Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۲۸ھ جولائی ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

6 - 10
رشتہ داروں کے حقوق
رشتہ داروں کے حقوق


معاشرہ کی صلاح وفلاح دراصل باہمی حقوق کی نگہداشت‘ تعلق وقرابت کی پاسداری‘ ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور احسان وبھلائی کے برتاؤ پر منحصر ہے۔ جب تک معاشرہ کے افراد باہمی حقوق کی رعایت نہیں کریں گے‘ اس وقت تک معاشرہ چین وسکون کی نعمت سے محروم اور بدامنی وباہمی نفرت کا شکار رہے گا۔ ایک گھر میں رہنے والے افراد اور ایک ہی خاندان کے اشخاص جب تک باہمی حقوق کا لحاظ نہیں رکھیں گے تو وہ گھر وخاندان خوشحالی کی زندگی سے محروم رہے گا۔ شریعت مطہرہ نے تمام بنی نوع انسان کو باہمی حسن سلوک قائم کرنے‘ بدسلوکی سے بچنے‘ اہل قرابت اور رشتہ داروں کے باہمی حقوق ادا کرنے اور قطع رحمی اور بدسلوکی سے بچنے کی تلقین اور ترغیب دی ہے‘ جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
”واتقوا اللہ الذی تساء لون بہ والارحام“ ۔ (النساء:۱)
ترجمہ:․․․”اور ڈرتے رہو اللہ سے جس کے واسطے سوال کرتے ہو آپس میں اور خبردار رہو قرابت والوں سے“۔(۱) اس آیت کے ذیل میں علامہ شبیر احمد عثمانی نے تحریر فرمایاہے:
”اہل قرابت کے ساتھ چونکہ قرب واتحاد مخصوص اور بڑھاہوا ہے‘ اس لئے ان کی بدسلوکی سے اب خاص طور پر ڈرایا گیا‘ کیونکہ ان کے حقوق دیگر افراد انسانی سے بڑھے ہوئے ہیں“۔ اسی طرح سورہٴ بنی اسرائیل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
”واٰت ذا القربیٰ حقہ والمسکین وابن السبیل ولاتبذر تبذیراً“(بنی اسرائیل:۲۶)
ترجمہ:․․․”اور قرابت دار کو (بھی) اس کا حق ادا کر اور محتاج اور مسافر کو (بھی ان کا حق اداکر) اور مال کو فضولیات میں نہ اڑا“۔(۲) مولانا عبد الماجد دریا آبادی لکھتے ہیں:
”اسلام نفس جمع مال وکسب مال کا مانع نہیں‘ البتہ پہلے تو وہ کسب مال کے لئے شرائط جائز وحلال کی قید لگاتا ہے اور پھر صرف مال کے قاعدے مقرر کرتا ہے کہ مال ودولت پر تو عزیزوں کے‘ مسکینوں کے‘ نادار اور مسافروں‘پردیسیوں کے حق قائم ہیں‘ یہ انہیں کے کام میں آنے کی چیزیں ہیں ”حقہ“ حق کا لفظ مالی وغیر مالی (یعنی اخلاقی) ہرقسم کے حقوق کو شامل ہے‘ لیکن یہاں ذکر حقوق مالی ہی کا ہورہا ہے‘ حق کے لفظ نے یہ بھی بتادیا کہ عزیزوں ‘ مسکینوں وغیرہ کی اعانت واجب ہے‘ ان کا حق ہے کہ وہ مالداروں سے اعانت طلب کریں اور مالداروں پر لازمی ہے کہ ان پر احسان رکھ کر نہیں‘ اپنا فرض سمجھ کر ان کی اعانت کریں‘ یہ معنی ہیں صحیح سوشلزم (اشتراکیت) کے۔ نہ یہ کہ ایک طرف ناداروں کو سرمایہ داروں کے خلاف بھڑکا دیا جائے اور غصہ دلایا دیا جائے اور دوسری طرف نظام سرمایہ داری مالداروں کے قلب میں قساوت پیدا کردے‘ خدمت والدین کا حکم ابھی ابھی مل چکا ہے‘ اس کے معاً بعد یہ ہدایت لانا گویا یہ کہنا ہے کہ حقوق خدمت صرف والدین تک محدود نہ رہیں‘ والدین کے بعد ہی دوسرے عزیزوں کا نمبر ہے اور پھر درجہ بدرجہ ہرتعلق اور سابقہ رکھنے والے کا“۔
اسی طرح سورہٴ روم میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
”فاٰت ذا القربیٰ حقہ والمسکین وابن السبیل ذلک خیر للذین یریدون وجہ اللہ واولئک ہم المفلحون“۔ (الروم:۳۵)
ترجمہ:․․․”سو (اے مخاطب) تو قرابت دار کو اس کا حق دیا کر اور (اسی طرح) مسکین اور مسافر کو۔ ان لوگوں کے حق میں بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے طالب رہتے ہیں اور یہی لوگ تو فلاح پانے والے ہیں“۔(۳)
مولانا عبد الماجد دریا آبادی آیت مذکورہ کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
”اسلامی نظام معاشیات میں درجہ بدرجہ عزیزوں کے اور پھر تمام دوسرے اہل حاجت کے حصے مقرر ہیں ”حقہ“ لفظ حق بہت قابل غور ہے‘ ہر صاحب جائیداد کے مال میں ان سب کا حق مقرر ہوگیا ہے‘ ان کی ادائیگی خود اپنے سود وبہبود کے لحاظ سے واجب ہے دوسروں کو دیتے رہنا ان پر کوئی احسان کرنا اور منت رکھنا نہیں ہے‘ نظام معاشیات کو ان ضوابط الٰہی کے ماتحت چلانے والے‘ انفرادی طور پر بھی فلاح یاب ہوں گے اور اجتماعی طور پر بھی ‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘ ”یریدون وجہ اللہ“ اس قید نے یہ حیثیت صاف کردی کہ خلعت قبول سے سرفرازی پانے کے لئے شرط لازمی یہ ہے کہ یہ خرچ جو کچھ بھی ہو سب رضاء الٰہی کی نیت سے ہو‘ محض جبری اور نمائشی چندے اور اسی قبیل کی دوسری چیزیں سب اس مد سے باہر ہیں ”وجہ“ کے معنی اس سیاق میں ذات کے ہوتے ہیں: ”ای ذات اللہ اعنی یقصدون بمعروفہم ایاہ خالصاً“۔
ایک اور مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
”واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئاً وبالوالدین احسانا وبذی القربیٰ والیتامیٰ والمساکین والجار ذی القربیٰ والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم ان اللہ لایحب من کان مختالا فخورا“(النساء:۳۶)
ترجمہ:․․․”اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ کرو اور حسن سلوک رکھو والدین کے ساتھ اور قرابت دارروں کے ساتھ اور یتیموں اور مسکینوں اور پاس والے پڑوسی اور دور والے پڑوسی اور ہم مجلس اور راہ گیر کے ساتھ اور جو تمہاری ملک میں ہے ان کے ساتھ‘ قطعاً اللہ ایسوں کو دوست نہیں رکھتا جو خود بین ہیں‘ فخار ہیں“۔(۴)
اسی طرح سورہٴ نحل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ان اللہ یأمر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربی وینہی عن الفحشاء والمنکر والبغی یعظکم لعلکم تذکرون“۔ (النحل:۹۰)
ترجمہ:․․․”بے شک اللہ عدل کا اور حسن سلوک کا اور اہل قرابت کو دیتے رہنے کا حکم دیتا ہے اور کھلی برائی سے اور مطلق برائی سے اور ظلم (سرکشی) سے ممانعت کرتا ہے وہ تمہیں (یہ) پند ونصیحت دیتا ہے اس لئے کہ تم نصیحت قبول کرو“۔(۵) قرآن کریم کی کئی آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا ہے‘ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا کیا مقام اور درجہ ہے اور اس کی کتنا اہمیت ہے‘ اسی صلہ رحمی کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ ا نے رشتہ داروں کے حقوق کی اہمیت کو دہرایا اور اس کے دنیوی اور اخروی فضائل و فوائد اور اس کے نقصانات سے اپنی امت کو آگاہ فرمایا ہے‘ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ا نے ارشاد فرمایا:
۱-”خلق اللہ الخلق فلما فرغ منہ قامت الرحم فاخذت بحقوی الرحمان‘ فقال: مہ؟ قالت: ہذا مقام العائذ بک من القطیعة قال: الا ترضین ان اصل من وصلک واقطع من قطعک؟ قالت:بلیٰ یا رب! قال فذاک۔ متفق علیہ“ (مشکوٰة:۴۱۹)
ترجمہ:․․․”اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان صورتوں کے ساتھ اپنے علم ازلی میں مقدر کردیا جن پر وہ پیدا ہوں گی‘ جب اس سے فارغ ہوا تو رحم یعنی رشتہ ناتا کھڑا ہوا‘ پروردگار نے فرمایا: کہہ کیا چاہتا ہے؟ رحم نے عرض کیا:یہ قطع رحمی کے خوف سے تیری پناہ کے طلبگار کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے (یعنی کہ میں تیرے رو برو کھڑا ہوں اور تیرے دامن عزت وعظمت کی طرف دست سوال دراز کئے ہوئے ہوں‘ تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتاہوں کہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامن کو جوڑنے کے بجائے اس کو تار تار کردے)پروردگار نے فرمایا: کیا تو اس پر راضی نہیں ہے جو شخص (رشتہ داری اور عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک کے ذریعہ) تجھ کو قائم وبرقرار رکھے اور اس کو میں بھی اپنے احسان وانعام اور اجر وبخشش کے ذریعہ قائم وبرقرار رکھوں اور جو شخص رشتہ داری اور حقوق کی پامالی کے ذریعہ تجھ کو منقطع کردے‘ میں بھی (اپنے احسان وانعام) کا تعلق اس سے منقطع کرلوں؟ رحم نے عرض کیا کہ: پروردگار! بیشک میں اس پر راضی ہوں‘ پرووردگار نے فرمایا: اچھا تو وعدہ تیرے لئے ثابت وبرقرار ہے“۔
۲-”عن عبد الرحمان بن عوف قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: قال اللہ تبارک وتعالی ”انا اللہ“ وانا الرحمان‘ خلقت الرحم وشققت لہا من اسمی فمن وصلہا وصلتہ ومن قطعہا بتتہ“۔ (ابوداود‘ مشکوٰة:۴۲۰)
ترجمہ:․․․”حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم اکو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بزرگ وبرتر ارشاد فرماتاہے کہ میں اللہ ہوں ‘ میں رحمان ہوں (یعنی صفت رحمت کے ساتھ متصف ہوں) میں نے رحم یعنی رشتے ناتے کو پیدا کیا ہے اور اس کے نام کو اپنے نام یعنی رحمن کے لفظ سے نکالا ہے‘ لہذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتہ ناتاکے حقوق ادا کرے گا تو میں بھی اس کو (اپنی رحمت خاص کے ساتھ) جوڑوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا یعنی رشتے ناتے کے حقوق ادا نہیں کرے گا میں بھی اس کو (اپنی رحمت خاص سے) جدا کردوں گا“۔
صلہ رحمی کے دنیوی فوائد
حدیث میں ہے:
”عن انس قال: قال رسول اللہ ا من احب ان یبسط لہ فی رزقہ وینسأ لہ فی أثر فلیصل رحمہ۔ متفق علیہ“ (مشکوٰة:۴۱۹)
ترجمہ:․․․”حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول کریم ا نے فرمایا :جو شخص چاہتاہے کہ اس کے رزق میں وسعت وفراخی اور اس کی اجل میں تاخیر کی جائے (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو اس کو چاہئے کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرے“۔ حدیث شریف کی علمی تحقیق کچھ بھی ہو‘ تاہم اتنی بات یقینی ہے کہ وسعت رزق اور درازی عمر کے جملہ اسباب میں صلہ رحمی اور رشتے ناتے کے حقوق کی ادائیگی ایک یقینی سبب ہے جس کو ادا کرکے اپنے رزق اور عمر میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
قطعی رحمی کی سزا دنیا وآخرت میں
حدیث میں ہے:
۱-”عن جبیر بن مطعم قال: قال رسول اللہ ا لایدخل الجنة قاطع متفق علیہ“ (مشکوٰة:۴۱۹)
ترجمہ:․․․”حضرت جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ رسول کریم ا نے فرمایا : قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا“۔
۲-”عن ابی بکرة قال: قال رسول اللہا ما من ذنب احریٰ ان یعجل اللہ لصاحبہ العقوبة فی الدنیا مع ما یدخرلہ فی الآخرة من البغی وقطیعة الرحم“۔ (ابوداود وترمذی ‘ مشکوٰة:۴۲۰)
ترجمہ:․․․”حضرت ابوبکرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے فرمایا : کوئی گناہ اس بات کے زیادہ لائق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی اس کی سزا دے اور (مرتکب کو) آخرت میں بھی دینے کے لئے (اس سزا) کو اٹھا رکھے‘ ہاں دوگناہ اس بات کے لائق ہیں ایک تو تعاون کرنا اور دوسرا ناتا توڑنا“۔ نصح اور خیر خواہی کے جذبہ کے تحت قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے ذخیرہ میں سے چند آیات اور احادیث مبارکہ نقل کی ہیں‘ اگر ان آیات قرآنی اور ارشادات نبوی ا پر عمل کرتے ہوئے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور باہمی حقوق کی ادائیگی صحیح طریقے پر کی جائے تو اس سے معاشرہ میں عموماً اورخاندان میں خصوصاً وہی خوشی‘ پیار اور محبت ومودت لوٹ کر واپس آسکتی ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں پائی جاتی تھی۔ وہ ایسی محبت تھی کہ آج کا مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا‘ مگر افسوس کہ اسلامی احکام سے روگردانی کرکے ہم اس محبت واخوت کو گم کر چکے ہیں‘ اس کی جگہ بغض‘ عداوت‘ انتشار اورافتراق نے لے لی ہے۔ مناسب ہوگا کہ اس مضمون کوحضرت شاہ ولی اللہ کے اس شکوے پر ختم کروں جس کو مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب مقالات احسانی کے حاشیہ میں ایک مناسبت سے نقل فرمایاہے جس میں شاہ صاحب نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کی غیر اسلامی زندگی پر تنقیدکی ہے‘ خاص طور پر رشتہ داروں کے مالی حقوق کی عدم ادائیگی کی شکایت کی ہے‘ حضرت لکھتے ہیں:
”کوئی ایسا امیر وتونگر آدمی نہیں ہے جس کے رشتہ داروں میں ایسے غریب غرباء اور نادار لوگ نہ ہوں جو مستحق ہوتے ہیں کہ انہیں کھلایا جائے اور ان کے ساتھ ہمدردی کی جائے‘ مالداروں کو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ کچھ سلوک کے مواقع مل جاتے ہیں ان کے متعلق زکوٰة کی اور حکم الٰہی کی تعمیل کی نیت کرلیا کرے‘ یہ لوگ اتنا بھی کرلیں تو ان کے لئے کافی ہوسکتی ہے“۔
شاہ صاحب کے عربی الفاظ یہ ہیں: یعنی لو انہ نوی الزکوة والعبادة لکفاہ(۶) اس ضمن میں حضرت مولانا مناظراحسن گیلانی تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: یہ ایک محدث جلیل اور فقیہ نبیل کا فتویٰ ہے‘ کاش! کچھ نہیں تو اسی نیت کی توفیق مسلمانوں کے ارباب ثروت وسرمایہ دار کو میسر آجائے‘ کیونکہ رشتہ دارروں کے ساتھ اس قسم کے حسن سلوک بہرحال عموماً لوگ کیا ہی کرتے ہیں‘ الا یہ کہ کوئی اشقی القوم واقسی القلب ہو۔ خلیفہ راشد ‘ خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطاب کا دور خلافت کیوں مثالی سمجھا جاتا ہے‘ اس لئے کہ انہوں نے ہر پیدا ہونے والے اختلاف کی جڑ کاٹ دی تھی‘ آپ نے اپنے گورنروں کو یہ حکم نامہ جاری فرمایا تھا جس کے الفاظ امام غزالی نے اپنی کتاب احیاء العلوم میں یوں نقل فرمائے ہیں:
”وروی ان عمر کتب الی عمالہ: مروا الاقارب ان یتزاوروا ولایتجاوروا وانما قال ذلک لان التجاور یورث التزاحم علی الحقوق وربما یورث الوحشة وقطیعة الرحم“۔ (۷)
ترجمہ:․․”آپ  نے اپنے عمال کو لکھا کہ اقارب (رشتہ داروں) کو حکم کریں کہ آپس میں ملاقات کیا کریں اور ایک دوسرے کے پڑوس میں نہ رہا کریں اور یہ حکم نامہ اس لئے جاری فرمایا تھا کہ ایک ساتھ رہنے سے حقوق میں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے جو بسا اوقات نفرت وقطع رحمی کا سبب بن جاتا ہے“۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے اور پوری امت مسلمہ کو احکام قرآنی اور ارشادات نبوی ا پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ اٰمین․
حوالہ جات
۱- ترجمہ شیخ الہند ۲- ترجمہ وتفسیر مولانا عبد الماجد دریا آبادی ۳-ترجمہ وتفسیر دریا آبادی
۴-ترجمہ وتفسیر مولانا دریا آبادی ۵-تمام احادیث کا ترجمہ اور وضاحت مظاہر حق سے نقل کی گئی ہے
۶-مقالات احسانی ص:۲۲۵ ۷- احیاء العلوم ج:۲‘ ص:۲۹۰)
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, جمادی الاخریٰ ۱۴۲۸ھ جولائی ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: قرآن کریم باری تعالی کے لا متناہی علوم کا خزانہ اور علماء امت کی قرآن کے متعلق کاوشیں
Flag Counter