Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اگست 2010

ہ رسالہ

9 - 14
ملفوظات حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہ
ایف جے،وائی(August 31, 2010)

مرتبہ: سید عشرت جمیل میر
{گذشتہ سے پیوستہ}

عُجب کا نہایت موثر علاج

غرض ظاہری و باطنی گناہوں سے بچنے کی ہر وقت فکر رہنی چاہیے۔ بعض دفعہ آدمی ظاہری گناہوں سے بچتا ہے۔ لیکن باطنی گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے مثلاً چندہ اور اہتمام کا کام تو دیانت سے کیا مخلوق میں واہ واہ ہوگئی اور عجب پیدا ہوگیا کہ واقعی میں بڑا اچھا کام کرتا ہوں میں بھی کچھ ہوں۔ بس سمجھ لو کہ کام خراب ہوگیا۔ جب آدمی اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہے تو اﷲ کی نظر میں برا ہوتا ہے۔ اس لیے جب مخلوق تعریف کرے یا دل تعریف کرے تو سالک کو کیا کرنا چاہیے؟ دشمن خارجی ہو یا داخلی دونوں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور داخلی اور خارجی دونوں دفاع مضبوط رکھناچاہیے۔ جب دل تعریف کرے تو داخلی دفاع کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت یہ سوچنا چاہیے کہ میں پیشاب پاخانے سے بدتر ہوں، مجھ سے اچھا وہ کتا ہوگا بلکہ پاخانے کا کنستر مجھ سے اچھا ہوگا اگر میرا خاتمہ خراب ہوگیا۔ کیونکہ اس غلاظت سے حساب کتاب نہیں ہوگا۔ جب تک خاتمہ بالخیر نہیں ہوجاتا اس وقت تک اپنے آپ کو کیسے اچھا سمجھ لوں کیوں کہ خاتمہ پر ہی اچھا یا برا ہونا منحصر ہے اور مجھے ابھی اپنے خاتمہ کا علم نہیں کہ کیا مقدر ہے۔ ہاں جس دن خاتمہ صحیح ہوجائے گا اس دن سمجھ لوں گا کہ میں اچھا تھا اگر آج اپنے آپ کو اچھا سمجھ لوں اور خدانخواستہ خاتمہ خراب ہوجائے تو کیا میں حقیقت میں اچھا ہوں گا اور کیا یہ اپنے آپ کو اچھا سمجھنا مجھے اﷲ کی نظر میں اچھا کرے گا۔ اس لئے جب تک خاتمہ بالخیر نہیں ہوجاتا اس وقت تک میں پیشاب پاخانہ سے کتے اور سور سے بدتر ہوں۔ اسی طرح جب مخلوق تعریف کرے تو گویا خارجی دشمن حملہ آور ہوا ہے۔ اس لیے خارجی دفاع کو مضبوط رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اپنے اﷲ سے یوں کہو کہ اے اﷲ آپ کی ستاری ہے کہ آپ نے میرے عیوب کو مخلوق سے چھپا دیا۔ اگر ان عیوب میں سے کسی ایک عیب کی آپ پردہ دری فرمادیں تو لوگ مجھ سے بات کرنا بھی پسند نہ کریں۔ میرے اندر تو ہزاروں عیوب ہیں یہ آپ کا کرم ہے کہ آپ نے لوگوں سے ان کو چھپادیا۔ اے اﷲ بھلائیاں آپ کو زیبا ہیں برائیاں ہم کو لائق ہیں۔ جس طرح پیٹ کے اندر پاخانہ چھپا ہوا ہے اگر پیٹ میں کوئی سوراخ ہوجائے تو لاکھ عطر لگائوں لوگ تعفن سے قریب نہ پھٹکیں آپ نے نیکی کا یہ تھوڑا سا عطر لگادیا اور میرے عیوب کے پاخانہ کو جو میرے اندر موجود ہے چھپا دیا۔ ہر بیماری کا علاج اپنے اﷲ سے مشغول ہوجانا ہے۔ شیطان نے تو تمہارے کان میں پھونک ماری تھی دشمنی سے کہ اﷲ سے دور ہوجائے وہ دشمنی ذریعۂ قرب بن گئی پیر کے راستہ بتانے سے۔ کیونکہ اگر دل کی تعریف کرنے سے یا مخلوق کی تعریف سے خوش ہو کر تم اپنے آپ کو اچھا سمجھ لیتے تو شیطان کامیاب ہوجاتا لیکن تم نے اپنے آپ کو اور حقیر کرلیا اور اﷲ سے مشغول ہوگئے۔ شیطان نے جو دشمنی کرنی چاہی تھی وہ ذریعۂ قرب ہوگئی۔

اﷲ والے کسی کی تعریف سے متاثر نہیں ہوتے اسی لیے انہیں قطب کہتے ہیں۔ قطب ستارہ اپنی جگہ سے ہلتا نہیں۔ نہ مخلوق کی تعریف ان پر اثر انداز ہوتی ہے نہ برائی۔ مدح و ذم ان کے لیے برابر ہوتی ہے۔ حضرت جنید بغدادی اپنے مریدوں کے ساتھ ایک بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک بڑھیا نے انہیں مکار کہا۔ حضرت جنید بغدادی نے فرمایا کہ صرف اس بڑھیا نے جنید کو صحیح پہچانا ہے۔ حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ امداداﷲ پر اﷲ کی ستاری ہے ورنہ یہ علماء مجھ سے بیعت ہوسکتے تھے؟ اﷲ والوں کی نظر اپنے کمالات پر نہیں ہوتی اپنے عیوب پر ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو دنیا کی ہر شے سے حقیر سمجھتے ہیں۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں ؎

ببانگ دھل ہولم از دور بود

بغیب اندرم عیب مستور بود

میرے ڈھول کی آواز سے میرا رعب و ہیبت دور دور پہنچ گیا ہے لیکن میرے اندر کا جو پول نظر نہیں آرہا اس کی بدولت میرا عیب پوشیدہ ہوگیا ہے۔ ڈھول کے اندر پول ہوتا ہے۔ میرا رعب و ہیبت مثل ڈھول کی آواز کے ہے کہ آواز تو دور دور جارہی ہے لیکن اندر سے خالی ہے عیب دار ہے۔ کیونکہ وہ نظر نہیں آرہا ہے اس لئے عیب پوشیدہ ہوگیا۔

۳؍شعبان المعظم ۱۳۸۹؁ھ، مطابق ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۶۹؁ء

گناہگاروں کے لیے طلوعِ آفتابِ امید

ارشاد فرمایا کہ گناہوں کا استحضار اپنی فنائیت و بے مائیگی کی نیت سے تو جائز اور مستحسن ہے کہ بندے کی نگاہ پھر اپنے عمل پر نہیں رہتی۔ اپنی پچھلی زندگی کے اعمال دیکھ کر اپنے دامن کو خالی پاتا ہے تو اس کی نگاہ اﷲ کی رحمت پر رہتی ہے کہ میں تو کسی قابل نہیں میاں کی رحمت بڑی ہے، اپنے عمل کے اعتبار سے تو میں مستحق عذاب ہوں لیکن حق تعالیٰ کی رحمت سے امید رکھتا ہوں کہ اپنی قدرت کاملہ قاہرہ سے وہ ایک منٹ میں نہ جانے کیا سے کیا بناسکتے ہیں۔ ان کی عطا کسی استعداد و قابلیت کسی قاعدہ قانون کی پابند نہیں ہے۔ مطلع ابر آلود ہوتا ہے ایک ہوا چلتی ہے اور گھنگھور گھٹائوں کو اڑا کر لے جاتی ہے۔ اسی طرح اگرچہ ہمارے قلب کا افق گناہ کی گھٹائوں سے گھر گیا، نور کی کہیں گنجائش نہیں رہی لیکن اپنی گھٹائوں کو مت دیکھو ان کی نسیم کرم پر نظر رکھو، اس کے سامنے یہ گناہ کیا چیز ہیں۔ تو اپنی بے مائیگی اور فنائیت کے اعتبار سے اپنی سابقہ زندگی کے گناہوں کو یاد کرنا یہ تو پسندیدہ ہے، اﷲ کو یہ بات پسند ہے کہ بندہ مٹا ہوا رہے۔ ایسا شخص کہ جس نے کبھی کوئی گناہ تو نہیں کیا لیکن اپنے اعمال پر نظر ہوگئی کہ میں ایسا ہوں، میرے ان اعمالِ حسنہ سے مجھ کو بڑا قرب حاصل ہوگیا ہوگا۔ سمجھ لو شیطان نے اس کا راستہ ماردیا، ایسا شخص ہرگز مقرب نہیں ہوسکتا جو قرب حاصل تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔اس سے تو وہ گنہگار اچھا ہے جو اپنے گناہوں کی وجہ سے نادم رہتا ہے۔ ندامت اور شرمندگی اﷲ کو پسند ہے لیکن کبھی کبھی شیطان کان میں پھونک دیتا ہے کہ تم نے تو ساری زندگی گناہوں میں کاٹ دی حتیٰ کہ اب گناہوں کی استعداد بھی نہ رہی اور ولایت موقوف ہے استعداد ہوتے ہوئے تقاضے پر عمل نہ کرنا، اب تمہیں کیا قرب نصیب ہوگا، ولایت کا اعلیٰ مقام اب تمہیں نصیب نہیں ہوسکتا۔ جب دل میں یہ خیالات آئیں تو سمجھ لو کہ یہ شیطان کا زبردست دھوکہ ہے۔ وہ مایوس کرنا چاہتا ہے کہ اسے اﷲ کا قرب حاصل نہ ہوسکے۔ گناہ کا ایک تعلق تو بندے کی ذات سے ہے کہ واقعی ہم اپنے عمل کے اعتبار سے کسی قرب خاص کے مستحق نہیں لیکن دوسرا تعلق اﷲ کی ذات سے ہے کہ وہ ہمارے گناہوں سے بھی عظیم ہیں ایک منٹ میں گناہوں کو دھوکر تاج خلافت پہناسکتے ہیں اس لحاظ سے ان کی رحمت سے ہرگز ہرگز کسی حال میں نا امید نہ ہونا چاہیے۔

اے عظیم از ما گناہان عظیم

تو توانی عفو کردن در حریم

یہ ہے معرفت۔ اصل میں ہم دنیا کے اور جسم کے معاملات پر ان کی رحمت کو قیاس کرتے ہیں اس وجہ سے ناامیدی ہوجاتی ہے جیسے دنیا میں کسی مریض کے پھیپھڑوں میں سوراخ ہوتا ہے اور ناقابل علاج ہوجاتا ہے تو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ ناقابل علاج ہوگیا، اب اسے کسی علاج سے فائدہ نہ ہوگا کیونکہ اس میں اب استعداد صحت ختم ہوچکی ہے لیکن روح کے معاملات کو کبھی اس مثال پر قیاس نہ کرنا کیونکہ روح کا معاملہ اﷲ کے ساتھ ہے اور اﷲ تعالیٰ کی الوہیت کیا ہماری استعداد سے چھوٹی ہے یا ہماری استعداد کی پابند ہے یا اﷲ تعالیٰ مجبور ہیں کہ فلاں بندے نے کیونکہ گناہ کرکے خود کو تباہ کرلیا اس لیے نعوذ باﷲ اب ہم اس کو اپنا بنانے پر قادر نہیں لہٰذا سند اعمال صالحہ یعنی سند استعداد ولایت دکھائو تو ہم اپنا بنائیں گے۔ ارے خوب یاد رکھو کہ اﷲ کی رحمت کسی سند و استعداد کی پابند نہیں، جب وہ فضل فرماتے ہیں تو ایک منٹ میں بغیر سند و استعداد کے اپنا بنالیتے ہیں، بندہ جس قابل نہیں ہوتا اس قابل بنادیتے ہیں۔ وہ قابلیت کے پابند نہیں ہیں، نجاست پر جب ان کے آفتاب کرم کی شعاعیں پڑتی ہیں تو آفتاب کی گرمی سے اس کا ایک حصہ تو زمین میں جذب ہوجاتا ہے اور ایک حصہ خشک ہوجاتا ہے۔ اسی نجاست کے ذرات برسات میں کھاد ہوجاتے ہیں اور وہ حصۂ زمین سبزہ زار ہوجاتا ہے۔ اور خشک حصہ تنور میں جل کر نور بن جاتا ہے۔ بولئے نجاست میں کیا خوبی و استعداد تھی؟ ان کی رحمت نجاست کو سبزہ زار بنادیتی ہے نور بنادیتی ہے۔ سبزۂ و نور بننے سے پہلے اگر نجاست یوں کہے کہ میں تو کسی قابل نہیں کیونکہ میرے اندر تو سبزہ زار بننے کی صلاحیت ہی نہیں تو یہ اس کی حماقت اور معرفت کی کمی ہے۔ ارے تونے اپنی استعداد کو دیکھا اﷲ کی رحمت کو نہ دیکھا جو خالق قابلیت و استعداد ہے۔ تہجد کے وقت حضرت بڑے پیر صاحب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کو الہام ہوا کہ دو ہزار میل کی دوری پر ایک ابدال کا انتقال ہورہا ہے جائو اس کی نماز جنازہ پڑھانی ہے اور فلاں عیسائی کو جو صلیب ڈالے ہوئے گرجا میں پوجا کررہا ہے کلمہ پڑھا کر کرسی ابدالیت پر بیٹھانا ہے۔ بولئے اس عیسائی میں کیا استعداد تھی، کفرو طغیان میں مبتلا تھا ابھی تو کوئی عمل بھی نہ کیا تھا اور درجہ ابدال کا عطا ہورہا ہے، اتنے شواہد ہیں کہ تاریخ بھری ہوئی ہے۔ حضرت فضیل ابن عیاض ڈاکہ ڈالتے تھے جوانی ڈاکہ زنی قتل و غارت میں گذاری اپنے آپ کو تباہ کرلیا تھا، بڑھاپے میں توبہ کی اور ہمارے سلسلے کے اتنے بڑے ولی اﷲ ہوئے کہ آج سلسلہ ان سے جاری ہوا۔ بولیے کیا کسی استعداد کی وجہ سے انہیں یہ قرب عطا ہوا۔ اﷲ کی رحمت پر نظر رکھو ان کی رحمت سے بڑے سے بڑے درجہ ولایت کی امید رکھو ان کا فضل کسی قاعدہ قانون کا پابند نہیں روتے رہو اور مانگتے رہو ان کا فضل جس کو چاہتا ہے مقام عالیہ عطا کرتا ہے وہ کسی کی استعداد و قابلیت کا پابند نہیں ان کے فضل سے امید رکھو کہ کس وقت نہ جانے کیا سے کیا بنادیں۔

بعض دفعہ تباہ شدہ زندگیوں کو زیادہ قرب نصیب ہوجاتا ہے جیسے ایک ملک میں زلزلہ آیا تھا تو اس ملک کے بادشاہ نے شاہی خزانے کو عام کردیا تھا کہ جس کا مکان تباہ ہوگیا ہو وہ پہلے سے اچھا مکان بنالے، جن کی جھونپڑیاں تھیں ان کے محل بن گئے۔ تو کیا ہمارا اﷲ دنیاوی بادشاہوں سے بھی نعوذ باﷲ کم ہے؟ اگرچہ ہم نے گناہوں کے زلزلوں سے اپنے آپ کو تباہ کرلیا ہے لیکن ہمارا شاہ تو ایسا غنی ہے کہ ہماری عمارت قرب کو پہلے سے کہیں اچھی اور عالی شان تعمیر کرسکتا ہے، وہ پہلے سے زیادہ اور عظیم الشان قرب عطا فرمانے پر قادر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے مایوس نہ ہونا چاہیے چاہے کیسا ہی حال ہو بلکہ توبہ کرکے ولایت کے اعلیٰ ترین مقام کی امید رکھنا چاہیے۔

نظر کی حفاظت شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے

ارشاد فرمایا کہ جو اپنی آنکھوں کو ننگا کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی شرمگاہ کو ننگا کردیتے ہیں اور جو اپنی آنکھ پر اﷲ کے حکم کا پردہ ڈالتا ہے اس کی برکت سے اس کی شرمگاہ پر بھی پردہ ڈالے رکھتے ہیں۔ اس لیے ارشاد ہے قل للمومنین یغضوا من ابصارہم و یحفظوا فروجہم اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی آنکھوں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ معلوم ہوا کہ اگر آنکھیں نیچی رکھی جائیں گی تو شرمگاہ بھی محفوظ رہے گی ورنہ بس بے حیائی کی پہلی سیڑھی بدنظری ہے، یہ وہ لفٹ ہے کہ اگر اس میں سوار ہوگئے تو بس پھر آخری منزل (بدفعلی) پر لے جاکر چھوڑے گا کیونکہ جب آدمی لفٹ میں بیٹھ جاتا ہے اور اس کا بٹن دبادیتا ہے تو اب درمیان میں نہیں رک سکتا منزل پر ہی جاکر لفٹ رکتی ہے۔ یہ وہ لفٹ ہے کہ اس کا چلانے والا شیطان ہے لہٰذا اس میں سوار ہی نہ ہو۔ اﷲ تعالیٰ نے آنکھوں میں روشنی دی ہے تو اوپر چلمن بھی بنادی ہے اس لیے جب کوئی خوبصورت نظر آئے تو یہ چلمن (یعنی پپوٹے) ڈال دو، شعاع نظر کو آگے نہ بڑھنے دو۔ جو ایسا کرے گا انشاء اﷲ کبھی شرمگاہ کو ننگا کرکے ذلیل نہ ہوگا۔ اگرچہ اس میں مجاہدہ کرنا پڑے گا تقاضا ہوگا تکلیف ہوگی لیکن سب کچھ جھیلنا چاہیے۔ اس وقت یہ سوچنا چاہیے کہ جس صورت پر آج جان و مال قربان کرنا بلکہ سلطنت قربان کرنا آسان معلوم ہوتا ہے کل یہی صورت ایسی ہوجائے گی کہ اس کی طرف نظر کرنے کو جی نہ چاہے گا، ایک پیالی چائے پلانے کو دل نہ چاہے گا۔ کوئی لڑکا ہے کہ آج جی چاہ رہا ہے کہ ا س پر جان و مال قربان کردو لیکن کل جب اس کے ڈاڑھی نکل آئے گی تو اس کو دیکھ کر بھاگوگے۔ یہ شیطان و نفس نقد نفع دکھاتے ہیں اور صورت اتنی حسین نہیں ہوتی جتنی وہ دکھاتے ہیں حالانکہ ہر چیز کو اس کے انجام کے اعتبار سے دیکھنا چاہیے ؎

گر بہ آرد رو بہ تو آں رو قفا ست

زادۂ دنیا چو دنیا بے وفا ست

شیطان اگر کسی کی صورت کو اچھا دکھائے تو اسے گدی سمجھو یعنی جس چیز کو وہ اچھا دکھائے اس کو اس کا عکس یعنی برا سمجھو۔ وہ آغاز میں شہوت کو پاک محبت کرکے دکھاتا ہے کہ تمہیں ا اس سے صرف پاک محبت ہے کوئی نفسانی تعلق نہیں ہے شہوت کو وفا دکھاتا ہے تو سمجھ لو کہ دنیازادہ دنیا کی طرح بے وفا ہے۔ حرام تعلق ایک دن نفرت میں تبدیل ہوجاتا ہے اور آپس میں ہمیشہ کے لیے عداوت ہوجاتی ہے۔

(جاری ہے۔)

ظظظظظ
Flag Counter