Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر ۱۴۲۷ھ بمطابق مارچ ۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

3 - 9
دردمندانہ معروضات
دردمندانہ معروضات
امتِ مسلمہ کے ہرفرد اور ہرطبقہ بالخصوص تاجر برادری کے لئے لمحہٴ فکر وعمل
غیرتِ ایمانی کا تقاضا
اللہ رب العزت والجلال کے وجود اور وحدانیت پر ایمان لانے کے بعد حضرت محمد رسول اللہ ا کی ذات والا صفات کی نبوت ورسالت‘ آپ ا کی ختم نبوت اور ساری کائنات پر آپ ا کی افضلیت پر دل سے اعتقاد رکھنا اور زبان سے اس کو تسلیم کرنا اور جناب نبی اکرم ا کی ذات بابرکات اور آپ اکی عزت وناموس کو اپنی‘ اپنے خاندان‘ بیوی بچوں اور اپنے کاروبار سے زیادہ محبوب رکھنا اور اس کے تحفظ کو اپنے جملہ متعلقات کے تحفظ سے زیادہ عزیز رکھنا‘ اہل اسلام کے عقائد ونظریات کی بنیاد ہے:
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہے اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
یہ دعویٰ کوئی جذباتی ‘ مذہبی جنون‘انتہأ پسندی اور شدت پسندی پر مبنی فکر کا نتیجہ نہیں‘ بلکہ خالق کائنات‘ خدائے واحد وقہار رب العالمین اور قادر مطلق احکم الحاکمین کا اپنی معزز ومکرم کتاب میں صریح اعلان ہے‘ چنانچہ ارشاد ربانی ہے :
”النبی اولی بالمؤمنین من انفسہم“۔ (الاحزاب:۶)
ترجمہ:-”پیغمبر ا مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں“۔
نیز دوسرے مقام پر حکم ربانی ہے:
”یا ایہا الذین آمنوا لاتتخذوا آباء کم اولیاء ان استحبو الکفر واخوانکم علی الایمان ومن یتولہم منکم فاولئک ہم الظالمون‘ قل ان کان آباء کم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقترفتوہا وتجارة تخشون کسادہا ومساکن ترضونہا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اللہ بامرہ واللہ لایہدی القوم الفاسقین“۔ (التوبہ:۲۳‘۲۴)
ترجمہ:۔”اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو (اپنا) رفیق مت بناؤ اگر وہ لوگ کفر کو بمقابلہ ایمان کے عزیز رکھیں اور جو شخص تم میں سے ان کے ساتھ رفاقت رکھے گا سو ایسے لوگ بڑے نافرمان ہیں۔ اے محمد ا آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیبیاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہو اوروہ گھر جن میں رہنے کو تم پسند کرتے ہو‘ اگر یہ چیزیں تم کو اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیاری ہوں تو تم منتظر رہو یہانتک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم بھیج دیں اور اللہ تعالیٰ بے حکمی کرنے والے لوگوں کو ان کے مقصود تک نہیں پہنچاتا“ ۔
حدیث شریف میں ارشاد ہے:
”لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین“۔ (مشکوٰةص۱۲)
ترجمہ:-”تم میں سے کوئی پورا ایمان والا نہیں بن سکتا جب تک وہ مجھ کو اپنے والدین‘ اپنی اولاد اور تمام انسانیت سے زیادہ محبوب نہ رکھے“۔
آج دنیا بھر میں کفریہ طاقتوں‘ یہود ونصاریٰ کی طرف سے جو کچھ تحقیر آمیز اور توہین انگیز عمل اور سرور کائنات‘ جناب رسالتمآب ا کی شان اقدس میں تضحیک آمیز رویہ سامنے آرہاہے‘ وہ پوری امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے اور اہلِ ایمان کے ایمان اور مذہب سے وابستگی کا امتحان بھی۔ اعدائے اسلام اور دشمنانِ دین کی یہ ناپاک جسارت اور اس کی قولاً وعملاً حمایت ومعاونت بلاشبہ ان کی اسلام دشمنی اور سازشی ذہنیت کی عکاس ہے‘ لیکن ان کی اس جسارت کو اگر ہم اپنی ہی غفلت‘ اپنی کوتاہی‘ ایمانی کمزوری اور اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی سے تعبیر کریں تو ہمیں اس تلخ حقیقت کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ یہود ونصاریٰ کی ہرتمنا اور ہرمراد کو پورا کرنا جب ہمارا انفرادی واجتماعی نصب العین بن جائے‘ اعداء اسلام کی معاشرت وطور طریق اختیار کرنا ہمارے لئے باعث فخر بن جائے‘ اپنے ہی دشمنوں کی خوشنودی وچاہت ہمارا منتہائے نظر وفکر بن جائے‘ وارثینِ نبوت‘ اہلِ علم کی تضحیک وتحقیر ہماری مجالس کی روح وجان بن جائے‘ امت کا غم ودرد ہمہ وقت اپنے سینہ میں رکھنے والے محبوب نبی کی سنتوں پر عمل کرنا ہمارے یہاں فرسودگی وپسماندگی کی علامت بن جائے‘ قرآن وسنت کی تعلیم جرم اور عورتوں ومردوں کا اختلاط اور شعائر دین کی پامالی ہماری قومی ترقی بن جائے‘ اپنے ہی مذہبی بھائیوں کے خلاف دشمنانِ اسلام کی ظالمانہ کاروائیوں میں مدد کرنا ہماری روشن خیالی اور ہمت وبہادری کا ثبوت بن جائے‘ صحیح اور بے ضرر اسلامی ریاست کو منہدم کرانے کا بدنما داغ ہمارے چہرے کی زینت ورونق بن جائے‘ صحیح طرح سے اسلامی زندگی گذارنا مشکل اور جدید اسلام کے نعرے لگانا ہمارا منشور ومقصود بن جائے اور مذہب کو نمبر ۲ اور ملکی شناخت کو نمبر دو قرار دینا ہمارا قومی نشان بن جائے تو اس طرح کے حملے اور امت مسلمہ کے جذبات سے کھیلنے کے یہ ہتھکنڈے اغیار کی طرف سے کچھ مستبعد نہیں ہوتے‘ بلکہ ایسے حملے یہ لوگ اپنا قانونی حق اور فریضہ سمجھتے ہیں۔
”لیکن صبح کا بھولا شام کو لوٹ آئے تو بھولا ہوا نہیں کہلاتا“
لہذا اب بھی اگر امت مسلمہ اپنی سوئی ہوئی غیرت وحمیت کو جگالے‘ اپنے ضمیر کو جھنجور ڈالے اور جس طرح پورا کفر‘ اسلام کے مقابلے میں متحد ومتفق ہواہے‘ اسی طرح کفر کے مقابلہ میں امت مسلمہ بھی ایک جان ہوکر سیسہ پلائی دیوار بن جائے تو خدا کی قسم! اللہ کی مدد آئے گی اور ضرور آئے گی ‘ کفر ٹوٹے گا اور اہلِ کفر پاش پاش ہوجائیں گے۔ ظاہر ہے کہ موجودہ حالت میں ہرشخص غازی علم الدین نہیں بن سکتا‘ لیکن جو کچھ ان وقتوں میں ہورہاہے اور جو کچھ دیکھنے اور سننے میں آرہاہے‘ ایسے وقت میں ہر شخص پر جو اسلام کا دعویدار ہے اور اسلام ہی کی حالت میں مرنے کا متمنی ہے‘ یہ فریضہ عائد ہوتاہے کہ ناموسِ رسالت کی خاطر اپنا ایمان بچانے کے لئے ان دشمنانِ دین کے خلاف حسبِ حیثیت جہاد کرے‘ اور اپنے دل میں ان سے اور جملہ یہود ونصاریٰ سے بغض وعداوت اور نفرت کو یقینی طور پر راسخ کرے اور اس بغض ونفرت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھے۔
رسول اللہ ا کی عزت کی خاطر اہلِ ایمان کو
کفن پہنے ہوئے میدان میں آنا بھی آتاہے
یہ بات مسلم ہے کہ ہرشخص تلوار وکلاشنکوف لے کر میدان عمل میں نہیں آسکتا‘ ہرشخص سڑکوں پر آکر اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کراسکتا‘ لیکن ہرمسلم جو روزانہ پنج وقتہ نماز کی ادائیگی کا پابند ہے‘ ہرنماز کے بعد اور قبولیت دعا کے دیگر مواقع میں گستاخی کا ارتکاب کرنے والوں اور ان کے ساتھ تعاون کرنے اور تعاون کا یقین دلانے والوں اور ان کے لئے دل میں نرم گوشہ اور ہمدردی رکھنے والوں کے خلاف بارگاہ رب العزت میں بددعا کرکے اللہ ذو الجلال کے رجسٹر میں اس کے دشمنان کے مخالفین کی فہرست میں اپنا نام ضرور لکھوا سکتاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی کہ جن کو ہمارے پیارے اور محبوب‘ بلکہ خالق ومالک کائنات کے محبوب کی شان میں گستاخی کی جرأت ہوئی‘ اور ان ممالک کی جنہوں نے دیدہ دلیری سے ان بدمعاشوں اور گستاخوں کی حمایت کی‘ ان سب کی تمام مصنوعات خواہ وہ براہ راست تیار شدہ درآمد کی جاتی ہوں یا صرف ان کی رائلٹی ان ملعون یہود وہنود ونصاریٰ کو جاتی ہو‘ مکمل احتراز واجتناب کرکے بھی ہرصاحبِ اسلام ناموس رسالت کے محافظین میں شامل ہوسکتاہے۔ کیا ہم اپنے اس پیغمبر کی خاطر کہ جس نے دنیا کی تمام راحتوں اور آسائش کے سامان کو صرف یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ روز محشر اس کے عوض اپنی امت کی مغفرت کراؤں گا‘ ان کے دشمنوں اور گستاخوں کو اپنا روپیہ پیسہ دینا بند کردیں تو بھی ہم سرور دوعالم ا کے ادنیٰ حق کو ادا کر سکتے ہیں؟
امت مسلمہ کے افراد محمد رسول اللہ ا جیسے پاکیزہ رہبر ومتقدأ کی محبت اور ناموس کے تحفظ کی خاطر کہ جن کو ان کا رب ”ولسوف یعطیک ربک فترضی“ کے اعزاز سے نوازے اور وہ بھی اپنے رب سے ناز میں آکر یہ کہے ”میں تب تک راضی نہ ہوں گا جب تک میری امت کا ہرفرد جنت میں نہیں جائے گا“۔ کیا ایسے راہبر ومقتدأ کی محبت اور ناموس کے تحفظ کی خاطر کتے اور خنزیر کھانے والے منحوسوں اور خنزیر صفت ملعونوں کی بنائی ہوئی چیزیں بھی نہیں چھوڑ سکتے؟
براداران اسلام!
ہم ان اقوام کی مصنوعات ترک کرکے کسی نقصان اور گھاٹے میں نہیں جائیں گے‘ بلکہ کم از کم ان کے ہاتھ مضبوط کرنے والوں کی فہرست سے نکل جائیں گے۔ ذرا سوچئے کہ جس نبی کی دنیا وآخرت کی فکر امتی امتی تھی‘ کیا اس کی خاطر ہم اتنا بھی نہیں کرسکتے؟ کیا ہم ان کے لئے اپنا تعیش اور منہ کا چٹخارا اور زبان کا وقتی اور عارضی ذائقہ قربان نہیں کرسکتے؟
اگر روز محشر زبانِ رسالت سے یہ سوال ہوجائے کہ تمہارے جسموں میں روح اور حیات ہوتے ہوئے میرے اوپر کیچڑ اچھالی گئی‘ میری عزت کو تارتار کرنے کی کوشش کی گئی‘ میری ناموس کو داغدار بنانے کی ناپاک جسارت کی گئی اور تم میرے دشمنوں سے انتقام لینے کے بجائے خاموش تماشائی بنے رہے‘ ان کے ہاتھ توڑنے کے بجائے مزید مضبوط کرتے رہے تو ہم آقا کو کیا جواب دیں گے؟ کس زبان سے شفاعت کی درخواست کرسکیں گے؟ کس منہ سے حوض کوثر کا جام پی سکیں گے؟ کیا اس وقت ہم اپنے کاروبار کے نقصان کا عذر کرسکیں گے؟ منہ کے ذائقے کی مجبوری بتاسکیں گے؟ کچھ نہ کرسکنے کا بہانہ کرسکیں گے؟ اپنی حکمت ومصلحت پسندی کو ڈھال بناسکیں گے؟
لہذا امت مسلمہ کے افراد پر انفراداً واجتماعاً لازم وضروری ہے کہ ان یہود ونصاریٰ کی تمام مصنوعات سے مکمل احتراز کریں اور انفراداً واجتماعاً معاشی بائیکاٹ کریں۔ اگر ہم سب ایسا کرلیتے ہیں تو انشأ اللہ العزیز امید ہے کہ ہم اپنے ایمان کا تحفظ بھی کرسکیں گے اور اپنے رب کو راضی کرکے حضرت نبی پاک ا کے سامنے سرخرو بھی ہوسکیں گے۔ اگر ہم اعدائے اسلام اور دشمنان دین کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم خداوندی پورا نہیں کرسکتے تو کم از کم اتنا تو ہمارے بس میں ہے کہ دین ومذہب اور سرور دو عالم ا کی ناموس پر حملہ کرنے کے لئے ان کے ہاتھ مضبوط نہ کریں‘ اگر اہلِ اسلام اور اسلام کے تحفظ کے لئے ہم کچھ نہ کرسکیں تو کم از کم اس کے خلاف دانستہ یا نادانستہ ہتھیار تو نہ بنیں۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, صفر المظفر ۱۴۲۷ھ بمطابق مارچ ۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: حالت حیض میں نمازودیگر عبادات کا حکم
Flag Counter