Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ دسمبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

5 - 10
رکن یمانی
رکن یمانی
(۲)

فرشتوں کا دعا پر آمین کہنا
”عن ابن عمر قال علی الرکن الیمانی ملکان یؤمنان علی دعاء من مر بہما وان علی الحجر الاسود مالا یحصی“۔
ترجمہ:․․․”حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رکن یمانی پر دو فرشتے ہیں جو وہاں سے گذرنے والے کی دعا پر آمین کہتے ہیں اور حجر اسود پر تو بے شمار فرشتے ہوتے ہیں“۔ (۲۵)
رکن یمانی کے پاس حضرت آدم علیہ السلام کی دعا
روایت میں آیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے مقام ابراہیم کے پیچھے یہ دعا فرمائی:
”اللہم انک تعلم سری وعلانیتی فاقبل معذرتی‘ وتعلم حاجتی فاعطنی سؤلی وتعلم ما فی نفسی فاغفرلی ذنوبی“۔ اللہم انی اسألک ایمانا یباشر قلبی ویقیناً صادقاً حتی اعلم انہ لایصیبنی الا ما کتبت لی‘ ورضاً بما قسمت لی یا ارحم الراحمین“۔
ترجمہ:․․․”اے اللہ! آپ میرے چھپے اور کھلے کے جاننے والے ہیں ‘ میری معذرت قبول فرما لیجئے اور آپ میری ضرورت کو جانتے ہیں مجھ کو میری حاجت کی چیز عطا فرمادیجئے اور آپ جانتے ہیں جو کچھ مجھ میں ہے ‘ میرے گناہ بخش دیجئے‘ اے اللہ! میں آپ سے وہ ایمان مانگتاہوں جو میرے دل میں رچ جائے اور وہ سچا یقین کہ میں خوب جان لوں کہ وہ بات جو آپ نے میری تقدیر میں لکھ دی ہے بس وہی مجھ کو پیش آسکتی ہے اور رضامندی مانگتاہوں (اس زندگانی پر) جو آپ نے میرے لئے تقسیم فرمادی ہے“۔
حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ آپ ا نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارا تو انہوں نے بیت اللہ شریف کا طواف کیا‘ اس کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتین (نماز طواف) پڑھیں‘ اس کے بعد اوپر والی دعا پڑھی۔
روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی :
”یا آدم انک دعوتنی دعاءً استجبت لک منہ وغفرت ذنوبک‘ وفرجت ہمومک وغمومک‘ ولن یدعو بہ احد من ذریتک من بعدک الا فعلت ذلک بہ‘ ونزعت فقرہ من بین عینیہ واتجرت لہ من وراء کل تاجر‘ واتتہ الدنیا وہی کارہة وان لک یردہا“۔
ترجمہ:․․․”اے آدم! (علیہ السلام) آپ نے ایسی دعا کی ہے جس کو میں نے قبول کرلیا‘ اور تیرے گناہوں کو بخش دیا‘ اور تیری پریشانیوں اور تیرے غموں کو دور کردیا اور تیری اولاد میں سے کوئی شخص بھی تیرے بعد یہ دعا نہیں کرے گا‘ مگر یہ کہ میں اس کی دعا قبول کرلوں گا اور اس کے فقر اور محتاجگی کو سلب کرلوں گا‘ اور ہر تاجر کے مقابلہ میں اس کے لئے تجارت کرنے والا ہوں گا‘ اور دنیا اس کے پاس مجبوراً آئے گی خواہ وہ اس کا ارادہ نہ کرے“۔(۲۶)
آسمان وزمین کی پیدائش سے رکن یمانی پرفرشتہ مقرر ہے‘ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
”عن ابن عباس علی الرکن الیمانی ملک مؤکل منذ خلق اللہ السماوات والارض فاذا امررتم بہ فقولوا: ربنا آتنا فی الدنیا حسنة الآیة فانہ یقول آمین آمین“ (۲۷)
ترجمہ:․․․”حضرت ابن عباس  فرماتے ہیں رکن یمانی پر ایک فرشتہ مقرر ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا پس تم وہاں سے گذرو تو ”ربنا آتنا“ پڑھا کرو‘ اس لئے کہ وہ تمہاری اس دعا پر آمین آمین کہتا ہے“۔
رکن یمانی کے پاس دعا قبول ہوتی ہے
علمأ نے مقامات اجابت دعا میں رکن یمانی کو بھی لکھا ہے(۲۸) امام ازرقی (۲۹) نے ایسی روایات نقل کی ہیں جس سے رکن یمانی کے وقت دعا کی قبولیت معلوم ہوتی ہے مثلاً :
”عن مجاہد قال: من وضع یدہ علی الرکن الیمانی ثم دعا استجیب لہ (۳۰)
یعنی حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ جو رکن یمانی پر ہاتھ رکھے پھر دعا کرے اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔
رکن یمانی کے استلام کرنے والوں کے لئے جبرئیل کی دعا
حضرت عطاء سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا سے دریافت کیا گیاکہ آپ بڑی کثرت سے رکن یمانی کا استلام کرتے ہیں‘ آپ نے ارشاد فرمایا: میں جب بھی اس کے پاس پہنچا تو جبرئیل علیہ السلام کو موجود پایا جو استلام کرنے والوں کے لئے دعائے مغفرت کررہے ہیں۔ (۳۱)
رکن یمانی جنت کا دروازہ ہے
نبی کریم ا نے فرمایا: رکن یمانی اور حجر اسود دونوں جنت کے دروازے ہیں۔ (۳۲)
رکن یمانی کے استلام کے مسائل
(مستحبات طواف میں سے ہے) بغیر بوسہ دینے اور پیشانی لگانے کے رکن یمانی کا استلام کرنا (یعنی ہاتھ سے مس کرنا) ہر جگہ میں ایسا کرنا مستحب ہے۔ اور استلام سے مراد یہاں یہ ہے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے یا صرف دائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے رکن یمانی کو مس کرے‘ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے مس نہ کرے‘ اس کو بوسہ بھی نہ دے اور نہ اس پر سجدہ کرے“ یہ ظاہر الروایة ہے اور یہی صحیح ہے۔ اور جب ہجوم کی وجہ سے اس کو مس کرنے سے عاجز ہو تو اشارہ سے اس کا استلام کرنا اس کا قائم مقام نہیں ہے۔ ہجوم نہ ہونے کی صورت میں اور جبکہ وہ مس کرنے سے عاجز نہ ہو اشارہ سے استلام کرنا بدرجہ اولیٰ غیر معتبر ہے‘ پس بعض جاہل ومتکبر لوگ جو ایسا کرتے ہیں ان کے فعل سے دھوکا نہیں کھا نا چاہئے۔ (۳۳) (اور اس بدعت سے بچنا چاہئے)
رکن یمانی کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرنا (مکروہ ہے) لیکن امام محمد کے نزدیک مکروہ نہیں ہے۔ (۳۴) حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی اور جگہ استلام کرنا مکروہ ہے ،پس دوسرے رکن یعنی رکن عراقی اور رکن شامی کا استلام اور ان کی طرف اشارہ کرنا مشروع نہیں ہے‘ بلکہ باتفاق ائمہ اربعہ دونوں امر بدعت مکروہہ ہیں اور یہ کراہت تنزیہی ہے۔ اور یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ رکن حجر اسود اور رکن یمانی کی طرف اشارہ بھی عجز وہجوم کے بغیر غیر معتبر ہے‘ پس بعض جاہل متکبروں کے اس فعل سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے‘ یعنی عجز وہجوم کے وقت حجر اسود کی طرف اشارہ سے استلام کرنا بالاتفاق جائز بلکہ سنت ہے اور رکن یمانی کی طرف امام محمد کی روایت کے مطابق جائز ہے۔ (۳۵)
حوالہ جات
۲۵- الازرقی، ۱/۳۴۱‘ فضل الحجر الاسود، ص:۴۶۔ ۲۶- ذکرہ الامام علی القاری فی المناسک ،ص:۹۴ وقال رواہ الازرقی‘ والطبرانی فی الاوسط‘ والبیہقی فی الدعوات‘ وابن عساکر‘ وورد الدر المنثور للسیوطی ۱/۵۹‘ وکنز العمال ۵/۵۷‘ وممن ذکرہ ایضا علی انہ دعاء ماثور الامام ابن الہمام فی فتح القدیر، ۲/۳۶۰‘ وابن حجر الہیتمی فی حاشیتہ علی مناسک النووی، ص:۲۶۰‘ غیرہما‘ ماخوذ ”فضل الحجر الاسود ومقام ابراہیم ص:۱۳۸‘ سحبان الہند مولانا احمد سعید صاحب دہلوی نے اپنی تصنیف ”خدا کی باتیں“ میں بھی یہ روایت نقل فرمائی ہے‘ روایت نقل فرماکر مولانا رقمطراز ہیں:”یعنی تمہاری یہ دعا میں نے قبول کرلی اور اس کا وعدہ کرتاہوں کہ تمہاری اولاد میں سے جو یہ دعا کرے گا اس کی دعا قبول کروں گا“۔ (خدا کی باتیں ص:۲۸۵ بعنوان: ”انبیاء سابقین سے خطاب“ حدیث نمبر ۳۷) اس روایت میں تو یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے مقام ابراہیم کے پیچھے یہ دعا مانگی مگر ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا یہ دعا رکن یمانی کے پاس مانگنا بھی دوسری روایت میں ثابت ہے: ”وورد ان آدم علیہ السلام دعا بہ خلف المقام‘ وفی روایة عند الملتزم‘ وفی روایة عند الرکن الیمانی‘ ولامنافاة بین الروایات لاحتمال انہ دعا بہ فی کل المقامات“ (مناسک ملا علی قاری) ۲۷- کنز العمال ،ج:۱۲‘ ص:۲۲۰‘ رقم الحدیث ،۳۴۷۵۴‘ کنز العمال ہی کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہے: ”ما اتیت الرکن الیمانی الا لقیت عندہ الف الف ملک“ حوالہ بالا۔ ۲۸- رفیق حج، ص:۷۶ بعنوان مقامام اجابت دعا‘ فضائل حج ،ص: ۱۰۲ فصل ۶ حدیث نمبر ۵ ۲۹- امام ازرقی: اخبار مکہ کے مؤلف امام ابو الولید ازرقی امام بخاری کے ہم عصر ہیں‘ اس لئے کہ امام بخاری کی ولادت ۱۹۴ھ میں ہوئی اور وفات ۲۵۶ھ میں ہوئی اور صاحب اخبار مکہ کی وفات ۲۱۲ھ یا ۲۲۳ھ اور راجح قول کے مطابق اسی کے بھی کئی سال بعد ہوئی‘ اخبار مکہ میں اکثر وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں‘ ان کے دادا محمد بن محمد الازرقی ہیں‘ ان کی کنیت بھی ابوالولید ہے اور یہ امام بخاری کے استاذ ہیں امام بخاری نے اپنی صحیح میں ان سے روایت کی ہیں (درس ترمذی، ج:۳‘ ص:۱۲۱) ۳۰- حضرت مجاہد ہی کی ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں:”عن مجاہد قال: ما من انسان یضع یدہ الرکن الیمانی ویدعو الا استحبیب لہ“ (درس ترمذی ج:۳‘ ص:۱۲۱ حاشیہ نمبر ۱) ۳۱- جامع اللطیف، ماخوذ تاریخ مکة المکرمة ج:۲‘ص:۲۲۷۔ ۳۲-ایضاً ۳۳- عمدة الفقہ ،ج:۴‘ ص:۱۸۴‘ مستحبات طواف۔ ۳۴- عمدة الفقہ ،ج:۴‘ ص:۱۹۱ مکروہات طواف۔ ۳۵- ایضاً
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ دسمبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر
Flag Counter