Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ -اگست ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

1 - 13
جامعہ کی فلاحی ورفاہی خدمات !
جامعہ کی فلاحی ورفاہی خدمات

الحمد لله وسلام علی عبادہ الذین اصطفٰی
مسرفانہ اور مترفانہ زندگی جو خود فراموش، خدا فراموش، اترائی ہوئی، اپنے آپ سے باہر اور برخود غلط ہو، اسی طرح جو زندگی نفع اندوزی، غبن، رشوت، چور بازاری، سود ، جوا، سٹہ، لاٹری، چوری اور ڈکیتی پر مشتمل ہو، اسلام ایسی زندگی اورکمائی کو جرم، خبیث، ناجائز اور حرام قرار دیتا ہے۔
اس کے برخلاف ایسی زندگی جو صبر، شکر، توکل، قناعت اور تواضع سے آراستہ ہو، اسی طرح جو زندگی ہمدردی، رواداری، باہمی تعاون، آپس کے اعتماد اور بھروسہ، رحم دلی، شفقت، مروت، ایثار اور اخوتِ انسانی پر مشتمل ہو، اسلام ایسی زندگی گزارنے کی نہ صرف یہ کہ تعلیم وتلقین کرتا ہے، بلکہ ان اوصاف کے حامل حضرات کی حوصلہ افزائی اور ان کے اس پاکیزہ جذبہ کی قدر بھی کرتا ہے۔
اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب ستم رسیدہ صحابہ کرم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچے ہیں، توجو صحابہ کرام مکہ مکرمہ میں خوشحال تھے، وہ بھی مدینہ طیبہ میں تہی دست اور بے سروسامانی کی حالت میں آئے، اس وقت مدینہ طیبہ کے صحابہ کرام نے اپنے ان مہاجرین بھائیوں کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑا بلکہ ان کو اپنے مال واسباب اور جائیداد میں برابری کے طور پر شریک کرلیا، جس صحابی کے پاس جو کچھ مال واسباب تھا، آدھا اپنے مہاجر بھائی کو دینے کے لئے تیار ہوگیا۔ یہ ہے اسلامی معاشرت اور طرز زندگی کاوہ عملی نمونہ جس کی تعلیم وتلقین آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔
الغرض مال حاصل کرنے ، اس کو بچانے اور اس کو خرچ کرنے کے جو قاعدے اور طریقے اسلام نے مقرر کئے ہیں ،صرف انہیں پر عمل کرنے سے موجودہ فتنہ وفساد، جنگ وجدال، تباہی وبربادی، ظلم وستم،بے انصافی وعدم مساوات اور اضطراب وہیجان کا سدباب ہوسکتا ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں امن وسکون ہو، عدل وانصاف قائم ہو اور مسلمانوں میں محبت ومودت کا رشتہ استوار ہو۔
مگر افسوس ! اول تواکثر مسلمان راہ خدا میں دینی تعلیم وتعلم اور مسلمانوں کی غربت وافلاس اور تعمیر وترقی کے لئے اپنا مال خرچ کرنے کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے اور اگر بعض اوقات مال خرچ کرتے بھی ہیں تو ایسے انداز میں کہ جس سے مستحق مسلمان بھائیوں کو خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچ پاتا۔
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی انتظامیہ نے زلزلہ زدگان، سیلاب زدگان اوران آفات سے متاثرین بھائیوں کی امداد اور تعاون کے لئے ایک مربوط اور صاف وشفاف نظام متعارف کرایا ہے، الحمد لله! اس نظام کے تحت جہاں ان متاثرین کی رہائش ، خوراک، پوشاک، مکان اور ضروریات زندگی کا انتظام وانصرام کیا گیا، وہاں ان تباہ حال خاندانوں اور افراد کی شادی خانہ آبادی کا بھی انتظام کیا گیا۔
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی جہاں اسلامی تعلیمات کی عظیم یونیورسٹی اور انسان سازی کا اعلیٰ ادارہ ہے، وہاں یہ ایک تحریک کابھی نام ہے، جواپنے مسلمان بھائیوں کی دینی، علمی، اصلاحی اور تبلیغی خدمات کے علاوہ سماجی، فلاحی اور رفاہی خدمات کے لئے بھی ہمہ وقت مستعد اور ضرورت مند بھائیوں کو راحت وآرام پہنچانے کے لئے ہروقت کوشاں ہیں۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
سیلاب زدگان کے لئے جامعہ کی خدمات کا مختصر جائزہ
گزشتہ سالوں میں ملک کے بعض حصے مختلف قدرتی آفات کی زد میں آئے، ملک اور بیرون ملک سے اسلامی اور انسانی بنیادوں پر ان مصیبت زدہ علاقوں میں رفاہی خدمات کا ایک جال بچھایاگیا، مگر بعض مسلمان اہلِ خیر ایسے بھی تھے جو اپنا تعاون اپنے معتمد ہاتھوں سے صحیح مصرف تک پہنچانا چاہتے تھے، چنانچہ انہوں نے اپنے تعاون کے لئے ملک کے دینی مدارس پر اعتماد کیا اور ان کی وساطت سے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی بھر پور امداد کی، ملک کے تمام چھوٹے بڑے مدارس بالخصوص کراچی کے مدارس نے اس سلسلے میں بے مثال خدمات انجام دیں۔
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی اپنی سماجی ،فلاحی اوررفاہی خدمات کے حوالے سے ان مدارس کی صف اول میں شمار ہوتا ہے۔ ۲۰۰۵ء کے زلزلہ زدگان، متاثرین سوات …اور سیلاب کے متاثرین کے لئے برموقع ،باوقار اور باعزت طریقے سے ان کے گھروں تک تعاون پہنچایا،اور مانسہرہ کے علاقہ بٹل میں ایک سوپچاس جوڑوں کی اجتماعی شادیوں کاجامعہ انتظام کیاگیا تھا۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ذریعہ متاثرین سیلاب کا اب تک جو اجناس ،نقد رقم اور مکانات کی تعمیرومرمت کی صورت میں تعاون کیا گیا، اس کا اجمالی جائزہ یہ ہے۔
نام صوبہ نقد رقم اجناس کل رقم
صوبہ خیبر پختون خوا 10018000/= 4997470/= 15045470/=
صوبہ سندھ 9897600/= 3968965/= 13866565/=
صوبہ پنجاب 16250001/= 12887518/= 14512518/=
صوبہ بلوچستان 2819340/= 1400660/= 4220000/=
مجموعی تعاون 24359940/= 23254613/= 47614553/=
تعمیرات اور اجتماعی شادیوں کی مد میں خرچ کی گئی رقم کی تفصیل یہ ہے:
نام صوبہ علاقہ کل رقم کیفیت
صوبہ خیبر پختون خوا نوشہرہ 2783560/=
صوبہ سندھ مضافاتِ ٹھٹھہ 1150000/= جاری ہے
اجتماعی شادیوں میں نوشہرہ 3600000/=
ٹوٹل 7533560/=
۲۳/جون ۲۰۱۱ء کوجامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کی طرف سے نوشہرہ اور چارسدہ میں اجتماعی شادیوں کے موقع پر دلہنوں کودیئے گئے سامان جہیز کی تفصیل یہ ہے۔واضح رہے کہ یہ اخراجات اوپر تفصیل میں دیئے گئے اخراجات کے علاوہ ہیں:
۱…فرنیچر:ڈبل بیڈ مع فوم، چار کرسیاں، ایک میز، ایک شوکیس مع سنگھار میز۔
۲…ڈبل بیڈ کمبل، ڈبل بیڈ شیٹ
۳…پیڈسٹل فین
۴…ڈنرسیٹ (لارج سائز)
۵…واٹرسیٹ
۶…کپڑوں کا صندوق
۷…ایک عدد وال کلاک
۸…دولہا گفٹ (دو عدد کپڑوں کے جوڑے مردانہ ، چار عدد کپڑوں کے جوڑے زنانہ)
۹…سلائی مشین
نوشہرہ کے مقام پراس اجتماعی شادی کی تقریب میں جامعہ کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا عطاء الرحمن صاحب ،ممبر قومی اسمبلی و سابق وزیر مولانا عطاء الرحمن صاحب، حضرت مولانا ڈاکٹر سید شیر علی شاہ صاحب، جمعیت علماء اسلام (ف) کے ممبر صوبائی اسمبلی مفتی کفایت اللہ صاحب، حضرت مولانا قاری مفتاح اللہ صاحب ،حضرت مولانا زر ولی خان صاحب، مہتمم جامعہ احسن العلوم کراچی نے بھی شرکت کی اور تقریب کے شرکاء سے خطاب کیا۔اس تقریب کا آنکھوں دیکھا حال اور مزید تفصیل ہمارے صحافی بھائی سید ندیم مشوانی صاحب رسالپور کی مرتب کردہ اس رپورٹ میں ملاحظہ فرمائیں:
”نوشہرہ میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے زیر اہتمام ۱۳۴ سیلاب زدگان جوڑوں کی اجتماعی شادیوں کی تقریب کے انعقاد پر تباہ حال متاثرین کے چہروں پر خوشیاں لوٹ آئیں۔ پُر رونق تقریب میں فی نوبیاہتا جوڑے کو ۶۰ ہزار روپے کا جہیز اور نقد سلامی کے ساتھ تقریب میں مہمانوں کو ولیمہ بھی کھلایا گیا۔ ایک معذور اور ایک ۴۱ سالہ شخص جس کی بیوی اور چار بچے گزشتہ سیلاب میں سیلاب برد ہوگئے تھے، ان اجتماعی شادیوں کی تقریب میں دولہا کے طور پر شریک تھے۔جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن55148113/= (پانچ کروڑاکیاون لاکھ اڑتالیس ہزارایک سو تیرہ )روپے مالیت کی متاثرین کی امداد کرچکا ہے۔ اجتماعی شادیوں کی تقریب میں مولانا ڈاکٹر سید شیر علی شاہ، مولانا مجاہد خان ، مفتی کفایت اللہ ، مولانا تاج الدین ، مولانا نگار علی زبیر، مولانا حبیب احمد، مولانا حجة اللہ، مولانا مفتاح اللہ، مولانا عطاء الرحمن اور بزرگ عالم دین مولانا زر ولی خان صاحب مہتمم جامعہ احسن العلوم کراچی شریک ہوئے۔اجتماعی شادیوں کی تقریب میں صرف دولہوں نے شرکت کی۔ تقریب میں ۱۳۴ جوڑوں کی تقریب نکاح کے موقع پرروح پرور دعاؤں سے محفل کے شرکاء کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ تقریب اباخیل کریک گراؤنڈ نوشہرہ کلاں کے وسیع میدان اور پنڈال میں منعقد کی گئی۔ سخت سیکورٹی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ تقریب میں تمام نوبیاہتا جوڑوں کا تعلق نوشہرہ کلاں اور چارسدہ سے تھا۔ ان متاثرین سیلاب کے گزشتہ سال سیلاب آنے کے بعد گھر اور کاروبار تباہ ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے ان کو اپنی نئی زندگی شروع کرنے میں شدید مالی مشکلات کا سامنا تھا۔اس تقریب کے نگران مولانا امداد اللہ صاحب استاذحدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ:ہم اپنے متاثرین بھائیوں کی مکمل بحالی تک انشاء اللہ جدوجہداورکوشش جاری رکھیں گے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے ممبر صوبائی اسمبلی مفتی کفایت اللہ نے کہا :حکومت زلزلہ سے متاثرہ عوام کوبھول گئی ہے اورگزشتہ سال سیلاب سے تباہ حال عوام پروطن کارڈ اور راشن کارڈ کے نام پر غیرت مند پاکستانیوں پرلاٹھی چارج کیا گیا، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی اس اجتماعی شادیوں کی تقریب کا انعقاد ان متاثرین کی نئی زندگی کے لئے سنگ میل ثابت ہوگا۔مولانا تاج الدین سابق ممبر صوبائی اسمبلی نے حکومت پر شدید تنقید کی اور کہا کہ حکومت اسلامی تعلیمات کے منافی اقدامات کرکے امریکہ کو خوش کررہی ہے۔ممبر قومی اسمبلی اور جمعیت علماء اسلام کے مرکزی انچارج و سابق وزیر مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ پاکستان کے متاثرین سیلاب اور زلزلہ زدگان آج تک اپنے مسائل کے حل کے لئے حکومت کی طرف دیکھ رہے تھے اورحکومت کی اس سلسلہ میں مایوس کن کارکردگی رہی ہے۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی اجتماعی شادیوں کی تقریب اور متاثرین سیلاب اور زلزلہ زدگان کے لئے کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں․حضرت مولاناڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب اور مولانا زرولی خان صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اسلامی نظام کانفاذ ہماری اولین ترجیح ہے۔ملک کو بچانا ہے تو اسلامی نظام کانفاذ اشد ضروری ہے ۔ اجتماعی شادیوں کی تقریب میں ایک معذور اور ۴۵ سالہ پتون گڑھی سے تعلق رکھنے والا دولہا رحمت علی ولد لیاقت علی تھا ،جس کا پورا گھر دو بیٹے ،ایک بیٹی اور بیوی سیلاب برد ہوگئے تھے، آج اس کا بھی نکاح پڑھایا گیا“۔
ہرایک جانتاہے کہ شادی کی تقریب منعقدکرناکتنامشکل اورکٹھن مرحلہ ہوتاہے،تقریب سے مہینوں پہلے پوراگھرانہ اس تقریب کے اہتمام میں لگاہوتاہے ،یہاں توایک سوچونتیس جوڑوں کی شادی کی تیاری ،جہیزکے سامان کی فراہمی،پھراسے خاص سلیقے اورباوقار طریقے سے دلہنوں تک پہنچانااورپھراس اجتماعی تقریب کااہتمام اورانصرام کرناکتنامحنت طلب اورمشکل مرحلہ تھا،جسے جامعہ کے فضلاء خصوصاًحضرت مولانانگارعلی شاہ صاحب عرف محمدزبیرفاضل جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کراچی ،ان کے چچا،خاندان اوراہل محلہ اباخیل نوشہرہ کلاں نے مل کر اسے آسان بنادیا۔اسی طرح مولانامحمدادریس فاضل جامعہ اورمولانامحمدعمیرفاضل جامعہ نے بھی اس میں بھرپورمحنت کی۔اللہ تبارک و تعالیٰ ان سب حضرات کواپنے شایان شان جزائے خیرعطافرمائے اوران کی محنتوں ،جدوجہداورکوششوں کوشرف قبولیت سے نوازیں۔اس اجتماعی شادیوں میں شریک دولہااوردلہنوں کے نام بینات کے اس شمارہ میں علیحدہ مضمون میں دئے گئے ہیں ،وہاں ملاحظہ فرمائیں۔
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کے رئیس حضرت مولاناڈاکٹرعبدالرزاق اسکندر،نائب رئیس مولاناسیدسلیمان یوسف بنوری مدظلہ اوراساتذہ جامعہ نے جہاں نئی زندگی کا آغاز کرنے والے جوڑوں کو مبارک بادی کا پیغام دیا ہے وہاں ان احباب کابھی تہہ دل سے شکریہ ادا کیا ہے ،جنہوں نے کسی بھی مرحلہ میں ان سیلاب زدہ اورمتاثرین بھائیوں کی مددکی اوراس اجتماعی شادیوں کی تقریب میں کسی قسم کاتعاون کیا۔
وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیرخلقہ سیدنامحمدوعلٰی آلہ وصحبہ أجمعین
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۲ھ -اگست: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 
Flag Counter