Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1434ھ

ہ رسالہ

1 - 18
کیا صرف اللہ کے لیے؟
مولانا عبید اللہ خالد
کیا صرف اللہ کے لیے؟ آپ سے پوچھا جائے کہ یہ زندگی کیوں گزاررہے ہیں؟ تو آپ کا ایک جواب مسلمان کی حیثیت سے یہی ہوگا کہ اللہ کی رضا کے لیے آپ یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ یقینا، ایک مسلمان کی زندگی میں سب سے اہم شے اللہ کی رضا ہی ہونی چاہیے اور اسی کیلیے زندگی گزارنی چاہیے۔

لیکن کیا اللہ کی رضا ہی کے لیے ہم اور آپ، سب کچھ کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں دن رات مختلف کاموں میں محنت کرنے اور اپنی زندگی کو مشقت میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ کی رضا کا حصول تو بہت آسان ہے۔ بس، جائے نماز بچھائیے، ہاتھ میں تسبیح لیجیے اور اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی ذکر شروع کردیجیے۔ پانچوں نمازوں کے اوقات پر نماز پڑھ لیجیے۔ رمضان آچکا ہے، روزے رکھ لیجیے اور اگر صاحب نصاب ہیں تو زکوٰة ادا کردیجیے۔

جب ہم اپنی عملی زندگی کی طرف دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں بہت سے کام صرف اللہ کی رضا کے لیے نہیں کرتے، بلکہ اپنی خواہشات اورترجیحات کو بھی دخل ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کے دو شعبے کردیے ہیں: ایک شعبے کا تعلق ہماری زندگی کے عمومی مسائل و ضروریات سے ہے تو دوسرے شعبے کا تعلق ہماری روحانی یا اسلامی اقدار و روایات سے ہے۔

یقینا، ایسا ہی ہونا چاہیے کہ ہم اپنی تمام تر زندگی کا محور اللہ کی رضا کو بنائیں لیکن کیا عملی زندگی میں ہم ایسا کرپاتے ہیں۔ غیر اسلامی فکر کے ذہنی تسلط اور اسلامی روح کے دب جانے سے ہوا یہ ہے کہ ہم نے آپ کو من حیث المجموع دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ چنانچہ اگر نماز، روزہ، ذکر، تسبیح وغیرہ کی بات ہو تو ہم اللہ کی رضا کو سامنے رکھتے یا کم از کم رکھنے کی بات ضرور کرتے ہیں مگر جب معاملہ زندگی کے ثانوی شعبے کا ہو تو ہم اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ یہاں اللہ کی خوشنودی اور رضا کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ یہ ہمارا دنیا کا معاملہ ہے۔ ہمیں اپنی موت کی تیاری تو اللہ کے طریقوں کے مطابق کرنی چاہیے مگر دنیا کی تیاری کے لیے غیراللہ کے طریقوں کو اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس خطرناک اور تباہ کن رویے کی وجہ سے آج مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان کی کاروباری اور خانگی زندگی سے اسلام نہ صرف یہ کہ نکل چکا ہے بلکہ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ذہنوں سے بھی مٹ چکا ہے۔ مسلمان آج اسی روش پر لوٹ آیا ہے کہ جس پر قرآن کے مطابق بنی اسرائیل چل رہے تھے۔ یہودیوں کی اسی روش کی بنا پر ان پر عذابات پے در پے آرہے تھے۔

برا نہ مانئے گا، آج یہودیوں کی اسی روش کو جب مسلمانوں نے اختیار کیا ہے تو دنیا بھر کے مسلمانوں پر آنے والی آفات کیا اس پر دال نہیں کہ یہ بھی خدا کے عذابات ہیں؟ پھر یہ آفات کبھی قدرتی ہیں تو کبھی کسی سیاسی، سماجی، معاشرتی یا معاشی سازش کا حصہ۔ اور مسلمان اس قدر کمزور اور خوف زدہ ہیں کہ کسی کل چین نظر نہیں آتا۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے جب اپنی دنیا سے اللہ کو نکال دیا (معاذ اللہ) تو اللہ نے بھی انھیں دنیا میں در بہ در کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مشرق و مغرب سے لے کر شمالاً و جنوباً مسلمان اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں․․․ کئی طرح کے گھمبیر مسائل اور مصائب میں مبتلا ہیں۔ کہیں حکومتوں کا خوف ہے تو کہیں معاشی کساد بازاری کا غم؛ کبھی اپنوں سے جان کو خطرہ ہے تو کبھی مخالف جماعت کا دھڑکا؛ کہیں گھریلو ناچاقیوں نے جینا دوبھر کر رکھا ہے تو کہیں سرکاری قوانین نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔

اس صورت حال کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اول تو اللہ کی رضا کو چھوڑ دیا ہے اور اگر خال خال اللہ کی رضا کی بات ہے تو وہ صرف خالصتہً مذہبی معاملات میں۔ اور وہ بھی اکثر غلط عقائد اور شیطانی چالوں کی نظر ہوجاتی ہے۔ زندگی میں اگر آپ کا یہ دعوا سچا ہے کہ آپ محض اللہ کی رضا کے لیے زندگی گزار رہے ہیں تو اپنی زندگی کے ہر معاملے کو خواہ اس کا تعلق مذہب سے ہو یا کاروبار اور گھر بار سے، اسے اللہ کی رضا کے پیمانے میں تولیے․․․․ ہر دنیاوی مصلحت اور مجبوری سے بالا تر ہوکر!

آپ کی زندگی بدل سکتی ہے اور زندگی بدلنے کا واحد ذریعہ یہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ محض رونا رونے والوں میں سے ہیں یا اپنی زندگی کو بدلنے کے لیے مخلص!
Flag Counter