے میری دکان کرائے پر لے لیں تو میں تبلیغ پر نکل جاؤں۔ پھر کہنے لگے کہ چالیس ہزار روپے پراپرٹی ٹیکس آیا ہے ، اب کچھ رشوت دے دلا کراسے کم کرواؤں گا ،کیا کریں یہ سب تو کرنا پڑتا ہے؟
یہ ایک شخص کا حال نہیں، بلکہ ہمارا معاشرہ اجتماعی طور پر اس دورا ہے پر چل رہا ہے ۔ دراصل ہم نے فقط نماز حج ، زکوٰة وغیرہ کو ہی عبادت تصور کر لیا ہے اور تجارت وغیرہ کو دنیاوی معاملے سمجھنے لگے ہیں، جب کہ تجارت اورکسب حلال تو اتنی بڑی عبادت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہ خوش خبری سنائی کہ ”سچا او رامانت دار تاجر روز قیامت نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا۔ “( ترمذی) 
نیز فرمایا کہ” جس نے پاک کمائی پر گزارہ کیا، میری سنت پر عمل کیا اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھا تو یہ شخص جنتی ہے۔،،
کس قدر حیرت کی بات ہے کہ مسلمان ہونے کے باوجود قرآن وحدیث میں بتائے گئے تمام اصولوں کو پس پشت ڈال کر آج ہم نے جھوٹ، فریب ، ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں کمی، خیانت، وعدہ خلافی، ناجائز منافع خوری، چور بازاری، جھوٹی قسمیں کھانا، مال کا عیب چھپانا اور دیگر تمام ناجائز ذرائع کو تجارت میں کامیابی کا گُرسمجھ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کاروبار میں برکت نہیں رہی، یعنی ہم اپنے کاروباری منافع کے حقیقی نفع سے محروم ہیں ، ہمارا منافع پولیس والے لے جاتے ہیں ، بھتہ خور لے جاتے ہیں ، ڈاکو لے جاتے ہیں ، بد معاش لے جاتے ہیں اور رشوت خورسرکاری اہل کار لے جاتے ہیں او رہم یا جوج ماجوج کی طرح تن، من، دھن لگا کر صبح سے لے کر شام تک ،پریشانیوں کی دیوار کو اس امید پر چاٹتے رہتے ہیں کہ ہمارے اور خوش حالی کے درمیان حائل یہ دیوار گرے تو ہم بھی ایک آسودہ اور خوش حال زندگی سے ہم کنار ہو سکیں، مگر ہماری کم عقلی اور حماقت سے یہ دیوار او رمضبوط ہوتی چلی جارہی ہے اور ہماری پریشانیاں اور کاروباری خسارہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اوریہ تو دنیا کا خسارہ ہے، جس سے ایک وقت مقررہ پر ہماری جان چھوٹ ہی جائے گی، اصل خسارہ تو آخرت کا خسارہ ہے، جہاں میزان عدل کے سامنے ہمارا کوئی بھی مکروفریب اور کاروباری گُر ہمیں دائمی خسارے سے نہیں بچاسکے گا۔

Flag Counter