Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء,

ہ رسالہ

8 - 11
موجودہ دینی انحطاط اوراس کا بڑا سبب
موجودہ دینی انحطاط اوراس کا بڑا سبب


موجودہ دور میں ملتِ اسلامیہ پورے عالم میں جس دینی انحطاط واضمحلال کا شکار ہے‘ اس کی مثال پوری تاریخِ اسلامی میں نہیں ملتی:
متاعِ دین ودانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا غمزہٴ خون ریز ہے ساقی
امت جب زندہ تھی‘ اور اپنے فرائض منصبی دعوت الی اللہ‘ امر بالمعروف ‘ نہی عن المنکر اور ہدایت رسانی خلق کی ادائیگی میں مصروف ومشغول تھی‘ دیگر اقوام وملل‘ اسلام کی حقانیت اور داعیانِ حق کے اخلاق واعمال سے متاثر ہوکر جوق درجوق اور گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہوتی تھیں‘ اور ”یدخلون فی دین اللہ افواجاً“ کا منظر پیش کرتی تھیں‘ ان کا تازہ خون امت کی رگوں میں دوڑ تا تھا‘ اور یہ لافانی اور جاودانی امت حیات تازہ پاتی تھی‘ بارہا سیاسی فاتحین کو امت کے داعیانہ مزاج اور تبلیغی جہد وہمت اور روحانی تصرفات ومزایانے مفتوح اور دین کا خادم بنادیا‘ جس کی سب سے نمایاں اور مشہور مثال تاتاری ومنگول ہیں‘ جو دولِ اسلامیہ اور خلافتِ عباسیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے کچھ عرصہ بعد اسلام کے داعیانہ اثر سے مسلمان ہوتے ہیں اور ترکانِ عثمانی اور ترکانِ تیموری کے نام سے پانچ سوسال تک اسلام اور مسلمانوں کا پرچم بلند رکھتے ہیں۔ جب سے امت کا دعوتی اور ملی شیرازہ بکھرا اور امت اپنے منصب اور اس سے پیدا شدہ تقاضوں اور مسائل کو بھلا بیٹھی‘ اور اپنے آپ کو دنیا کی عام اقوام کی طرح ایک قوم سمجھنے لگی‘ اس کے شاہوں اور حکمرانوں نے تاج وباج وخراج کو مقصود گردانا‘ علماء ومشائخ نے عزلت نشینی اور مخصوص حلقوں میں تعلیم اور طالبین کی اصلاح پر اکتفاء کرلی‘ عام امت نے غفلت وقعود کو شعار بنالیا۔امت بانجھ ہوگئی‘ اقوام کا داخلہ اسلام میں من حیث الجماعة بند ہوگیا‘ بلکہ پوری امت پر مردنی چھاگئی‘ مسلمان بے یقینی‘ عقائد میں متزلزل اور کردار واعمال کی خرابی کا شکار ہو گئے کہ امت کا نفسِ ناطقہ‘ اس کا ایمانی شعور ‘ اس کا دینی ذمہ داری کا احساس اور اس کا داعیانہ حاسہ تھا‘ جس کی پژمردگی نے اس باغ کو مرجھا کررکھ دیا:
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس ِ زیاں جاتا رہا
آہ! سینہ اش بے سوز وجانش بے خروش
اوسرافیل است وصور او خموش
امت کی اس غفلت وکوتاہی اور فرض ناشناسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورا عالم اسلامی قیادت وامامت‘ الٰہی رہنمائی اور نبوی تعلیمات سے محروم ہوگیا‘ اور انسان کی عقلی وذہنی‘ روحانی ومادی قیادت‘ خدانا آشنا‘ آخرت فراموش‘ روح ناشناس‘ بے یقین‘ مردہ دل‘ دنیا طلب‘ مادہ پرست مغربی اقوام کے ہاتھ میں آگئی:
ہم تور خصت ہوئے اوروں نے سنبھالی دنیا
اور پورا عالم دینی ہدایات وبرکات کے نور واثرات سے خالی اور مادیت اور خدا فراموشی کی ظلمت سے شبِ تاریک بن کررہ گیا۔
امت کا سب سے اہم واقدم مسئلہ
اس وقت امت کے لئے سب سے اقدم واہم مسئلہ اس کے دینی شعور‘ داعیانہ مزاج‘ تبلیغی حاسہ‘ ایمانی حمیت وغیرت‘ اسلامی فکر اور مغیبات حقہ پر یقین کے احیاء کا ہے تاکہ پھر سے مسلمانوں میں امت مبعوثہ کی حیثیت سے اپنے فرائضِ منصبی اور مفوضہ وظائف کی ادائیگی کا داعیہ وتقاضہ زندہ وبیدار ہو اور صحابہ کی طرح امت ایمان ویقین‘ اعمال صالحہ واخلاق فاضلہ سے مزین ہوکر نیابتِ نبوت اور ہدایت رسانی خلق کی ذمہ داری کو پورا کرسکے۔ اگر امت دعوت الی الخیر‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فرائض کے ادا کرنے سے قاصر رہتی ہے‘ تو اس کی بعثت کا مقصد فوت ہوجاتا ہے اور وہ اپنی امتیازی حیثیت سے محروم ہوجاتی ہے۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق  کا ارشاد اس بارے میں قول فیصل ہے‘ آپ نے چند ”دعاة“ کو حج کے موقع پر دیکھا ‘ آپ نے آیت ”کنتم خیر امة اخرجت للناس“ پڑھی اور ارشاد فرمایا:
”من سرہ ان یکون من ہذہ الامة فلیؤد شرط اللہ فیہا“ ۔(ابن کثیر ج:۱‘ ص:۳۹۶)
یعنی جو شخص پسند کرتا ہے کہ اس خیر الامم میں سے ہو تو اسے اس کی شرائط کو پورا کرنا چاہئے یعنی اسے امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر وایمان باللہ کی صفات سے متصف ہونا چاہئے۔ غور کیجئے! جب سید الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ ا تک کو کہا جاتا ہے:
”یا ایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغترسالتہ‘(المائدة:۱۰)
ترجمہ:․․․”اے رسول ا پہنچادے جو تجھ پر اترا تیرے رب کی طرف سے اور اگر ایسا نہ کیا تو تونے کچھ نہ پہنچایا اس کا پیغام۔“
گویا تبلیغ ورسالت کو مترادف قرار دیا۔اگر امت محمدیہ اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی کریگی تو یقینااس غفلت پر اپنی خاص حیثیت کھو دے گی اور نصرت الٰہی‘ سرفرازی وفلاح کے ان وعدوں سے محروم ہوجائے گی‘ جو اس منصب کی وجہ سے اس کے ساتھ کئے گئے تھے۔ آج امت کے نظریہٴ اساسی میں جو عموماً بگاڑ آگیا ہے اور وہ اپنے مقصدِ حیات کو بھول چکی ہے‘ اس کے احیاء کے لئے پھر سے امت کو نبی پاک ا کے طریقہ دعوت وتربیت اور نظامِ صلاح واصلاح کو اپنانا ہوگا‘ جس کے کچھ اجمالی اشارے گذر چکے کہ مزاج وطریقہٴ نبوت قوام ملت ہے ‘ کتابِ اللہ نہ صرف کتاب ہدایت ہے‘ بلکہ صحیفہٴ نظامِ ہدایت اور طریقہٴ دعوت بھی ہے۔ قرآن نہ صرف دعوت ہے‘ بلکہ آپ کا طرز دعوت وتربیت بھی تا قیام الساعة ہدایت رسانی خلق کا افضل واکمل احسن واعلیٰ اور مؤثر ترین طریقہ ہے۔ امت آج جس بے یقینی‘ غفلت‘ غلط روی‘ اور بے عملی بلکہ بدعملی کا شکار ہوچکی ہے‘ اس کا علاج اپنی اصلاح کے ساتھ دعوت وتبلیغ‘ احیاء دین کے لئے جہد وجہاد‘ محنت وکوشش‘ ایثار وقربانی کے وہی عزائم واعمال ہیں جن کا نقش حضور پاک ا اور آپ کی رہنمائی میں صحابہ کرام  نے ابتدائے اسلام میں عالم پر مرتسم کیا ہے:
وہی دیرینہ بیماری وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی
امت اگر زندگی چاہتی ہے تو اسے پھر سے اسی داعیانہ جذبہ کو ہر قربانی کے باوجود زندہ کرنا ہوگا‘ حالاتِ حاضرہ پر قناعت موت ہے:
تاکجا بے غیرت دین زیستن
اے مسلمان مردن است ایں زیستن
اے کہ می نازی بہ قرآن عظیم
تاکجا درحجرہ می باشی مقیم
درجہاں اسرارِ دیں را فاش کن
نکتہٴ شرع مبیں را فاش کن
امت کا سواد اعظم ‘ جہالت‘ غفلت‘ دینی تعلیم سے محرومی‘ نئی تعلیم یادیگر عوامل کی بنا پر دین سے بیگانہ ہوتا جارہا ہے‘اور جس طرح امت اپنی معاشرت وتمدن تہذیب وشعائر سے دور ہوتی جا رہی ہے اور جس طرح اسلامی اخلاق ومعاملات مٹ رہے ہیں‘ عبادات تک میں بے اعتنائی عام ہو چکی ہے‘ امہاتِ عقائد تک میں تزلزل آگیا ہے اور جس طرح دنیا طلبی‘ دین سے بے رغبتی‘ الحاد ودہریت غفلت وبدعملی امت پر اپنا سایہ ڈالتی چلی جاتی ہے‘ اگر امت نے کمال چابک دستی‘ سبک رفتاری‘ بلند ہمتی‘ عزم راسخ سے اپنی جملہ استعدادوں‘ توانائیوں ‘ ظاہری وباطنی مادی وروحانی قوتوں کو‘ حفاظتِ دین‘ اعلاء کلمة اللہ اور دعوت وتبلیغ ‘ افراد امت کی شخصی واجتماعی اصلاح کی طرف مرکوز نہ کیا تو خاکم بدہن اندیشہ ہے کہ العیاذ باللہ! اسلام کی نام لیوا موجودہ امت مٹاکر نہ رکھ دی جائے اور یہ امانت دوسروں کے سپرد کردی جائے۔
دوسرا اہم مسئلہ فتنہ مغرب کا مقابلہ
عصرِ حاضر کا دوسرا سب سے اہم مسئلہ جس سے امت طوعاً وکرہاً دو چار ہے‘ فتنہٴ مغرب ہے‘ جس کی ہلاکت آفرینیوں نے پوری امت کو انتہائی خطرناک آزمائش میں مبتلا کردیا ہے۔ آج مغرب کا سیاسی وذہنی اقتدار وسیاسست پورے عالم پر محیط ہے‘ مشکل یہ ہے کہ مغربی افکار وعقائد علوم وفنون‘ تہذیب وتمدن‘ سیاست ومعاشرت‘ اقتصادیات ومعاشیات‘ غرض انسانی زندگی کے ہر پہلو اور اس سے متعلقہ علم کی بنیاد نری مادیت اور ظواہر پر ہے‘ یہاں تک کہ نام نہاد مغربی روحانی اور مابعد الطبیعاتی افکار وتصورات بھی مادی آلائشوں سے پاک نہیں‘ بلکہ انہیں کا ثمرہ ونتیجہ ہیں۔ روحانی اقدار اور غیبی قویٰ سے انکار عصر حاضر کا خلاصہ وامتیاز ہے:
عصر ماروا رفتہٴ آب وگل است
اہلِ حق را مشکل اندر مشکل است
تاریخِ انسانی نے اس سے پیشتر شاید ہی مادیت کا ایسا غلبہ واستیلاء وترقی جگمگاہٹ دیکھی ہو۔ اشتراکیت نے تو کھلے بندوں ”لاسلاطین“ کی نفی کے ساتھ ”لاکلیسا“ و”لا الٰہ“ کا منفی نعرہ بلند کرکے مغربی لادینی مزاج کا اظہار اور روحانی اقدار سے انکار کرہی دیا ہے‘ بقول اقبال:
کردہ ام اندر مقاماتش نگہ
لاسلاطین‘ لاکلیسا‘ لا الٰہ
لیکن جو اقوام مسیحیت کا دم بھرتی ہیں‘ ان کی حالت دیکھ کر حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب یہ قول یاد آجاتا ہے۔
”یہ امت ہونٹوں سے تو میری تعظیم کرتی ہے لیکن ان کے دل مجھ سے دور ہیں‘ اور یہ بے فائدہ میری پرستش کرتے ہیں‘ کیونکہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں“۔ (انجیل مرقس:۸۰۷)
مغرب کے اس مادی وملحدانہ مزاج کی بناء پروہ تمام علوم وفنون جنہوں نے ان کے دل ودماغ سے فروغ پایا‘ اپنے اندر مادیت والحاد اور لادینیت کے اثرات کو سموئے ہوئے ہیں۔ وہ معاشی علوم وفنون جن کے بعض دنیاوی افادی پہلؤوں سے انکار نہیں‘ وہ بھی کریہہ اور مہلک اثرات سے نہیں بچ سکے اور ”اثہما اکبر من نفعہما“ کے مصداق ہیں‘ بقول رومی:
نکتہائے گفت او آمیختہ
درجلاب قند ہر ریختہ
ہاں مشو مغرور زاں گفت نیکو
زانکہ باشد صد صدی درزیر او
ظاہر ہے جو تہذیب وتمدن لادینی وملحدانہ نظریات پر استوار ہوگا‘ اس کی رگ وپے میں بے دینی‘ آخرت فراموشی‘ خدابیزاری سرایت کئے ہوئے ہوگی۔ نتیجةً اس تہذیب وتمدن کا جس قدر فروغ ہوگا‘ لادینی افکار ونظریات پھیلیں گے۔ ایمانی حقائق وبصائر سے اعراض ‘ آخرت فراموشی‘ اور
”رضوا بالحیٰوة الدنیا واطمأنوا بہا“
کی حالت کا چلن ہوگا‘ چنانچہ عالمگیر فتنہٴ مغرب کی ہمہ گیری نے اس منظر کو ایک ناقابلِ انکار حقیقت بنا دیا ہے۔
فتنہ ٴ مغرب اور اسلام ومسلمان
اور امت ِ مسلمہ کو ایک انتہائی نازک وتشویشناک حالت سے دو چار کردیا ہے کہ اسلام ہی وقت کا الٰہی وآسمانی دین ہے‘ جس کے سپرد قیامت تک ہدایتِ خلق کا دائمی پیام وسامان ہے۔ اس بنا پر مغرب وجاہلیت حاضرہ کا اصل معرکہ ومقابلہ اسلام ہی سے ہے کہ دوسرے آسمانی مذاہب وادیان اپنا وقت پورا کر چکے اور منسوخ ہوچکے‘ اس لئے ان سے اصلاً مقابلہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مزید برآں دیگر مذاہب تحریف وتغیر کے عادی ہیں‘ لیکن اسلام جیسا لافانی اور جاودانی دین کسی قطع وبرید کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اس سانحہ کا سب سے اندوہناک پہلو یہ ہے کہ امت مسلمہ خود ان جاہلی علوم ونظریات کی زد میں ہے۔ اس وقت امت مرحومہ کا کوئی حصہ‘ خواہ وہ دنیا کے کسی حصہ میں بستا ہو‘ کفر والحاد‘ زندقہ ودہریت اور مادہ پرستی کی ان مسموم ہواؤں سے محفوظ نہیں (عرب وشام عراق واردن‘ ترکیہ وایران اور پاکستان وغیرہ مسلم ممالک اور ان کی حالت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں)مسلم ممالک جس طرح مغربی افکار ومعاشرت ‘ تہذیب وتمدن کا شکار ہور ہے ہیں‘ اصحاب فکر ونظر سے پوشیدہ نہیں‘ اشتراکی ممالک میں مسلمانوں کی جو حالت ہے‘ اس کا کچھ نظارہ یوگو سلاویہ میں دیکھا تھا‘ کیا کہوں:
دیدہٴ دل سے خون بہہ نکلا
ٹوٹے دیکھے ہیں چند پیمانے
غرض پورا عالم اسلام فتنہٴ مغرب سے ایک عالمگیر وہمہ گیر اور دوررس نتائج کے حامل ابتلاء میں گرفتار ہے۔ والی اللہ المشتکی:
درعجم گردیدم وہم درعرب
مصطفےٰ نایاب وارزاں بولہب
بقول حضرت سید الملة سلیمان الندوی قدس سرہ۔
”تعلیم جدید کی نئی آب وہوا نے تفرنج وفرنگی مآبی کا وہ زہر پھیلادیا ہے جس سے دین‘ عقائد واعمال کی ہر چیز پر مردنی چھاگئی ہے‘ اور جہاں دین کا کچھ خیال زندہ بھی ہے‘ شکوک وشبہات کی کثرت اور شدت نے اس پر عرصہٴ حیات تنگ کردیا ہے۔ یورپ کے تمدن اور سیاست کی نقالی ہماری اسلامی سلطنتوں کا فخر ہے۔ ہمارے دار السلطنتوں کے سامنے پیرس کے خاکے ہیں۔ ہماری خواتین کے سامنے انگلستان وفرانس کی عریانی ورنگینی وبے حجابی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی نگاہوں میں رقص وسرود اور ظاہری پوشاک ووضع وطرز ماند وبود میں فرنگی مآبی زندگی کی کامیابی کا سب سے اعلیٰ تخیل ہے۔ علم وفن پر غور کیجئے تو ہماری قدیم تعلیم اب تک یونان کی تقویم پارینہ کی پرستش میں اور تعلیم جدید یورپین ضلالت وگمراہی خیال کی عکاسی میں مصروف ہے اور سوائے تقلید ونقالی کے کوئی مجتہدانہ تصور ہمارے سامنے نہیں ہے۔ ہمارے سامنے جب اعلیٰ تمدن اور اعلیٰ سلطنت داری کا تخیل آتا ہے تو یورپ کی ایک ایک سلطنت اپنی پوری ہوش ربائی اور باطل آرائی کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتی ہے اور یہ حقیقت ہمارے سامنے سے گم ہوجاتی ہے کہ اسلام کا تصور سیاست اور تصور تمدن اور تصور علم وفن اپنا خاص ہے‘ اسی کو دوبارہ پیدا کرنا اور دنیا کے سامنے لانا ہماری قومی وملی غرض وغایت ہے“۔
بڑی مشکل یہ ہے کہ مادی سطوت وشوکت ‘ طبیعاتی دسترس‘ اس کے تہذیب وتمدن کی ظاہری رونق وچمک دمک نے امت کے کثیر تعلیم یافتہ‘ ذہین اور صاحبِ اقتدار طبقہ کو اس طرح مسحور اور از خود رفتہ کردیا ہے کہ وہ مغرب ہی کو معیارِ حق وباطل سمجھنے لگا ہے‘ اور خیر وشر‘ حسن وقبح‘ نیکی وبدی‘ جائز وناجائز کے الٰہی واسلامی احکام ونظریات سے بے پرواہ ہو کر یورپ کی تقلیدِ جامد میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔ یہ خود فراموشی اور مغرب زدگی امت کے وجود وبقا کے لئے تاریخ کا سب سے عظیم خطرہ بنتی چلی جارہی ہے۔ موجودہ عصری علوم کی تابانی نے الٰہی علوم کی حقیقت ومنزلت کم کرکے رکھ دی ہے۔ آج ہمارے فکر وادراک کی جو لانیوں‘ ہماری ذہنی وفکری کاوشوں اور قلبی اذعان وایقان کا سرمایہ واثاثہ بھی عصر نو کے علوم انسانیہ ہیں‘ جنہیں ہم نے حقائق مطلقہ اور یقینات کا درجہ دے دیا ہے اور ان پر ہمارا ایمان واعتماد اس طرح راسخ ہوچکا ہے کہ ہرعلم وخبر جو ہمارے ان مفروضہ حقائق ویقینات کے خلاف ہو ‘ ہم اس کے انکار کے درپے ہوجاتے ہیں۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: مفسر کی شرائط اور تفسیر بالرأی یتیمة البیان فی شییٴ من علوم القرآن
Flag Counter