Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

10 - 12
اسرائیلی جارحیت اور اس کا حل
اسرائیلی جارحیت اور اس کا حل

ذرا شرقِ اوسط کی دس سالہ تاریخ کو سامنے لایئے‘ ایک طرف اسرائیل کی ملعون قوم ہے‘ جس نے ان دس سالوں کا ایک لمحہ بھی غفلت میں ضائع نہیں کیا‘ عسکری تربیت‘ جدید ترین اسلحہ کی فراہمی اور جذبہٴ انتقام کی پرورش میں ذرا کوتاہی نہیں کی‘ بلکہ ہرقیمت پر انتہائی قوت اور خوفناک جارحانہ عزائم میں برابر اضافہ کرتاچلا گیا‘ برطانیہ اور امریکہ نے اسرائیلی جارحیت کوپروان چڑھانے اور قوی سے قوی تربنانے کے لئے اندھا دھند مدد دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ جس کے نتیجے میں بیس پچیس لاکھ کا پورا ملک ”جنگی کیمپ“ اور ”فوجی چھاؤنی“ میں تبدیل ہوگیا‘ دوسری طرف جانب ِ مخالف نے فتح وکامرانی کے نشہ میں بدمست ہوکر اس دس سال کے وقفے میں اپنی طاقتوں کا بے محل استعمال شروع کیا‘ باہمی خانہ جنگی اور سر پھٹول میں مالی اور فوجی قوت کا جنازہ نکالا‘ دشمن کی بڑھتی ہوئی طاقت پر صحیح نظر رکھنے اور دفاعی تدابیر بروئے کارلانے سے تغافل برتا‘ مصنوعی پروپیگنڈہ‘ اخباری شور وغوغا‘ کھو کھلے نعروں‘ دھمکی آمیز بیانوں اور تقریروں پر قناعت کی‘ جس قوم کو ”اعداء اللہ“ کے مقابلے کے لئے اپنی تمام ممکنہ قوتوں کے مجتمع رکھنے کا خطاب تھا: ”واعدوالہم ما استطعتم من قوة“ وہ اپنی تمام قوتیں جھوٹے وقار پر ضائع کرنے لگی‘ جس قوم کو ”اسلامی اتحاد“ اور ”اسلامی اخوت“ کا آفاقی نصب العین دیا گیا تھا‘ وہ قومیت اور نیشنلزم جیسی لعنتوں میں مصروفِ پیکار ہوگئی‘ جس امت کو مرتے دم تک اسلام پر قائم رہنے کی تلقین کی گئی تھی ”لاتموتن الا وانتم مسلمون“ ان کی لعنت میں اسلام پرجمنا ایک طعنہ بن کر رہ گیا‘ جس امت کو کفر اور شعارِ کفر سے بیزاری کا حکم دیا گیا تھا ”انا براٰء منکم ومماتعبدون من دون اللہ کفرنا بکم“ اس نے شکل ووضع‘ صورت وسیرت‘ تہذیب وتمدن اور افکار ونظریات میں کفار اور شعارِ کفر کی نقالی کو مایہٴ فخر سمجھا‘ جس امت کو تمام مادی وسائل‘ سامانِ حرب وضرب اور عدد وعدّہ کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اللہ سے گڑا گڑا کر دعا مانگنے‘ اسی کی ذات پر اعتماد اور بھروسہ کرنے اور اسی سے فتح ونصرت کی دعائیں کرنے کی تلقین کی گئی تھی‘ اس نے موہومہ مادی قوت پر اعتماد کرتے ہوئے خدا فراموشی کا راستہ اختیار کیا ”نسوا اللہ فنسیہم“ آخر اس تمام پس منظر کا نتیجہ ”شامتِ اعمال صورتِ نادر گرفت“ کے سوا اور کیا ہوسکتا تھا؟ اس چشم دید اور دردناک صورتِ حال کی طرف چند مختصر اشارے گزشتہ ماہ کے ”بصائر وعبر“ میں کرچکا تھا‘ افسوس کہ جس چیز کا مجھے اندیشہ تھا وہی ہوکر رہی‘ ․․انا للہ“ روس ہو یا امریکہ‘ برطانیہ ہو یا فرانس ‘ چین ہو یا جاپان جب تک مسلمان ان بتوں کو دل سے نہیں نکالیں گے‘ ٹھوس اسلامی بنیادوں پر ”اتحاد عالم اسلام“ بروئے کار نہیں لائیں گے‘ صدقِ دل سے کتاب اللہ اور سنت ِ رسول اللہ ا پر چلنے کا عہد تازہ نہیں کریں گے اور اسلامی تاریخ کے سبق آموز واقعات سے عبرت پذیرنہیں ہوں گے‘ اس وقت تک کوئی قوت ان کو حرمان وخسران سے نہیں بچا سکتی۔
”ان ینصرکم اللہ فلاغالب لکم وان یخذلکم فمن ذا الذی ینصرکم من بعدہ“
آخر اسرائیل جیسی مغضوب اور ملعون قوم‘ جسے نبیوں کی زبانی ملعون کہا گیا‘ اس کی یہی کامیابی ہمارے لئے کیا کچھ کم عبرت آموز ہے؟ مگر وہ اسی پر قانع نہیں‘ خدانخواستہ ہماری خود فراموشی اور خدا بیزاری کی یہی ناگفتہ بہ صورتِ حال قائم رہی تو خاکم بدھن‘ اسرائیل خیبر ومدینہ کے خواب دیکھ رہاہے اور بنی نضیر‘ بنی قریظہ‘ بنی قینقاع اور یہودِ خیبر کا انتقام لینے کے لئے دانت پیس رہاہے‘
”فیاغربة الاسلام ویا خیبة المسلمین“
کاش! یہی تازیانہٴ عبرت مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگانے اور اسلامی ممالک کے سربراہوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہوجائے ‘ کاش! عالم اسلام کے کسی گوشے سے کوئی صلاح الدین ایوبی شہید اٹھے اور ارضِ مقدسہ کی تطہیر کے لئے علم ِ جہاد بلند کرے۔
ان تلخ حقائق اور دردناک حوادث میں اگر کسی قدر خوشی کی جھلک نظر آتی ہے تو وہ عرب ممالک کا اتحاد خصوصاً اسلامی اتحاد کی طرف رحجان ہے‘ بلاشبہ وقت کا فوری تقاضا یہ ہے کہ تمام عالمِ اسلام ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائے اور امریکہ وبرطانیہ کی تحریک ”تفریق بین المسلمین“ کو ناکام بناکر ”اسلامی بلاک“ وجود میں لایاجائے‘ اگر آج بھی مسلمان عقلمندی سے کام لیں اور اسی تباہی سے عبرت پکڑیں تو متحدہ مساعی سے اپنی سیاسی‘ اقتصادی اور عسکری قوتوں میں استحکام پیدا کرسکتے ہیں‘ اگر ہمارے سروں پر مسلط شدہ کافرانہ نظامِ معیشت ‘ طرزِ معاشرت اور ”درآمد شدہ نظریوں“ کی اصلاح کرلی جائے ‘ تو بہ وانابت کے راستے کو اختیار کرلیا جائے تو تباہ شدہ عزت ومجد اور شرف ووقار کو واپس لوٹا یا جاسکتا ہے‘ مسلمانوں میں آج بھی خالد بن ولید‘ طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی کے جانشین پیدا ہوسکتے ہیں‘ جو ارضِ مقدسہ کو صیہونیت کے نجس قدموں سے پاک کردیں اور ”من یسومہم سوء العذاب“ کا قرآنی وعدہ پھر ایک بار پورا کر دکھائیں‘ لیکن اگر مسلمان ہی صیہونی پارٹ ادا کرنے لگیں اور یہود ونصاریٰ اور ہنود ومجوس کی سی زندگی کو اپنالیں‘ اقبال کے لفظوں میں:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود !
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود ؟
تو خدا کو ایسے ”بدنام کنندہٴ نیکو نامے چند“ قسم کے نام نہاد مسلمانوں کی ضرورت نہیں ہے‘ پھر ان کی ذلت او رموت مقدر ہوچکی ہے۔”لایبالیہم اللہ بالةً“ معاذ اللہ۔
مسلمانوں کے لئے لائحہ عمل
آیئے! ان تازہ حقائق کی روشنی میں غور کریں کہ مسلمانوں کا آئندہ لائحہ عمل کیاہونا چاہیئے۔ مسلمانوں پر حق تعالیٰ شانہ کا یہ عظیم احسان ہے کہ ان کے پاس ہرشعبہٴ زندگی کی طرح صلح وجنگ کے لئے بھی آسمانی وربانی ہدایات موجود ہیں‘ سورہٴ انفال اور سورہٴ توبہ میں صلح وجنگ اور اعداء اسلام اور منافقین کے مقابلہ کا مفصل دستور العمل موجود ہے‘ قرآن کریم کا کتنا صاف اعلان اور واضح مطالبہ تھا:
”واعدوا لہم مااستطتم من قوة ومن رباط الخیل ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم وآخرین من دونہم ‘ لاتعلمونہم‘ اللہ یعلمہم‘ وماتنفقوا من شئ فی سبیل اللہ یوف الیکم وانتم لاتظلمون“۔ (الانفال:۶۰)
ترجمہ:․․․”اور ان کافروں کے لئے جس قدر تم سے ہو سکے ہتھیار سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے سامان درست رکھو اور اس کے ذریعہ تم رعب جمائے رکھو‘ ان پر جو کہ اللہ کے دشمن ہیں اور تمہارے دشمن ہیں اور ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جن کو تم نہیں جانتے‘ ان کو اللہ ہی جانتاہے اور اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کروگے‘ وہ تم کو پورا دے دیا جائے گا اور تمہارے لئے کچھ کمی نہیں ہوگی“۔ (ترجمہ حضرت تھانوی)
یہ ارشاد ربانی مسلمانوں پر بطور خاص یہ فریضہ عائد کرتا ہے کہ ان کے پاس ہمہ وقت اتنی قوت موجود رہنا ضروری ہے‘ جس سے اعداء اسلام مرعوب‘ خائف اور لرزہ بداندام رہیں‘ اور پوری مسلم قوم کو اس تیاری میں مصروف رہنا چاہیئے۔
مگر مسلمانوں پر صدیوں سے ایک جمود ساطاری ہے اور وہ نفس پرستی‘ عیش کوشی اور اغراض پرستی کی دلدل میں کچھ ایسے پھنسے ہیں کہ عرصہٴ دراز سے مسلمان حکومتوں نے اس فریضہٴ الٰہی سے تغافل اختیار کررکھا ہے اور سورہٴ توبہ وانفال کی واضح ہدایات کے ہوتے ہوئے غفلت وجہالت کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں‘ جبکہ اعداء اسلام دشمنی سے کبھی غافل نہیں ہوئے‘ اس دردناک غفلت وبے عملی کے جو نتائج سامنے آنے تھے وہ ظاہر ہوکر رہے‘ جس طرح دواؤں اور غذاؤں کے خواص ہیں‘ اسی طرح اعمال کے بھی خواص ہیں‘ جو شخص زہر کھاتا ہے وہ ہلاک ہوگا‘ اسی طرح ان ارشادات سے روگردانی کی سزا کو سمجھ لیجئے۔ حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو کلیدی مقامات عطا فرمائے‘ دنیا کے نقشہ پر نظر ڈالو تو معلوم ہوگا کہ دنیا کا قلب اب بھی مسلمانوں کے حیطہٴ اقتدار میں ہے اور قدرت نے نقشہ کچھ ایسا رکھا کہ تمام عالم اسلام باہم مربوط اور ایک اسلامی ملک کی سرحدیں دوسرے سے ملی ہوئی ہیں‘ پھر مسلم ممالک خصوصاً عرب ممالک کو مادی وسائل کی وہ فراوانی عطا فرمائی کہ عقل حیران ہے‘ اگر ان وسائل کو اسلامی ترقی اور فوجی طاقت مہیا کرنے پر صرف کیا جاتا تو عالم اسلام کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا‘ اور آج یہ روزِ بد نہ دیکھنا پڑتا‘ اب اگر عرب اور مسلم ممالک یہ چاہتے ہیں کہ ان کفار اور دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے محفوظ رہیں تو مندرجہ ذیل تدابیر پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے:
الف: قومیت وطنیت اور جنسیت کے مادی روابط سے بالا ترہو کر صرف اسلام کے العروة الوثقیٰ اور حبلِ متین کو مضبوطی کے ساتھ تھا ما جائے اور مغرب کی تمام لعنتوں کو خیر باد کہہ کر نئے سرے سے اسلام سے وفاداری کا عہد کیا جائے‘ اور باہمی اتفاق واتحاد کے رشتے مضبوط کئے جائیں‘ تمام اسلامی ممالک یکجان دوقالب ہوکر ہرقسم کے باہمی نفاق وشقاق اور حسد وکبر کو دل سے نکال دیں‘ یہ یقین دلوں میں جاگزیں ہونا چاہیئے کہ مسلمانوں کی عزت اسلام اور اسلامی زندگی کے اپنانے میں منحصر ہے‘ اسلام سے انحراف کرکے اور اس کی ہدایات کو پسِ پشت ڈال کر یہ قوم کبھی سرخرو اور کامیاب نہیں ہوسکتی۔
ب: حق تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے جو مادی وسائل نصیب فرمائے ہیں ان کے ذریعہ اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کریں اور پوری کوشش کریں کہ جدید سے جدید اسلحہ میں خود کفیل ہو جائیں‘ بلاشبہ اس میں دیر لگے گی‘ لیکن بیس پچیس سال میں نقشہ ہی بدل جائے گا‘ اس مقصد کے لئے جرمن‘ چین اور جاپان سے فنی اعانت حاصل کی جاسکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ معاوضہ دے کر ماہرین کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں‘ کافروں کی خوشامدیں کرنے‘ ان سے بھیک مانگنے اور ان کے رحم وکرم پر زندگی بسر کرنے کے بجائے جب تک مسلمان اپنے وسائل پر انحصار نہیں کریں گے‘ تب تک نہ باعزت اور مستغنی قوم کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ پر ابھر سکتے ہیں‘ نہ ذلت کی وادیوں سے قدم باہر نکال سکتے ہیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ جو قوم چالیس پچاس سال پہلے ”افیونی قوم“ مشہور تھی اور اپنی بے مائیگی میں ضرب المثل تھی آج وہ کہاں پہنچ گئی کہ امریکہ اور روس بھی اس سے خائف اور اس کے مقابلہ میں منافقانہ ملی بھگت پر مجبور ہیں‘ ان کی ترقی کا راز ”سوشلزم“ نہیں جیساکہ ہمارے جہلاء اس کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں‘ بلکہ اتحاد واتفاق‘ غیروں سے استغناء اور اپنے وسائل پر انحصار چین کی ترقی کا باعث ہے‘ الغرض جب تک عرب اور مسلم ممالک اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوں گے اور ان اعداء اسلام کفار‘ امریکہ‘ روس‘ برطانیہ‘ فرانس سے بے نیاز نہ ہوں گے‘ اس وقت تک یہی صورتِ حال قائم رہے گی‘ جس کا افسوسناک نقشہ ہمارے سامنے ہے۔
ج: آج کل عالم اسلام کے اتحاد کی باتیں بہت کی جاتی ہیں‘ اس کے لئے کانفرنسیں ہوتی ہیں‘ مقالے پڑھے جاتے ہیں‘ تجاویز سوچی جاتی ہیں‘ لیکن اس نکتے سے غافل ہیں کہ جب تک سب کا ایک مرکز نہ ہو اور تمام سر براہانِ مملکت اور عوام اپنے مفادات‘ اپنی ذاتی اغراض اور اپنی ”انا“ کو چھوڑ کرایک ”مرکز ثقل“ پر جمع ہونے کے لئے آمادہ نہ ہوں‘ ان منتشر ٹکڑوں میں اتحاد کیسے پیدا ہوسکتاہے‘ شاید آج کے ماحول میں یہ بات ”دیوانے کی بڑ“ سمجھی جائے گی‘ لیکن خدا لگتی بات یہ ہے کہ جب تک مسلمان ”خلافت اسلامیہ“ کا احیاء نہیں کریں گے‘ جسے برطانیہ کی سازش اور کمال اتاترک کی بداندیشی نے ذبح کرڈالا تھا‘ اس وقت تک عالم اسلام نہ متحد ہوگا‘ نہ ان کا کوئی مسئلہ حل ہوگا‘ اب مسلمان چاہیں تو خواہ یہ کام آج کرلیں کہ سب متحد ہوکر ایک ”خلیفة المسلمین“ بنائیں اور سب کے سب اس کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں یا کچھ عرصہ مزید ذلیل وخوار ہولیں‘ کافروں کی کند چھری سے ذبح ہوتے رہیں اور بعد میں جو زندہ رہے گا‘ وہ یہ کام کرلے گا‘ بہرحال مسلمانوں کے مسائل کا آخری حل خلافت کی تاسیس واحیاء ہے۔
مسلمانوں نے ایک بہترین اور بے نظیر قوم کی حیثیت سے دنیا پر حکومت کی ہے‘ صفحہ ہستی پر نہایت خوشنما نقوش چھوڑے ہیں اور تاریخ عالم پر اپنے کارنامے کے زریں باب رقم کئے ہیں‘لیکن آج باوجود یکہ قرآن جیسا آسمانی ہدایت نامہ ان کے ہاتھ میں ہے اور خاتم الانبیاء رحمة للعالمین جیسا ہادی برحق ان کا رسول ونبی اور مقتداء وپیشوا ہے‘ مگر آج اس کی ذلت ونکبت اور بے حسی وبے غیرتی کا تماشا دیکھو کہ یہود وہنود سے مار کھانا پسند کرتے ہیں‘ لیکن اپنے طویل جمود‘ عیش پرستی وتن آسانی‘ آپس کے کبر وغرور اور انانیت ولن ترانی کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہو پاتے‘ زمین کے خزانے اور دنیا بھر کے وسائل ان کے قبضہ میں ہیں‘ مگر انہیں کہاں خرچ کیا جارہاہے؟ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی اور جہاد فی سبیل اللہ پر نہیں‘ بلکہ تماشوں اور سینماؤں پر‘ تفریحوں اور کھیلوں پر‘ ریڈیو اور ٹیلیویژن پر‘ کلبوں اور ہوٹلوں پر! انا للہ۔ حق تعالیٰ کا ارشاد گویا آج ہی ان کے حق میں نازل ہوا ہے:
”فلما آتاہم من فضلہ بخلوا بہ وتولوا وہم معرضون ‘ فاعقبہم نفاقاً فی قلوبہم الی یوم یلقونہ بما اخلفوا اللہ ما وعدوہ وبما کانوا یکذبون“۔ (التوبہ:۷۶و۷۷)
ترجمہ:․․․”سو جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے (بہت سا مال) دے دیا تو وہ اس میں بخل کرنے لگے اور روگردانی کرنے لگے اور وہ تو روگردانی کے عادی ہیں‘ سو اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا میں ان میں نفاق قائم کردیا جو خدا کے پاس جانے کے دن تک رہے گا‘ اس سبب سے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے اپنے وعدہ میں خلاف کیا اور اس سبب سے کہ وہ (اس وعدہ میں شروع ہی سے) جھوٹ بولتے تھے“۔ (ترجمہ حضرت تھانوی)
اس آیتِ کریمہ کو بار بار پڑھئے اور غور کیجئے کہ جو ممالک ان کفار مستعمرین کے انتداب سے آزاد ہوئے‘ خواہ وہ فرانس ہو یا برطانیہ‘ مراکش سے لے کر پاکستان تک۔ کیا ان ممالک نے وعدے پورے کرلئے؟ کیا صحیح اسلامی حکومت قائم کی ؟ یا اس کے لئے کوشش کی؟ کوشش تو کیا اس کی خواہش بھی کی؟ جواب نفی میں ملے گا‘
درحقیقت یہ تو
”بما اخلفوا اللہ ما وعدوہ وبما کانوا یکذبون“
کی سزا ہے جو روز افزوں تنزل اور ذلت کے گڑھوں میں گرتے جا رہے ہیں۔ الغرض مسلمامانِ عالم کو چاہیئے کہ تمام قدرت کے عطا کردہ وسائل اپنی فوجی قوت وطاقت مہیا کرنے پر خرچ کریں اور غریب حکومتیں جہاد کا فنڈ قائم کرکے مسلمانوں سے جہاد کے لئے مال جمع کریں اور صرف اسی صحیح مقصد پر خرچ کریں اور اتفاق واتحاد پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھیں،ان سب تدابیر واسباب کو اختیار کرنے کے بعد توکل واعتماد صرف حق تعالیٰ ہی کی ذات نصرتِ الٰہی اور اس کی غیبی امداد پر ہو‘ ان وسائل کو حاصل کرنا اس لئے ضروری تھا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد اور حکم یہی ہے‘ ایک راستہ تو مسلمانوں کی ذلت کو عزت سے بدلنے کا یہ معلوم ہوتا ہے۔
فلاح وکامیابی اور عزت وترقی کا راستہ
اس کے سوا ایک راستہ اور بھی ناقص خیال میں آتاہے‘ عرب وعجم کے سب مسلمان اسلامی دعوت وتبلیغ کے لئے وقف ہوجائیں‘ یہ مقصد نہیں کہ تمام کاموں کو چھوڑ کر اس میں لگ جائیں‘بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہرملک اور ہرقوم کا کافی حصہ کفر کے ممالک میں اسلامی اصولوں پر دعوت وتبلیغِ دین کا کام شروع کرے اور قافلے کے قافلے ہرطرف پھیل جائیں‘ زیادہ ترتوجہ ان ممالک پر مرکوز رکھیں جن قوموں کو اسلام سے سخت عداوت نہ ہو اور ان میں کبر وغرور بھی نہ ہو اور وہ اپنی زندگی سے اکتا چکے ہیں‘ سکونِ قلب مفقود کرچکے ہیں ‘ پریشان ہیں‘ ان کو اسلام کی دعوت دے کر مسلمان بنانے کی کوشش کریں‘ ان کوششوں کا زیادہ تردائرہ افریقی ممالک کے علاوہ چین وجاپان کو بنائیں‘ ہوسکتا ہے کہ کسی وقت یہ طاقتور قومیں اسلام کی حلقہ بگوش ہوجائیں اور مسلمامانِ عالم کا نقشہ ہی بدل جائے:
”وان تتولوا یستبدل قوماً غیرکم ثم لایکونوا امثالکم“ ۔
ترجمہ:․․․”اور اگر تم منہ پھیر لو تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ کوئی دوسری قوم لے آئیں گے‘ پھر وہ تم جیسے نہیں ہوں گے“۔
کا نمونہ سامنے آئے‘ نبی کریم علیہ صلوات اللہ وسلامہ نے کیا یہ دعا نہیں فرمائی: ”اللہم اید ہذا الذین باحب الرجلین الیک ابی جہل وعمر“ اے اللہ! اس دین اسلام کو دو آدمیوں میں سے جو آپ کو پسند ہو اس کے ذریعہ قوت عطا فرمادیجئے۔آج ہم بھی اس سنتِ نبوی کی روشنی میں چین وجاپان کی ہدایت کے لئے یہ دعا کر سکتے ہیں‘ تبلیغی راستوں سے اس تدبیر میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیئے۔
الغرض میرے ناقص خیال میں یہی دو تدبیریں ہیں اور اگر دونوں کو جمع کرلیا جائے تو سبحان اللہ! حکمران پہلی تدبیر پر عمل کریں اور علماء امت اور عوام دوسری پر عمل پیراہوں‘ اگر یہ اسلامی طریقے اختیار کئے جائیں تو توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ان کوششوں کو ضائع نہیں فرمائے گی اور کم از کم آخرت کی مسؤلیت سے تو سبکدوش ہوجائیں گے‘ انسان کوشش ہی کا مکلف ہے‘ نتائج حق تعالیٰ کے قبضہٴ قدرت میں ہیں۔
اتنی بات بالکل واضح ہے کہ اس وقت اصل مسئلہ صرف مسجد اقصی اور بیت المقدس کا نہیں بلکہ فلسطین میں اسرائیل کے ناجائز وجود اور اس کی کھلی جارحیت کا ہے اور اس کا اصل سبب بڑی طاقتوں کی طوطا چشمی ہے ، اس لیے یہ مسئلہ اسی وقت حل ہوسکتا ہے جبکہ :
۱-اسرائیل کے خلاف تمام اسلامی ممالک مل کر اعلان جہاد کریں ۔
۲-عالم اسلام اپنا متحدہ محاذ بنائے اور اقوام متحدہ سے کنارہ کش ہوجائے ۔
۳-امریکہ اور اس کے حلیفوں پر واضح کردیا جائے کہ اگر وہ اسرائیل کی پشت پناہی سے باز نہ آئیگا تو اس سے سفارتی روابط توڑ لیے جائیں گے ۔
۴-ان کو پٹرول کی سپلائی بند کی جائے ۔
۵-اسلامی ممالک کا جتنا سرمایہ یورپ کے بینکوں میں جمع ہے اسے واپس لایا جائے ۔
۶-یہودی مصنوعات کا داخلہ اسلامی ممالک میں ممنوع قرار دیا جائے ۔
ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ تجاویز لفظًا جتنی آسان ہیں عملا اتنی ہی دشوار بھی ہیں ، بہت سی مشکلات پیش آئیں گی ، خطرات کا سامناہوگا ، مادی مفادات پر ضرب پڑے گی ، لیکن ہمارے لیے قبلہ اول اور مقامات مقدسہ کی ناموس کی خاطر ہمت وعزیمت ، قوت ایمانی اور نصرت خداوندی کے سہارے وقت کے اس چیلنج کو قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ، مسجد اقصی اور قدس کے مسئلہ پر آج اگر عرب اور اسلامی ممالک میں اتحاد نہ ہوسکا تو قیامت تک امکان نہیں کہ ان میں اتفاق ہو سکے ، دو سال سے اتنے مسئلہ پر متفق نہ ہوسکیں کہ سربراہوں کی کانفرنس کہاں پر ہو اور اس کا ایجنڈا کیا ہو ، انتہائی صدمہ ہے کہ آج تمام عالم اسلام ایک خطرناک دور سے گزررہا ہے اور ان حالات میں اگر اتفاق سے محروم رہے تو مستقبل میں کیا توقع ہوسکے گی ؟ افسوس کہ اگر ان کا اجتماع بھی ہوتا ہے تو آخری نتیجہ تشتت وافتراق ہی نکلتا ہے ،” تحسبہم جمیعا وقلوبہم شتی “کا نمونہ ہے ، حق تعالی صحیح فہم عطا فرمائے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام اسلامی ممالک میں اسلامی رابطہ بہت کمزور ہوگیا ہے اور عربی ممالک میں مزید کمزوری آگئی ہے ،اس لیے روحانی رابطہ کے ضعف کی تلافی کرنے کے لیے مادی وسائل کی تلاش میں مبتلاہوگئے ، عربی ممالک میں اس وقت سب سے بڑا فتنہ ”عرب قومیت“ کا ہے ،اس کے بعد وطنیت کا بھوت آجاتا ہے ، اسلامی روح نکلنے کے بعد رفتہ رفتہ تمام مادی فتنوں کے لیے زمین تیار ہوجاتی ہے ، پھر اشتراکیت واشتمالیت آجاتی ہے اور کہیں ملوکیت جنم لیتی ہے اور آخر کار ”نسو اللہ فأنساہم أنفسہم“ (وہ اللہ کو بھول بیٹھے ،نتیجة اللہ نے انہیں اپنے آپ سے بیگانہ کردیا ) کے قانون ازلی کے مطابق کسی نہ کسی شکل میں غضب الہی نمودار ہوجاتا ہے ، العیاذ باللہ ۔
اللہم لا تہلکنا بما فعل السفہاء من ان ہی الا فتنتک
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: مخالفت سلف سے اجتناب تفسیر قرآن کا ایک بنیادی اصول
Flag Counter