Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفرالمظفر ۱۴۳۲ھ - فروری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

4 - 10
امام العصر اور مسئلہ ختم نبوت !
مام العصر اور مسئلہ ختم نبوت

سیرت کی کتابوں اور علما ٴکے تذکروں میں بے شمار حوالے اس قسم کے مل سکتے ہیں، دور نہ جائیے صاحبِ مشکوٰة کی الاکمال فی اسماء الرجال دیکھ لیجئے، انہوں نے اکابر کا تذکرہ کن الفاظ میں کیا ہے، لیکن بصد افسوس کہنا پڑتا ہے کہ اس دور کے ناہنجار انشاپرداز اکابرِ امت کے اسما ٴگرامی نہایت گھٹیا انداز میں لیتے ہیں اور بڑے ہی سفلہ انداز میں ان پر تنقید کر گزرتے ہیں، ایک صاحب رقم طراز ہیں: شاہ ولی اللہ ایک ذی علم آدمی ہیں، غزالی ایک پڑھے لکھے آدمی ہیں۔
ایک اور صاحب نے تو حد کردی ہے کہ شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز، جہادِ آزادیٴ ہند ۱۸۵۷ء میں حصہ لینے والے علما ٴمولانا محمود الحسن شیخ الہند، سب کو غلط کار اور کوتاہ فہم قرار دیا ہے، ان کے مقابلہ میں گاندھی کے اجتہاد کو درست قرار دیا ہے، صد حیف ہے اس انشاپردازی پر، یوں لگتا ہے قیامت کی جواب دہی کا ذرا بھی احساس نہیں ہے ان لوگوں کو۔
اندھے کی لٹھ چلانے کے بعد یہ مصنف لکھتا ہے: چنانچہ علما ٴ کی مقلدانہ رائے پر گاندھی کی مجتہدانہ رائے برتر ثابت ہوئی۔
شاید قارئین کے لئے یہ باور کرنا مشکل ہوگا کہ ایک مسلمان مصنف یہاں تک اپنی کوردانشی کا ثبوت دے سکتا ہے کہ وہ علمائے ملت کو بے بصیرت اور ان کے مقابلہ میں ایک مشرک کو صحیح الفکر مجتہد قرار دے، یہ سن کر انہیں مزید تعجب ہوگا کہ اس کے نام کے ساتھ مولانا کا سابقہ بھی موجود ہے، اور وہ جگہ جگہ اپنے مضامین میں قرآنی آیات، احادیث اور بزرگانِ امت کے اقوال Quote کرتا ہے، اس کے باوجود وہ لکھتا ہے:
۱:…”اورنگ زیب عالمگیر نے برصغیر ہند میں اسلام کا پولیٹکل ایمپائر بنانا چاہا ․․․․․․ اس کے بعد سے آج تک تقریباً تین سو سال سے تمام رہنماوٴں کا یہی سب سے زیادہ پسندیدہ خواب رہا ہے ․․․․․ تاہم یہ تین سو سالہ کوششیں بے حساب جانی اور مالی قربانیوں کے باوجود سراسر بے نتیجہ رہیں۔“ (ص:۲۶، ۲۷)
۲:…”علما ٴکی مقلدانہ رائے پر گاندھی کی مجتہدانہ رائے برتر ثابت ہوئی ․․․․․․ ہمارے تمام علما ٴسو سال سے بھی زیادہ عرصہ تک جہاد کے نام پر ایک ایسے خونیں عمل میں مشغول رہے، جس کا کوئی نتیجہ تباہی کے سوا اور نکلنے والا نہ تھا، اسی خونیں جہاد کے دوران انہوں نے برصغیر ہند کے مسلمانوں کو ناقابل بیان تباہی سے دوچار کیا، یہ صرف مہاتما گاندھی تھے، جنہوں نے ان کو اس تباہ کن غار سے باہر نکالا۔“ (ص:۴۲)
۳:…”پچھلے چھ سو سال سے مسلم دنیا کوئی بھی ایسی کتاب پیش نہ کرسکی، جس کو تخلیق عمل (Creative Work)کہا جاسکے۔“ (ص:۷۰)
۴:…”شاہ ولی اللہ کا یہ کارنامہ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے گرتی ہوئی مغل سلطنت کو سنبھالنے کی کوشش کی، انہوں نے نواب نجیب الدولہ کے ذریعہ کابل کے احمد شاہ ابدالی کو بلوایا، اس نے ۱۷۶۱ء میں پانی پت کے مقام پر مرہٹوں کو شکست دے کر، مغل سلطنت کے دشمن کو کچل دیا، مگر نتیجہ کے اعتبار سے دیکھئے تو یہ واقعہ شاہ ولی اللہ کے کارنامہ کے خانہ میں درج کرنے کے بجائے اس قابل نظر آئے گا کہ اس کو ان کی بے بصیرتی کے خانہ میں لکھا جائے۔“ (ص:۱۷۶)
۵:…”بیسویں صدی کے نصف آخر میں تقریباً پوری مسلم دنیا میں اسلامی انقلاب کی تحریکیں چلائی گئیں، ان تحریکوں کے قائد علما ٴاور اسلام پسند مفکرین تھے۔ ایران، پاکستان، مصر، سوڈان، شام، الجیریا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور دوسرے بہت سے مسلم علاقوں میں اس کی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں،مگر یہ لوگ صرف اسلام کو بدنام کرنے کا سبب بنے۔“ (ص:۱۸۶)
قارئین محترم آپ سوچتے ہوں گے کہ یہ کلمات کسی مسلمان کے قلم سے نکلے ہیں یا غیرمسلم کے، جناب! یہ ہیں ہندوستان کے معروف مصنف مولانا وحید الدین خاں اور جس کتاب سے یہ اقتباسات دئے گئے ہیں، اس کا نام ہے ”فکر اسلامی“۔ کسی نے سچ کہا ہے: برعکس نہتد نام زنگی کافور! ہمارے خیال میں اس کی تردید کی چنداں ضرورت نہیں ہے، تاہم تین آیاتِ قرآنی اور ایک حدیث شریف سن لیجئے:
۱:…”اَفَمَنْ کَانَ مُوٴْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لَّا یَسْتَونَ۔“ (الم سجدہ:۱۸)
ترجمہ:…”تو جو شخص موٴمن ہو، کیا وہ اس شخص جیسا ہوجاوے گا جو بے حکم ہے، وہ آپس میں برابر نہیں ہوسکتے۔“
۲:…”اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ۔“ (ص:۲۸)
ترجمہ:…”یا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر کردیں گے۔“
۳:…”اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ اَنْ نَّجْعَلَھُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَآءً مَّحْیَاھُمْ وَمَمَاتُھُمْ، سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ۔“ (الجاثیہ:۲۱)
ترجمہ:…”یہ لوگ جو برے برے کام کرتے ہیں کیا یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کے برابر رکھیں گے جنہوں نے ایمان اور عمل صالح اختیار کیا کہ ان سب کا جینا اور مرنا یکساں ہوجاوے، یہ برا حکم لگاتے ہیں۔“
حدیث شریف: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اِذَا سَمِعْتَ الرَّجُلَ یَقُوْلُ: ھَلَکَ النَّاسُ! فَھُوَ اَھْلَکُھُمْ۔“ (موٴطا امام مالک ص:۳۸۶، مسلم شریف ج:۲ ص:۳۲۹،سنن ابی داوٴد ج:۲ ص:۳۲۴، مسند احمد وغیرہ)
ترجمہ:…”جب آپ کسی کو یہ کہتے سنیں کہ لوگ ہلاک ہوگئے، تو سمجھو وہ سب سے زیادہ ہلاکت پر ہے۔“
میرا خیال یہ ہے کہ خان صاحب ذہنی طور پر معذور Unbalanced ہیں، یا پھر ہندووٴں کے نمک خوار، والله تعالیٰ اعلم!
ہم قارئین سے معذرت خواہ ہیں کہ بات کچھ لمبی ہوگئی ہے، مگر کیا کیا جائے، بضدھا تتبین الاشیاء۔ آمدیم برسر مطلب۔ ہمارے ممدوح امام العصر صرف اکابر ہی کا احترام نہیں فرماتے تھے، اماثل اور اصاغر کے ساتھ بھی حضرت کا رویہ حسبِ مراتب، نہایت مثبت رہتا تھا، کتابوں پر جو تقاریظ لکھ کر دیتے تھے، ان میں چھوٹوں کو نہایت بڑھا چڑھاکر ان کی دل جوئی فرماتے، کسی اچھے کام پر اہل علم کو داد دیتے، آپ نے پیچھے پڑھا ہے کہ میانوالی کے دو بزرگوں کو سلوکِ نقشبندیہ کے امام تک بتاتے تھے، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اپنے علم و فضل کے باوجود امام العصر کے مستفیضین میں سے تھے، لیکن امام العصر نے حضرت علامہ کی شرح مسلم پر تقریظ لکھتے ہوئے دل کھول کر حضرت علامہ کے محاسن اور علمی کمالات کا اعتراف فرمایا ہے، دیکھئے فتح الملہم کے آخر میں حضرت والا کی رائے گرامی بزبان فارسی۔
امام العصر اور مسئلہ ختم نبوت:
انگریز کی سازش سے پنجاب میں جو ادعائے نبوت کا سوانگ رچایا گیا تھا، اس کی تاریخ طویل بھی ہے اور اپنے نتائج کے اعتبار سے ہولناک بھی۔ دہلی کے بہروپیے کبھی روپ بدل کر کمائی کے لئے نکلتے تھے، تو بہت سے عقل مندوں کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوجاتے تھے، سلطان اورنگ زیب کے دربار میں ایک بہروپیہ آتا تھا، اور بادشاہ اپنی عقابی نگاہ سے اُسے پہچان لیتا تھا، مگر بالآخر وہ بھی اسے دھوکا دینے میں کامیاب ہوگیا اور انعام لے کر رہا۔
قادیان کے مرزا غلام احمد نے روپ دھارا، مگر نبوت کا، اسے یہ خیال نہ آیا کہ نبوت ایک ایسا منصب ہے، جو اللہ کے نزدیک بہت ہی ذی مرتبت اور عزیز ہے، اللہ کو اس کی توہین گوارا نہیں ہے، کسی قوم نے اس کی توہین کی تو وہ تباہ و برباد ہوئی، کسی فرد نے اس سے ٹکر لی، تو وہ عبرت کا سامان بنا، یہ بجائے خود ایک لمبا قصہ ہے، ہم اس کو یہاں چھوڑتے ہوئے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں جب مسیلمہ پنجاب نے یہ ڈرامہ اسٹیج کیا، تو ملتِ اسلامیہ کے اکابر نہایت پریشان ہوئے، حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب قبلہ، یہاں سے بقصدِ ہجرت چلے گئے تھے، لیکن سید الطائفہ حضرت الحاج امداد اللہ مہاجر مکی نے انہیں یہ فرماتے ہوئے واپس آنے کا حکم دیا کہ پنجاب میں ایک فتنہ نمودار ہونے والا ہے، آپ واپس جاکر اس کا دفاع کریں۔ حضرت مولانا سید فضل الرحمن گنج مرادآبادی (تلمیذ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی) کے خلیفہ اجل حضرت مولانا محمد علی مونگیری، ایک روٴیا کی بنا پر، تن من دھن سے اس مہم میں لگ گئے، اسی سلسلہ کی ایک کڑی حضرت امام العصر کی طویل جدوجہد ہے، جس کی چند جھلکیاں گزشتہ اوراق میں گزر چکی ہیں، اب امام العصر پر چند اوراق لکھنے کی سعادت اس گنہگار کو حاصل ہے، تو اس ذکرِ خیر کو ختم کرنے سے پہلے سطورِ ذیل بھی ملاحظہ کرلیجئے:
آیت کریمہ : ”عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا“ (بنی اسرائیل:۷۹) (امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود میں جگہ دے گا)۔ کے تحت سند المفسرین علامہ حافظ ابن کثیر نے خوب لکھا ہے، قیامت کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ ایسے کمالات اور خواص گنوائے ہیں، جن میں کوئی دوسرا آنجناب کا شریک اور ہمسر نہ ہوگا، طلبہ اس مقام کا مطالعہ ضرور کریں۔
یہ مقامِ محمود کیا ہے؟ حافظ ابن کثیر اور ان کے علاوہ متقدمین اور متأخرین، تمام مفسرین نے اس سے مراد شفاعتِ کبریٰ کا مقام لیا ہے، جس کی تفصیل صحیح بخاری اور دیگر کتبِ احادیث میں آئی ہے، یہ شفاعت، قیامت کے روز تمام امم (پوری نسل انسانی) کی استدعا پر ہوگی۔
اس شفاعتِ کبریٰ کے علاوہ، علامہ قاضی عیاض کے فرمان کے مطابق چار شفاعتیں اور بھی ہوں گی، ان کی تفصیل مُلّا علی قاری نے شرح مشکوٰة میں دی ہے (دیکھئے مرقاة المفاتیح ج:۱۰ ص:۳۰۹)۔
طالب علموں کو یہاں پر یہ بھی بتادینا مناسب ہوگا کہ حضرات صحابہ کرام، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امورِ قیامت کے بارے میں سنتے تھے، تو انہوں نے یونیورسٹی کے کسی امتحان میں پوزیشن نہیں لینی ہوتی تھی، ان کے پیش نظر تو اپنی زندگیوں کو سنوارنا اور آخرت کے لئے تیاری کرنا ہوتا تھا، وہ ”تعلمنا الایمان ثم تعلمنا القراٰن“ کے اصول پر عمل پیرا تھے، اہوالِ آخرت سن کر ان پر دہشت سی طاری ہوجاتی تھی۔ تمام باتیں سن کر یاد رکھنا، ہر صحابی کے لئے شاید ممکن بھی نہ ہوتا، اسی لئے یہ صورتحال پیش آئی کہ:
کچھ قمریوں کو یاد ہے، کچھ بلبلوں کو حفظ
عالم میں ٹکڑے ٹکڑے مری داستاں کے ہیں!
جیسا کہ بالعموم اہل علم نے سن رکھا ہے، روز قیامت کے شدائد سے سخت پریشان ہوکر بنی آدم جمع ہوکر سیدنا آدم (علیٰ نبینا وعلیہ السلام) کی خدمت میں جائیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ کو یہ اعزازات حاصل ہیں کہ:
۱:…آپ نسل انسانی کے باپ ہیں۔
۲:…آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔
۳:…آپ میں روح پھونکی۔
۴:…آپ کو بہشت میں ٹھہرایا۔
۵:…فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا۔
۶:…آپ کو تمام نام سکھائے۔
اس لئے آپ چل کر رب تعالیٰ سے سفارش کریں، تاکہ حساب کتاب کا سلسلہ شروع ہو، مگر حضرت آدم علیہ السلام شجرہٴ ممنوعہ کے بارے میں حکمِ الٰہی کی خلاف ورزی (اگرچہ وہ نسیاناً اور خطأً تھی) کی وجہ سے معذرت فرمادیں گے، اور وہ انہیں سیدنا نوح علیہ السلام کے پاس جانے کا مشورہ دیں گے، مگر وہ بھی معذرت فرماتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں جانے کو فرمائیں گے، یوں وہ ان سے ہوکر سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بعد سیدنا حضرت عیسیٰ مسیح ابن مریم علیہما السلام کی خدمت میں جائیں گے، یوں وہ تمام اولوا العزم رسولوں کے پاس سے ہوکر سید الاولین والآخرین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں حاضر ہوں گے، اور آپ کی خدمت میں عرض گزار ہوں گے کہ: آقا! آپ اللہ کے رسول اور محبوب ہیں، آپ خاتم الانبیا ٴہیں، آپ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوا، آپ کا دامن لغزشوں سے پاک صاف ہے، قَدْ غَفَرَ اللهُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ! آپ ارشاد فرمائیں گے: اَنَا لَھَا! اَنَا لَھَا! پھر آپ بارگاہِ ایزدی میں حاضر ہوکر سجدہ میں چلے جائیں گے، اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ان الفاظ میں بیان کریں گے، جو اس وقت آپ کے قلبِ اقدس میں ڈالے جائیں گے تاآنکہ بارگاہِ ربوبیت سے حکم صادر ہوگا: ”یَا مُحَمَّدُ! اِرْفَعْ رَأْسَکَ، سَلْ تُعْطٰی، اِشْفَعْ تُشَفَّعْ․“ اس کے بعد آپ سجدہ سے سر مبارک اٹھائیں گے اور یوں شفاعت کا سلسلہ شروع ہوگا، یہ شفاعتِ کبریٰ ہے، جو تمام انسانوں کے حق میں ہوگی اور یہ وہ شفاعت ہے، جس کا اعزاز سید الانبیا ٴحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوگا، یہی مقامِ محمود ہے، طالب علم کتبِ تفسیر بالخصوص تفسیر ابن کثیر کو دیکھیں۔
رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم یوں تو سب کے لئے رحمت ہیں، مگر امتِ محمدیہ کو اس رحمت سے جو کچھ ملا ہے، وہ اسی کا حصہ ہے۔ مقامِ محمود کے اعزاز کا وعدہ ہوا تو روٴف و رحیم آقا نے اپنی امت کو بھی اس سلسلہ میں یاد رکھا، آپ کے دو فرمانِ گرامی سن لیجئے، اول تو یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اذان سن کر یہ دعا پڑھ لے:
”اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَةِ التَّآمَّةَ وَالصَّلٰوةِ الْقَآئِمَةِ اٰتِ مُحَمَّدَانِ الْوَسِیْلَةَ وَالْفَضِیْلَةَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَانِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہ۔“
تو وہ میری سفارش کا مستحق بن گیا۔ (بخاری شریف ج:۱ ص:۸۶) امتی یہ دعا کرے گا تو خواجہٴ دوسرا تو بندہ پروری کی روش جانتے ہی ہیں، وہ اپنے غلام کو اس کا صلہ اس شکل میں دیں گے۔ دوسرا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کو ایک خاص مقبول دعا کی اجازت ہے، اور میں نے وہ دعا آخرت کے لئے ذخیرہ کرلی ہے کہ اپنی امت کے حق میں سفارش کروں گا (شاید یہی مطلب ہو کہ جس کو جس درجے میں شفاعت کی ضرورت ہوگی)۔ (مشکوٰة ص:۱۹۴ بحوالہ مسلم شریف) شفاعتِ کبریٰ کے بعد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو چار قسم کی شفاعت فرمائیں گے، علامہ قاضی عیاض کی وضاحت کے مطابق، ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:
دوسری شفاعت: اس امت کے لاکھوں افراد کو بلاحساب بہشت میں داخل کرانے کے لئے ہوگی۔
تیسری سفارش: ان لوگوں کے بارے میں ہوگی، جو دخول نار کے مستحق ہوں گے، مگر انہیں جہنم میں جانے سے پہلے ہی معافی دلادی جائے گی۔
چوتھی سفارش:…ان کے حق میں ہوگی جو جہنم میں پہنچ چکے ہوں گے، انہیں معافی ملنے کے بعد وہاں سے نکلواکر جنت میں داخل کرلیا جائے گا۔
پانچویں سفارش: اہل جنت کے حق میں ترقی درجات کے لئے ہوگی۔
خوش نصیب ہوں گے وہ لوگ جو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق بن کر اٹھیں گے، بڑا امید افزا ہے آنجناب کا یہ فرمانِ پاک کہ: ”شَفَاعَتِیْ لِاَھْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ اُمَّتِیْ“یہ گنہگار دل سے دعا کرتا ہے کہ اللہ غفور رحیم ان چند سطروں کے لکھنے والے، پڑھنے والے اور دیگر متعلقین کو مستحقین شفاعت میں شامل فرمادے، آمین!
اب سنئے کہ امام العصر حدیثِ شفاعت بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ: جو شخص شفاعت کا حق دار بننا چاہتا ہو، اسے چاہئے کہ عقیدہٴ ختم نبوت کی خدمت کرے، کیونکہ ختم نبوت کا انکار کرنے سے امتِ محمدیہ سے خارج ہوجاتا ہے، وہ امتِ مرزائیہ کا فرد بن جاتا ہے، وہ اہل کبائر میں سے نہیں ہوتا، اہل کفر میں شامل ہوجاتا ہے، وہاں تو حضورِ اقدس کو ختم نبوت کا واسطہ دیا جائے گا، تو جو شخص ختم نبوت کا عقیدہ ہی نہ رکھتا ہو، وہ کس منہ سے بارگاہِ اقدس میں پیش ہوگا؟ استحقاقِ شفاعت کے لئے امام العصر کا یہ فرمان یوں سمجھئے کہ:
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے!
حضرت علامہ قاضی عیاض کے مطابق (جیسا کہ احادیثِ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے) شفاعت کے مندرجہ بالا پانچ درجات میں سے پہلے دو درجے سید الانبیا ٴصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مختص ہیں، باقی تین قسم کی شفاعت، دیگر انبیا ٴعلیہم السلام، ملائکہ، علما ٴ، شہدأ اور صلحائے امت، بلکہ عامة الموٴمنین تک بھی فرمائیں گے، فطوبی لہم!
حضرت حکیم الامت کا ایک ملفوظ کہیں پڑھا تھا کہ اہل السنة والجماعة کا عقیدہ تو یہی ہے کہ: اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الرَّجَآءِ وَالْخَوْفِ۔ مگر جوانی میں خوف کا غلبہ ہونا چاہئے اور بڑھاپے میں رجاء کا غلبہ ہو، تاکہ آگے حدیثِ قدسی: اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ۔ کے مطابق اس سے برتاوٴ ہو، اب جبکہ یہ گنہگار بڑھاپے کے ساتھ امراض میں گھرا ہوا ہے، قویٰ جواب دے چکے ہیں، ایک طرف دعاگزار ہے: اَللّٰھُمَّ مَتِّعْنِیْ بِسَمْعِیْ وَبَصَرِیْ وَقُوَّتِیْ مَا اَحْیَیْتَنِیْ وَاجْعَلْہُ الْوَارِثَ مِنِّیْ۔ دوسری طرف صحاح کی ایک اور حدیث شریف پر آس لگائے ہوئے ہے کہ جب شفاعت کرنے والے شفاعت کرچکے ہوں گے تو اللہ غفور رحیم کی رحمت کا دریا موج میں آئے گا اور آپ فرمائیں گے: شَفَعَتِ الْمَلٰئِکَةُ وَشَفَعَ النَّبِیُّوْنَ وَشَفَعَ الْمُوٴْمِنُوْنَ وَلَمْ یَبْقَ اِلَّا اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ! پھر کیا ہوگا؟ اس کا جواب طلبہ بخاری و مسلم کو دیکھ کر پڑھ لیں۔
ھذا آخر ما اردتُ ان اقول، والله تعالیٰ اسأل حسن الخاتمة، اللّٰہم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر:۱۴۳۲ھ - فروری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: تحفظ حقوق نسواں بل“ کا مکمل متن!
Flag Counter