Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۲۷ھ جنوری۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

7 - 9
کیا تورات وانجیل کی تلاوت بطور وظیفہ درست ہے؟
کیا تورات وانجیل کی تلاوت بطور وظیفہ درست ہے؟


مولانا سید مناظر احسن گیلانی (۱) (۱۸۹۲=۱۹۵۶) نے ”تدوین قرآن“ کے موضوع کے روایتی ذخیرے پر جو شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں، ان کو دور کرنے کے لئے اردو زبان میں ایک مبسوط وضخیم کتاب لکھی تھی، جو ان کے کم وبیش تیس چالیس برس کے مطالعہ وغور وفکر کا حاصل تھا‘ چنانچہ موصوف کا بیان ہے:
”تقریباً تیس چالیس سال کے مسلسل فکر وتأمل‘ تلاش وجستجو کے آخری تحقیقی نتائج اس کتاب میں درج ہیں‘ جن لوگوں نے قرآن کے جمع وترتیب کی متعلقہ روایتوں کا مطالعہ کیا ہے ،وہ سمجھ سکتے ہیں کہ کتنے فاحش اغلاط اور پیچ در پیچ ہمالیائی مغالطوں کے پہاڑوں کو کتنی آسانی کے ساتھ اڑادیا گیاہے‘ شکوک وشبہات کے سارے بادل پھاڑ دیئے گئے ہیں اور ناجائز نفع اٹھانے والوں کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی گئی ہے“۔ (۲)
کتاب چونکہ مبسوط وضخیم تھی، ان کے شاگرد رشید ورفیق مولوی غلام ربانی (ایم- اے عثمانیہ) نے اسے پڑھا اور اس کا خلاصہ تیار کیا، مولانا کو دکھایا‘ انہیں پسند آیا‘ چنانچہ مولانا گیلانی نے جو اس پر پیش لفظ لکھا ہے، اس میں موصوف کی اس کامیاب کوشش کو سراہا ہے اور ان کے استنباط ِ نتائج‘ اسلوب ِاداء اور دل نشین تعبیر تعریف کی ہے اور اپنی ضخیم تالیف کا اسے ”جوہری خلاصہ“ قرار دیااور پھر اپنی اصل تالیف کی اشاعت سے ہاتھ اٹھالیا‘ چنانچہ خود فرماتے ہیں:
”حق تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ خاکسار کے رفیق محترم مولوی غلام ربانی ایم اے (عثمانیہ) نے اس فقیر سراپا تقصیر کی جگر کاویوں اور دماغ سوزیوں کے ان نتائج کو بڑے پاکیزہ اسلوب اور دل نشین تعبیر میں اس کتاب کے اندر جمع کردیا ہے، اگرچہ فقیر نے خود بھی اس عنوان پر مستقل کتاب لکھی ہے‘ لیکن جہاں تک میرا خیال ہے ،میری کتاب کے اس ”جوہری خلاصہ“ کے شائع ہوجانے کے بعد اب اصل کتاب کی اشاعت کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہی ہے‘ کیونکہ اس ضخیم ومبسوط کتاب کے اکثر جوہری حقائق‘ اصولی مشتملات اس مختصر کتاب میں محفوظ ہوگئے ہیں‘ حق تعالیٰ مولوی غلام ربانی کی اس محنت کا صلہ دین اور دنیا میں عطا کرے“۔(۳)
موصوف کے مذکورہ بیان سے ہمارے اس خیال کی مزید تائید ہوتی ہے کہ مولانا مناظر احسن گیلانی اپنی تصنیف میں ادھر سے ادھر نکل جاتے ہیں اور عنوان وموضوع کے پابند نہیں رہتے ہیں‘ ان کے علم کی وسعت وپنہائی اور قلم کی جولانی موضوع وعنوان کی پابندی کو گوار ا نہیں کرتی۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے ”تدوین قرآن‘ ص:۳۹“ پر حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ (المتوفی ۴۳ھ) کے متعلق حاشیہ میں مؤرخ اسلام علامہ شمس الدین دہبی (المتوفی ۷۴۸ھ) کی کتاب ”تذکرہ الحفاظ“ کے حوالہ سے یہ نقل کیا ہے:
”اسی سے اندازہ کیجئے کہ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ‘ جو علمأ بنی اسرائیل میں سے تھے، جب رسول اللہ ا کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت ان کو حاصل ہوئی تو انہوں نے عرض کیا کہ: ”قرآن“ کے ساتھ ”تورات“ کی تلاوت بھی جاری رکھوں! آپ نے فرمایا: ”اقرأ ہذا لیلةً وہذا لیلةً“ (یعنی ایک رات قرآن پڑھا کرو اور ایک رات تورات) (تذکرة الحفاظ‘ ج:۱‘ ص:۲۶)
طبقات ابن سعد میں بھی ابو الجلد الجونی کے تذکرے میں لکھا ہے کہ: سات دن میں قرآن اور چھ دن میں تورات ختم کرنے کا عام دستور اپنے لئے انہوں نے مقرر کیا تھا اور ختم کے دن لوگوں کو جمع کرتے تھے کہ اس دن رحمت نازل ہوتی ہے۔ (ابن سعد‘ ج:۱‘ ۷‘ ص:۱۶۱)
اور واقعہ بھی یہی ہے کہ قرآن کی صحیح راہ نمائی میں اس قسم کی کتابوں کے پڑھنے سے جہاں تک میرا ذاتی تجربہ ہے ،خود قرآن کے سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ (۴)
تدوین حدیث میں بھی مولانا گیلانی نے ان دو واقعات کو نقل کرکے اس خیال کا اظہار فرمایا ہے اور اپنی تحقیق پر اصرار فرمایا ہے۔ (۵)
اور مولانا مناظر احسن گیلانی کے شاگرد غلام ربانی نے ذیلی سرخی ”قرآن گزشتہ آسمانی کتابوں کا آخری ایڈیشن ہے“ کے تحت جو عبارت لکھی ہے:
”بقول حضرت الاستاذ ایک ہی کتاب کو چند آدمی اگر کتب خانہ سے نکالیں تو چند لانے والوں کی وجہ سے کیا وہی ایک کتاب بھی چند ہوجائے گی۔یقیناً کسی مصنف کی کتاب کے چند ایڈیشن کو دیکھ کر یہ فیصلہ کتنا غلط فیصلہ ہوگا کہ مصنف کی یہ ایک کتاب نہیں‘ بلکہ چند کتابیں بن گئیں۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن تمام آسمانی کتابوں کے ساتھ اپنی اسی نسبت کا مدعی ہے، یعنی پچھلی ساری آسمانی کتابوں کا اپنے آپ کو وہ آخری اور مکمل ترین ایڈیشن قرار دیتاہے اور قوموں کے پاس اس کتاب کے جو پرانے مشتبہ اور مشکوک یا ناقص وغیرمکمل نسخے رہ گئے ہیں، ان کے متعلق اس کا صرف یہ مطالبہ ہے کہ اس جدید ترین اور کامل ایڈیشن سے مقابلہ کرکے قومیں اپنی موروثی کتابوں کی تصحیح کرلیں‘ یہی اور صرف یہی ایک مطالبہ قرآن نے دنیا کی قوموں کے سامنے پیش کیا ہے‘ ظاہر ہے اس مطالبہ کا مطلب کسی حیثیت اور کسی لحاظ سے بھی یہ نہیں ہے کہ دنیا کی قوموں کے پاس آسمانی دین اور مذہب اپنے آباؤ اجداد سے جو پہنچا ہے اس دین سے اور اس دین کا انتساب جن بزرگوں کی طرف ہے ان بزرگوں سے بے تعلق ہوکر قرآن کو بالکلیہ ایک جدید دین اور دھرم کی کتاب کی حیثیت سے مانا جائے، یقیناً نہ قرآن ہی کا یہ مطالبہ ہے اور نہ قرآن کے ماننے والوں کی طرف سے یہ دعوت دنیا کے سامنے کبھی پیش ہوئی“۔ (۶)
یہ متن وحاشیہ دونوں محل نظر ہے۔
اس لئے کہ رسالت مآب ا سے پہلے جتنے نبی ورسل بھیجے گئے اور کتابیں اتاری گئی ہیں ،ان کی کتابیں اور شریعت بھی ایک محدود زمانے تک قابل عمل تھی، اس لئے یکے بعد دیگرے کتابیں بھی اتاری جاتی رہیں اور نبی اور رسول بھی بھیجے جاتے رہے، اور سابقہ کتابیں منسوخ ہوتی رہیں‘ تاآنکہ رسول اللہ ا کو آخری نبی اور آخری کتاب دے کر بھیجا گیا اور دین وشریعت کی تکمیل کردی گئی۔ قرآن نے کہا ہے:
”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً“ (۷)
ترجمہ:․․․”(اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا“۔ (۸)
لہذا سابقہ شریعتیں اور کتاب سب قابل ِاعتبار نہیں رہیں، اس لئے کہ ان کی حفاظت ان اقوام کی ذمہ داری تھی۔ قرآن نے کہا:
”انا انزلنا التورة فیہا ہدی ونور‘ یحکم بہا النبیون الذین اسلموا للذین ہادوا والربانیون والاحبار بما استحفظوا من کتاب اللہ وکانوا علیہ شہداء، فلاتخشو الناس واخشون ولاتشتروا باٰیاتی ثمناً قلیل،اً ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ہم الکافرون“۔ (۹)
ترجمہ:․․․”بے شک ہم ہی نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے اسی کے مطابق انبیاء جو (خدا کے) فرمانبردار تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں اور مشائخ اور علمأ بھی کیونکہ وہ کتاب خدا کے نگہبان مقرر کئے گئے تھے اور اس پر گواہ تھے (یعنی حکم الٰہی کی یقین رکھتے تھے) تو تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھی سے ڈرتے رہنا اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لینا اور جو خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں“۔ (۱۰)
سابقہ امتوں نے ان میں لفظی تحریف بھی کی اور معنی بھی بدلے ‘ نہ وہ اپنی اصل زبان میں اور نہ اصل صورت میں محفوظ رہ سکیں‘ وہ سب ایک زمانے کے لئے اتاری گئی تھیں‘ قرآن آسمانی کتابوں میں آخری کتاب ہے‘ جو آخری نبی حضرت محمد ا پر اتاری گئی تھی آخری نبی تھے ان کی نبوت دائمی اور ان کا معجزہٴ قرآن بھی دائمی ہے ا سکتاب کی موجودگی میں نہ کسی کتاب مروجہ ومتداول آسمانی کتاب کی تلاوت کی اجازت ہے نہ اس پر عمل کرنا جائز ہے نہ اس کے پڑھنے پر اجر وثواب ملے گا نہ برکات ہوسکتی ہے تاہم تقابلی مطالعہ کی اجازت ہے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے جس روایت سے جواز کی گنجائش نکالی ہے نہ بھی درست نہیں‘ حافظ شمس الدین دہبی (المتوفی ۷۴۸ھ) کی اصل عبارت یہ ہے:
”ابراہیم بن ابی یحی انا معاذ بن عبد الرحمن عن یوسف بن عبد اللہ بن سلام عن ابیہ انہ جاء الی النبی ا فقال: انی قرات القرآن والتوراة فقال: اقرا ہذا لیلة وہذا لیلة․ فہذا ان صح ففیہ الرخصة فی تکریر التوراة وتدبرہا“۔ (۱۱)
ترجمہ:․․․”ابراہیم بن ابی یحی کا بیان ہے کہ ہم سے معاذ بن عبد الرحمن نے بیان کیا‘ انہوں نے یوسف بن عبد اللہ بن سلام سے‘ انہوں نے اپنے والد عبد اللہ بن سلام سے نقل کیا ہے کہ وہ رسالت مآب ا کے پاس آئے اورعرض کیا: کہ میں نے قرآن اور تورات دونوں پڑھی ہے‘ تو آپ ا نے فرمایا: کہ ایک رات قرآن پڑھا کرو اورایک رات تورات“۔
علامہ ذہبی فرماتے ہیں: کہ اگر یہ روایت درست ہے تو اس میں تورات کو باری باری پڑھنے اور اس میں غور وفکر کی گنجائش نکل سکتی ہے“۔
نیز علامہ شمس الدین ذہبی ”سیر اعلام النبلاء“ میں مذکورہ روایت نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
”اسنادہ ضعیف، فان صح‘ ففیہ رخصة فی التکرار علی التوراة التی لم تبدل‘ فاما الیوم فلارخصة فی ذلک الجواز التبدیل علی جمیع نسخ التوراة الموجودة‘ ونحن نعظم التوراة التی انزلہا اللہ علی موسیٰ علیہ السلام‘ ونؤمن بہا‘ فاما ہذہ الصحف التی بأیدی ہؤلاء الضلال فما ندری ما ہی اصلا نقف‘ فلانعاملہا بتعظیم ولاباہانة‘ بل نقول: آمنا باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسولہ ویکفینا فی ذلک الایمان المجمل وللہ الحمد“۔ (۱۲)
ترجمہ:․․․”اس روایت کی سند ضعیف ہے اگر صحیح بھی مان لی جائے تو اس سے وہ تورات مراد ہوگی جس میں تبدیلی وتحریف نہ ہوئی ہو‘ اور آج کل کی تورات تو اس میں یہ رخصت نہیں ہے: کیونکہ موجودہ تورات کے تمام نسخوں میں تحریف کا امکان ہے‘ ہاں ہم اس تورات کی تعظیم کرتے ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اتاری گئی ہے اور اسی پر ایمان لاتے ہیں اور آج کل جو صحیفے ان گمراہ لوگوں کے پاس ہیں ہمیں معلوم نہیں کہ یہ اصل ہے یا نہیں اسی میں ہم توقف کرتے ہیں‘ نہ اس کی تعظیم کرتے ہیں اور نہ توہین‘ بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ ہم اللہ، اس کے فرشتوں ،کتابوں اور رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور اس بارے میں ہمارے لئے ایمان مجمل ہی کافی ہے‘ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں“۔
نیز علامہ حافظ ذہبی نے ”سیر اعلام النبلاء“ (۱۳) میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص  کے حالات میں اس امر پر مزید روشنی ڈالی ہے‘ وہ ہدیہ ناظرین ہے:
”ولایشرع لاحد بعد نزول القرآن ان یقرا التوراة ولا ان یحفظہا لکونہا مبدلة محرفة منسوخة العمل‘ قد اختلط فیہا الحق بالباطل‘ فلیجتنب‘ فاما النظرفیہا للاعتبار وللرد علی الیہود‘ فلاباس بذلک للرجل العالم قلیلاً‘ والاعراض اولی، فاما ماروی من ان النبی ا اذن لعبد اللہ ان یقوم بالقرآن لیلة وبالتوراة لیلة، فکذب موضوع قبح اللہ من افتراہ وقیل: بل عبد اللہ ہنا ہو ابن سلام وقیل: اذنہ فی القیام بہا ای یکرر علی الماضی لاان یقرأ بہا فی تہجدہ“۔
ترجمہ:․․․”قرآن مجید کے نازل ہونے کے بعد نہ کسی کے لئے تورات کا پڑھنا جائز ہے اور نہ اس کو حفظ کرنا کیونکہ اس میں رد وبدل اور تحریف ہوئی ہے اور اس پر عمل منسوخ ہے ،اس میں حق وباطل خلط ملط ہے ،لہذا اس سے بچاجائے ۔ہاں تورات کا مطالعہ کرنا اس لئے تاکہ اس کے ذریعہ یہود کے ساتھ بحث ومناظرہ اور ان پر رد کرنا آسان ہو تو عالم کے لئے اس میں تھوڑی بہت گنجائش ہے اور بہتر یہ ہے کہ صرف نظر کرے اور وہ روایت جس میں آپ ا نے حضرت عبد اللہ  کو ایک رات قرآن پڑھنے اور ایک رات تورات پڑھنے کی اجازت دی ہے تو وہ موضوع اورجھوٹ ہے ،اللہ برا کرے جس نے اس کو گھڑا ہے، بعض کے نزدیک اس سے مراد عبد اللہ بن سلام ہے اور بعض فرماتے ہیں کہ حضور ا کی اجازت غور وفکر (تقابلی مطالعہ) کرنے کی ہے، نہ تہجد میں اس کی تلاوت کرنے کی“۔
نیز علامہ حافظ نور الدین ہیثمی (المتوفی ۸۰۷ھ) ”مجمع الزوائد“ میں مذکورہ روایت یوں نقل کرتے ہیں:
”عن عبد اللہ بن سلام قال: قلت: یا رسول اللہ قد قرات القرآن والتوراة والانجیل قال: اقرأ بہذا لیلة وہذا لیلة“۔
ترجمہ:․․․”حضرت عبد اللہ بن سلام فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ا سے عرض کیا کہ: میں نے قرآن اور تورات اور انجیل پڑھی ہیں، آپ نے فرمایا: کہ ایک رات قرآن پڑھا کرو اور ایک رات تورات وانجیل“۔
اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
”رواہ الطبرانی فی الکبیر وفیہ من لہ اعرفہ عتاب بن ابراہیم وغیرہ“۔ (۱۴)
ترجمہ:․․․”اس روایت کو طبرانی نے معجم کبیر میں نقل کیا ہے اور اس میں عتاب بن ابراہیم وغیرہ راویوں کو میں نہیں جانتا“۔ (یعنی مجہول ہیں)
مذکورہ بالا روایت متصل سند کے ساتھ علامہ حافظ ابونعیم اصفہانی (المتوفی ۴۳۰ھ) نے کتاب ”ذکر اخبار اصبہان“ (۱۵) میں اپنی حسب ذیل سند سے نقل کی ہے:
”حدثنا ابی ثنا محمد بن احمد بن یزید ثنا احمد بن محمد بن الحسین‘ حدثنی جدی الحسین بن حفص ثنا ابراہیم بن محمد بن ابی یحی المدنی ثنا معاذ بن عبد الرحمن عن یوسف بن عبد اللہ بن سلام عن ابیہ انہ جاء الی النبی ا فقال: انی قرات القرآن والتوراة فقال: اقرأ بہذہ لیلة وبہذا لیلة“۔
ترجمہ:․․․” ابونعیم کا بیان ہے کہ ہم سے میرے والد عبد اللہ بن احمد نے بیان کیا وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے محمد بن احمد بن یزید ن‘ بیان کیا ان سے احمد بن محمد بن الحسین نے وہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے دادا حسین بن حفص نے بیان کیا‘ ان سے معاذ بن عبد الرحمن نے‘ انہوں نے یوسف بن عبد اللہ بن سلام  سے‘ انہوں نے اپنے والد عبد اللہ بن سلام سے ․․․الخ
علامہ ابن عساکر  نے بھی اس واقعہ ”تاریخ دمشق“ میں ابونعیم کی سند سے ذکر کیا ہے۔ (۱۵)
۱:․․․اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حافظ ذہبی کو اس روایت کی صحت میں ہی شک ہے۔
۲:․․․پھر اس کا راوی ”ابراہیم بن ابی یحی “ معتبر اور ثقہ نہیں‘ جھوٹا اور کذاب ہے۔ (۱۶)
۳:․․․نیز اس صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں رسول اللہ ا نے حضرت عمر  کے ہاتھ میں تورات دیکھ کرناراضی کا اظہار فرمایا تھا۔ وہ روایت یہ ہے:
”عن جابر ان عمر بن الخطاب  اتی رسول اللہ ا بنسخة من التوراة‘ فقال: یارسول اللہ! ہذہ نسخة من التوراة‘ فسکت فجعل یقرأ ووجہ رسول اللہ ا یتغیر، فقال ابوبکر: ثکلتک الثواکل! ما تری ما بوجہ رسول اللہ ا ؟ فنظر عمر الی وجہ رسول اللہ ا فقال: اعوذ باللہ من غضب اللہ وغضب رسولہ، رضینا باللہ ربا ،وبالاسلام دینا ،وبمحمد نبیا، فقال رسول اللہ ا : والذی نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسی فاتبعتموہ وترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل، ولو کان حیا وادرک نبوتی لاتبعنی“۔ (۱۷)
ترجمہ:․․․”حضرت جابر  فرماتے ہیں کہ حضرت عمر  تورات کا ایک نسخہ لے کر آئے اور حضور ا سے عرض کیا کہ :یا رسول اللہ! یہ تورات کا نسخہ ہے، حضور ا خاموش رہے‘ پھر حضرت عمر نے اس کو پڑھنا شروع کیا اور (غصہ کی وجہ سے) رسول اللہ ا کا چہرہ متغیر ہورہا تھا‘ حضرت ابوبکر  نے فرمایا: اے عمر! تمہارا ناس ہو! حضور ا کے چہرہ پر غصہ کے آثار تمہیں دکھائی نہیں دیتے! حضرت عمر نے حضور ا کے چہرہ کی طرف دیکھا اور کہا: میں اللہ اور اس کے رسول کے غصہ سے اللہ کی پناہ چاہتاہوں ،ہم اللہ کو رب ماننے پر اور اسلام کو دین تسلیم کرنے پر اور محمد اکو نبی ماننے پر راضی وخوش ہیں۔ رسول اللہ ا نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے اور تم ان کی اتباع کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھی راہ سے بھٹک جاؤگے‘ اور اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو میری اتباع کرتے“۔
مذکورہ بالا حدیث سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ (تقابلی مطالعہ کے علاوہ) ان کتابوں کا پڑھنا درست ہی نہیں، اس لئے کہ یہ سب اب منسوخ ہیں‘ اور ناسخ کی موجودگی میں منسوخ کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی۔
مناظر احسن گیلانی حضرت عمر کے مذکورہ قصہ کے بارے میں تدوین حدیث فرماتے ہیں:
”باقی طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے حضرت عمر کے متعلق جو یہ روایت منسوب کی گئی ہے کہ وہ تورات کا ایک مجموعہ آنحضرت ا کے سامنے لائے اور عرض کرنے لگے کہ بنی زریق میں مجھے اپنے ایک بھائی سے یہ مجموعہ ملا ہے‘ کہتے ہیں کہ اس حال کو دیکھ کر آنحضرت ا کا چہرہ غضبناک ہوگیا‘ حضرت عمر کو جب اس کا احساس ہوا تو معافی مانگنے لگے۔ آنحضرت ا نے فرمایا: ”کہ اس وقت موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ رہتے تو بجز میری پیروی کے ان کے لئے بھی کوئی گنجائش نہ ہوتی“۔
جمع الفوائد میں اس روایت کو نقل کرکے لکھا ہے کہ اس کی سند میں ”ابوعامر قاسم بن محمد الاسدی“ ایک شخص ہے ،دراصل یہ مجہول راوی ہے ،اس لئے روایت خود بھی مشتبہ ہے، نیز یہ ممکن ہے کہ اس یہودی کو بھائی قرار دینے پر عتاب کیا گیا ہو‘ نیز اور بھی اسباب اس کے ہوسکتے ہیں، بہرحال یہ جانتے ہوئے کہ تورات کا نسخہ بہت کچھ محرف ہوچکا ہے پھر قرآن پڑھنے والے کو اسی محرف تورات کی تلاوت کی جو اجازت دی گئی تو اس کی وجہ ظاہر ہے کہ محرف تورات کا مصحح تو اس کے پاس موجود ہی تھا یعنی قرآن اور قرآن کو مصحح بناکر جو بھی تورات پڑھے گا ،کوئی وجہ نہیں ہوسکتی کہ گمراہی میں مبتلا ہو ،بلکہ کچھ فائدہ ہی حاصل کرے گأ“۔ (تدوین حدیث‘ صإ۲۴۹‘ اردو ایڈیشن‘ مکتبہ اسحاقیہ کراچی)
تو مولانا گیلانی کا یہ کہنا کہ :”ا سکی سند میں ”ابوعامر قاسم بن محمد الاسدی“ ایک شخص ہے دراصل یہ مجہول راوی ہے، اس لئے روایت خود بھی مشتبہ ہے“ یہ حقیقت پر مبنی ہے، لیکن مولانا نے اس پہلو پر غور نہیں فرمایا کہ حدیث کے اور بھی طرق ہوسکتے ہیں۔
چنانچہ طبرانی کی سند میں مجہول راوی ہے، لیکن دارمی کی روایت جو ہم نے نقل کی ہے، اس میں کوئی راوی مجہول نہیں ۔دارمی کی سند ملاحظہ ہو:
”اخبرنا محمد بن العلاء ثنا ابن نمیر عن مجالد‘ عن عامر‘ عن جابر‘ ان عمر بن الخطاب․․․ الخ“۔
فتح المنان شرح دارمی میں اس سند کے بارے میں لکھتے ہیں:
”اسناد الاثر علی شرط الصحیح غیر مجالد وقد اخرج لہ مسلم فی المتابعات والشواہد، فالحدیث صحیح لغیرہ‘ ومما یدل علی قوة اسنادہ صنیع الامام البخاری رحمہ اللہ‘ حیث بوب لہ فی الاعتصام من الصحیح فقال: باب قول النبی ا: لاتسألوا اہل الکتاب عن شئ“۔
قال الحافظ: ہذہ الترجمة لفظ حدیث اخرجہ احمد والبزار من حدیث جابر․․ وذکرہ ثم قال: ورجالہ موثقون الا ان مجالد ضعیف واستعملہ فی الترجمة لو ورد ما یشہد بصحتہ من الحدیث الصحیح“۔
ترجمہ:․․․” اس حدیث کی سند صحیح کے درجے کی ہے، مجالد کے علاوہ (اس کے تمام راوی صحیحین کے ہیں) امام مسلم نے مجالد کی حدیث متابعات اور شواہد میں ذکر کی ہے، اس بناء پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے‘ امام بخاری نے صحیح بخاری میں کتاب الاعتصام میں جو باب باندھا ہے :”باب قول النبی ا لاتسألوا اہل الکتاب عن شئ“ امام بخاری کے اس طرز بیان سے بھی ا س حدیث کی سند کو تقویت ملتی ہے‘ چنانچہ حافظ ابن حجر اس باب کے تحت شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”یہ اس حدیث کا ٹکڑا ہے جس کو بزار اور امام احمد نے روایت کیا ہے“ اور حضرت جابر کی پوری حدیث ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں ”کہ ا س سند کے راوی تمام ثقہ ہیں، سوائے مجالد کے ،کہ وہ ضعیف ہے‘ اور امام بخاری نے ترجمہ الباب میں اس وجہ سے لائے ہیں کہ اس حدیث کے اور شواہد بھی ہیں ،جس کی وجہ سے یہ حدیث صحیح کے درجے کو پہنچ گئی ہے“۔
اس کے بعد صاحب فتح المنان نے مسند احمد‘ مسند بزار‘ مصنف بن ابی شیبہ‘ جامع بیان العلم والفضل‘ مسند ابی یعلی موصلی‘ مصنف عبد الرزاق‘ فضائل القرآن لابن الفریس‘ شعب الایمان‘ جامع الاخلاق الراوی وآداب السامع سے اس تائید میں تین احادیث بطور شواہد نقل کی ہے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: فتح المنان‘ ج:۳‘ ص:۱۹۱تا ۱۹۴)
مذکورہ بالا دونوں حدیثیں خبر آحاد ہیں‘ دونوں میں تعارض ہے ،پہلی حدیث سند کے اعتبار سے متکلم فیہ ہے، جس کے راوی پر جرح ہے اور دوسری ،سند اور متن کے اعتبار سے درست ہے ،اس لئے وہی قابل ِترجیح اور قابلِ عمل ہے۔
مولانا گیلانی نے تورات کی تلاوت کی تائید میں ایک حسب ِذیل واقعہ یہ نقل کیا ہے جو ہدیہ ناظرین ہے:
”قال : اخبرنا سلیمان بن حرب قال: حدثنا حماد بن زید عن میمونة بنت ابی الجلد قالت: کان ابی یقرأ القرآن فی کل سبعة ایام ویختم التوراة فی ستة یقرأہا نظرا،ً فاذا کان یوم یختمہا حشد لذلک ناس‘ وکان یقول: کان یقال: تنزل عند ختمہا الرحمة“۔ (۱۸)
ترجمہ:․․․”سلیمان بن حرب بیان کرتے ہیں کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ انہوں نے میمونہ بنت ابی الجلد سے نقل کیا ہے، وہ فرماتی ہیں کہ: میرے والد ابو الجلد سات دن میں قرآن ختم کرتے اور چھ دن میں تورات کو دیکھ کر ختم کرتے‘ جب ختم والا دن ہوتا تو کچھ لوگ ختم کے لئے جمع ہوجاتے اور الو الجلد فرماتے تھے کہ: کہا جاتا تھا کہ ختم کے دوران رحمت اترتی تھی“۔
۱:․․․یہ کسی صحابی اور فقیہ کا عمل نہیں۔ ۲:․․․اور یہ ان کا انفرادی عمل ہے۔
۳:․․․اس میں چند عام آدمی آجاتے تھے، اس میں کسی بڑے عالم اور فقیہ کی شرکت ثابت نہیں۔
۴:․․․یہ ان کی اپنی رائے اور اپنا خیال ہے۔ ۵:․․․نہ اس کا کوئی چرچا تھا۔
مولانا گیلانی نے اپنے جس تجربہ کا ذکر کیا ہے کہ
: ”اس قسم کی کتابوں کے پڑھنے سے جہاں تک میرا ذاتی تجربہ ہے خود قرآن کے سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے“۔ (۱۹)
تو یہ تقابلی مطالعہ کی بات ہے، اس کا کوئی منکر نہیں ،ورنہ یہ کہ اس کی تلاوت کی جائے اور اس سے رحمت اترتی ہے، اس کا کوئی قائل نہیں۔
یہ تدوینِ قرآن کا ”جوہری خلاصہ“ مولانا گیلانی کی تصنیف نہیں، اس لئے کہ اس میں مولانا کی زبان کا لطف نہیں ہے۔
مولانا گیلانی کی بعض دوسری آراء بھی ہیں جس سے محققین کو اتفاق نہیں ،جیسے کہ تدوین الحدیث ص:۱۹۱ بزبان عربی از ڈاکٹر مولانا عبد الرزاق اسکندر صاحب‘ تخریج ومراجعت ڈاکٹر بشار عواد معروف۔
”تدوین قرآن“ کا یہ ”جوہری خلاصہ“ جو پاکستان کراچی میں آج سے ۱۹/ سال قبل شائع ہوا تھا، مولوی محمد امین بن صابر حسین (اللہ انہیں خوش رکھے) اسے از سر نو شائع کررہے ہیں، ان کی یہ سعی لائقِ تحسین اور قابل مبارک باد ہے۔ امید ہے کہ طلبہ اور اہلِ ذوق اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔
حواشی
۱- مولانا کے حالات اور ان کے کمالات اور تالیفات کے متعلق ”ہزار سال پہلے“ کے مقدمے میں ہم لکھ چکے ہیں۔
۲- تدوین قرآن، ص:۳۴۔
۳- تدوین قرآن‘ ص:۳۴۔
۴- تدوین قرآن‘ ص:۳۹-۴۰۔
۵- ملاحظہ ہو :تدوین حدیث‘ ص:۲۴۸-۲۴۹‘ اردو ایڈیشن‘ ص:۲۱۱‘ عربی ایڈیشن۔
۶- تدوین قرآن‘ ص:۳۹۔
۷- سورہ مائدہ:۳۔ ۸- ترجمہ فتح محمد جالندھری۔
۹- سورہ مائدہ:۴۴۔ ۱۰-ترجمہ فتح محمد جالندھری۔
۱۱- تذکرة الحفاظ ‘ ج:۱‘ص:۲۷۔
۱۲- سیر اعلام النبلاء‘ ج:۲‘ص:۴۱۹‘طبع موسسة الرسالة طبع سوم ۱۴۰۵ھ۔
۱۳- سیر اعلام النبلاء‘ ج:۲‘ص:۸۶-۸۷‘ طبع موسسة الرسالة طبع سوم ۱۴۰۵ھ۔
۱۴- مجمع الزوائد‘ ۲/۲۷۰۔
۱۵- ج:۱‘ص:۸۴‘مطبوعہ بریل لیڈن ۱۹۳۱ء۔
۱۶- ملاحظہ ہو: تہذیب تاریخ دمشق الکبیر‘ ج:۷‘ص:۴۵۰‘طبع دار احیاء التراث العربی طبع سوم ۱۴۰۷ھ۔
۱۷- مزید ملاحظہ فرمائیں :تقریب التہذیب‘ ج:۱‘ص:۵۷ مع تعلیق محقق خلیل مامون شیخا طبع دار المعرفة بیروت لبنان‘طبع ۱۴۲۲ھ۔
۱۸- رواہ الدارمی‘ مشکوٰة بشرح المرقات لملا علی القاری‘ ج:۱‘ص:۴۳۹‘ حقانیہ ملتان‘ فتح المنان شرح کتاب الدارمی‘ ج:۳‘ص:۱۹۱ طبع دار البشائر بیروت طبع اول ۱۴۱۹ھ۔
۱۹- طبقات ابن سعد‘ ج:۷‘ص:۲۲۲‘ طبع دار الفکر بیروت۔
Flag Counter