Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1433ھ

ہ رسالہ

1 - 14
یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے
مولانا عبید اللہ خالد
انسان اپنی زندگی میں بے شمار خواہشات رکھتا ہے اور لاتعداد خواب دیکھتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی مثالی ہو اور دوسرے تمام لوگوں سے بڑھ کر! اسی کی خاطر افراد اور ادارے اپنی موجودہ اور آئندہ کے ادوار کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ آگے بڑ ھ سکیں اور ترقی کرسکیں۔ فرد کی حد تک ایک شخص اپنے تئیں اچھی تعلیم اور پھر اچھی ملازمت کے لیے تگ و دو کرتا ہے تو ادارے اپنے بجٹ کو بڑھانے، اپنے نفع کو ضرب دینے اور زیادہ سے زیادہ بچانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

پوری دنیا میں اس مقصد کے لیے ریسرچ ہورہی ہے کہ کیسے اپنی کامیابی اور ترقی کی رفتار کو بڑھایا جائے اور کیوں کر دوسروں سے آگے بڑھا جائے۔ یہ ریسرچ ایک باقاعدہ علم اورسائنس بن چکی ہے اور دنیا کے ہر خطے میں نوجوان اس کی تعلیم اور تربیت حاصل کرتے آپ کو ملیں گے۔

آگے بڑھنا اور ترقی کرنا نہ صرف ازل سے انسان کی فطرت میں شامل رہا ہے بلکہ یہ اس کی سرشت کا تقاضا بھی ہے اور ایک انسان کو ایسا کرنا بھی چاہیے۔ بھلا، جب افراد آگے بڑھنے کا نہیں سوچیں گے اور اپنی انفرادی صلاحیتوں کو بہ روئے کار نہیں لائیں گے تو کوئی قوم کیسے آگے بڑھے گی۔

سوال یہ نہیں کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں یہ سب کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے، اصل نقطہ یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ حاصل کرنا اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ہمارے لیے ممکن ہے؟ یقینا، ممکن ہے مگر اگر اللہ کی رضا کے ساتھ!

عموماً لوگ بالخصوص نوجوان جو کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھتے ہیں، موجودہ تعلیمی نظام یہ بات ان کے ذہنوں میں پیوست کردیتا ہے کہ تم ہی ہو جو کچھ ہو! حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں ہیں، وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ کوئی بھی کچھ بھی نہیں ہے، مگر اللہ کی دی ہوئی توفیق کی بہ دولت!

انسان کو حکم دیا گیا ہے کہ جب اسے کوئی نعمت ملے تو وہ اللہ کا شکر اداکرے اور جب اسے کوئی کام کرنا ہو تو وہ اس حقیقت کو یاد رکھے کہ اس کو کچھ سوچنے، کوئی قدم اٹھانے اور اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہونے کے لیے اگر صلاحیت و قوت اور طاقت میسر ہے تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ارادے اور اختیار کے اندر، اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو وہ کچھ نہیں کرسکتا․․․ لاحول ولا قوة الاباللہ!

انسان ساری زندگی منصوبے بناتا ہے اور نئی نئی چالیں اختیار کرتا ہے۔ بلکہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ آدمی خود کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو نیچا دکھانے کی بھی پوری کوشش جاری رکھتا ہے ، ہمارے سامنے حالات حاضرہ کے تناظر میں مدارس کی سب سے بڑی مثال موجود ہے۔ شاید پاکستان بننے کے چند برس ہی ایسے گزرے ہوں گے کہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اسلام مخالف آلہ کاروں نے مدارس کے خلاف کوئی تدبیر اختیار نہ کی ہو۔ اور یہ تدابیر ہر زمانے میں اپنے طور پر بہت ہی منظم تھیں لیکن چونکہ ایک طرف چال بازوں کی چالیں ہیں تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی چال اور اللہ کی منصوبہ بندی سب سے موثر ہے کہ جس کو دنیا کی کوئی طاقت مات نہیں دے سکتی اس لیے آج تک الحمدللہ، ثم الحمدللہ، نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مدارس کو کوئی بھی بڑی سے بڑی منظم چال غیر موثر نہ کرسکی۔

آج بھی مدارس کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے اور وسیع تر ہوتا جارہا ہے، کیوں کہ یہ بات آج بہت اچھی طرح آشکار ہوچکی ہے کہ اگر سسکتی ہوئی انسانیت کو کہیں سے کوئی سکون اور اطمینان ملے گا تو وہ صرف اور صرف اللہ کے دین کی رسی کو تھامنے سے ملے گا جس کے سوتے ان مدارس سے پھوٹتے ہیں، اِن شاء اللہ قیامت تک پھوٹتے رہیں گے اور حق کے سچے متلاشیوں کی تڑپ اور پیاس بُجھاتے رہیں گے۔
Flag Counter