Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۲ھ -جون ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

1 - 12
اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں مدارس دینیہ کا کردار !
اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں مدارس دینیہ کا کردار

الحمد لله وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
متحدہ ہندوستان پر جب غاصب اور عیار انگریز نے قبضہ کیا اور اس پر جبری تسلط جمالیا تو اس کے دل میں یہ منحوس تمنا اور خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے انگریزی اقتدار کی بدولت مسلمانوں کے دینی ، ملی، تہذیبی اور تمدنی ورثے اور کلچر کو یک سر ملیا میٹ کردیاجائے اور مسلمانوں کے دلوں سے دین وایمان، شرافت ودیانت اور اسلامی اخلاق واقدارکے آثار وعلامات کو کھرچ کھرچ کر صاف کردیاجائے ۔ اس کے لئے اس نے یہ حربہ اور ہنر استعمال کیا کہ پورے ہندوستان میں لازم قرار دیا کہ ہندوستان میں ذریعہٴ تعلیم اردو، فارسی اور عربی کے بجائے انگریزی ہوگا۔ حکومتی نوکری کے لئے انگریزی تعلیم لازمی ہوگی اور جو انگریزی سے نابلد ہوگا، وہ سرکاری نوکری کے لئے نااہل قرار پائے گا۔ اب جو مسلمان پہلے سے سرکاری محکموں میں ملازم تھے وہ انگریزی خواندہ نہ ہونے کی بنا پر نوکریوں سے معزول کردیئے گئے اور آئندہ کے لئے سرکاری اداروں میں ان کے داخلے بند کردیئے گئے۔
انگریزوں کا منصوبہ تھا کہ مسلمانوں کو ان کے اسلامی ورثہ عربی، فارسی اور اردو کے علاوہ اسلامی تہذیب وتمدن سے تہی دامن کردیا جائے، چنانچہ مسلمانوں نے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے اور سرکاری اداروں میں ملازمت کے حصول کی غرض سے اپنے نونہالوں کو انگریزی اداروں میں تعلیم دلانی شروع کردی اور رفتہ رفتہ ہندوستان میں انگریزی زبان، انگریزی تعلیم اور انگریزی تہذیب وکلچر کو فروغ ملنے لگا۔
مسلمانوں کی نئی نسل کی اس بگڑتی صورت حال کے پیش نظر اکابر علمائے امت نے اس فکری الحاد کے سامنے بند باندھنے اور مسلمانوں کے دین وایمان کے تحفظ اور بقا کی خاطر آزاد دینی مدارس کا جال بچھانے کا عزم کیا، چنانچہ دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارن پور کے علاوہ آہستہ آہستہ پورے ہندوستان میں علمائے امت نے مدارس کی بنیادیں ڈالیں، اپنی مدد آپ کے تحت ان مدارس کی آب یاری کی اور آج یہ مدارس پوری دنیا میں قرآن وسنت کی شمعیں روشن کئے ہوئے ہیں۔
ان مدارس کے قیام کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول، ملت کے دین وایمان کی حفاظت، اسلامی اقدار وروایات کا تحفظ اور فروغ، انگریزی تہذیب وکلچر کا سد باب، دینی علوم کی اشاعت وترویج، اسلامی تہذیب وتمدن کی حفاظت اور ملت کی پاسبانی اور نگہداشت ہے۔
الحمد لله! دینی مدارس بے سروسامانی اور نامساعد حالات کے باوجود اپنے مقاصد میں کامیاب رہے۔ انہی مدارس کے فیض یافتہ اصحاب نے برصغیر میں امت مسلمہ کی راہنمائی کی، انہیں اصحاب نے امت مسلمہ کو انگریز حکمرانوں کی دسیسہ کاریوں، فتنہ سامانیوں اور ان کی فتنہ انگیز چالوں سے باخبر اور ہوشیارکیا، جس کی بدولت مخلص مسلمانوں نے اپنی اولادوں کو جو کل تک اسکول وکالج جارہے تھے، انہیں اپنے دین وایمان اور سیرت وکردار کے تحفظ کی خاطر مدارس میں بھیجنا شروع کردیا اور ایک وقت آیا کہ ہندوستانی مسلمانوں میں استخلاص وطن کا جذبہ بیدار ہوا اور برطانوی سامراج اور بدیسی حکمرانوں کے خلاف کھل کر نفرت کا اظہار ہونے لگا اور پوری شد ومد کے ساتھ مطالبہ ہونے لگا کہ انگریز ہمارے ملک سے نکل جائے اور پاکستان کا مطلب کیا: لا الہ الا اللہ کا نعرہ پورے ہندوستان میں گونجنے لگا اور الحمد للہ! انہی مدارس کے تعلیم یافتہ علماء اور بزرگان دین کی محنتوں ، کوششوں اور تعاون کے نتیجہ میں پیارا ملک پاکستان وجود میں آیا۔
جب انگریز ان زعمائے ملت اور حامیان دین وملت کی فراست اور بصیرت کے سامنے لاچار وبے بس ہوگیا اورہزارہا ظلم وستم ڈھانے کے باجود ان کو ان کے مقصد حیات سے نہ ہٹا سکا تو پھر ان کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈوں کے ذریعے انہیں مطعون وبدنام کرنے لگا، انہیں دہشت گرد، تنگ نظر، تاریک خیال ،ملکی ترقی کے دشمن، قل اعوذ یے، چند قاعدے پڑھے اور جاہل وغیرہ کے ”خوبصورت“ القابات سے نوازنے لگا ۔
آج کے دور میں بعض صحافی اور کالم نگار بھی اسی انداز کی بے سروپا باتیں لکھ کر، من گھڑت قصے بیان کرنے کے علاوہ تاریخی حقائق کو مسخ کرکے گویااپنے آقاؤں کو خوش کرنے اور مفوضہ ڈیوٹی سرانجام دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ان نام نہاد صحافیوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ علمائے امت میں سے ایک بزرگ اور عالم دین کی خوبیوں اور کمالات کواجاگرکرنے کے علاوہ انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور پھر اسی توصیف وتحسین کی آڑ میں وہ علماء اور مدارس میں فرضی تقسیم کا تصور اور منظر پیش کرکے مسلمانوں کے دلوں میں ان مدارس او رعلماء کے خلاف نفرت وعداوت کے بیج بونے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان میں مدارس دو قسم کے ہیں: ایک وہ جو دم درود والے ہیں اور دوسرے وہ جو بم بارود والے ہیں۔ ہم انہیں کہنااور بتانا چاہتے ہیں کہ پورے پاکستان میں مدارس کا ایک جال بچھا ہوا ہے اور صرف وفاق المدارس العربیہ سے منسلک مدارس کی تعداد تقریباً چودہ ہزار سے زائد ہے اور یہ مدارس کھلی کتاب کی ماند ہیں، ان کے دروازے ہروقت کھلے ہوئے ہیں، نہ ان میں پولیس نظر آتی ہے اور نہ رینجرز کی گاڑیاں وہاں موجود ہیں، مدارس میں دینی تعلیم پانے والوں کے پاس بم بارود تو کجا ان کے پاس تو چاقو اور چھری بھی ڈھونڈنے سے آپ کو نہیں ملے گی۔ ہاں! وہ ادارے جن پر حکومتی کنٹرول ہے اور بجٹ کا کروڑوں روپیہ ان پرصرف ہوتا ہے وہاں وافر مقدار میں بم بارود سے آگے بڑھ کر کلاشنکوف، راکٹ لانچر جیسا مہلک اسلحہ آپ کوبآسانی مل جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ان اداروں میں چوبیس گھنٹے پولیس اور فورسز کا پہرہ اور کنٹرول ہوتا ہے۔
علمائے کرام کا فرض بنتا ہے کہ ایسے لوگوں کی خرافات سے اٹی ہوئی تحریرات اور شرانگیز باتوں کو اپنے جرائد اور رسائل میں بالکل جگہ نہ دیں۔ یہ نام نہاد صحافی بزرگوں سے اپنا تعلق ظاہر کرکے ان بزرگوں اور مدارس کی نیک نامی میں اضافہ کرنے کی بجائے مدارس کو تقسیم اورعلمائے کرام کے دلوں میں رنجشیں اورکدورتیں پیداکرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔علمائے کرام نے اگراپنی صفوں میں اتحادواتفاق برقراررکھاتو انشاء اللہ ایسے لوگ اپنے عزائم میں ناکام ہوں گے۔
حالانکہ آج بھی مدارس دینیہ میں اپنی ذات کی بجائے قوم وملت اور دین ومذہب کے تحفظ کا درس دیا جاتا ہے، یہاں مردار دنیا کے حصول کی بجائے تقوی وطہارت اور علم وعمل کی تعلیم دی جاتی ہے، یہاں حرص وآز کی بجائے صبر وقناعت، ایثار وقربانی، تسلیم ورضا، توکل واستغناء اور جرأت وہمت کی تعلیم دی جاتی ہے، یہاں عبد کا معبود کے ساتھ تعلق جوڑا جاتا ہے، یہاں انسانوں کو دنیا کی بجائے آخرت کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے، یہاں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا درس دیا جاتا ہے، ان درس گاہوں کا تربیت یافتہ طالب علم دین ومذہب اور اپنے ملک کی آبرو قائم کرنا جانتا ہے، وہ مقام نبوت اور ناموس رسالت کی حفاظت کرنا جانتا ہے، اسے اپنی ذات سے زیادہ اسلام کی عزت وناموس عزیزہے، یہاں کا فاضل چاہتا ہے کہ دین ومذہب کا بول بالا ہو، دینی اقدار کی سربلندی ہو، مسلمانوں کی عظمت رفتہ بحال ہو، سیکولر تہذیب وتمدن کا خاتمہ ہو، اور وطن عزیز میں اسلامی نظام کا نفاذ ہو۔ حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید لکھتے ہیں:
”الحمد للہ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ کبھی کسی موقع پر بھی علماء نے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا، بلکہ برصغیر کی آزادی سے لے کر اب تک ان مدارس سے نکلنے والے کسی فرد نے ملک وقوم کو نقصان نہیں پہنچایا، بلکہ ہمیشہ انہوں نے امن وآشتی کا درس دیا ہے اور ایک صالح معاشرہ قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، لاکھوں ایسے افراد جو معاشرہ کے لئے بدنامی اور ننگ وعار کا بدنما داغ تھے، ان علماء کے دم قدم سے اور ان کی محنتوں اور کاوشوں سے وہ ملک وقوم کے وقار کا ذریعہ بن گئے، ان مدارس نے چور، ڈاکو نہیں، صالح افراد اور باخدا انسان پیدا کئے ہیں، یہ مدارس کبھی ملکی خزانہ پر بوجھ نہیں رہے، انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مسلمانوں کی دہلیز پر ایمان واصلاح کی دعوت پہنچائی، انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو دنیا میں جینے اور رہنے کا سلیقہ سکھایا، ان کو حریت وآزادی کا درس دیا اور خدا کی مخلوق کو خدا سے ملایا، یہی ان کا جرم ہے جو اسلام دشمنوں کو برداشت نہیں“۔ (حدیث دل، ج:۱، ص:۳۶۸)
آخر میں حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید کی تحریرکا ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے۔ حضرت شہید لکھتے ہیں:
”کیا یہ دین حق کا زندہ معجزہ نہیں ہے کہ دینی مدارس نے اپنوں کی سرد مہری اور غیروں کی ستم ظریفی کے باوجود بے بضاعتی اور بے سروسامانی کے مایوس کن حالات میں بھی وراثت نبوی ا کو محفوظ رکھاہوا ہے۔ یہ ان کا مشن ہے اور اس میں وہ بتائید خداوندی کامیاب ہیں اور جب تک اللہ تعالی کو اس دین کا باقی رکھنا منظور ہے، یہ دینی قلعے انشاء اللہ! باقی رہیں گے۔” ولو کرہ الکافرون“ اگر دینی مدارس کے ناقدین کو دین خداوندی سے ذرہ بھی ہمدردی ہے اور ان کے دل میں انصاف کی کوئی رمق باقی ہے تو انہیں دینی مدارس کی بدخواہی کا رویہ ترک کردینا چاہئے، آخر دین کے اس آخری سہارے پر مسلسل یورش اور جارحیت سے ملک وملت کے لئے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوگا، انہیں کھلے دل سے مان لینا چاہئے کہ اس ملک میں دین کو باقی رہنا ہے اور اس کے لئے دینی مدارس کا بقا ایک فطری ضرورت ہے“۔ (ارباب اقتدار سے کھری کھری باتیں، ج:۲، ص:۲۵۶)
---------------------
حضرت مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید
۲۵/جمادی الاولیٰ ۱۴۳۲ھ مطابق ۲۹/اپریل ۲۰۱۱ء بروز جمعة المبارک صبح نماز فجر سے قبل امام اہلِ سنت حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن کے شاگردِ رشید، پیر طریقت حضرت مولانا شمس الرحمن عباسی مدظلہ کے عزیز،جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل اور لائق و فائق استاذ، جامعة الحرأ کے مہتمم، جامع مسجد داعی گارڈن کراچی کے امام و خطیب حضرت مولانا ارشاد اللہ عباسی حسب معمول گھر میں فجر کی سنتوں کی ادائیگی کے بعد اپنی رہائش گاہ مونا اپارٹمنٹ سولجر بازار سے جامع مسجد داعی کی طرف نماز فجر پڑھانے کے لئے جارہے تھے کہ راستے میں ظالم، درندہ صفت، سفاک قاتلوں نے ان پر حملہ کرکے انہیں شہید کردیا۔ ان للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان للّٰہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئی عندہ باجل مسمیٰ۔ مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید نے۱۹۶۵ء میں ضلع مانسہرہ کے قبائلی علاقے کالاڈھاکہ میں بزرگ عالم دین، مخلص انسان جناب حضرت مولانا عبداللہ عباسی صاحب کے گھر میں آنکھ کھولی۔ابتدائی تعلیم مقامی مدارس میں حاصل کی، جب کہ درس نظامی کی تکمیل کے لئے جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی کا انتخاب کیا ،اور وقت کے اساطینِ علم سے شرفِ تلمذ حاصل کرکے ۱۹۹۰ء میں جامعہ ہی سے فاتحہ فراغ پڑھا۔ آپ کے اساتذہ حدیث میں حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن، حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہید، حضرت مولانا سیّد مصباح اللہ شاہ، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید، حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر نظام الدین شامزی شہیداور حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم العالیہ شامل ہیں۔
مولانا موصوف فراغت کے بعد جامع مسجد داعی گارڈن کراچی کے امام و خطیب مقرر ہوئے، بعدازاں آپ اپنی مادرِ علمی جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں استاذ مقرر ہوئے۔ آپ بڑے ہی مشفق اور ذی استعداداستاذ تھے، اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ حضرت مولانا بیک وقت ایک بہترین خطیب، کامیاب مدرس لائق تقلید صفات کے حامل انسان اور ایک جید عالم دین تھے، آپ کی شہادت سے مسلمانوں کو بالعموم اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کو بالخصوص ایک بڑا دھچکا لگا ہے۔حضرت مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید ایک مستند عالم ہی نہیں ،بلکہ داعی الی اللہ، مفسر، امام اور قاری بھی تھے، جن کی زندگی کا مشن اللہ رب العزت کے دین کی اشاعت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اتباع تھااوران کی زندگی بھر یہ کوشش وکاوش رہی کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کی خدمت ہو، نوجوان نسل کو دین کی راہ پرلگایاجائے ،مولانا کی ذاتی زندگی اپنے دوستوں، مقتدیوں اور احباب کے لئے ایک شفاف آئینہ کی طرح تھی۔
قاتلوں کو شاید یہ پسندنہیں تھاکہ مولانا لوگوں کوگناہوں کی تاریکیوں سے نکال کرنیکیوں کے اجالے کی طرف کیوں لارہے تھے؟ وہ مسلمانوں کے بچوں کو دنیا کی سب سے مقدس کتاب قرآن مجید کیوں سکھارہے تھے؟ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کے سامنے کیوں جھکارہے تھے؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق شہید کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی وہ اللہ کے دربار میں شرفِ قبولیت پالیتا ہے۔ وہ شخص تو چلا گیا اور کامیاب ہوگیا، مگر کیا ان درندہ صفت قاتلوں نے یہ بھی سوچا کہ انہوں نے امت مسلمہ خصوصاً اہل محلہ اور ان کے خاندان کا کتنا بڑا نقصان کیا ہے؟ کیا یہ درندہ صفت قاتل ان رحمتوں، برکتوں کو واپس لاسکتے ہیں؟ جن کاسبب و ذریعہ حضرت مولانا ارشاد اللہ عباسی تھے۔ ان کے گھر، محلہ اور مسجد پر ایک عالم دین ہونے کی وجہ سے جو رحمتوں و برکتوں کا نزول ہوتا تھا، کیا یہ قاتلین ان کو واپس لاسکتے ہیں؟ وہ قوم کیونکر ترقی کرسکتی ہے جو اپنے محسنوں کو خون میں تڑپائے؟
حضرت مولانا ارشاد اللہ عباسی کی شہادت سے حکومت وقت اربابِ اقتدار اور انتظامیہ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مولاناعباسی شہید کے قاتلوں کو گرفتار کرے۔ عجیب معاملہ ہے کہ ہماری جامعہ کے بڑے بڑے شیوخ اور بزرگان دین :حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید، مفتی عبد السمیع شہید، مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید ، شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہید، حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید، حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید، حضرت مولانا سعید احمد مردانی شہید اور اب مولانا ارشاد اللہ عباسی کو اسی کراچی میں شہید کیا گیا۔
اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں پر کبھی اصل مجرموں کو نہیں پکڑا گیا اور اگر پکڑ بھی لیا گیا تو انہیں کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔ ہم اپنے پروردگارِ عالم سے ہی درخواست کرتے ہیں کہ:” اے اللہ! تو ہمارے علماء کرام و مفتیان عظام کے قاتلین کے لئے کافی ہوجا۔“یہ قاتل جو بھی ہیں، یہ کسی صورت بھی اسلام، پاکستان اور عوام الناس کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ یہ پاکستان کے دشمن ہیں ، یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں امن قائم ہو، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں پاکستان اور اسلام کو دہشت گرد باور کرا کر بدنام کیا جائے۔ علمائے حق کا قافلہ شہادتوں سے ختم نہیں ہوگا، بلکہ ہر شہادت کے بعد دین اسلام کی حفاظت اور اشاعت کے لئے ان کے شاگردوں اور عقیدت مندوں میں ایک نیا جذبہ، اور ایک نیا ولولہ پیداہوتاہے۔
نماز جمعہ سے قبل جامع مسجد بنوری ٹاؤن کے امام و خطیب مولانا سیّد یوسف حسن طاہر مدظلہ نے آپ کی دینی خدمات کوسراہا اور بہت ہی عمدہ پیرائے میں انہیں خراج تحسین پیش کیا ۔دو بج کر پانچ منٹ پر نماز جمعہ ادا کی گئی، بعدازاں تقریباً ڈھائی بجے شیخ الحدیث و رئیس الجامعہ حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی،نماز جنازہ میں علماء، طلباء اور عوام الناس کا ایک جم غفیر تھا، مسجد اور مدرسہ مکمل بھرا ہوا تھا ، باہر روڈ پر بھی دور دور تک لوگ موجود تھے، نماز جنازہ کے بعد آپ کو پاپوش نگرکے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔حضرت مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید نے پسماندگان میں ایک بیوہ، دوبیٹے اور دو بیٹیاں سوگوار چھوڑے ہیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید کے ساتھ رضا و رضوان کا معاملہ فرمائیں، ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیں اور ان کے بچوں کی خزانہٴ غیب سے کفایت و کفالت فرمائیں۔آمین۔
وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۲ھ -جون: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 
Flag Counter