Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ دسمبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

1 - 10
باجوڑ‘ درگئی سانحات عوام اور فوج کو لڑانے کی خطرناک سازش
باجوڑ‘ درگئی سانحات!
عوام اور فوج کو لڑانے کی خطرناک سازش


الحمد لله وسلام علٰی عبادہ الذین اصطفٰی!
آج سے کوئی تین‘ پونے تین سال پیشتر حکومت پاکستان نے افغانستان میں برسرپیکار امریکی ”باغیوں“ کی تلاش اور ان کے ”قلع قمع“ کے لئے پاک سرزمین کے سرحدی علاقہ جنوبی وزیرستان اور وانا میں چھپے ”دہشت گردوں“ کی تلاش میں وانا آپریشن کے نام سے ایک ”پہاڑی طوفان“ برپا کیا جس میں آپریشن کے نام پر بستیوں کی بستیاں اجاڑدی گئیں‘ نہتے معصوم شہریوں اور بے قصور نوجوانوں کو خاک و خون میں تڑپایا گیا۔ مگر افسوس کہ اس کا نتیجہ صفر ہی رہا اور وہاں کسی دہشت گرد یا اسلحہ کا نام و نشان تک نہ ملا‘ چنانچہ بعدازاں خرابی بسیار ایک معاہدہ کے تحت یہ آپریشن روکنا پڑا‘ جب عقل و خرد اور ادراک و شعور نے کروٹ لی اور جذبات کا غبار فرو ہوا تو اربابِ اقتدار کو احساس ہوا کہ تشدد سے حالات سنورتے نہیں بگڑتے ہیں‘ اس لئے حکومت پاکستان اور فوج کے نمائندوں نے قبائلی علاقے کے راست باز مسلمانوں سے ایک دیرپا معاہدہ کرکے اس کشیدہ صورت حال کو کنٹرول کرنے کی کوشش فرمائی۔
اسی طرح صوبہ سرحد کی ایجنسی کے علاقے کے مسلمانوں سے بھی ایک معاہدہ تکمیل کے مراحل میں تھا‘ جس دن اس معاہدہ پر دستخط ہونا تھے‘ اسی دن علی الصبح پانچ بجے مدرسہ ضیاء العلوم تعلیم القرآن کے معصوم طلبہ پر ہلہ بول دیا گیا اور میزائل برساکر مدرسہ کی عمارت اور اس کے مہتمم سمیت ۸۰ نہتے طلبہ کو خاک و خون میں تڑپادیا گیا۔ چنانچہ روزنامہ اسلام کراچی کی خبر کے حوالہ سے اس کی تفصیلات ملاحظہ ہوں:
”باجوڑ (واقعہ نگار+ بیورورپورٹ) باجوڑ ایجنسی تحصیل ماموند گئی انعام خواروچنہ گئی پر پاکستانی طیاروں کی وحشیانہ بمباری ۸۰ شہید‘ بمباری سے کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے مدرسہ ضیاء العلوم تعلیم القرآن اشاعت التوحید والسنہ مکمل طور پر تباہ‘ ساتھ متصل جامع مسجد بھی مکمل طور پر شہید ہوگئی‘ لوگ اپنے جگر گوشوں کے بکھرے ہوئے اعضاء ڈھونڈتے رہے‘ تفصیلات کے مطابق پیر کی صبح ۵ بجے باجوڑ ایجنسی تحصیل ماموند گئی انعام خواروچنہ گئی میں کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے قائم کردہ مدرسہ ضیاء العلوم تعلیم القرآن اشاعت التوحید و السنہ پر پاکستانی طیاروں کی وحشیانہ بمباری سے کمسن معصوم طالب علموں سمیت کل ۸۰ افراد شہید ہوگئے‘ جن میں تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سرکردہ رہنما مولانا محمد لیاقت ‘ گل شیر‘ گھبیرولدخان‘ میرزمان خان‘ رحمت اللہ آف زوربندر‘ راحت‘ سلیم عبداللہ‘ عبدالوارث‘ صدیق پھاٹک‘ ضیاء الرحمن ولد مولانا تاج محمد آف ڈمہ ڈولہ‘ شاکر اللہ آف ڈبر‘ غلام نبی چنہ ماموند اسحق‘ اطہر‘ چینگازو‘ حیات کھٹکی‘ حبیب اللہ ولد اعظم خان‘ بدان ماموند‘ عزیز الوہاب ولد سید محمد شمریز‘ بخت منیر وغیرہ شامل ہیں‘ جبکہ اکثر شہداء کے نام معلوم نہیں ہوئے‘ اس سانحے کی اطلاع ملتے ہی لوگ متاثرہ مقام کی طرف روانہ ہوئے اور مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر لاشوں کے اعضاء نکالنے میں مدد کی اور جو لاشیں تاحال لا پتا ہیں‘ ان کے ورثاء اپنے جگر گوشوں کے بکھرے اعضاء ڈھونڈھ رہے ہیں اور اکٹھے کررہے ہیں‘ ہر طرف رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے، جبکہ شہداء کے ورثا ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے‘ نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی‘ لوگ شہداء کے دیدار کے لئے ٹوٹ پڑے، جبکہ مسلح مجاہدین نے حالات کوقابو میں رکھا‘ ورثاء اپنے اپنے جگر گوشوں کے جنازے لے کر اپنے اپنے گاؤں کو روانہ ہوگئے‘ اس عظیم اجتماع سے مختلف قائدین نے خطاب کیا او ر لوگوں کو صبر کی تلقین اور جذبہ جہاد سے سرشاری کے لئے ابھارا، ان میں کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے امیر مولانا فقیر محمد‘ مولانا عنایت اللہ جبکہ جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے امیر سراج الحق سینیئر وزیر بذریعہ موٹر سائیکل دیر سے باجوڑ ایجنسی کا دشوار گزار سفر کرکے شہداء کے ورثاء کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے کے لئے پہنچے اور عوام سے مخاطب ہوئے ،اپنا استعفیٰ عوام کے سامنے دے دیا، ان کی تقلید کرتے ہوئے رکن اسمبلی باجوڑ نائب امیر جماعت اسلامی صوبہ سرحد صاحبزادہ ہارون الرشید نے بھی استعفیٰ دیدیا‘ شہداء کی نماز جنازہ سراج الحق نے پڑھائی۔ یاد رہے کہ تحریک نفاذ شریعت محمدی اور حکومت کے درمیان آج امن معاہدہ ہونے والا تھا جس کے لئے کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے رہنما متاثرہ مدرسے میں صلاح و مشورے کے لئے آئے تھے جو بمباری کا شکار ہوگئے۔ “
(روزنامہ اسلام کراچی ۳۱/اکتوبر ۲۰۰۶ء)
اس کے تقریباً ایک ہفتہ بعد ۹/نومبر ۲۰۰۶ء کو زیر تربیت ۴۳ فوجی جوانوں کو ایک خود کش بمبار نے عین ٹریننگ سینٹر میں ابدی نیند سلادیا‘ چنانچہ روزنامہ اسلام کراچی کے حوالہ سے اس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:
”درگئی(ہدایت اللہ توحیدی‘ نامہ نگار/ مانیٹرنگ ڈیسک/ ایجنسیاں) مالا کنڈ کی تحصیل درگئی کے فوجی قلعے پنجاب رجمنٹ سینٹر میں مصروف زیر تربیت فوجی جوانوں پر خود کش حملے میں ۴۳ جوان جاں بحق اور ۲۳ کے قریب زخمی ہوگئے۔ موٹر سائیکل سوار حملہ آور نے بدھ کی صبح ساڑھے ۸ بجے پنجاب رجمنٹ سینٹر کے لئے گراؤنڈ میں تربیت لینے والے نوجوانوں کو نشانہ بنایا، عینی شاہدین اور سرکاری ذرائع کے مطابق موٹر سائیکل سوار خود کش حملہ آور رجمنٹ سینٹر آیا اور پھر جوانوں کے درمیان پہنچ کر خود کو اڑادیا، دھماکا خیز مواد، حملہ آور نے ایک چادر میں چھپا کر رکھا ہوا تھا‘ مواد پھٹنے سے زوردار دھماکا ہوا اور تربیت میں مصروف ۴۳ فوجی اہلکار جاں بحق ‘ جبکہ ۲۳ کے قریب شدید زخمی ہوگئے ،دھماکے کی گونج دور دور تک سنی گئی اور انسانی‘ اعضاء ٹوپیاں اور جوتے بکھرگئے۔ بعض عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور فوجی وردی میں ملبوس تھا‘ تاہم اس کی تصدیق نہ ہوسکی۔ ادھر ایک نجی ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آور کے ایک ساتھی کو گرفتار کرلیا گیا ہے‘ تاہم اس کی بھی سرکاری ذرائع سے تصدیق نہیں ہوئی۔ یاد رہے کہ پنجاب رجمنٹ سینٹر میں ری یونین کی تقریبات جاری تھیں، جن میں صدر پرویز مشرف، چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل احسان الحق سمیت اعلیٰ فوجی افسروں کی شرکت متوقع تھی ،حملے کے فوراً بعد اعلیٰ حکام موقع پر پہنچ گئے اور زخمیوں کو قریبی ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا‘ جبکہ علاقے میں سیکورٹی انتظامات سخت کردیئے گئے۔“ (روزنامہ اسلام کراچی ۹/نومبر ۲۰۰۶ء)
ہمارے خیال‘ بلکہ آزاد مبصرین،عسکری تجزیہ نگاروں اور عینی شاہدوں کے مطابق مدرسہ پر میز ائلوں کا حملہ پاکستانی فوج کی بجائے امریکی طیاروں نے کیا،چنانچہ اس سلسلہ میں وکلا کمیشن کی رپورٹ ملاحظہ ہو :
”باجوڑ میں بمباری امریکی طیاروں نے کی: وکلاء کمیشن“
”پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) باجوڑ میں مدرسے پر بمباری کے واقعے کی تحقیقات کرنے والے وکلاء کے ایک کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بمباری امریکی طیاروں نے کی تھی۔ پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے تحقیقاتی کمیشن نے گزشتہ ہفتے باجوڑ مدرسے کا دورہ کیا اور اس سے متعلق پانچ صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ منگل کو صوبائی دارالحکومت پشاور میں صحافیوں اور وکلاء کے سامنے پیش کی۔ کمیشن کے سربراہ بیرسٹر باچا کا کہنا تھا کہ عینی شاہدین کے مطابق حملہ افغانستان کی سمت سے ہوا تھا اور مقامی لوگوں کے مطابق پاکستانی ہیلی کاپٹر ۲۵ منٹ بعد وہاں پہنچے۔ رپورٹ کے مطابق مدرسے کے افغانستان کی جانب مغربی سمت میں درودیوار کو کافی نقصان پہنچا ،جب کہ پاکستانی سرحد کی جانب کے مکانات محفوظ رہے۔ انہوں نے ایک بم پر لکھے چند نمبروں کا ذکر بھی رپورٹ میں شامل کیا ہے۔ وکلاء کے مطابق مقامی لوگ بمباری کے بعد وہاں پہنچے تو کئی لاشوں کی شناخت ناممکن تھی‘ تاہم مرنے والوں کی عمریں آٹھ سے اٹھارہ برس کے درمیان تھیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کسی عسکری تربیت یا اسلحے کے کوئی آثار نہیں ملے۔ کمیشن میں بیرسٹر باچا کے علاوہ محمد خورشید خان‘ قیصر رشید خان‘ غلام نبی خان‘ کریم خان محمود اور احمد زیب خان شامل تھے۔ بی بی سی کے مطابق یہ پہلا آزاد وفد تھا جس نے مدرسہ ضیاء العلوم تعلیم القرآن کا دورہ کیا تھا۔ حکومت نے اس علاقے میں صحافیوں کے داخلے پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس حملے کا بظاہر مقصد باجوڑ میں امن معاہدے کے لئے ماحول کو خراب کرنا تھا۔ اس موقع پر وکلاء نے دو قراردادیں بھی منظور کیں جن میں حکومتی موقف کو مسترد کردیا گیا۔ پشاور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر فدا گل کے مطابق حکومت نے مدرسے کی جو فلم دکھائی ہے وہ تورا بورا میں طالبان نے تیار کی تھی اور سی ڈیز پر دستیاب ہے۔“ (روزنامہ امت کراچی ۱۵/نومبر ۲۰۰۶ء)
مدرسہ پر اس حملہ کی وجہ بالکل عیاں اور واضح ہے کہ امریکا بہادر کو مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق اور حکومت و عوام کا باہمی اعتماد قطعاً برداشت نہیں تھا‘ اس لئے حکومت و عوام کو دست و گریبان کرنے‘ ان کو آپس میں لڑانے‘ خانہ جنگی کی فضا پیدا کرنے اور اس امن معاہدہ کو سبوتاژ کرنے کے لئے یہ گھناؤنی کارروائی کی گئی۔ مگر چونکہ اس عظیم سانحہ کے بعد بھی عوامی غیض و غضب کا رخ حکومت اور فوج کی بجائے امریکا کی طرف ہی تھا‘ اس لئے امریکا بہادر کی جانب سے اشارہ ہوا کہ اس کارروائی کی نسبت امریکا کی طرف نہ ہونے پائے، ورنہ تمہاری خیر نہیں۔ لہٰذا اس کارروائی کو اپنے کھاتے میں ڈا لو، ورنہ تمہیں پتھر کے دور کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ چنانچہ ”مرتا کیا نہ کرتا“ کے مصداق ہماری مجبور و بے بس حکومت اور ایجنسیوں نے بلا حیل و حجت اس کالک و سیاہی کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اور فرمانِ شاہی جاری ہوا کہ : ”یہ کارروائی امریکا کے بجائے‘ ہم نے اور ہماری افواج نے ہی کی ہے۔“
اس بدترین کارروائی اور حکومت کے اعترافِ جرم کے باعث عوامی غیض و غضب کا رخ امریکا کے بجائے پاکستانی حکومت اور فوج کی طرف ہونے کا امکان تھا‘ اس لئے حکومت و فوج کو اس دلدل سے نکالنے‘ مذہبی حلقوں اور دین دار مسلمانوں کو بدنام کرنے اور انہیں عوامی حمایت سے محروم کرنے کی غرض سے پاکستانی فوج کے ۴۳ معصوم جوانوں کو نشانہ بناکر حکومت و فوج کو مظلوم باور کرانے کی ”کامیاب“ حکمت عملی اپنائی گئی‘ الغرض دونوں طرف سے ہی مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور بدنام بھی انہیں ہی کیا گیا۔
بہرحال ان ہر دو حادثات و سانحات کی جتنا بھی مذمت کی جائے‘ کم ہے۔ لیکن اگر افسوس ہے تو اس بات کا کہ اتنا بڑا قومی نقصان ہوجانے کے باوجود بھی ہمارے اربابِ اقتدار و اصحاب اختیار کو تاحال یہ سمجھ نہیں آئی کہ ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا؟ اور ہمیں کس گہرے غار میں دھکیلا جارہا ہے؟ اس دردناک صورتحال ننگی جارحیت کے تناظر میں بجائے اس کے کہ ہماری عزت مآب حکومت اور ارباب اقتدار امریکا بہادر سے اس پر احتجاج کرتے اور ان سے کنارہ کشی کی راہ اپناتے‘ مگرا فسوس کہ تاحال اربابِ اقتدار اس ہٹ دھرمی اور جھوٹ پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ مدرسہ پر بمباری ہم نے کی ہے اور فوجی جوانوں کو خاک و خون میں مذہبی دہشت پسندوں نے تڑپایا ہے۔
ہم نے بچپن سے ایک لطیفہ سن رکھا تھا کہ ایک امریکی سفارت کار کا خرگوش گم ہوگیا‘ جس کی تلاش کے لئے اس نے امریکا سے تفتیشی ٹیم منگوائی‘ جب وہ ناکام ہوگئی تو دوسرے مغربی ممالک کو اس خدمت پر مامور کیا گیا‘ جب سب ہی ناکام ہوگئے تو پاکستانی پولیس اور ایجنسیوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی‘ چنانچہ پاکستانی پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کی ”محنت و لگن“ کے نتیجے میں پہلے ہی دن غروب آفتاب کے وقت ایک دیوہیکل ہاتھی جنگل سے یہ کہتے ہوئے نمودار ہوا کہ: ”میں ہوں امریکی سفارت کار کا وہ خرگوش جو گم ہوگیا تھا۔“ اس لئے کہ ظلم و تشدد سے ان ہونی بھی ہونی ہوجاتی ہے۔
مگر افسوس کہ اس بار معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوگیا کہ ایک ہی دھمکی سے ہماری حکومت یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ: ” ہم ہی ہیں وہ جنہوں نے نہتے اور معصوم طلبہ کا قتل عام کیا تھا اور وہ ہم ہی تھے‘ جنہوں نے مدرسہ پر میزائل داغنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔“
غالباً یہی وجہ ہے کہ جناب صدر پرویز مشرف‘ وزیر داخلہ‘ وزیر اطلاعات اور جناب شوکت سلطان صاحب کا یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ کارروائی ہم نے کی ہے‘ اور بالکل صحیح کی ہے‘ یہاں کوئی معصوم طلبہ نہیں تھے بلکہ یہاں عسکریت پسندی کی تعلیم دی جارہی تھی‘ یہ لوگ معصوم نہیں مجرم تھے ‘ جبکہ بعض ”عقل مندوں“ کا فرمان ہے کہ یہاں القاعدہ کے ارکان اور غیرملکی موجود تھے‘ وغیرہ وغیرہ۔
بلاشبہ آزاد مبصرین اور بی بی سی کے نمائندے ہارون رشید نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ یہاں کسی عسکریت پسندی کی نہیں‘ قرآن و حدیث کی تعلیم دی جارہی تھی اور یہاں کے طلبہ ۱۵ سے ۲۰ سال کی عمروں سے زیادہ نہیں تھے۔
بالفرض اگر ایک لمحہ کے لئے مان بھی لیا جائے کہ یہ لوگ عسکریت پسندی کی تعلیم دے رہے تھے تو یہ کون سا جرم تھا؟ کیا اسلام نے مسلمانوں کو جنگ و جہاد کی تعلیم نہیں دی؟ کیا قرآن کریم میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ:
”و اعدوا لہم ما استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترہبون بہ عدو اللّٰہ و عدوکم۔“ (الانفال:۶۰)
ترجمہ: ”اور تیار کرو ان کی لڑائی کے واسطے جو کچھ جمع کرسکو قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے کہ اس سے دھاک پڑے اللہ کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر۔“
ہاں اگر یہ لوگ کسی قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے یا ملکی مفادات کے خلاف کسی کارروائی کے مرتکب پائے جاتے اور اس کے ثبوت بھی مہیا ہوجاتے تو ان کو گرفتار کیا جاتا‘ کھلی عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا‘ اور اتمام حجت کے طور پر ان کو صفائی کا موقع دیا جاتا‘ پھر اگر ان کے خلاف جرم ثابت ہوجاتا یا ملکی مفادات کے خلاف ان کی مجرمانہ سرگرمیاں پایہ ثبوت کو پہنچ جاتیں‘ تو بے شک انہیں سر عام پھانسی دے دی جاتی ہمارے خیال میں اگر عدل و انصاف کے ممکنہ تقاضے پورے کرلئے جاتے تو اس پر کسی کو کوئی اعتراض و اشکال نہ ہوتا‘ الغرض اگر عدل و انصاف کے تمام مذکورہ بالا تقاضے پورے کئے جاتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ کوئی عقل مند انسان اور ملک و ملت کا بہی خواہ ایسے مجرموں کے خلاف کارروائی پر انگلی اٹھاتا۔
موجودہ صورت حال میں کون ایسا بے حس ہوگا جو اس جارحیت اور ظلم و تشدد پر احتجاج نہیں کرے گا؟ اور کون اس کو کھلا ظلم اور ننگی جارحیت قرار نہیں دے گا؟ کیا دنیا کے کسی ملک میں ایسی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟ کہ بلا تحقیق محض شبہ کی بنا پر کسی کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے؟ پھر ایک آدھ انسان بھی نہیں‘ اکٹھے ۸۰ مسلمانوں کو‘ اور وہ بھی سوتے میں۔ ہمارے خیال میں کسی انصاف پسند غیر مسلم ملک نے بھی ایسا گھناؤنا کردار ادا نہیں کیا ہوگا۔ اسی طرح زیرتربیت فوجیوں پر حملہ بھی کسی سوچی سمجھی سازش اور طے شدہ حملہ کی شکل معلوم ہوتی ہے‘ ورنہ فوجی ایریا جہاں کسی کو پر مارنے کی جرأت نہیں ہوتی‘ وہاں خودکش بمبار کیونکر گھس آیا؟ پھر زخمیوں کے بیانات کی روشنی میں اس تربیتی میدان کی نگرانی پر فوجی جوان مامور تھے‘ خودکش حملہ آور پیدل چلتے ہوئے پہلے آہستہ آہستہ میدان میں آتے دکھائی دیا اور پھر دوڑ کر فوجیوں میں گھس کر اپنے آپ کو بارود سے اڑانے میں کامیاب ہوگیا؟ سوال یہ ہے کہ پہلے تو پہرے پر مامور فوجی گارڈوں نے اُسے میدان میں جانے کی اجازت کیسے دی؟ چلو اگر آنکھ بچا کر وہ اس طرف آبھی گیا تھا تو مخدوش حالات میں اس مشکوک وضع قطع کے نام نہاد خودکش کو ۹۰ سے زیادہ زیرتربیت نوجوانوں اور ان کے ذمہ داروں نے اس حساس میدان میں گھس آنے پر دور سے ہی کیوں نہ گولی سے اُڑا دیا؟ کیا کوئی صاحب عقل و خرد اس پر یقین کرسکتا ہے؟ کہ فوج جیسی حساس تنظیم کے افراد اس قدر غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرسکتے ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو ایسا کیوں ہوا؟ اور اس کا ذمہ دار کون کہلائے گا؟
بہرحال مدرسہ کے طلبہ ہوں یا فوجی جوان‘ وہ سب ہی مسلمان تھے اور مسلمانوں کی اولاد اور ہماری متاع عزیز‘ ان سب کی شہادت سے ہر مسلمان غم زدہ اور آزردہ ہے اور خون کے آنسو رو رہا ہے بلاشبہ ان سانحات پر ہر انسان مغموم اور دل گرفتہ ہے‘ ہمارے خیال میں کوئی مسلمان ایسی ظالمانہ اور گھناؤنی کارروائی نہیں کرسکتا ‘اس لئے کہ کوئی مسلمان ایسا سنگ دل اور شقی القلب نہیں ہوسکتا کہ وہ نہتے اور معصوم مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلے۔ یقینا یہ اسلام دشمن امریکہ اور اس کے کسی آلہ کار کی بدترین کارستانی ہی ہے جس سے مسلمانوں اور خصوصاً پاکستانیوں کو اسلام دوستی کی سزا دینا مقصود ہے۔
ارباب اقتدار کو چاہئے کہ اب بھی وقت ہے وہ اپنے دشمن کو پہچانیں اور اس کی چالوں کو سمجھیں اور خود داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا قبلہ درست کرلیں‘ ورنہ رفتہ رفتہ وہ اپنے غلط طرز عمل کی پاداش میں خود بخود پتھروں کے دور جیسے انجام سے دوچار ہوجائیں گے۔ بلاشبہ اس وقت وہ اس کا مصداق ہوں گے: نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔

حکومت پاکستان نے ۱۹۷۹ء سے ملک میں نافذ حدود آرڈی نینس کے معاملہ میں بین الاقوامی دباؤ اور اسلام دشمن عناصر کے پراپیگنڈا سے متاثر ہوکر ترمیم و تنسیخ کا فیصلہ کیا تو ملک کے دینی حلقوں اور علمأ نے اس کی شدید مخالفت کی۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے حدود آرڈی نینس میں جو ترامیم کی گئی تھیں‘ اسے علمأ نے مسترد کیا تو اس کو سلیکٹ کمیٹی کے سپرد کیا گیا‘ جب سلیکٹ کمیٹی کا مرتب کردہ تحفظ حقوق نسواں بل سامنے آیا تو وہ بھی قرآن و سنت سے میل نہیں کھاتا تھا‘ اس پر علمأ کو اعتماد میں لینے کے لئے سات رکنی علمأ کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے پوری تن دہی اور اخلاص سے بل مرتب کرکے حکومت کے حوالہ کردیا‘ مگر افسوس! کہ علمأ کی سفارشات کو نظرانداز کرکے حکومتی ارکان نے ”حقوق نسواں“ کے نام سے قومی اسمبلی سے یک طرفہ ایک بل منظور کروالیا‘ اس بل میں کیا کچھ ہے؟ یہ اسلام اور اسلامی آئین و دستور سے کس قدر میل کھاتا ہے؟ اور اس سلسلہ میں علمأ کیا کہتے ہیں؟ اس سلسلہ کی تفصیلات آئندہ کسی اشاعت میں پیش کی جائیں گی۔
وصلی الله تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ دسمبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 
Flag Counter