Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ - مارچ۲۰١۲ء

ہ رسالہ

5 - 8
’’اسلام زندہ باد‘‘کانفرنس
’’اسلام زندہ باد‘‘کانفرنس
جمعیت علماءِ اسلام کاقابل تبریک کارنامہ

متحدہ پاکستان میں استخلاصِ وطن کی تحریک کی آبیاری اوراُسے پروان چڑھانے کے لئے علمائے حقہ ہی پیش پیش تھے۔اسی طرح تحریک پاکستان میں بھی علمائے کرام کاکردارمثالی تھا،جس کے نتیجہ میں ملک عزیزپاکستان وجودمیںآیا۔ پاکستان کی بنیاداوراساس نفاذِ اسلام تھی،پاکستان کامطلب کیا:’’لاإلہ إلااللّٰہ‘‘جیسے نعرے سے عوام کے ایمان وایقان کوانگیخت کیاگیا۔لیکن ابتداء ہی سے خصوصاً قائدملت لیاقت علی خان مرحوم کے بعدتدریجاً یہاں نفاذِاسلام نہیں ہونے دیاگیا۔
۹،۱۰فروری ۱۹۴۹ء مطابق ۱۰،۱۱ربیع الثانی۱۳۶۸ھ کوجمعیت علمائے اسلام کے زیرِ اہتمام ڈھاکہ میں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقدکی گئی،جس کے خطبۂ صدارت میں علامہ شبیراحمدعثمانی نور اللہ مرقدہٗ نے اس طبقہ کی تمام کج ادائیوں کوطشت ازبام کیااورنفاذِاسلام کے سلسلہ میں ان کے تمام شکوک وشبہات اوراعتراضات کاجواب دیا۔آپ ہی کی کوششوں سے قراردادِمقاصداسمبلی سے پاس ہوئی،جوآج بھی آئینِ پاکستان کاحصہ ہے۔
۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کی اپنی شرارتوں اورغنڈہ گردی کی بناپرجب اسلامیانِ پاکستان نے تحریک چلائی،تواس وقت محدث العصرحضرت علامہ سیدمحمدیوسف بنوری نوراللہ مرقدہٗ کی امارت اورقومی اسمبلی میں حضرت مفتی محمودقدس سرہٗ کی قیادت میں پارلیمنٹ نے آئینی طور پر قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قراردیا۔اُس کے بعدمتعددبارعلمائے کرام نے نفاذِشریعت کی غرض سے قومی اسمبلی ، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی میں شریعت بل اورحسبہ بل پیش کئے۔افسوس سے کہناپڑتاہے کہ جب بھی نفاذِاسلام کی بات کی گئی ،اشرافیہ نے اس کی راہ میں روڑے اٹکائے اورفرضی مشکلات کے پہاڑ کھڑے کرکے پاکستان میں نفاذِ اسلام کی راہ روکی گئی،آج پاکستان کوقائم ہوئے ۶۴برس ہوگئے، لیکن یہاں اسلام نافذ نہیں ہوسکا۔اس ملک میں برسرِاقتدارطبقہ ہمیشہ یورپ وامریکہ کے مفادات کامحافظ رہا،اس ملک میں جو بھی کرسئ اقتدارپربراجمان ہوا،اس نے ملک اورقوم کے لئے کچھ کیاہویانہ ،البتہ اسلام اور مسلمانوں کاگلا ضروردبایا۔
دوسری طرف حامیانِ دین وشریعت اورعلمائے حقہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ حکام کو پاکستان کے مقاصدسے منحرف نہ ہونے دیاجائے،اس لئے انہوں نے اربابِ اقتدارکوان کے بیرونی آقاؤں کے پروگرام کی تکمیل سے نہ صرف یہ کہ بازرکھا،بلکہ ہمیشہ کوشش کی کہ کسی طرح خدا کی زمین پرخداکا قانون نافذہوجائے۔
جمعیت علماء اسلام جوپاکستان کی ملک گیرعوامی دینی جماعت ہے،جس کامنشورقرآن و سنت اوراسلام کے عادلانہ نظام کانفاذہے۔انسانیت کش استحصالی نظام کاخاتمہ،انسانی حقوق کی پاسداری اورشہریوں کے بنیادی حقوق کے لئے جدوجہداس کااثاثہ ہے۔جمعیت علماء اسلام کا نصب العین رضائے الٰہی کاحصول اوراعلائے کلمۃ اللہ اس کامقصودہے۔
آج دنیامیں تہذیبوں کے ٹکراؤکی جنگ ہے،مغرب مسلمانوں پراپنی تہذیب مسلط کرنے پرتلا ہواہے،اوراس کے لئے اس نے کئی محاذکھول رکھے ہیں۔سامراج کی ان تمام فتنہ سامانیوں اور چالوں سے پاکستانی عوام کوبچانے اوران سے باخبررکھنے کے لئے قائداسلامی انقلاب،امیر جمعیت علماء اسلام حضرت مولانافضل الرحمن دامت برکاتہم نے مختلف شہروں میں کانفرنسوں کی صورت میں رابطہ مہم کافیصلہ کیا۔کئی شہروں میں کامیاب کانفرنسوں کے بعدکراچی میں باغِ قائداعظم محمدعلی جناح میں’’ اسلام زندہ بادکانفرنس‘‘منعقدہوئی،جس کی مثال کراچی کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کانفرنس کی تیاری میں جمعیت علماء اسلام کراچی کی قیادت اورکارکنوں نے انتھک محنت کی۔ کانفرنس کی تیاریوں کے سلسلہ میں علمائے کرام،دینی مدارس کے منتظمین اورخطباء حضرات کے نام ایک دعوت نامہ تیارکیاگیا،جس کامتن یہ ہے:

’’محترم ومکرم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیدت الطافکم ومعالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ملک کی موجودہ دینی،سیاسی اوراقتصادی صورت حال میں جولاوا پک رہاہے اور عالمی استعمار نے یہودی وصلیبی پروگراموں اورمنصوبوں کو ہمارے ملک عزیز پاکستان پرمسلط کرنے کے لئے جوگٹھ جوڑ کرلیاہے،اس کے پیش نظراس کامؤثر تدارک،نظریۂ پاکستان،دینی مدارس ومساجداوراسلامی مراکزکی حفاظت،امت مسلمہ کورشتۂ وحدت میں پرونااورملک وملت کی صحیح رہنمائی کرناوقت کی اہم ضرورت ہے۔
اس مقصدکے لئے ۲۷؍جنوری ۲۰۱۲ء بعدنمازِجمعہ بمقام شاہراہِ قائدین ’’اسلام زندہ باد‘‘ کانفرنس کاانعقادکیاگیاہے،جس میں جمعیت علماء اسلام کے مرکزی راہنماؤں کے علاوہ قائدملتِ اسلامیہ حضرت مولانافضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم کاخصوصی خطاب ہوگا۔آپ سے اس کانفرنس کی کامیابی کے لئے دعاؤں اورتوجہات کی درخواست کے ساتھ یہ بھی استدعاہے کہ اپنے احباب وحلقۂ اثرکواس کانفرنس میں شرکت کے لئے زیادہ سے زیادہ متوجہ فرمائیں۔ واجرکم علی اللّٰہ۔‘‘
اس کانفرنس میں ملک بھرکے اراکین قومی اسمبلی، اراکین صوبائی اسمبلی،اراکین سینیٹ اور جمعیت علماء اسلام کے راہنماؤں کے علاوہ بزرگان دین،اکابرعلماء کرام اورمشائخ عظام کثیر تعداد میں شریک ہوئے،جن میں وفاق المدارس العربیہ کے صدرحضرت مولاناسلیم اللہ خان زید مجدہم،حضرت مولاناعبد الصمدہالیجوی صاحب،وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نائب صدر، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیراورجامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس وشیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندرصاحب، استاذِحدیث حضرت مولانامحمدانور بدخشانی صاحب، استاذِ حدیث حضرت مولانافضل محمدصاحب،استاذِحدیث حضرت مولانا امداداللہ صاحب قابلِ ذکرہیں ۔کانفرنس سے جمعیت علماء اسلام کے جنرل سیکرٹری مولاناعبدالغفورحیدری ،اکرم درانی ، حافظ حسین احمد،سینیٹرڈاکٹرخالدمحمودسومرو،وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظمِ اعلیٰ مولانا قاری محمدحنیف جالندھری،حضرت مولاناسیدعبدالمجیدندیم شاہ صاحب،مولانا عبدالغفورقاسمی اور دیگرنے خطاب فرمایا ۔ اس موقع پرحضرت مولاناڈاکٹرعبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم نے اپنے خطاب میں جو کچھ فرمایا،وہ ہدیۂ قارئین ہے،ڈاکٹرصاحب نے فرمایا:
’’میرے معززبزرگواورعزیزبھائیو!آزادی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے،کوئی قوم آزادہو،یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے،اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرحضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان پربنی اسرائیل کو یہ نعمت یاد دلائی کہ تم اللہ کی اس نعمت کویادکرو کہ فرعون اورفرعون والے تم پرظلم کیاکرتے تھے،تم غلام تھے،تمہارے بیٹوں کو ذبح کردیتے تھے، اور بیٹیوں کوزندہ چھوڑدیتے تھے۔اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی عورتوں سے وہ خدمت لیتے تھے اوربڑوں سے بیگارلیتے تھے۔
آپ نے سناہوگاکہ مصرمیں فرعون کے بہت بڑے بڑے اہرام مصربنے ہوئے ہیں،بڑے بڑے پتھروں کے مصنوعی پہاڑہیں،جوان کی قبریں تھیں،یہ بڑے بڑے پتھربنی اسرائیل کے ذریعہ لائے جاتے تھے،فرعونیوں کے ہاتھ میں بڑے بڑے کوڑے ہوتے تھے،ان سے انہیں مارتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کوآزادی دی اورفرعون کوغرق کیااور یہ بنی اسرائیل اُس کنارے پر تماشہ دیکھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو یہ نعمت یاددلاتاہے ۔اورایساہی ہمارا حال ہے۔ہم غلام تھے،استعمارہم پرغالب تھااور فرعون نے تو بچوں کو ذبح کیا،لیکن استعمار نے ہزاروں علماء کوذبح کیا،وہ سب جرم کئے جوآپ کتابوں میں پڑھ سکتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے محنت کی ،آزادی کے لئے قربانیاں دیں اورآخرکاراس کو یہاں سے بھاگناپڑااور ہمیںآزادی مل گئی۔ اوراس آزادی کاعنوان بھی اسلام تھا۔ہمارے قائدین، ہمارے عوام سب کی زبان پر یہی تھاکہ پاکستان کامطلب کیا: ’’لاإلہ إلااللّٰہ‘‘اللہ نے ہمیں یہ نعمت دی۔
ہوناتویہ چاہئے تھا کہ ہم نے جو وعدے کئے تھے،ان پرعمل کرتے اور واقعی ملک کومثالی اسلامی مملکت بناکے دنیاکے سامنے پیش کرتے،لیکن نعمت ملنے کے بعدہمارے قائدین نے بھی اورہم عوام نے بھی سرکشی اختیارکی،ناشکری کی ، إلا ماشاء اللہ۔اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ آج تک ہمیں اسلامی نظام نہیں مل سکا ۔اس کی سزا ہے کہ اللہ تعالیٰ کاعذاب کبھی زلزلہ کی شکل میں آتاہے،کبھی سیلاب کی شکل میں آتا ہے۔جماعتیں آپس میں لڑرہی ہیں،ہرایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہا ہے۔ اور پاکستان کارہنے والااپنی جان ومال اور عزت پر مطمئن نہیں کہ ہروقت اُس پر خوف مسلط رہتا ہے۔یہ بھی اللہ کاعذاب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’لئن شکرتم لأزیدنکم ولئن کفرتم إن عذابی لشدید‘‘۔یعنی میری نعمت کا شکر اداکروگے تواوردوں گااوراگرناشکری کروگے تو میرا عذاب سخت ہے۔
میرے بزرگو اوربھائیو!اگرہم چاہتے ہیں کہ اللہ کاعذاب ہم سے دور ہوجائے،اگرہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک اسلامی ملک بن جائے،اس کے اندر اسلام کابول بالاہوتوپھرہمارے حکمرانوں سے لے کرعوام تک ہم سب کوتوبہ کرنی چاہئے،ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والے ہیں۔ہمارے حکمران بھی صدق دل سے توبہ کریں،ہم عوام بھی صدق دل سے توبہ کریں اور اس کاوعدہ کریں کہ اے اللہ!ہم اپنی اجتماعی زندگی میں بھی اور انفرادی زندگی میں بھی آپ کے دین پرچلیں گے اورآپ کی تعلیمات پرعمل کریں گے ۔اوراگرہم نے اپناوعدہ پورا کیا اوراللہ اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی پیروی کی توانشاء اللہ یہ عذاب بھی ٹلے گااوراللہ کی نعمتیں بھی آئیں گی۔
حضرت عمربن عبدالعزیزؒ اللہ تعالیٰ کے نیک حکمرانوں میں سے تھے اور ان کو خلیفہ راشد کہاجاتاہے،ان کے عدل وانصاف اوردین داری کی وجہ سے اللہ نے ایسی برکت دی کہ ان کے دور میں ایک انسان پیسے لے کرباہرنکلتا،کوئی فقیر نہیں ملتاتھا،جس کو وہ پیسہ دے۔ اورزمین میں جوغلہ و پھل عام طورپراُگتے تھے ، اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کئی گنازیادہ پھل اورکثرت کے ساتھ غلہ دیا کرتے تھے۔
میرے بزرگواوربھائیو! ایک ہی راستہ ہے ،ہم توبہ کرکے وعدہ کریں کہ اے اللہ!آئندہ ہم اپنی زندگی کوتیرے احکام ،تیری کتاب اورپیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق گزاریں گے اورحکمران بھی وعدہ کریں،توبہ کریں۔ہماری آواز وہاں تک نہیں پہنچ سکتی ،میں میڈیاوالوں سے گزارش کروں گاکہ:میری آواز وہاں تک بھی پہنچائیں اوران سے کہیں کہ اللہ کاجب عذاب آئے گا،نہ تم بچوگے ،نہ ہم بچیں گے۔توبہ کرو، تمہاری کرسی کی حفاظت بھی ایک نے کرنی ہے اور وہ اسلام ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام پرزندہ رکھے اوراسلام کے لئے سارے کام کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ وصلی اللّٰہ علیٰ سیدنا محمد‘‘۔

جمعیت علماء اسلام کے امیراورقائدِملت اسلامیہ حضرت مولانافضل الرحمن دامت برکاتہم نے ’’اسلام زندہ باد‘‘کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بجاطورپرفرمایاکہ:ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے اور مسائل کو حل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ اسٹیبلشمنٹ ہے۔انہوں نے فرمایا کہ: اسٹیبلشمنٹ نے اس ملک کو سیکورٹی اسٹیٹ بنادیا ہے، مقتدر ادارے اپنی ناکامی تسلیم کرلیں، مغرب کی جانب سے مسلمانوں کی تذلیل، قرآن پاک کی توہین اور اسلام دشمن اقدامات ہمیں انتہا پسند رویہ اختیار کرنے پر مجبور کررہے ہیں، امریکا اور اس کے حواری سن لیں، امریکا سے آقا اور غلام کا رشتہ قبول نہیں، انتخاب جیت گئے تو پورے ملک میں عوام کو مفت طبی اور تعلیمی سہولتیں فراہم کریں گے۔ بندوق کی نوک پر شریعت کے نفاذ کے مطالبے کو درست نہیں مانتے۔اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل نہ کرنے والے مسلح تنظیموں سے بڑے مجرم ہیں، سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام مسائل کی جڑ ہے، کھوکھلے نعرے نہیں لگاتے، معاشی مسائل کے حل کا منشور رکھتے ہیں،
کمیونزم اور کیپٹل ازم کی ناکامی کے بعد اسلامی نظام دنیا کا مقدر ہے۔ انسان کے بنائے ہوئے معاشی نظام مسائل کے حل میں ناکام ہوچکے ہیں ،ہم مذاکرات کے قائل ہیں، اگر افغانستان کا مسئلہ مذاکرات سے حل ہوتا ہے تو اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے نے کبھی بھوکے کا پیٹ نہیں بھرا، مغرب کی انتہا پسندی کے خلاف ہمیں بھی انتہا پسند پالیسی بنانے کا حق ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ:
’’ سندھ کے عوام نے جمعیت علماء اسلام پر بے لاگ اعتماد کیا ہے، جس کا ثبوت آج کا یہ فقید المثال عوامی اجتماع ہے، آج کی کانفرنس حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن کی تحریک کا تسلسل ہے، جمعیت علماء اسلام کے جیالوں نے اس نعرے کو نئی جلا بخشی ہے اور قوم کو احساس دلایا ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد غلامی کو دوام بخشنا نہیں ،بلکہ حقیقی آزادی حاصل کرنا تھا، مگر قیام پاکستان سے ہی ملک پر ایسا نظام نافذ کردیا گیا اور لوگ قابض ہوئے کہ ہمیں فرنگی کے دور سے نکال کر امریکی استعمار کے حوالے کردیا گیا اور پاکستان کو اسٹیبلشمنٹ نے سیکورٹی اسٹیٹ بنادیا، ملک کا سرمایہ اسٹیبلشمنٹ کی عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے اور غریب بھوکا رہ رہا ہے۔ پاکستان کے قیام کا مقصد اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا، مگر اس کو فلاحی ریاست کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی ریاست بنادیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں معاشی انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔ ملک کے وسائل عوام کی ملکیت ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ نے کہا کہ مزدور کو اداروں میں اس کا حق ملنا چاہئے، جب تک مزدور اور غریب مطمئن نہیں ہوگا، اس وقت تک ملک میں بہتری نہیں آسکتی۔ جے یو آئی نے خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں خان اور سرداری سسٹم کو ختم کیا اور اب سندھ میں جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کی لعنت کا خاتمہ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ بعض قوتیں مذہبی طبقے کو مذہبی انتہا پسندی کی طرف دھکیلنا چاہتی ہیں۔ ہم یہ بتادینا چاہتے ہیں :ہم انتہا پسند نہیں، انتہا پسند تم ہو۔ہمیں تو قرآن پاک نے میانہ رو امت قرار دیا ہے، ہم نے باطل نظریات اور غیر فطری نظریات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ مذہبی طبقے کو زبردستی جنگ کی طرف دھکیلا جارہا ہے جو لوگ ہمیں انتہا پسند کہتے ہیں، میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ابو غریب جیل، گوانتاناموبے، شبرغان اور دیگر انسانیت دشمن مقامات پر انسانیت کی کس طرح تذلیل کی گئی؟ کہیں پر زندہ انسانوں پر کتے چھوڑے گئے، کہیں پر زندہ انسانوں کے منہ پر پیشاب کئے گئے اور کہیں پر قرآن کی توہین کی گئی، امریکا میں گرجا گھروں میں قرآن پاک کو اعلانیہ طور پر جلایا گیا، آپ کا یہ انتہا پسندانہ رویہ ہمیں انتہا پسند بننے پر مجبور کررہا ہے۔ ہم امریکی عوام یا کسی کے دشمن نہیں، ہم امریکی رویوں کے دشمن ہیں، ہم مسائل کے حل کے لئے مذاکرات کے مخالف نہیں مگر امریکا اور اس کے حواریوں پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان آقا اور غلام کے تعلقات ہیں، ہم اس بنیاد پر کسی پالیسی کو تسلیم نہیں کریں گے اور اس کے خلاف جمعیت علماء اپنے منشور کے مطابق اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جب اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی نہیں کی گئی اور پارلیمنٹ نے بھی آئین کے مطابق اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ اگر کسی نے اس وجہ سے بندوق اٹھاکر اسلامی نظام نافذ کرنے کی کوشش کی، اگر اس کے خلاف طاقت کا ستعمال درست ہے تو پھر پارلیمان میں بیٹھ کر اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنے والے بھی مجرم ہیں اور ان کے خلاف بھی عوامی بغاوت ہونی چاہئے، انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں قراردادوں پر عمل ہوتا تو آج ہمیں ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑتا، کبھی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغوا کرکے اس کی تذلیل کی جاتی ہے، کبھی ریمنڈ ڈیوس جیسے دہشت گرد معصوم پاکستانیوں کا قتل کرتے ہیں، کبھی ایبٹ آباد پر حملہ ہوتا ہے اور ہمارے ادارے بے خبر ہوتے ہیں، کبھی حقانی نیٹ ورک کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور کبھی سلالہ پر حملہ ہوتا ہے، یہ سب کچھ ۲۰۰۱ء کی ملک دشمن پالیسیوں کا نتیجہ ہے ،جس کی وجہ سے اب تک ملک کو ۷۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا، ۴۰ ہزار پاکستانی بے گناہ شہید ہوچکے ہیں، اس کے بدلے میں ہمیں ۹ سال کے دوران ساڑھے ۴ ارب ڈالر ملے جو سالانہ فی پاکستانی ۲ ڈالر بنتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم اپنے مجرم کو تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ زبانی معاہدات ہوئے، آخر یہ اختیار کس کو حاصل تھا کہ وہ ۱۸ کروڑ عوام کا سودا کرے؟۔ غلط پالیسیوں نے ہمیں بھکاری بنادیا، یہ ادارے کیوں نہیں تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ناکام ہوچکے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ جلسے بڑے کرتے ہیں ،لیکن ووٹ آپ کو نہیں ملتے؟۔ میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ درمیان سے ہٹ جائے پھر دیکھتے ہیں کہ کس کو ووٹ ملتے ہیں اور کس کو نہیں ملتے؟۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں انتہا پسندی کو روکنے کے لئے صاف شفاف الیکشن وقت کی ضرورت ہے اور یہ عمل ووٹر لسٹ سے لے کر بیلٹ بکس تک ہر معاملے میں ہونا چاہئے ،ورنہ ہمیشہ یہ سوال اٹھے گا:وہ کون سے ادارے ہیں جن کیو جہ سے ملک تباہ ہوا ہے؟۔ وہ اپنی اس ناکامی کو تسلیم کریں، انہوں نے مقتدر اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں کو باغی بناؤ اور ہمیں کہو کہ ان کا راستہ روکو، یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟۔ اسٹیبلشمنٹ اب یہودی لابی کو پروان چڑھارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دنیا کو اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانا ہے اور جمعیت علماء اسلام پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کی حمایت کرتی ہے‘‘۔
ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت مولانافضل الرحمن زیدمجدہم نے اپنے خطاب میں جوکچھ فرمایا،وہ پوری پاکستانی قوم کے دل کی آوازہے اورقوم کے ذہنوں میں وسوسہ ڈالنے والے بہت سے سوالات کاتسلی بخش اورشافی جواب ہے۔
جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں کی اب پہلے سے زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس پیغام کو گھر گھر،گلی گلی اور محلہ محلہ کے باشندوں تک پہنچائیں،منتشراوربکھرے افرادکواجتماعیت میں لائیں، ان کے مسائل سنیں،ان کے حل اورازالہ کے لئے ان کے دست وبازوبنیں۔ان شاء اللہ! اس سے جمعیت علماء اسلام کی قوت مضبوط ہوگی اوراسے تقویت ملے گی۔
جمعیت علماء اسلام کی قیادت سے ہماری درخواست ہے کہ اپنوں کومنانے کی کوشش کریں اوران کوبھی ساتھ چلنے کی دعوت فکردیں،اس سے ان شاء اللہ !علماءِ دیوبند کی قوت مجتمع اورنفاذِ اسلام کی راہ ہموارہوگی۔
ادارہ بینات ’’اسلام زندہ باد‘‘کانفرنس کے انعقاداورکامیابی پرجمعیت علماء اسلام کی قیادت، راہنماؤں اورکارکنوں کودل دلی مبارکباداورہدیۂ تبریک پیش کرتاہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی مساعئ جمیلہ کوقبولیت سے نوازیں اورپاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذاوراس کی برکات سے مستفیدہونے کی توفیق عطافرمائیں۔آمین۔
اشاعت ۲۰١۲ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ - مارچ۲۰١۲ء, جلد 75, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: امت مسلمہ کو آج باطنی اصلاح کی ضرورت ہے.
Flag Counter