حیات تقوی |
ہم نوٹ : |
آفتابِ ظاہری کا اثر نجاستوں پر یہ تو گوبر کا خشک حصہ تھا لیکن سورج کی شعاعوں سے جب معدہ زمین گرم ہوا تو اس نے گوبر کا سیال، پتلا اور لیکوئیڈ حصہ چوس لیا جو کھاد بن گیا۔ اب اسی کھاد سے گلاب اور چنبیلی، سوسن و ریحان، خوشبو اور بیلا پیدا ہورہا ہے۔مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اے خدا! آپ کی مخلوق سورج کی شعاعوں میں یہ اثر ہے کہ نجاستِ غلیظہ کے ایک حصے کو تنور میں روشن کردیتی ہے اور ایک حصہ کو گلاب اور چنبیلی بنادیتی ہے، جب آپ کے ظاہری سورج کی شعاعوں میں یہ تاثیر ہے تو آپ کے کرم کا سورج جس پر چمک جائے اس کے اخلاقِ رذیلہ کا کیا عالَم ہوگا؟ اس کے تقاضوں کی نجاستوں کا کیا عالَم ہوگا؟ اس کے اخلاقِ رذیلہ اور تقاضائے گناہ کیوں نہ ایک دم میں اخلاقِ حمیدہ اور ذوقِ عبادت سے تبدیل ہوجائیں گے۔ آہ! پھر یہ شعر مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ؎ آفتابت بر حد ثہامی زند اے خدا! آپ کا آفتاب آسمانی ظاہری نجاستوں پر اثر کرتا ہے اور ؎ لطف عام تو نمی جوید سند آپ کا لطفِ عام قابلیت نہیں تلاش کرتا۔ اگر قابلیت تلاش کرتا تو آپ کے آسمان کا سورج نجاستوں پر اثر نہ کرتا، سورج کہتا کہ میری شعاعوں کی توہین اور میری شعاعوں کی عظمت کے خلاف ہے کہ میں پاخانہ پر اپنا اثر ڈالوں، اپنی رفتار بدل دیتا۔ آفتابِ رحمتِ حق کا اثر باطنی نجاستوں پر لیکن اے خدا! جب آپ کا آسمان والا سورج نجاستوں کو سوسن و گلاب و چنبیلی بنارہا ہے اور تنور میں روشن کرکے روٹی پکارہا ہے تو آپ کے کرم کا سورج کیسا ہوگا؟ جب آپ کی مخلوق سورج، آپ کی ادنیٰ بھیک کا یہ حال ہے تو آپ کے کرم کی بھیک کا کیا عالَم ہوگا اور بھیک دینے والے کے کرم کا کیا عالَم ہوگا۔ جس کے دل کی نجاستوں پر، جس کے دل کے گندے گندے تقاضوں پر آپ کی رحمت اور کرم کی شعاع پڑ جائے پھر اس کے وہی تقاضے اور رذائل