Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانی 1430ھ

ہ رسالہ

1 - 14
***
جمادی الثانی 1430ھ, Volume 25, No. 6
دیر ہماری جانب سے ہے
مولانا عبید اللہ خالد
امت مسلمہ کے موجودہ حالات پر نظر ڈالی جائے تو پوری دنیا کے مسلمان کفار کے شکنجے میں جکڑے ہوئے نظر آتے ہیں، اس موقعہ پر سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا مفہوم ذہن میں گھوم جاتا ہے جس میں مذکور ہے کہ مسلمانوں پر کافر قومیں ایسے ٹوٹیں گی جیسے بھوکا کھانے پر ٹوٹتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج اس حدیث کی تعبیر ہمارے سامنے ہے تو شاید ہی کوئی اختلاف کرے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ کیا ایسا ہونا ہی تھا؟ اس کا سبب کیا ہے؟ اس کا حل کیا ہے؟ بعض لوگ ناامید ہوکر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ چونکہ حدیث میں یہ بات ذکر کی گئی ہے، اس لیے ایسا تو ہونا ہی تھا۔ یہ نکتہ ایک حد تک درست، لیکن آقائے نام دار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سبب بھی بیان کردیا اور سبب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر اس سبب کو دور کردیا جائے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کیفیت سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ مذکورہ حدیث ہی میں اس کا سبب یہ بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ تم پر ”وہن“ غالب کردیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے وہن مسلط کیے جانے کا فیصلہ خود مسلمانوں کی بدعملی کی وجہ سے ہوگا یعنی جب وہ دنیا سے محبت اور آخرت سے کراہیت محسوس کرنے لگیں گے۔
آج آپ غور کریں تو پوری دنیا کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ نہ معاش ہے، نہ گھر بار ․․․ نہ حقوق ، نہ حکومت ․․․ نہ انصاف ، نہ ظلم ․․․ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امیر ہو یا غریب، مرد ہو یا عورت، حکم راں ہو یا رعایا․․․ سب نے صرف دنیا میں اپنی حتمی کامیابی یا ناکامی کو معیار قرار دے لیا ہے۔ اس غلط فکر میں ہر شعبہٴ زندگی کے مسلمان شامل ہیں، فکر کی یہ حالت دنیا کی محبت کی غماض ہے اور دنیا کی ایسی محبت اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔
دنیا میں ضروریات پوری کرنے کے لیے محنت کرنا نہ صرف جائزہے، بلکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا مقصد انسانیت کی تکمیل بھی ہے،چناں چہ حل یہ نہیں کہ ہم دنیا اور اسباب دنیا کو بالکلیہ چھوڑ دیں بلکہ حقیقی حل یہ ہے کہ دنیا میں رہیں مگر دنیا کے ہوکر نہ رہیں، آخرت کو منزل بناکر دنیا کی زندگی گزاریں۔
کہنے کو تو یہ بات چند لفظوں میں ادا کردی گئی ہے، مگر یہی آج امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، کیوں کہ فکر کی اس تبدیلی سے جو انقلاب آئے گا، وہی امت مسلمہ کے تمام تر مسائل کا حل ہے۔ فکر کی اسی تبدیلی کی بدولت مسلمان اللہ کی طرف دیکھنے کے قابل ہوگا۔
تاریخ انسانی اٹھا کر دیکھیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ جب بھی کسی قوم کے افراد مجموعی طور پر فکری ابتری اور اخلاقی کمتری کا شکار ہوئے، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جن انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا ، انھوں نے صرف ایک کام کیا، اللہ تعالیٰ سے انسانوں کا رشتہ استوار کیا۔
آج مشرق و مغرب کے مسلمان ہوں یا شمال و جنوب کے ․․․ تقریباً سبھی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اللہ سے تعلق توڑ کر دنیاوی اور شیطانی طاقتوں کے زیر اثر آگئے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے تمام تر مسائل کا حل ان قوتوں کے پاس ہے۔ لیکن سب سے بڑی حقیقت، جسے آج ہم فراموش کرچکے ہیں، یہ ہے کہ ہمارے تمام تر مسائل کا حل صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاس ہے۔ بلکہ ہمارے مسائل پیدا ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے ناتا توڑ لیا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے اور نہ مستقبل میں کبھی ایسا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق توڑ کر کوئی دنیا میں سکھ چین کی زندگی بسر کرسکا ہو، خواہ اس کے پاس دنیا وی اسبابِ راحت کتنے ہی کیوں نہ موجود ہوں۔
اس لیے عقل اور دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ اگر ہم اپنے تمام تر مسائل و مشکلا ت کو حل کرنا چاہتے ہیں تو اپنے ارد گرد اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے یا اپنے ہی جیسے کم زور انسانوں سے منت یا گلہ کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے رجوع کریں، اللہ تعالی ٰسے گزارش کریں، اللہ تعالیٰ سے منت کریں، اللہ تعالیٰ سے مناجات کریں اور اللہ تعالیٰ ہی سے اپنے تمام تر چھوٹے بڑے مسائل اور ہر قسم کی مشکلات میں مدد مانگیں۔ یقین کیجیے، اللہ کو اس وقت بڑی خوشی ہوتی ہے، جب اس کا بندہ خواہ کتنا ہی گنہ گار کیوں نہ ہو، اس کے سامنے ہاتھ اٹھا کر اپنی عاجزی اور بے بسی ظاہر کرتا اور اسی سے مدد کا طالب ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ تو ہمارے تمام مسائل حل کرنے کے لیے تیار ہیں، دیر ہماری جانب سے ہورہی ہے۔

Flag Counter