Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۲۸ھ جولائی ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

1 - 10
شریعت کے نام پر شریعت کی مخالفت پس پردہ محر کات اور علل و اسباب
شریعت کے نام پر شریعت کی مخالفت پس پردہ محر کات اور علل و اسباب


الحمدللہ و سلام علیٰ عبادہ الذین اصطفٰی:
اکابر فرماتے ہیں کہ یوں تو شیطان کا مقابلہ کرنا کچھ مشکل نہیں‘ لیکن جب وہ خفیہ و پوشیدہ طریقہ اور نہایت خیر خواہی کے انداز سے حملہ کرتا ہے‘ یا دلائل و براہین سے مسلح ہوکر وار کرتا ہے‘ تو کسی کو پتا بھی نہیں چلنے دیتا کہ وہ خیر خواہی کے عنوان سے کس قدر بدخواہی کررہا ہے؟ دراصل انسان‘ غلط کاری‘ گناہ اور برائی سے بچنے کی اس وقت سعی و کوشش کرتا ہے‘ جب وہ غلط کاری کو غلط‘ گناہ کو گناہ اور بُرائی کو برائی سمجھے‘ اگر اس کے دل و دماغ میں یہ بیٹھ جائے یا بٹھادیا جائے کہ تم جو کچھ کررہے ہو‘ یہ غلط کاری گناہ اور بُرائی نہیں‘ بلکہ عین اچھائی‘ عبادت‘ نیکی اور ثواب ہے‘ تو وہ اس کو کبھی نہیں چھوڑتا‘ بلکہ وہ اپنی اس مزعومہ ”نیکی“ اور ”عبادت“ پر مرمٹنے اور کٹنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے‘ چنانچہ جو لوگ دین کے نام پر بے دینی‘ بدعات‘ رسومات اور ہوا و ہوس کو اپنالیتے ہیں‘ وہ اسی شیطانی سازش کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی بھر دین کے نام پر اس بے دینی پر مضبوطی سے جمے رہتے ہیں‘ یہاں تک کہ ان کی زندگی کا چراغ گل ہوجاتا ہے‘ مگر ان کو اس سے توبہ و انابت کی توفیق نہیں ہوتی۔ ٹھیک اسی طرح شیطان کے جانشینوں نے بھی شروع دن سے اس روش کو اپنا یا ہوا ہے کہ وہ بھی مسلمانوں کو براہ راست کسی غلط کاری اور غلط طرز عمل پر لانے کی بجائے نہایت عیاری و ہوشیاری سے بے دینی کو دین کا رنگ دے کر مسلمانوں کو اس لائن پر لگا دیتے ہیں‘ پھر بھولے بھالے مسلمان اپنے تئیں اس کو دین سمجھ کر نہایت خلوص و اخلاص سے اس پر ڈٹ جاتے ہیں ا ور اس بے دینی کی پگڈنڈی پر سرپٹ دوڑنا شروع کردیتے ہیں‘ بلکہ اپنی مزعومہ اچھائی اور نیکی کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو پاؤں کی ٹھوکر سے اڑاتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ حالانکہ ان کا ہر قدم منزل سے دوری کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے‘ مگر ان کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ جس طرح شیطان ایسے لوگوں کی حماقت و جہالت پر بغلیں بجاتا ہے‘ ٹھیک اسی طرح شیطان کے جانشین بھی ان کے اس بھولپن پر شادیانے بجاتے ہیں اور دور بیٹھ کر اپنی حکمت عملی کی کامیابی پر جشن مناتے ہیں‘ دوسری طرف بے چارے سیدھے سادے مسلمانوں کو کہیں دور دور تک اس کا شبہ اور وسوسہ نہیں گزرتا کہ ہم اور ہماری صلاحیتیں کس کے لئے استعمال ہورہی ہیں؟ دیکھا جائے تو دنیا جہان کی خفیہ ایجنسیاں‘ مغربی لابیاں اور داعیان کفر اپنے مخصوص مقاصد و عزائم کی تکمیل کے لئے اسی طریقہ کار کو اپناکر اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ تاریخ کی ورق گردانی کیجئے! تو واضح طور پر معلوم ہوگا کہ باطل کے خلاف جدوجہد اور دینی تحریکات کی ناکامی‘ لادینیت و لامذہبیت کا عروج و فروغ‘ مسلم زعماء کے آپس کے اختلافات‘ سیاسی‘ مذہبی نزاعات‘ فروعی مسائل میں جنگ و جدل‘ نئی نئی جماعتوں اور تنظیموں کا وجود‘ اسلافِ امت سے بے زاری‘ اکابر سے بداعتمادی‘ نئی نئی تحقیقات‘ نت نئے فرقے‘ تخرب‘ تخالف‘ تشدد‘ فرقہ واریت اور ہر ایک فرقہ اور جماعت میں تعصب‘ تشدد اور عدم برداشت وغیرہ سب اسی کا شاخسانہ ہے۔ مگر ہائے افسوس! کہ کسی کو معلوم نہیں کہ ہماری سوچ و فکر پر کس کا قبضہ ہے؟ اور ہم کس کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں؟ کس کے مقاصد کی تکمیل کررہے ہیں؟ یا ہم کس کے لئے استعمال ہورہے ہیں؟ اس لئے کہ شیطانِ مغرب نے… الا ماشاء اللہ… ہر ایک کو یہ باور کرارکھا ہے کہ آپ جو کچھ کررہے ہیں‘ یہی حق و صواب‘ دین و دیانت اور مذہب و شریعت ہے‘ اور اسی میں دنیا و آخرت کی فوز و فلاح اور کامیابی و کامرانی ہے۔ چنانچہ ایک شخص یا جماعت اٹھتی ہے‘ وہ دعویٰ اسلام کے ساتھ کھلے عام اسلامی احکام و ارکان پر ہدف و تنقید کے نشتر برساتی ہے‘ کوئی کھل کر قانون شریعت کی مخالفت کرتا ہے‘ ارکانِ اسلام سے تمسخر و استہزأ کا معاملہ کرتا ہے اور کھلے عام محرمات شرعیہ کے جواز کا فتویٰ صادر کرتا ہے‘ اور جو خوش قسمت اس کی راہ روکنے کی سعی و کوشش کرتا ہے‘ یا ان کو اس غلط فہمی سے نکالنے کی تدبیر کرتا ہے‘ اس کو بدفہم‘ جاہل اور علمأ سوٴ وغیرہ ایسے ”معزز“ القابات سے نوازا جاتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ اس بے دینی کو‘ نعوذباللہ! دین کہا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں‘ بلکہ اپنی سوچ اور موقف کو اہل حق کی سوچ اور موقف اور اپنے علاوہ دوسرے تمام افراد‘ جماعتوں‘ تنظیموں‘ علمأ‘ صلحأ اور اہل تحقیق کی سوچ اور موقف کو ناحق‘ باطل اور فاسد تصور کیا جاتا ہے۔
…………………………………
میں جو کچھ عرض کررہا ہوں‘ یہ کوئی مفروضہ اور دیومالائی داستان نہیں‘ بلکہ ایک تلخ حقیقت اور امرِواقعہ ہے‘ جس کا ہر مسلمان روزمرہ مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کچھ حضرات تجاہل عارفانہ کے طور پر اس سے صرف نظر کرلیتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ کچھ ایسے بھی ہوں‘ جن کو واقعی اس کا احساس نہ ہو‘ یا انہوں نے کبھی سنجیدگی سے اس پر نہ سوچا ہو‘ یا اس کی طرف سرے سے توجہ ہی نہ کی ہو۔ الغرض اس حقیقت کے ادراک کے لئے کسی لمبی چوڑی تحقیق یا کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں‘ بلکہ اپنے گردوپیش میں نظر دوڑانے اور اپنے ماحول کا جائزہ لینے پر اس کی بے شمار مثالیں مل جاتی ہیں‘ مثلاً: دین کے نام پر بے دینی‘ شریعت کے نام پر جہالت‘ اسلام کے نام پر کفر‘ مذہب کے نام پر لامذہبیت‘ انصاف کے نام پر ناانصافی‘ غیرت کے نام پر بے غیرتی‘ شرافت کے نام پر بدمعاشی‘ امن کے نام پر بدامنی‘ عفو و درگزر کے نام پر انتقام‘ عدم تشدد کے نام پر تشدد اور شعائر اسلام کے نام پر علاماتِ کفر کو پروان چڑھایا جاتا ہے‘ اس پر لاکھوں نہیں کروڑوں اور اربوں کا سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے‘ اس کے لئے بڑے بڑے بینر‘ پوسٹر‘ اشتہارات‘ ہینڈبل‘ پمفلٹ اور اسٹیکر چھاپے‘ لگائے اور تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان نام نہاد ”دینی اور شرعی“ مقاصد کے لئے لوگوں کو جبراً قہراً اکٹھا کیا جاتا ہے‘ بسیں‘ ویگنیں‘ ٹرک اور کاریں بزور قوت مہیا کی جاتی ہیں‘ اس کے لئے جلسے‘ جلوس‘ ریلیاں اور مظاہرے کئے جاتے ہیں اور ضرورت محسوس ہو تو اس کے لئے دھرنے بھی دیئے جاتے ہیں‘ جس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ بزورِ قوت و طاقت ہمارے موقف کو صحیح کہا اور ماناجائے۔ بلاشبہ ایسا کرنے اور کہنے والے کسی غلط فہمی کی بنا پر ایسا نہیں کرتے‘ بلکہ وہ اپنے تئیں علی وجہ البصیرت اس کو صحیح‘ صواب‘ حق اور سچ جان کر کرتے اور کہتے ہیں‘ کیونکہ وہ اپنے آپ کو دلائل کی قوت اور جذبات کے تلاطم سے مجبور پاتے ہیں ‘ رہی یہ بات کہ وہ کون سے اور کیسے دلائل‘ براہین اور جذبات ہوتے ہیں؟ واقعی‘ دینی اور شرعی؟ یا نفسانی‘ شہوانی اور شیطانی؟ بلاشبہ اگر معمولی سا غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یہ سب کچھ کسی دینی شرعی اور فطری احساس و جذبہ کی وجہ سے نہیں‘ بلکہ نفسانی‘ شہوانی اور شیطانی تسویل و تزویر کی بدولت ہوتا ہے‘ اس لئے کہ کوئی مسلمان قصد و ارادہ سے ایسی جرأت نہیں کرسکتا کہ منصوصات شرعی کے مقابلہ میں سینہ تان کر آجائے! اور اللہ کے رسول کے مقابلہ میں دنیا کے دو ٹکے کے حکمرانوں اور قرآن و سنت کے مقابلہ میں جہالت کے پجاریوں کی سوچ و فکر کو ترجیح دے!! یا وہ ازلی ابدی فطری قوانین اور قرآن و سنت کے مقابلہ میں شہوت پرستوں کے بدبودار اصول و قوانین کو اپنالے۔ اس لئے بلاخوف و تردید کہا جاسکتا ہے کہ ایسے ”مسکینوں“ کو حقیقت حال کا علم ہی نہیں‘ جب ہی تو وہ اغیار کے اشارہ ابروئے چشم پر ناچتے ہیں‘ اس کے علاوہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ان میں سے چند مہرے ایسے ہوں جن کو حقیقت حال کا علم ہو‘ مگر بایں ہمہ وہ اغیار کی خوشنودی اور اپنے چند ٹکوں کے مفادات کے لئے یہ سب کچھ کررہے ہوں‘ لیکن بہرحال مسلم عوام اور مخلص کارکنان کو قطعاً اس کا علم نہیں‘ کہ انہیں کون‘ کن مقاصد کے لئے اور کس کے لئے استعمال کررہا ہے؟ اس لئے ۹۹ فیصد کارکن محض دین کے نام پر بے دینی کے لئے جان‘ مال اور وقت کی قربانی دیتے ہیں۔ لہٰذا دنیا بھر کی دینی تحریکات کی مخالفت کرنے والے کارکنوں کی شدت پسندی‘ جذباتیت اور انتھک سعی و کوشش کے پس پردہ بھی یہی محرکات ہیں‘ اس لئے کہ کسی بھی مقصد کے لئے دیرپا جدوجہد اور صبرآزما حالات کا مقابلہ وہی کرسکتا ہے‘ جو واقعی اس کو حق و سچ جانتا ہو اور اس کو اپنے ضمیر کی آواز سمجھتا ہو‘ کسی کے کہنے یا کرایہ پر کام کرنے والے اسقدر مشکلات میں زیادہ دیر تک میدان میں کھڑے نہیں رہ سکتے۔ اس لئے بجاطور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان بیچارے سیدھے سادے کارکنوں کی تربیت ہی اس طرح کی گئی ہے کہ وہ دین کی جگہ بے دینی‘ مذہب کی جگہ لامذہبیت اور اسلام کی جگہ کفر ہی کو حق‘ سچ اور اصل جانتے اور مانتے ہیں‘ اس لئے ان کی نگاہ میں اسلام کی نہیں ان اعیان کفر کی اہمیت ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ان کو اسلام اور پیغمبر اسلام کی توہین و تنقیص پر اتنا غصہ نہیں آتا جتنا کہ انہیں اپنے ان اعیان و اکابر کی بے اکرامی پر آتا ہے۔ الغرض ایسے افراد اور جماعتوں کی سوچ کے پیچھے شیطان اور ان کے جانشینوں کی فکر و سوچ‘ نفس پرستی اور شہوت رانی کے جذبات مضمر ہیں‘ جو انہیں کبھی حدود اللہ کے خلاف صف آراء کرتے ہیں‘ تو کبھی شریعت بل سے لڑانے پر‘ کبھی منکرات کی روک تھام اور نفاذ شریعت کے مطالبہ کے خلاف آماد ہ بغاوت کرتے ہیں‘ تو کبھی قانون حدود اللہ کو کالا قانون‘ اور جبر و تشدد کا قانون کہلانے پر‘ کبھی قانون توہین رسالت کو بنیادی انسانی حقوق کے منافی کہلایا جاتا ہے‘ تو کبھی زنا کاری‘ بدکاری اور ہم جنس پرستی کے حق میں نعرے لگوائے جاتے ہیں‘ کبھی قرآن و سنت پر مبنی شرعی قوانین کو تنگ نظری اور شدت پسندی ایسے ناپاک الفاظ سے یاد کرایا جاتا ہے‘ تو کبھی علماء حق کے خون سے ان کے ہاتھ رنگین کرائے جاتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ یہ سب شیطانی فکر و سوچ ہے جس کو اس کے جانشین روز اول سے پروان چڑھارہے ہیں اور دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم دانستہ و نادانستہ طور پر اس کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔ کم از کم مسلمانوں کی حد تک تو یقین ہے کہ اگر ان کو صحیح صورت حال کا ادراک ہوجائے اور اس غلیظ پروگرام کے بھیانک عواقب و نتائج کا انہیں احساس ہوجائے تو وہ ایک لمحہ کے لئے بھی شیطان اور شیطان کے نمائندوں کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہ ہوں‘ وہ جان دینا اور گردن کٹوانا تو گوارا کرلیں گے مگر شیطانی منصوبہ سازوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملائیں گے‘ یہ دوسری بات ہے کہ جن لوگوں کی فطرت ہی مسخ ہوچکی ہو یا وہ ایمان و ایقان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں‘ عین ممکن ہے کہ وہ صحیح صورت حال معلوم ہونے کے باوجود بھی اس سے باز نہ آئیں۔
……………………………
یہاں ایک اشکال ہوتا ہے کہ کیا دنیا جہاں میں یہ سارے کام ایجنسیاں ہی کرتی ہیں؟ کیا ہر جگہ ایسی ایجنسیاں موجود ہیں؟ چلئے! ایک لمحہ کے لئے مان بھی لیا جائے کہ یہ سارے کام ایجنسیاں کرواتی ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ کسی انسان کو اس کے ضمیر کے خلاف آمادہ کرسکتی ہیں؟ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ جی ہاں! ہر جگہ ایسی ایجنسیاں مختلف شکلوں میں موجود ہیں‘ رہی یہ بات کہ وہ ایجنسیاں لوگوں کو کس طرح استعمال کرتی ہیں؟ اور ان کا طریقہ کار کس قدر مربوط و منظم ہوتا ہے؟ اور وہ لوگوں کو ان کے ضمیر کے خلاف اپنے مقاصد کے لئے کیسے استعمال کرتی ہیں؟ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے روزنامہ ”جناح“ لاہور کے کالم نگار جناب ملک ریاض حسین کے کالم ”حقیقت“ میں شائع شدہ مضمون ”یہ سب سازش ہے“ کا ایک اقتباس یہاں نقل کردیا جائے‘ اُسے پڑھئے! اور بتلایئے کہ ایجنسیاں لوگوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں یا نہیں؟ اور کرتی ہیں تو کس انداز سے؟ چنانچہ ملک ریاض حسین لکھتے ہیں:
”میں پچھلے دنوں امریکا گیا‘ نیویارک میں میری ملاقات ایک پاکستانی امریکن سے ہوئی‘ اس نوجوان کا تعلق لاہور سے تھا‘ وہ دس سال پہلے روزگار کے سلسلے میں امریکا آیا تھا‘ امریکا میں اس نے دوسرے پاکستانیوں کی طرح بے تحاشا محنت کی اور وہ آہستہ آہستہ خوشحال ہوگیا‘ نیوجرسی شہر میں اس کے دو گیس اسٹیشن تھے‘ وہ اچھی زندگی گزار رہا تھا‘ یہ نوجوان جب میرے پاس آیا تو بہت پریشان تھا‘ اس کو کسی نے اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا تھا کہ میرے بعض دوست صدر بش کی کابینہ میں اہم عہدوں پر فائز ہیں اور اگر میں چاہوں تو اس کے کچھ مسائل حل کرسکتا ہوں‘ اس کا کہنا تھا وہ مجھ سے ہیلپ چاہتا ہے‘ میں نے ہنس کر اس سے کہا اگر تمہارے معاملات پاکستانی حکومت تک ہوتے تو شاید میں تمہاری کچھ مدد کرسکتا لیکن میں امریکا میں صرف چند لوگوں سے شناساہوں اور وہ بھی پاکستانی ہیں‘ ان میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جس کی صدر بش تک پہنچ ہو‘ جب وہ مجھ سے پوری طرح مایوس ہوگیا تو اس نے مجھے سلام کیا اور اجازت چاہی‘ میں نے برسبیل تذکرہ اس سے پوچھا ”تمہارا مسئلہ کیا ہے“ اس کے بعد اس نے ایک طویل اور دکھی کہانی سنائی۔ اس نے بتایا وہ جب امریکا پہنچا تو اس نے نیو یارک میں ٹیکسی چلانا شروع کی‘ اس دوران اس کا رابطہ چند پاکستانیوں سے ہوا جو جعلی کریڈٹ کارڈوں کا کام کرتے تھے‘ ان پاکستانیوں نے اسے سبز باغ دکھائے اور اسے پیشکش کی اگر وہ ایک کریڈٹ کارڈ فروخت کرے گا تو اسے کارڈ کی مالیت کا پچیس فیصد ملے گا‘ یہ ایک اچھی خاصی پیشکش تھی وہ ایک ہزار ڈالرز کا کریڈٹ کارڈ فروخت کرتا تو اسے دو سو پچاس ڈالرز ملتے‘ اس نے جب اس کاروبار کا تجزیہ کیا تو اسے محسوس ہوا وہ روزانہ آٹھ سے دس کارڈ بیچ سکتا ہے اور روزانہ دو سے ڈھائی ہزار ڈالرز کماسکتا ہے‘ اس نے یہ کاروبار شروع کردیا‘ اس کاروبار سے اس نے لاکھوں ڈالرز کمائے بعدازاں اس نے اس رقم سے نیوجرسی میں دو تین مکانات اور ایک گیس اسٹیشن خرید لیا‘ وہ ٹیکسی ڈرائیور سے بزنس مین بن گیا‘ گو اسے زندگی کے اس دور میں جعلی کریڈٹ کارڈوں کے کاروبار کی ضرورت نہ تھی لیکن وہ انسانی فطرت سے مجبور تھا‘ جب انسان لالچ میں مبتلا ہوتا ہے تو اس لالچ میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے‘ ایک چور اگر دو ہزار روپے کی چوری کرتا ہے تو وہ کبھی نہ کبھی دو کروڑ روپے کا داؤ بھی لگاتا ہے‘ یہ پاکستانی بھی خوشحال ہونے کے باوجود جعلی کارڈوں کا دھندا مسلسل کرتا رہا‘ نائن الیون کے بعد جب امریکا میں پاکستانیوں کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو ایف بی آئی نے جعلی کریڈٹ کارڈ بنانے والا نیٹ ورک پکڑ لیا‘ تحقیقات کا دائرہ پھیلتے پھیلتے اس نوجوان تک پہنچ گیا‘ ایف بی آئی نے اسے گرفتار کرکے سیف ہاؤس میں پھینک دیا‘ وہ چار ماہ تک وہاں رہا‘ ایک دن ایک سارجنٹ اس سے ملنے آیا اور پیشکش کی کہ اگر وہ بعض معاملات میں ان کی مدد کرے تو یہ لوگ اسے رہا کرسکتے ہیں‘ نوجوان نے حامی بھرلی‘ اگلے دن ایف بی آئی نے اس سے سفید کاغذوں پر دستخط کرائے اور رہا کردیا‘ سیف ہاؤس سے باہر جانے سے پہلے اس نے ایف بی آئی کے افسروں سے اس کام کے بارے میں پوچھا جس کے بارے میں اس سے بات کی تھی‘ سارجنٹ نے کہا تم گھر چلے جاؤ جب ہمیں ضرورت ہوگی کام بتادیں گے‘ ایک مہینے تک ایف بی آئی کے کسی شخص نے اس سے کوئی رابطہ نہ کیا‘ لیکن ایک صبح اسے ایک فون کال موصول ہوئی اور اسے نیویارک ڈاؤن ٹاؤن کے ایک ریستوران میں بلایا گیا‘ یہ نوجوان وہاں پہنچ گیا‘ اس سے ایک عجیب و غریب کام لیا گیا‘ ایف بی آئی نے اسے نیویارک کی چند مساجد کے نام دیئے اور اس سے کہا :ان مساجد میں فلاں فلاں مسلمان لوگ نماز پڑھنے کے لئے آتے ہیں تم ان لوگوں کو جہاد پر ابھارو اور انہیں تیار کرو‘ وہ اسلحہ خریدیں اور امریکا کی بعض جگہوں پر حملہ کردیں‘ اس نوجوان کے لئے یہ کام بہت عجیب اور پریشان کن تھا‘ اس کا کہنا تھا : اسے اس وقت یہ سمجھ نہ آئی کہ اس سے ایسا کام کیوں لیا جارہا ہے‘ جو امریکا کے لئے انتہائی خطرناک ہے‘ لیکن اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا‘ لہٰذا وہ چپ چاپ اس کام میں جت گیا‘ اس نے ایف بی آئی کی مطلوبہ مساجد میں نمازیں پڑھنا شروع کردیں اور آہستہ آہستہ ان لوگوں تک پہنچ گیا جنہیں ایف بی آئی نے ٹارگٹ کیا تھا‘ وہ ان کی گفتگو اور محفلوں میں شریک ہوتا اور انہیں جہاد کی ترغیب دیتا‘ وہ لوگ اس کی باتوں میں آگئے‘ یہ پاکستانی نوجوان ان ساری سرگرمیوں سے ایف بی آئی کو مطلع کرتا رہا‘ ایف بی آئی نے اسے اسلحہ ڈیلروں کے ایڈریس دیئے اور اس کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ان مسلمان ”مجاہدین“ کو ان اسلحہ ڈیلروں تک لے جائے‘ ایف بی آئی نے اسلحہ خریدنے کے لئے ڈالر بھی خود دیئے‘ اس نوجوان نے دونوں پارٹیوں کی ملاقات کا بندوبست کیا اور انہوں نے چالیس لاکھ بیس ہزار ڈالرز میں انتہائی خطرناک اسلحے کا سودا کرلیا‘ نوجوان ”مجاہدین“ کے ذریعے ہی رقم اسلحہ ڈیلر کے حوالے کرائی اور اس کے نتیجے میں اسلحہ ڈیلروں نے ان لوگوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا وعدہ کرلیا‘ دن اور وقت طے کرلیا گیا‘ اس پاکستانی نوجوان نے ایف بی آئی کو مقررہ وقت اور جگہ کے بارے میں بتادیا‘ یہ نوجوان ”مجاہدین“ کو لے کر مقررہ وقت پر وہاں پہنچ گیا‘ جس وقت اسلحہ ”مجاہدین“ کے حوالے کیا جارہا تھا عین اس وقت ایف بی آئی نے چھاپہ مارا اور ان کو گرفتار کرلیا‘ اگلے دن اس نوجوان کو رہا کردیا گیا‘ جبکہ ”مجاہدین“ کو امریکی انتظامیہ نے حراست میں لے لیا‘ اسلحہ کی اس ڈیلنگ کی خبر پوری دنیا کے میڈیا پر ہائی لائٹ ہوئی‘ اس کے بعد امریکی انتظامیہ نے ان لوگوں کے خلاف مقدمے درج کئے اور سماعت شروع ہوگئی‘ یہ سارا واقعہ سنانے کے بعد اس نوجوان نے کہا: میں بُری طرح ایف بی آئی کے شکنجے میں پھنس چکا ہوں‘ میں اپنے بچوں کے ساتھ پاکستان نہیں جاسکتا‘ میری ایک ایک حرکت کی نگرانی کی جاتی ہے‘ میرے ٹیلی فون ٹیپ کئے جاتے ہیں اور میرے اکاؤنٹ کی ساری تفصیل ایف بی آئی کے پاس ہے‘ میں دوہرے عذاب کا شکار ہوں‘ اگر میں ایف بی آئی کی بات نہیں مانتا تو یہ لوگ کسی دن مجھے دہشت گرد ڈکلیئر کریں گے اور گرفتار کرکے کسی اندھی جیل میں پھینک دیں گے‘ دوسری طرف ”مجاہدین“ میرے بارے میں مشکوک ہوجاتے ہیں تو یہ لوگ مجھے اور میرے خاندان کو قتل کردیں گے‘ اگر یہ دونوں خدشات غلط بھی ثابت ہوں تو بھی میں اپنے ضمیر کا قیدی بن چکا ہوں‘ میرا ضمیر مجھے ہر وقت ملامت کرتا رہتا ہے کہ میں نے یہودیوں کا آلہ کار بن کر معصوم مسلمانوں کو پریشان کیا ہے۔ میں اس کی تفصیل سن کر پریشان ہوگیا‘ میں نے اسے تسلی دی اور دروازے تک چھوڑ کر واپس آگیا‘ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں جب بھی اخبا رمیں دہشت گردوں کی گرفتاری کا واقعہ پڑھتا ہوں تو مجھے وہ نوجوان اور اس کی داستان یاد آجاتی ہے‘ مجھے محسوس ہوتا ہے یہ سارا ٹوپی ڈرامہ ہے اور امریکا کے کچھ لوگ اس قسم کے ڈراموں سے اسلامی دنیا کو بدنام کررہے ہیں‘ یہ لوگ شاید اس قسم کے واقعات کی مدد سے اسلامی دنیا کے خلاف کوئی بڑا آپریشن کرنا چاہتے ہیں…“
(روزنامہ ”جناح“ لاہور ۱۱/ اگست ۲۰۰۶ء) دراصل معاندین اسلام اور اسلام دشمنوں کی کئی اقسام ہیں:
۱:۔ ایک تو وہ ہیں جو قلباً‘ قالباً اور پیدائشی اسلام دشمن تھے اور ہیں جیسے یہود‘ نصاریٰ‘ کفار‘ مشرکین اور ان کے ہم نوا۔
۲:… دوسرے وہ ہیں جو بنیادی اور تخلیقی طور پر تو کافر و مشرک اور اسلام دشمن نہ تھے‘ مگر اغراض و مقاصد کے پیش نظر وہ ایسے افراد و اقوام کے ساتھ وابستہ ہوگئے‘ جو اسلام دشمن تھے‘ یوں وہ بھی انہی کے رنگ میں رنگ گئے‘ جیسے مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ۔
پھر ایسے لوگ جو بنیادی اور تخلیقی طور پر کافر و مشرک اور اسلام دشمن نہ تھے‘ مگر اغراض و مقاصد کے تحت اسلام دشمنوں کے ساتھ وابستہ ہوگئے‘ ان کی بھی دو قسمیں ہیں:
الف:… ان میں سے ایک گروہ تو ایسا ہے جو اسلام دشمنی میں اس قدر آگے نکل گیا‘ کہ دین و ایمان کی سرحد کو پار کرکے دائرہٴ کفر میں داخل ہوگیا اور وہ کھلے عام اپنے آپ کو اسلام دشمن کہنے اور لکھنے لگا ۔
ب:… دوسرا گروہ وہ ہے جو حالات و اغراض کے تحت اسلام دشمنوں میں شامل ہوجانے کے باوجود بھی اپنے آپ کو حقیقی مسلمان‘ اسلام دوست اور اعتدال پسند مسلمان باور کراتا ہے‘ بلاشبہ اسلام دشمن خواہ کسی بھی قسم کے ہوں خطرناک ہیں‘ مگر ان میں سب سے زیادہ نقصان دہ اور خطرناک موخر الذکر گروہ‘ عناصر اور افراد ہیں‘ جو اسلام دشمن ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو حقیقی مسلمان‘ اسلام دوست اور اعتدال پسند مسلمان باور کراتے ہیں اور اپنی اسلام دشمنی کے زہر کو اسلام دوستی کے شہد میں ملا کر مسلمانوں کے دین و ایمان کو تباہ و برباد کرنے میں مصروف ہیں‘ بلاشبہ اسلام اور مسلمانوں کو ایسے افراد و عناصر سے جس قدر نقصان پہنچا ہے شاید ہی کسی دوسرے دشمن اسلام سے ایسا نقصان پہنچا ہو‘ جو لوگ اسلام کا نام لے کر اسلام کی اور شریعت کا نام لے کر شریعت کی اور دین و مذہب کا نام لے کر دین و مذہب کی مخالفت کرتے ہیں‘ وہ آستین کے سانپ ہیں‘ اور یہی وہ لوگ ہیں جو شیطان کے آلہ کار اور امریکا‘ برطانیہ اور دوسری لادین قوتوں کے ایجنٹ ہیں‘ جو اپنے آقاؤں کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے سرگرم ہیں اور دین و مذہب کے نام پر دین و مذہب کی بنیادیں کھوکھلی کررہے ہیں‘ مسلمانوں کو ایسے دشمنانِ دین کی دسیسہ کاریوں اور ریشہ دوانیوں سے ہوشیار رہنا چاہئے۔
صلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیرخلقہ محمدوعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, جمادی الاخریٰ ۱۴۲۸ھ جولائی ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 
Flag Counter