Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام۱۴۲۸ھ فروری۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

4 - 9
سرمہ - سنتِ نبوی
سرمہ - سنتِ نبوی


الحمد لله الذی خلق النساء والرجال، واختار لعبدہ الدین الکامل والکمال، وصلی الله علٰی نبیّہ ھو صاحب الجمال، فی سننہ أھم السنة الاکتحال، أما بعد!
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولاتِ مبارکہ میں ایک اہم معمول سرمہ کے استعمال کا تھا، بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات سرمہ لگاتے تھے، حتیٰ کہ سفر میں جو چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتی تھیں، ان میں بھی سرمہ دانی کا تذکرہ ہے، اس سے اس سنت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مگر آج یہ سنت، اُمت سے ایسی متروک ہے کہ دین دار سمجھے جانے والے طبقے میں بھی خال خال ہی اس پر عمل کرنے والے دیکھے گئے۔ اس وقت اُمت کا ایک معتد بہ طبقہ جدید سائنس کی تحقیق پر فریفتہ ہے، اہلِ سائنس کسی بات میں نفع بتلادیں تو آنکھیں بند کرکے اس پر عمل شروع۔ عجیب بات یہ ہے کہ سرمہ کے دنیوی فوائد بھی جدید سائنس کی نظر میں مُسلَّم ہیں، اس کے باوجود بھی سرمہ کا رواج عام نہیں۔ اس لئے خیال آیا کہ سرمہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے ساتھ ساتھ جدید سائنس کے بتلائے ہوئے فوائد بھی مضمون میں جمع کردوں۔ الحمدللہ! اس مضمون میں سرمہ کے متعلق روایات، اس کے دُنیوی فوائد، اثمد کی تحقیق، سرمہ کے استعمال کا طریقہ، اس کا وقت وغیرہ اُمور کے متعلق تفصیلی بحث کتابوں کے حوالوں کے ساتھ کی گئی ہے۔ مضمون کے آخر میں ایک موضوع روایت کی نشاندہی بھی کردی گئی ہے جو اثمد کے متعلق ہے، اسی طرح مردوں کے لئے بہ قصد زینت سرمہ کا استعمال فقہاء کے نزدیک کیسا ہے؟ اس کا خلاصہ بھی درج کردیا گیا۔ حق تعالیٰ اس خدمت کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور راقم و ناظرین کے لئے مفید و نافع بنائے، آمین!
آنکھ نعمتِ عظمیٰ
آنکھ، حق تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی وقعت و عظمت نہ زبان بول سکتی ہے، نہ قلم لکھ سکتا ہے۔ یقینا اس نعمتِ عظمیٰ کی قدر انہیں کو ہوسکتی ہے جو اپنی قوّتِ بصارت کھوچکے ہیں یا پیدائش ہی سے دولتِ بینائی سے محروم ہیں۔ انسانوں پر ضروری ہے کہ اس نعمت پر شکر کے ساتھ اس کی حفاظت کا پورا اہتمام کریں، اور جو اسباب و وسائل شرعی حدود میں اختیار کئے جاسکتے ہوں، انہیں ضرور اپنائیں۔
سرمہ حفاظتِ نظر کا ذریعہ
حفاظتِ بصر کا ایک بڑا ذریعہ سرمہ کا استعمال ہے، اہلِ علم نے لکھا ہے کہ سرمہ آنکھوں کی حفاظت کا ضامن ہے، نورِ نظر کے لئے تقویت ہے اور اس کے لئے جلاء ہے، وہ مادّہٴ ردیہ کو کم کرتا ہے اور اس کو باہر نکال پھینکتا ہے، اس کے ساتھ ہی آنکھوں کو زینت بخشتا ہے۔ (طبِ نبوی، اُردو ص:۵۲۷) سرمہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اس لئے اُمت پر صرف سنت کے ناتے ہی یہ حق ہے کہ وہ اسے اپنائے، ساتھ ہی ساتھ اس میں دُنیوی فوائد بھی بے شمار ہیں۔
سرمہ کے دُنیوی فوائد جدید سائنس کی نظر میں
اطباء و حکماء نے جدید سائنس کی روشنی میں سرمہ کے درج ذیل فوائد بتلائے ہیں:
۱:… سرمہ اعلیٰ درجے کا دافع تعفن (یعنی اینٹی سیپٹک Anti Septic) ہے۔
۲:… جدید تحقیق کے مطابق جب آنکھوں میں سرمہ لگایا جاتا ہے تو سورج کی تیز شعائیں (الٹراوائلٹ) آنکھوں کی پتلی (Retina) کو نقصان نہیں پہنچاسکتیں، اس کے برعکس الٹراوائلٹ شعائیں ان آنکھوں کی پتلیوں کو نقصان پہنچاسکتی ہیں جن میں سرمہ نہ ہو۔
۳:… سرمہ سے آنکھوں کے اُوپر پھنسی (لیڈ انفیکشن Lead Infection) اور ککرے بالکل نہیں ہوتے۔
۴:… آشوبِ چشم (آنکھ دُکھنا) کے مریض کے لئے سرمہ بہت مفید ہے، حتیٰ کہ جو سرمہ مستقل استعمال کرتا ہے، اسے آشوبِ چشم کا مرض کم ہوگا۔
۵:… ماہرینِ امراض چشم کے مطابق سرمہ آنکھوں کے ان امراض سے بچاتا ہے جن کا جدید سائنس میں علاج ناممکن ہے۔
۶:… آنکھوں کے زخم، خراش اور سوزش کے لئے سرمہ بہت مفید ہے، یہ ہر قسم کے چھوتی جراثیم (Contagius Germs) کو ختم کردیتا ہے۔
موجودہ یورپ اور سرمہ
اہلِ سائنس کے تحقیق کردہ ان دُنیوی منافع و فوائد کے باوجود موجودہ یورپی تمدن (اور جدید تعلیم یافتہ مسلمان جو یورپ کی تقلید میں کامیابی پر یقین جمائے بیٹھے ہیں) میں سرمہ لگانے کا رواج کم ہے۔ قدرت کی عطا کردہ قوّتِ بینائی میں اگر کمی واقع ہوجائے تو اسے مصنوعی ذرائع یعنی چشمہ بلوری کے استعمال سے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر سہل، کم خرچ اور مفید طریق اختیار نہیں کیا جاتا۔
دُنیا میں نابیناؤں کی تعداد
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسکو کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ دُنیا میں اَسّی لاکھ نابینا ہیں، اور ان میں سے اَسّی فیصد ایشیا اور افریقہ میں پائے جاتے ہیں، حفاظتِ بصارت سے لاپروائی بھی ان دونوں براعظموں میں بہت زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ (سنتِ نبوی اور جدید سائنس، ص:۴۳۶)
ایک اہم گزارش
ان دُنیوی فوائد کے بعد احادیثِ نبویہ پڑھئے، چونکہ ہمارا اصل مقصود اتباعِ نبوی ہے نہ کہ اتباعِ سائنس، اور آخرت کا اَجر بھی اتباعِ سنت پر ہے۔ یہ مختصر بات اس لئے لکھ دی کہ انسان طبعاً حریص ہے اور اسلام نے اس سے ہر عمل پر نفع کا وعدہ فرمایا ہے، ورنہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں سائنس کی قطعی محتاج نہیں۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نوّر اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:
”سرمہ آنکھ میں ڈالنا مستحب ہے، آدمی کو چاہئے کہ ثواب کی نیت سے سرمہ ڈالے کہ اس میں آنکھ کو فائدہ پہنچنے کے علاوہ اتباع کا ثواب بھی ہے۔“
(خصائل نبوی ترجمہ شمائل ترمذی، ص:۳۲، تحت باب ما جاء فی کحل رسول الله صلی الله علیہ وسلم)
سرمہ کے متعلق روایات
”عن ابن عباس رضی الله عنہ أنّ النبی صلی الله علیہ وسلم قال: اکتحلوا بالاثمد فانّہ یجلو البصر وینبت الشعر۔ و زعم ان النبی صلی الله علیہ وسلم کانت لہ مکحلة یکتحل بھا کل لیلة ثلاثة فی ھٰذہ وثلاثة فی ھٰذہ۔“ (ترمذی، ابواب اللباس، باب ما جاء فی الاکتحال، وشمائل)
ترجمہ:- ”حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اثمد سرمہ آنکھوں میں ڈالا کرو، اس لئے کہ وہ آنکھ کی روشنی کو بھی تیز کرتا ہے اور پلکیں بھی زیادہ اُگاتا ہے۔ حضرت ابن عباس یہ بھی کہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سرمہ دانی تھی جس میں سے تین، تین سلائی ہر رات آنکھوں میں ڈالا کرتے تھے۔“
اثمد سرمہ کے استعمال کا حکم
تشریح:- حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف روایات میں اثمد کے استعمال کی ترغیب فرمائی، حضرت جابر کی ایک حدیث میں ”علیکم“ جیسے تاکیدی لفظ سے ارشاد فرمایا:
”علیکم بالاثمد عند النوم فانہ یجلو البصر وینبت الشعر“
(شمائل، باب ما جاء فی کحل رسول الله صلی الله علیہ وسلم) یعنی اثمد کا سرمہ ضرور ڈالا کرو، وہ نگاہ کو روشن بھی کرتا ہے اور پلکیں بھی خوب اُگاتا ہے۔ حضرت ابن عباس ہی سے ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ:
”ان خیر اکحالکم الاثمد“ (شمائل، سنن ابوداوٴد کتاب الطب، باب فی الکحل)
یعنی تمہارے سب سرموں میں اثمد عمدہ سرمہ ہے۔
ایک روایت میں فرمایا: اثمد آلائشوں کو ختم کرتا ہے، آنکھوں کو نور بخشتا ہے۔
(رواہ ابونعیم فی الحلیة، والطبرانی فی الکبیر، بحوالہ ”طبِ نبوی“ اُردو ص:۵۲۸) ان قولی روایات کے ساتھ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر عمل بھی حضرت ابن عباس نے بیان فرمایا ہے کہ:
”حضور صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے قبل ہر آنکھ میں تین، تین سلائی اثمد کے سرمہ کی ڈالا کرتے تھے۔“ (شمائل ترمذی)
”اثمد“ کیا ہے؟ اور اس کے فوائد
”اثمد“ سیاہ سرمہ کا ایک پتھر ہوتا ہے، جو اصفہان سے حاصل کیا جاتا ہے، اثمد کا اعلیٰ ترین پتھر وہ ہوتا ہے جسے مغرب کے دُوسرے ممالک سے بھی حاصل کیا جاتا ہے، ”اثمد“ کی اعلیٰ قسم وہ ہے جو بہت جلد ریزہ ریزہ ہوجائے، اور اس کے ریزوں میں چمک ہو، اور اس کا اندرونی حصہ چکنا ہو، اور گرد و غبار سے پاک ہو۔ اس کا مزاج بارد یابس ہے، نظر کے لئے نفع بخش اور مقوی ہے، اور آنکھ کے اعصاب کو مضبوط کرتا ہے، اور اس کی صحت کا ضامن ہے، اور زخموں کو مندمل کرکے پیدہ شدہ گوشت کو نکال دیتا ہے، اور اس کے میل کچیل کو ختم کرکے اس کو جلا بخشتا ہے، اور اگر پانی آمیزہ شہد میں سرمہ کو ملاکر استعمال کیا جائے تو دردِ سر ختم ہوجاتا ہے، اگر اس کو باریک کرکے تازہ چربی آمیز کرکے آتش زدہ حصہ پر ملا جائے تو خشک ریشہ نہیں ہوگا اور جلنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے آبلے کو ختم کرتا ہے۔ اور یہ خاص طور پر بوڑھوں اور کمزور نگاہ والے لوگوں کے لئے اکسیر ہے، اور اگر اس کے ساتھ تھوڑا سا مشک ملاکر استعمال کیا جائے تو ضعیف البصر کے لئے تریاق کا کام کرتا ہے۔ (طبِ نبوی اُردو فصل:۱۱۴ ص:۵۲۹)
کیا اثمد کا استعمال سب کے لئے مفید ہے؟
طبّی نقطہٴ نظر سے یہ بات مُسلَّم ہے کہ ہر آدمی کا مزاج یکساں نہیں ہوتا، ایک چیز کا استعمال کسی آدمی کے لئے مفید ہے، تو وہی دُوسرے کے لئے مضر بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں بھی ”اثمد“ کے استعمال کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ: اس سے مراد تندرست آنکھوں والے اور وہ لوگ ہیں جن کو موافق آجائے، ورنہ مریض آنکھ اس سے زیادہ دُکھنے لگتی ہے۔ (خصائل ترجمہ شمائل) ایسے حضرات کو اثمد کا استعمال نہ کرنا چاہئے۔
اثمد آنکھوں کی روشنی کو بڑھاتا ہے
حدیثِ پاک کا جملہ: ”فانہ یجلو البصر“ کہ وہ آنکھوں کی روشنی کو بڑھاتا ہے، یہ بھی مختلف روایات میں آیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک بھی گزر چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اثمد کا استعمال فرماتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آخری دم تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بینائی میں ذرا فرق نہیں آیا تھا۔ حکیم محمد طارق صاحب لکھتے ہیں کہ:
”بہت سے ایسے عمررسیدہ لوگ دیکھنے میں آئے ہیں جو اس ارشادِ نبوی پر عمل کرکے اپنی نظر قائم رکھتے ہیں، اور ستّر، اَسّی بلکہ اس سے بھی زیادہ عمر میں کڑوے تیل کے چراغ کی روشنی میں رات کو لکھتے پڑھتے یا کوئی اور باریک کام مثلاً کشیدہ کاری وغیرہ کرتے ہیں۔“ (سنتِ نبوی اور جدید سائنس، ص:۳۴۶)
سرمہ لگانے کا طریقہ
”عن أبی ھریرة رضی الله عنہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: من اکتحل فلیوٴتر من فعل فقد احسن ومن لا فلا حرج۔“
(ابوداوٴد، باب الاستتار فی الخلاء) ترجمہ:- ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سرمہ لگائے تو طاق عدد میں لگائے، جو ایسا کرے تو بہتر ہے، اور جو ایسا نہ کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔“
تشریح:- آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض روایات میں دونوں آنکھوں میں تین، تین مرتبہ سلائی کا استعمال وارد ہوا ہے، جیسے حضرت ابن عباس کی روایت میں:
”ثلاثہ فی ھٰذہ و ثلاثة فی ھٰذہ“
(ترمذی ابواب اللباس، باب ما جاء فی الاکتحال، و شمائل) آیا ہے۔ ایک روایت میں:
”قبل أن ینام بالاثمد ثلٰثا فی کل عین“
(شمائل ترمذی، باب ما جاء فی کحل رسول الله صلی الله علیہ وسلم)، اور ایک روایت میں:
”عند النوم ثلٰثا فی کل عین“
(حوالہ بالا) وغیرہ الفاظ منقول ہیں۔ اور بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سرمہ لگاتے تو دائیں آنکھ میں تین بار لگاتے اور اسی آنکھ سے شروع فرماتے اور اسی پر ختم کرتے، اور بائیں آنکھ میں دو مرتبہ لگاتے:
”کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم اذا اکتحل یجعل فی الیمنیٰ ثلاثا یبتدیٴ بھا ویختم بھا و فی الیسریٰ ثنتین۔“
(طبِ نبوی اُردو ص:۵۲۶)
ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں آنکھ میں تین بار اور بائیں آنکھ میں دو بار اثمد کا سرمہ لگاتے تھے۔“ (اخلاق النبی ص:۱۸۳، طبِ نبوی اُردو ص:۵۲۶)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک مرفوع روایت میں ہے کہ:
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سرمہ لگاتے تو دائیں آنکھ میں تین اور بائیں آنکھ میں دو سلائی پھیرتے تھے۔“ (طبِ نبوی ص:۵۲۶)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طریقے منقول ہیں، اس لئے گاہے ایک پر، گاہے دُوسرے پر عمل کرنا چاہئے تاکہ دونوں طریقوں پر عمل ہوجائے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
”سلائی کے بارے میں بھی مختلف روایات ہیں، بعض روایات میں دونوں آنکھ میں تین، تین وارد ہوئی ہیں، اور بعض روایات میں دائیں آنکھ میں تین، بائیں میں دو وارد ہوئی ہیں، یہ مختلف اوقات پر محمول ہیں کہ بعض مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا فرماتے تھے اور بعض مرتبہ ایسا۔“
(خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی، باب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمہ کا بیان)
سرمہ کس وقت لگائے؟
”عن ابن عباس رضی الله عنہ قال: کان النبی صلی الله علیہ وسلم یکتحل قبل أن ینام بالاثمد ثلٰثا فی کل عین۔“ (شمائل ترمذی)
ترجمہ:- ”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے قبل ہر آنکھ میں تین سلائی اثمد کے سرمہ کی ڈالا کرتے تھے۔“ تشریح:- ایک اور روایت میں حضرت ابن عباس ہی سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سرمہ دانی تھی، جس سے سونے کے وقت تین، تین سلائی ہر آنکھ میں ڈالا کرتے تھے۔ (حوالہ بالا) امام ابوداوٴد نے اپنی سنن میں مستقل ایک باب قائم فرمایا ہے: ”باب فی الکحل عند النوم“ یعنی ”سوتے وقت سرمہ لگانا“ اور اس کے تحت ایک روایت نقل کی ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوتے وقت مشک ملا ہوا سرمہ لگانے کا حکم فرمایا، مگر اس روایت کے متعلق امام ابوداوٴد فرماتے ہیں کہ: ”قال لی یحیٰی بن معین و ھو حدیث منکر یعنی حدیث الکحل۔“ یعنی یحییٰ بن معین نے مجھ سے کہا کہ: یہ سرمہ کے متعلق حدیث منکر ہے۔ (ابوداوٴد، کتاب الصیام)
رات کو سرمہ لگانے کی حکمت
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کو سرمہ لگانا سنت ہے، اور علماء نے اس میں چند حکمتیں بیان فرمائی ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن قیم جوزی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
”اور سونے کے وقت سرمہ لگانے میں خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس سے سرمہ آنکھوں میں باقی رہتا ہے، اور اس طرح آنکھ پورے طور پر سرمہ کو سمولیتی ہے، اور آنکھیں نیند کے وقت حرکت سے بھی باز رہتی ہیں، اس لئے حرکت سے جو نقصان ہوتا ہے، نیند کے وقت اس سے آنکھیں محفوظ رہتی ہیں۔“ (طبِ نبوی اُردو ص:۵۲۷)
صاحبِ ”مظاہر حق“ لکھتے ہیں:
”رات میں سونے سے پہلے سرمہ لگانے میں حکمت و مصلحت یہ ہے کہ سرمہ کے اجزاء آنکھوں میں زیادہ عرصہ تک رہتے ہیں اور اس کے اثرات آنکھ کے اندرونی پردوں اور جھلیوں تک اچھی طرح سرایت کرتے ہیں۔“ (مظاہر حق جدید ج:۴ ص:۲۳۴)
حکیم محمد طارق صاحب لکھتے ہیں:
”رات کو سرمہ لگانے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ دن بھر کا گرد و غبار سرمہ لگانے کے ساتھ پانی کے ہمراہ گوشہٴ چشم سے باہر نکل آتا ہے، اور صبح آنکھیں دھو دینے سے چہرے پر سرمہ کی سیاہی کا کوئی نشان نہیں رہتا۔ لکھنے پڑھنے اور باریک کام کرنے والے کے لئے تو سرمہ ازبس ضروری ہے، اس سے آنکھوں کی تھکاوٹ اور ضعف، بشرطیکہ اس کا استعمال باقاعدہ کیا جائے، دُور ہوجاتا ہے۔“
(جاری ہے )
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, محرم الحرام۱۴۲۸ھ فروری۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: علم اور علماء کی فضیلت
Flag Counter