Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۳۱ھ -دسمبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

1 - 12
رحمت الٰہی کی تقسیم کا مرکز
”الحمد لله وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ
اہل ِاسلام جانتے ہیں کہ حج اسلام کا عظیم الشان رکن اور اللہ تعالیٰ کی عظیم عبادت ہے، جس کی ادائیگی سے ارکانِ دین کی تکمیل ہوتی ہے۔حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام سے لے کر، امام الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد رسول اللہا تک تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام نے بیت اللہ کا حج کیا ہے۔حج اہل استطاعت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے، جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
””ولله علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلاً“۔ (آل عمران:۹۷)
ترجمہ:۔”اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی“۔
حضرت ابی ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور ا نے ہمیں خطبہ دیا اوراس میں ارشاد فرمایا:
””یایہا الناس قد فرض علیکم الحج فحجوا، فقال رجل اکلَّ عام یا رسول الله؟ فسکت حتی قالہا ثلاثاً، فقال: لوقلت نعم لوجبت ولما استطعتم، ثم قال ذرونی ماترکتکم…“ ۔ (مشکوٰة:۲۲۰،۲۲۱)
ترجمہ:۔”اے لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے …یہ سن کر… ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم ہرسال حج کریں؟ آپ ا خاموش رہے، یہاں تک کہ اس شخص نے تین مرتبہ یہی بات کہی، پھر آپ انے فرمایاکہ: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو یقینا حج …ہرسال کے لئے… فرض ہوجاتا اور تم …ہرسال حج… کرنے پر قادر نہیں ہوسکتے تھے۔پھر آپ انے فرمایا: جب تک میں تمہیں چھوڑوں، تم مجھے چھوڑ دو …جو کچھ میں نے کہا وہ کرو۔ مجھ سے مزید مت پوچھا کرو…“۔
استطاعت کے باوجود جو لوگ حج کی ادائیگی نہیں کرتے، ان کے لئے قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں سخت تنبیہ اور وعید آئی ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ہے:
””ومن کفر فان الله غنی عن العالمین“۔ (آل عمران:۹۷)
ترجمہ:۔”اور جو نہ مانے تو پھر اللہ پرواہ نہیں رکھتا جہان کے لوگوں کی“۔
حدیث میں ہے:
””عن علی قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم من ملک زاداً وراحلةً تبلغہ الی بیت الله ولم یحج فلا علیہ ان یکون یہودیاً او نصرانیاً، وذالک ان الله تبارک وتعالیٰ یقول: ولله علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلاً،رواہ الترمذی“۔ (مشکوٰة:۲۲۲)
ترجمہ:۔”حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا: جو شخص زاد راہ اور سواری کا مالک ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچادے …جو شخص حج کرنے کی استطاعت اور قدرت رکھتا ہو… اور پھر بھی وہ حج نہ کرے تو اس کے یہودی یا نصرانی ہوکر مرجانے… اور بے حج کئے مرجانے… میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ …حج کے لئے زاد راہ وسواری کاشرط ہونا اور اس عظیم عبادت کو ترک کردینے پر مذکورہ بالا وعید… اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”ولله علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا…اور اللہ تعالیٰ … کی خوشنودی… کے لئے لوگوں پر کعبہ کا حج کرنا ضروری ہے جو وہاں تک جاسکتا ہو“۔
بیت اللہ تجلیات الٰہیہ کا منبع او ررحمت خداوند ی کی تقسیم کا مرکز ہے۔ بیت اللہ قیام عالم اور بقائے کائنات کا ذریعہ ہے۔جب تک اللہ تعالیٰ کا یہ گھر دنیا میں باقی رہے گا، دنیا قائم رہے گی اور جس وقت اللہ تعالیٰ شانہ اس دنیا کو ختم کرنے کا ارادہ فرمائے گا، اس کعبے کو ویران کردیا جائے گا۔
بیت اللہ میں ظاہری اور مادی کشش نہ ہونے کے باوجود باطنی اور روحانی طور پر اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمانوں کے دلوں کا مقناطیس بنایاہے، چنانچہ تمام اہلِ ایمان کے دلوں میں یہ جذبہ اور تڑپ موجزن ہے کہ کسی طرح اہلِ ایمان کے مرکز اوراللہ کے گھر تک پہنچ جائیں ۔ کوئی مسلمان ایسا نہ ملے گا کہ جس کے دل میں اللہ کا گھر دیکھنے کی طلب اور تمنا نہ ہو۔
جن خوش قسمت لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے گھر کی زیارت سے مشرف فرمائیں، انہیں چاہئے کہ اپنے اوقات کا ایک ایک لمحہ ، ذکر، تلاوت، درود شریف، استغفار اور عبادت الٰہی میں صرف کریں۔ حج پر کیا انعامات اور اللہ کی جانب سے کیا نعمتیں اور برکتیں حاصل ہوتی ہیں؟ اس کے لئے حضرت عبد اللہ بن عمر  کی یہ روایت ملحوظ ہو:
””عن ابن عمر  قال: کنت جالساً مع النبی صلی الله علیہ وسلم فی مسجد منیً، فاتاہ رجل من الانصار، ورجل من ثقیف، فسلما ثم قالا: یا رسول الله! جئنا نسألک، فقال: ”ان شئتما اخبرتکما بما جئتما تسألانی عنہ فعلت، وان شئتما ان أمسک وتسألانی فعلت؟“ فقالا: أخبرنا یا رسول الله، فقال الثقفی للأنصاری: سل، فقال: أخبرنی یا رسول الله، فقال: ”جئتنی تسألنی عن مخرجک من بیتک تؤم البیت الحرام، وما لک فیہ، وعن رکعتیک بعد الطواف وما لک فیہما، وعن طوافک بین الصفا والمروة وما لک فیہ، وعن وقوفک عشیة عرفة وما لک فیہ، وعن رمیک الجمار وما لک فیہ، وعن نحرک وما لک فیہ مع الافاضة“ فقال: والذی بعثک بالحق لعن ہذا جئت أسألک۔ قال: ”فإنک إذا خرجت من بیتک تؤم البیت الحرام لاتضع ناقتک خفاً، ولاترفعہ الا کتب الله لک بہ حسنة، ومحا عنک خطیئة، واما رکعتاک بعد الطواف کعتق رقبة من بنی اسماعیل علیہ السلام، واما طوافک بالصفا والمروة کعتق سبعین رقبة، واما وقوفک عشیة عرفة، فان الله یہبط الی سماء الدنیا فیباہی بکم الملائکة یقول: عبادی جاؤونی شعثاً من کل فج عمیق یرجون جنتی، فلو کانت ذنوبکم کعدد الرمل، أو کقطر المطر، أو کزبد البحر لغفرتہا، افیضوا عبادی مغفوراً لکم، ولمن شفعتم لہ، واما رمیک الجمار فلک بکل حصاة رمیتہا تکفیر کبیرة من الموبقات، واما نحرک فمذخور لک عند ربک، واما حلاقک رأسک فلک بکل شعرة حلقتہا حسنة، ویمحیٰ عنک بہا خطیئة، واما طوافک بالبیت بعد ذلک، فانک تطوف ولاذنب لک، یأتی ملک حتی یضع یدیہ بین کتفیک فیقول: اعمل فیما تستقبل فقد غفر لک ما مضیٰ“۔ (الترغیب والترہیب:ج:۲،ص:۱۱۰، ۱۱۱)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عمر کی روایت ہے کہ آپ ا مسجد منیٰ میں تشریف فرماتھے، قبیلہ ثقیف اور انصار میں سے دو شخص آپ کی خدمت میں آئے اور کہا: مجھے ان امور کے بارے میں بتایئے، اے اللہ کے رسول! …چنانچہ آپ ا نے خود ان کے سوالوں کو جان لیا اور فرمایا: تم ان سوالوں کے جواب کے لئے آئے ہو… آپ نے فرمایا: جب تم اپنے گھر سے بیت اللہ …حج… کے ارادے سے نکلو گے تو تمہاری اونٹنی کا قدم جتنا اٹھے گا اور بیٹھے گا، اس کے بدلہ نیکی لکھی جائے گی اور گناہ معاف ہوں گے اور طواف کے بعد دو رکعت کا ثواب خاندان اسماعیل کے غلام کی آزادی کے برابر پاؤگے اور صفا مروہ کی سعی کا ثواب ستر غلام کی آزادی کے مثل پاؤگے اور تمہارا وقوف عرفہ سو اس وقت اللہ پاک آسمان دنیا پر اتر آتے ہیں اور تمہاری وجہ سے فرشتوں پر فخر فرماتے ہیں اور کہتے ہیں: دور دراز کی مسافت طے کرکے پراگندہ حال میرے بندے میرے پاس آئے ہیں، مجھ سے جنت کی امید کرتے ہوئے، پس اگر تمہارے گناہ ریت کی مقدار کے برابر، یا بارش کے قطروں کی مقدار یا سمندر کی جھاگ کے مانند …یعنی اس قدر کہ شمار سے باہرہوں… تو اسے معاف کردوں گا۔ چلو کوچ کرو میرے بندے عرفات سے، تم بخشے بخشائے ہوگئے اور اس کی بھی جس کی شفاعت کروگے۔ اور تمہارا کنکری مارنا، سو ہر کنکری جو تم ماروگے ہلاک کرنے والے بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ ہے۔ اور تمہارا قربانی کرنا، پس وہ تمہارے رب کے نزدیک ثواب کا ذخیرہ ہے اور تمہارا سرکا حلق کرانا، سو ہربال کے بدلے ایک نیکی ہے اور گناہوں کی معافی ہے اور تمہارا اس کے بعد طواف …زیارت… کرنا اس حال میں طواف کرنا ہوگا کہ کوئی گناہ نہ ہوگا۔ فرشتے آئیں گے، تمہارے دونو ں کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھیں گے… اور کہیں گے… جو چاہے آئندہ عمل کرو، گذشتہ گناہوں کی معافی ہوگئی ہے“۔
””وقال فیہ ورواہ الطبرانی الاوسط من حدیث عبادة بن الصامت۔” فان لک من الأجر اذا اممت البیت العتیق الا ترفع قدماً، او تضعہا أنت ودابتک الا کتبت لک حسنة، ورفعت لک درجة، واما وقوفک بعرفة، فان الله عز وجل یقول لملائکتہ: یا ملائکتی ما جاء بعبادی؟ قالوا: جاؤوا یلتمسون رضوانک والجنة، فیقول الله عز وجل: فانی اشہد نفسی وخلقی انی قد غفرت لہم، ولو کانت ذنوبہم عدد ایام الدہر، وعدد رمل عالج، واما رمیک الجمار، قال الله عز وجل: ﴿فلاتعلم نفس ما اخفی لہم من قرة اعین جزاءً بما کانو یعملون﴾ (سجدہ:۱۷) واما حلقک رأسک، فانہ لیس من شعرک شعرة تقع فی الأرض الاّ کانت لک نوراً یوم القیامة، واما طوافک بالبیت اذا ودعت فانک تخرج من ذنوبک کیوم ولدتک امک“ ۔ (الترغیب والترہیب:ج:۲،ص:۱۱۱)
ترجمہ:۔”اور حضرت عبادہ کی روایت میں اس طرح ہے: جب تم بیت اللہ کے ارادے سے آؤ گے جو قدم رکھوگے یا اٹھاؤ گے تم یا تمہاری سواری ، تو تمہارے لئے نیکی لکھی جائے گی اور درجہ بلند ہوگا۔ اور تمہارا جو وقوف عرفہ ہوگا، سو اللہ پاک فرشتوں سے فرمائیں گے: اے میرے فرشتو! میرے بندے کیوں آئے ہیں؟ وہ کہیں گے: وہ آپ کی رضامندی اور جنت حاصل کرنے آئے ہیں۔ اللہ پاک فرمائیں گے: میں اپنے آپ کو گواہ بناکر کہتا ہوں: میں نے ان کی مغفرت کردی، چاہے ان کے گناہ زمانہ کے ایام کے مثل یا ریت کے مانند کیوں نہ ہوں۔ اور تمہارا رمی جمار کرنا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: کوئی جان نہیں جانتی کہ میں نے ان کے لئے کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا رکھی ہے، بدلہ ہے اس عمل کا جو تم کررہے ہو۔ اور رہا تمہارا سر مونڈنا، پس ہر کوئی بال جو زمین پر گرے گا وہ قیامت کے دن تمہارے لئے نور ہوگا اور تمہارا رخصت کے وقت طواف کرنا تو بس تم نکل جاؤ گے، گناہوں سے اس طرح جیسے تمہاری ماؤں نے آج ہی جنا ہو“۔
ہرحاجی کے دل اور فکر وخیال میں اس بات کا وجدان اور ادراک ضروری ہے کہ بیت اللہ دربار الٰہی ہے، یہاں شاہ وگدا، امیر وغریب، افسر وملازم سب برابر اور تمام کے تمام اس در کے منگتے اور سوالی ہیں۔اور یہاں بزبان حال یہ اعلان ہوتا ہے کہ اپنی جھوٹی انانیت کا بت توڑ کر اور سچے فرما نبردار بن کر اس دربار میں آؤ۔
بلاشبہ حج ایک مقدس فریضہ ہے، جس کو اللہ تعالیٰ اس کی توفیق سے نواز دیں، اس کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہوسکتی ہے۔ مگر آج کل دین سے غفلت اور دوری کے باعث عموماً دینی امور میں کاہلی اور سستی در آئی ہے۔ ہر نیک عمل اور عبادت کو لاابالی، بے پروائی ، غفلت اور رواج کے طور پر کیا جاتا ہے اور اس کی روح ومقصد کو حاصل کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کی جاتی ۔ آج کل حجاج کرام ”نیکی برباد گناہ لازم“ کے مصداق ایک نیکی کرنے پر کئی گناہوں کا ارتکاب کرکے اللہ کی رحمت کی بجائے اس کے غضب کے مستحق بن جاتے ہیں۔ حجاج کرام جن معاصی اور نافرمانیوں کے مرتکب ہوتے ہیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
۱…حج کی ابتداء ہی فوٹو گرافی جیسے ملعون فعل سے کرائی جاتی ہے، جب تک شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور حج فارم پر تصویر نہ ہو، حکومت اس وقت تک ایسی حج درخواست قبول ہی نہیں کرتی۔ اس گناہ کا وبال سراسر حکومت وقت اور اس کے ان اداروں کے سر ہے جو ایسے قوانین بنانے میں شریک کار رہے۔
۲… حجاج کرام کی تربیت کے لئے حج فلمیں دکھائی جاتی ہیں جوکہ سراسر گناہ اور غضب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
۳:…آج کل یہ وبا عام ہے کہ حجاج کرام کی ویڈیو فلمیں حتی کہ بیت اللہ میں پہنچ کر نام نہاد حجاج اس ملعون اور مبغوض عمل سے باز نہیں آتے۔ ۴:… گھر سے رخصت ہوتے وقت پھولوں کے ہار پہننا اورپہنانا اس کو لازم کرلیا گیا ہے، گویا اس کے بغیر حاجی کا جانا ہی معیوب ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حکومتی اہلکاروں کی طرف سے باجے اور نعرے بازی کے ساتھ حاجیوں کو الوداع کہنے کی رسم بڑے اہتمام سے ادا کی جاتی ہے۔
۵…عورتوں کا بے پردہ ہوکر حج پر جانا ا ب ایک معمول بنتا جارہا ہے، حالانکہ جس طرح حج فرض ہے، اسی طرح مستورات کے لئے پردہ کرنا بھی ضروری اور فرض ہے۔
۶… ایک طبقہ اس بات کا متمنی اور آرزو مند ہے کہ خواتین کے لئے محرم کی شرط ختم کرادی جائے، اور اس کے لئے انہوں نے باقاعدہ طور پر حکومتی حلقوں میں تگ ودو اور کوششیں شروع کررکھی ہیں۔حالانکہ یہ سراسر شریعت کی مخالفت اور خواہش پرستی کو تسکین دینے کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ بعض خواتین نامحرموں کو اپنا محرم لکھواکر حج پر جاتی ہیں، حالانکہ ایسا کرنا دہرے گناہ کا ارتکاب ہے جوکہ حج کی برکتوں اور سعادتوں کو ملیا میٹ کردیتا ہے۔
۷…عام طور پر حجاج کرام نماز باجماعت کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کرتے، حالانکہ حج کا مقصد یہ ہے کہ آدمی وہاں جاکر اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے اور اللہ تعالیٰ سے آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم اور وعدہ کرے۔
۸…سرکاری رہائش گاہوں میں مرد وزن کا اختلاط اور ایک ساتھ رہائش رکھنے کو معیوب اور گناہ نہیں سمجھا جاتا،حالانکہ یہ گناہ کبیرہ اور شریعت کی نظر میں جرم عظیم ہے۔حجاج کرام کو ایسے ماحول سے اجتناب کرنا اور بچنا ضروری ہے۔
۹…اسی طرح بیت اللہ میں مردوں کی صفوں میں گھس کر بعض خواتین نماز شروع کردیتی ہیں، حالانکہ ان کیلئے ایسا کرنا ممنوع اور حرام ہے۔ خواتین پر لازم ہے کہ وہ اپنی نماز اپنی رہائش گاہ پر پڑھیں، ان کے لئے ایسا کرنا بیت اللہ میں نماز پڑھنے سے زیادہ ثواب کاباعث ہے اور اگر بیت اللہ میں ہی نماز پڑھنا چاہتی ہیں تو وہ خواتین کی مقررہ جگہ پر ہی نماز پڑھیں۔
خلاصہ یہ کہ حجاج کرام حج کے افعال، ارکان، واجبات اور احکام ومسائل سیکھ کرجائیں اور ہر ہر عمل اور رکن کو سنت نبوی کے مطابق ادا کرنے کی کوشش، بالخصوص سفر حج کی ابتداء سے اختتام تک اپنے آپ کو نافرمانیوں اور گناہوں سے آلودہ ہونے سے بچائیں۔اگر انہوں نے اس کا اہتمام کرلیا تو انشاء اللہ !ان کا یہ حج ، حج مبرور ہوگا، جیساکہ آپ اکا ارشاد ہے:
””من حج لله فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ امہ“ متفق علیہ (مشکوٰة،ص:۲۲۱)
ترجمہ:۔”جو شخص اللہ کے لئے حج کرے اور گناہ ونافرمانی میں مبتلا نہ ہو تو وہ اس طرح بے گناہ ہوکر واپس آتا ہے جیسے …اس دن گناہوں سے پاک وصاف تھا جس دن… اس کو اس کی ماں نے جنا تھا“۔
”وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ وصحبہ اجمعین
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۱ھ -دسمبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 
Flag Counter