Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1433ھ

ہ رسالہ

1 - 14
پیدائش اورموت
مولانا عبید اللہ خالد
پیدائش اور موت یہ دو مظاہر فطرت عقل مند اور باشعور انسان کے لیے خدا کو پہچاننے کے بہت بڑے مظاہر ہیں۔ یوں تو بہت سے مظاہر ہیں جو الله کی خالقیت کی گواہی دے رہے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ کسی دوسرے مظہر سے ا نسان کا واسطہ پڑا ہو یا اس نے اس کا مشاہدہ کیا ہو ۔ زندگی اور موت ، نہ صرف انسان اس کا مشاہدہ کرتا ہے ، بلکہ ہر انسان سے اس کا براہ راست واسطہ بھی ہوتا ہے ۔

پیدائش اور موت، یہ دو ایسے واقعات ہیں جو امیر سے امیر اور غریب سے غریب کی زندگی میں واقع ہوتے ہیں۔ یہ دو مظاہر دنیا کے بعید از بعید مقام پر رہنے والے انسان کو بھی پیش آتے ہیں۔ چناں چہ انسان کی فطرت سلیمہ اسے دو سوالات کے جوابات پر غو رکرنے پر ضرور مجبور کرتی ہے… اول، میں کہاں سے آیا؟ دوم، مجھے کہاں جانا ہے؟۔ پیدائش سے پہلے میں کہاں تھا؟ موت کے بعد میرا ٹھکانہ کیا ہو گا؟

پیدائش او رموت، انسان کو یہ سوچنے پربھی اکساتے ہیں کہ اس قدر تو اتر اور ترتیب کے ساتھ اگر یہ معاملات لاکھوں سال سے جاری ہیں تو یقینا اس ترتیب وتنظیم کے پیچھے منظم منصوبہ بندی ( پلاننگ) اور مضبوط طریقہ عمل (پروسینگ) کارفرما ہے ۔ اس کے بغیر ایسا ممکن نہ تھا کہ پیدائش اور موت کا سلسلہ اتنے تواتر سے اتنے نپے تلے انداز میں جاری رہتا۔ یہ حقیقت انسان کو یہ بھی سوچنے پر اکساتی ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ ایسا کیسے ہو رہا ہے ؟ او رایسا کرنے والا کون ہے ؟

مگر افسوس، بڑی بڑی عقلیں اور اعلیٰ درجے کا فہم رکھنے والے بھی جب ان سوالات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان سوالات کے ایسے بے تکے جواب دیتے ہیں جنہیں ایک اوسط درجے کے انسان کی عقل سلیم (کامن سینس) بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ بہ ظاہر عقل و شعور کے حامل یہ لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے تو دراصل وہ اپنی بد اعمالیوں کے ان نتائج سے پہلوتہی برت رہے ہوتے ہیں جو ان کے اعمال بد کے صلے میں موت کے بعد انہیں نظرآرہے ہوتے ہیں یا محسوس ہورہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود کو قصور وار قرار دینے کے بجائے موت اور اس کے بعد آنے والے بہت بڑے اور بہت تلخ حقائق کا انکار کرتے ہیں۔ حال آنکہ حقیقت کا انکار کرنے سے حقیقت کا وجود ختم نہیں ہو جاتا۔ آپ کو اپنے ہی معاشرے میں ایسے کئی کردار مل جائیں گے جو اس مزاج کے حامل ہیں ، جو اپنی محفلوں میں موت کے تذکرے کو پسند کرتے ہیں اور نہ کسی کی تجہیز وتکفین یا تدفین میں شریک ہوتے ہیں ۔ موت کا ذکر ہی ان کے قلوب کو بوجھل کر دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے نزدیک دنیا ہی سب سے بھلی اور پُرکشش ہوتی ہے ۔ ایسے انسانوں کی عقل صرف پیدائش کے بعد اور موت سے پہلے کے دورانیہ میں کام کرتی ہے ۔ وہ اسی کے لیے جیتے اور اسی کے لیے مر جاتے ہیں۔

خدا کی نظر میں عقل مند وہ نہیں جو اس دنیا میں بڑے بڑے دلائل کے ذریعے اپنی بات منوالے، یا بڑے بڑے معرکے سر کر لے۔ خدا کی نگاہ میں عقل مند اور باشعور وہ ہے جو اس دنیا کے مختصر سے دورانیہ میں اس دورانیہ کے بعد آنے والے مراحل یعنی موت کے بعد کی تیاری کر لے۔
Flag Counter