Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۲ھ -جون ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

8 - 12
شعر وشاعری اور محفل سماع کی حقیقت !
شعر وشاعری اور محفل سماع کی حقیقت

”الشعر“ لغت میں فہم وذکاوت اور ہوشیاری ودانائی کو شعر کہتے ہیں، گویا یہ شعور سے بناہے جو علم وفہم کے معنی میں ہے اور شعراء کی اصطلاح میں شعر کی تعریف اس طرح ہے:”الشعر ہو کلام مقفیً موزون عن قصدٍ“ یعنی قصد وارادہ کے ساتھ مقفی اور موزون کلام پیش کرنے کا نام شعر ہے۔ اس تعریف میں قصد وارادہ کا لفظ قید احترازی ہے، اس سے وہ موزون کلام خارج ہوگیا، جس کے وزن کا ارادہ نہ کیا گیا ہو، جیسے قرآن وحدیث میں موزون کلام ہوتا ہے، یہ اگر چہ موزون ہے، لیکن اس کے وزن کا قصد وارادہ نہیں کیا گیا اور نہ وزن مقصود ہے، نیز قرآن وحدیث کا یہ موزون کلام شعر کے قوافی کے اصول کے تحت بھی نہیں ہوتا، نہ یہ شعر کے قوافی کے مطابق ہے۔ اسی طرح حدیث میں موزون دعائیں ہیں، وہ شعر کی تعریف سے خارج ہیں، کیونکہ ان کا وزن قصد وارادہ کے تحت نہیں ہے، اسی طرح آنحضرت ا کا کلام:
انا النبی لاکذب
انا ابن عبد المطلب
ترجمہ:۔”میں نبی ہوں، یہ جھوٹ نہیں اور میں عبد المطلب (جیسے نامور شخص) کا پوتا ہوں“۔
ہل انت الا اصبع دمیت
وفی سبیل الله مالقیت
ترجمہ:۔”تو ایک انگلی ہے جو زخمی ہوکر خون آلود ہوگئی ہے اور جو کچھ تکلیف تمہیں ہے، یہ اللہ کے راستے میں ہے“۔
یہ کلام بھی شعر سے خارج ہے، کیونکہ اس کے وزن کا نہ ارادہ کیاگیا ہے اور نہ یہ شعر کے اصول وقواعد کے مطابق ہے۔
معجزات کا پس منظر
نبی کو اللہ تعالیٰ جب کوئی معجزہ دیتا ہے تو اس کے ذریعہ سے معاشرہ پر حاوی کسی چیز کے تسلط کو توڑ دیتا ہے، مثلاً: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں سحر اور جادو معاشرہ پر اتنا چھاگیا تھا کہ عدالتی اور معاشرتی نظام چلانے کے لئے بھی جادو سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ کہتے ہیں فرعون کے پاس جادو کا ایک حوض تھا، اس میں مدعی اور مدعی علیہ دونوں کو ڈال دیا جاتا تھا، جو حق پر ہوتا، وہ پانی کے اوپر آجاتا اور دوسرا ڈوب جاتا۔ اسی طرح ان کے ہاں جادو کے کچھ بطخ ہوتے تھے، وہ شہر کے کناروں پر رہتے تھے، اگر کوئی دشمن یا چور شہر میں داخل ہونے لگتا تو جادو کے یہ بطخ زور زور سے آوازیں دیا کرتے تھے، اس عام جادو کو توڑ نے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یدِ بیضاء اور عصاءِ موسیٰ کا معجزہ دیا اور ان کو فرعون کی طرف مبعوث فرمایا، چنانچہ اس معجزہ نے معاشرہ کے جادو کے افسوں کو توڑ دیا، حق غالب آگیا اور باطل مٹ گیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں معاشرہ پر علاج ومعالجہ اور طب یونان چھا گیا تھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو احیاء موتیٰ یعنی مردوں کے زندہ کرنے، مادر زاد نابیناؤں کو ٹھیک کرنے اور برص کے بیماروں کو شفایاب کرنے کا معجزہ عطا کیا، جس سے ان لوگوں کے طب کا زور ٹوٹ کرزیر ہو گیا اور لوگوں نے اعتراف کرلیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس خدا کی طرف سے معجزہ ہے۔
حضور اکرم ا کے زمانہ میں عرب معاشرہ پر ادب اور فصاحت وبلاغت کا بہت بڑا چرچا تھا، اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ا کو فصاحت وبلاغت کا اعلیٰ شاہکار قرآن عظیم عطا فرمایا، جس نے تمام عرب کی فصاحتوں اور بلاغتوں کو زیر زمین دفن کردیا اور ان کو چیلنج کیا کہ اگر یہ کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے، تو تم بھی اس طرح کلام بناکرلاؤ! وہ لوگ لڑنے، مرنے کے لئے تیار ہوگئے، لیکن زبان کی نوک سے اس کلام کا مقابلہ نہ کر سکے۔ اگرچہ قرآن کا کلام شعر نہیں تھا، لیکن اس نے عرب کی شعر وشاعری کے غرور کو خاک میں ملادیا اور انہوں نے اجتماعی ناکامی کا اعتراف کرلیا، ان کو باربار کہا گیا کہ:
ماتحدکم بہ خیر الانام
رکب مماترکبوا الکلام
ترجمہ:۔”خیر الانام ا نے تمہیں جو چیلنج کیا ہے وہ انہیں حروف سے بنا ہے، جن سے تم کلام بناتے ہو، اگر یہ انسان کا کلام ہے تو تم بھی بناکرلاؤ!“۔
لیکن وہ جواب نہ دے سکے۔ آنحضرت ا کو اللہ تعالیٰ نے شعر وشاعری سے دور رکھا، تاکہ کوئی یہ شک نہ کرے کہ شاعری کے زور سے اس نے اس نئے طرز پر یہ کلام ایجاد کیا ہے، چنانچہ آنحضرت ا شعر بنانا نہیں جانتے تھے، بلکہ بعض دفعہ پڑھنے میں آگے پیچھے ہوجاتے اور اصول وقواعد کے مطابق شعر نہیں کہہ سکتے تھے، تاہم اگر بغیر قصد وارادہ کبھی آپ نے کسی کا شعر پڑھا ہو تو اس کوشاعری نہیں کہہ سکتے۔ خلاصہ یہ کہ آنحضرت ا نے جس کلام سے فصحاء عرب کا مقابلہ کیا، وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور آنحضرت ا کا بڑا معجزہ ہے، جس کو قرآن کہتے ہیں۔
شعرأ اور شاعری
شریعت کی رو سے شعر کا حکم یہ ہے کہ یہ ایک کلام ہے، اگر اچھا کلام ہے تو اچھا ہے، اگر برا ہے تو برا ہے: ”ہو کلام حسنہ حسن وقبیحہ قبیح“…’شعر ایک کلام ہے اس میں جو اچھا ہے، وہ اچھا ہے اور جو برا ہے، وہ برا ہے۔ حضرات صحابہ کرام نے مختلف مواقع میں اشعار پڑھے ہیں، آنحضرت ا نے اچھے اشعارکی حوصلہ افزائی فرمائی ہے، بلکہ حضرت حسان کے اشعار کے لئے اہتمام فرمایا ہے۔ لہذا اچھے اشعار کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، ہاں برے اشعار برے ہیں، نیز اشعار کو زندگی کا معمول بنانا بھی صحیح نہیں ہے۔
صحابہ کرام میں مشہور شاعر تین تھے:
۱…حضرت حسان بن ثابت۔
۲…حضرت کعب بن مالک۔
۳…حضرت عبد اللہ بن رواحہ۔
ان میں حضرت حسان نے زیادہ ترکلام قومیت اور حسب نسب کے حوالہ سے کیا ہے، یعنی کفار کے حسب ونسب کو چھیڑا ہے۔ حضرت کعب بن مالک نے کافروں کو دینی ،اعتقادی اور اعمال وکردار کے اعتبار سے چھیڑا ہے، چنانچہ کافروں میں سے جب کوئی مسلمان ہوجاتا تو کہتا کہ حالت کفر میں تو ہمیں حسان کی باتیں تیر کی طرح لگتی تھیں، مگر حالت اسلام میں معلوم ہوا کہ کعب بن مالک کی باتیں بڑی سخت تھیں۔ حضرت کعب آنحضرت ا کو اس طرح کفار پر برتری دیتے ہیں:
یبیت یجافی جنبہ عن فراشہ
اذا استثقلت بالمشرکین المضاجع
ترجمہ:۔”وہ نبی رات بھر بستر سے الگ ہوکر تہجد پڑھتے ہیں، جبکہ مشرکین مردار سوئے پڑے رہتے ہیں“۔
فمن کان او من قد یکون کا حمدا
نظام لحق او نکال لملحد
ترجمہ:۔”احمد مجتبی ا کی طرح کون تھا اور کون ہوسکتا ہے؟ وہ تو حق کو منظم کرنے والے اور باطل کو عبرتناک سزا دینے والے ہیں“۔
حضرت حسان اس انداز سے کلام کرتے ہیں:
اتہجوہ ولست لہ بکفؤٍ
فشرکما لخیر کما الفداء
ترجمہ:۔”کیا تم محمد عربی ا کی مذمت کرتے ہو؟ حالانکہ تم ان کی برابری کے نہیں ہو، پس خدا کرے کہ تم میں سے جو برا ہے، وہ اچھے پرقربان ہوجائے“۔
تخلیق آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک تین بڑے شاعر آئے ہیں:
۱…الملک الضلیل امرأ القیس، قائدہم وصاحب لوائہم الی النار یوم القیامة۔
۲…طرفة بن العبد، نوعمر نوجوان جو بیس سال کی عمر میں قتل کردیا گیا۔
۳…لبید بن ربیعہ عامری ۔
حضرت لبید کی عمر ایک سو بیس سال تھی۔ ۶۰ سال کفر میں رہے اور ۶۰ سال اسلام میں گزرے، ان سے کسی نے پوچھا کہ دنیا میں سب سے بڑا شاعر کون گزرا ہے؟ تو فرمایا صاحب الجدری، یعنی وہ امرأ القیس جس کے چہرہ پر چیچک کے داغ تھے، پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد کون بڑا شاعر گزرا ہے؟ تو کہا وہ نوعمر لڑکا، یعنی طرفہ بن العبد، پھر پوچھا کہ اس کے بعد تیسرے نمبر میں بڑا شاعر کون ہے؟ تو کہا صاحب العصاء، یعنی خود میں تیسرے نمبر کا بڑا شاعر ہوں۔
اسلام قبول کرنے کے بعد شعر نہیں کہتے تھے، فرماتے کہ سورہٴ بقرہ کافی ہے، اب کسی شعر کی ضرورت نہیں ہے، جب کوئی ان کی عیادت کرتا تو یہ شعر پڑھتے:
ولقد سئمت عن الحیاة وطولہا
وسوال ہذا الناس کیف لبید
ترجمہ:۔”یقینا میں طولِ حیات سے اکتا گیا ہوں اور لوگوں کے باربار پوچھنے سے کہ لبید کیسا ہے؟ تنگ آچکا ہوں“۔
الحمد لله اذ لم یأتنی اجلی
حتی اکتسیت من الاسلام سربالا
ترجمہ:۔”شکر الحمد لله کہ میری موت اس وقت تک نہیں آئی حتی کہ میں نے اسلام کی چادر پہن لی“۔
حضور اکرم ا نے لبید کے ایک شعر کی تعریف ایک حدیث میں فرمائی ہے ،وہ شعر یہ ہے:
الاکل شئ ما خلا الله باطل
وکل نعیم لامحالة زائل
ترجمہ:۔”خوب سن لو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا سب کچھ باطل ہے اور ہر نعمت یقینا زائل ہونے والی ہے“۔
موسیقی اور سماع کا شرعی حکم
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
۱:۔”وَالشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاونَ“ ( الشعراء:۲۲۴)
ترجمہ:۔”اور شاعروں کی راہ تو بے راہ لوگ چلاکرتے ہیں“۔
۲:۔”وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَہْوَالْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّخِذَہَا ہُزُوًا أُولٰئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ“ ( لقمان:۶)
ترجمہ:۔”اور بعضے آدمی ایسے بھی ہیں جو ان باتوں کے خریدار بنتے ہیں جو غافل کرنے والی ہیں تاکہ اللہ کے راستے سے بے سمجھے بوجھے گمراہ کریں اور اس کی ہنسی اڑادے ایسے لوگوں کے لئے ذلت کا عذاب ہے“۔
۳:۔”وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْہُمْ بِصَوْتِکَ وَأَجْلِبْ عَلَیْہِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکْہُمْ فِیْ الأَمْوَالِ وَالأَوْلاَدَ“۔ (بنی اسرائیل:۶۴)
ترجمہ:۔”اور ان میں سے جس جس پرتیرا قابو چلے اپنی چیخ پکار سے اس کا قدم اکھاڑ دینا اوران پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالانا اور ان کے مال واولاد میں اپنا ساجھا کرلینا“۔
ان آیتوں میں موسیقی اور باجے گاجے کی حرمت کو واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس مسئلہ کو مسئلة الغناء کہتے ہیں، کئی احادیث اور مذکورہ آیات کی وجہ سے اس مسئلہ نے نہایت اہمیت اختیار کی ہے اور علماء وفقہاء کے نزدیک یہ ایک معرکة الآراء مسئلہ بن گیا ہے۔ علماء نے اس کے لیے متعلق مستقل کتابیں تالیف کی ہیں اور تمام چھوٹی بڑی کتابوں میں اس کو اہم مقام دیا ہے۔ ”کف الرعاع فی مسئلة الغناء“ ابن حجر ہیتمی کی ایک مشہور تصنیف ہے، جس میں اس مسئلہ کو نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع نے حضرت تھانوی کی عربی تفسیر احکام القرآن میں موسیقی اور غناء اور سماع پر بھر پور کلام کیا ہے۔ اسی طرح عوارف المعارف اور دیگر کتابوں میں علماء نے اس مسئلہ کو خوب واضح کیا ہے۔ چونکہ بعض کج فہم لوگوں نے بعض روایات سے موسیقی کا جواز نکالنے کی کوشش کی ہے، اس لئے علماء کے ہاں غناء کا مسئلہ محل بحث بن گیا اور چونکہ آج کل یہ وباعام ہوگئی ہے تو عوام الناس کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے یا بٹھادی گئی ہے کہ موسیقی اور غناء تو ایک تفریح ہے، اس کا حرام ہونے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۲ھ -جون: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: انسان کا مقصد ِ تخلیق !
Flag Counter