Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1432ھ

ہ رسالہ

1 - 17
اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کیجئے
مولانا عبید اللہ خالد

دنیاویعذاب… الله تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لیے دُنیا میں سزا بھی ہے اور تنبیہ بھی، انسان طاقت وثروت کی رعونت میں خدا کی سرکشی کرنے لگتا ہے تو الله تعالیٰ ایک خاص حد تک ڈھیل کے بعد اسے مختلف چھوٹے بڑے عذابوں کی گرفت میں جکڑ لیتے ہیں۔

پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں اس وقت پاکستان وسائل کی عدم دستیابی، غربت، لوڈ شیڈنگ حد سے زائد بارشوں اور ڈینگی وغیرہ جیسے عذابوں میں گرفتار ہے ۔ او رالله والوں سے سنا ہے کہ ان میں سب سے بڑا عذاب مسلمانوں کی آپس میں خون ریزی ہے مسلمانوں کی خانہ جنگی الله کا سب سے بڑا عذاب ہے، بلاشبہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلمان کبھی مذہبی ، سیاسی، معاشرتی یا معاشی طور پر بیرونی اندرونی باطل قوتوں سے کمزور نہیں ہوئے بلکہ مسلمانوں کا المیہ یہ رہا ہے کہ خود مسلمان مسلمان سے اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کی جان کا دشمن ہو گیا اور پھر دشمنی کی یہ آگ جنگل کی آگ کی طرح پورے پورے شہروں بلکہ ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر بھسم کر گئی۔

آج پاکستانی مسلمان پر بھی جو سب سے بڑا عذاب مسلط ہے ، یہی ہے۔ باقی تو وقتی اور محدد تکالیف ہیں پھر یہ بھی نہیں کہ مسلم دشمنی کسی ایک خطے تک محدود ہو ۔ بلکہ پورے پاکستان میں کہیں کم تو کہیں زیادہ یہ سلسلہ جاری ہے ۔ شہروں کی خبریں میڈیا پر جلد آجاتی ہیں ، دیہی علاقوں کی خبریں دب جاتی ہیں تاہم ایک عمل خواہ وہ کہیں انجام دیا جائے اس کے اثرات تو اس قوم پر ضرور مرتب ہوتے ہیں۔

ہم اسے سازش کہیں ، اپنوں کی بے وقوفی یا مختلف دھڑوں کی مفاد پرستی ہر حال میں بُرے کام کا انجام بُرا ہو تا ہے ۔ اور اب یہ معاملہ انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سیلاب، قحط ، وسائل کی قلت، ڈینگی ملیریا جیسی آفات کا اصل سبب ہماری آپس کی خون ریزی ہے ۔ اس نے ہمیں نہ صرف دین اور مذہب سے بہت دور کر دیا ہے بلکہ دُنیا بھی تنگ ہو کر رہ گئی ہے۔ ہر شخص اس خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ کب کیا ہو جائے۔

حالات کی فوری تبدیلی یقینا کسی فرد کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ہاں! ہم الله سے اپنے دن رات کے گناہوں اور جرائم کی معافی مانگ کر اور خود کو ان حالات کا ذمے دار قرار دے کر ضرور الله کے غضب کو ٹھنڈا کرنے کی سبیل کر سکتے ہیں کیوں کہ الله کا عذاب تبھی دور ہوتا ہے جب کسی قوم پر سے الله کا غضب ٹھنڈا ہوتا ہے۔میں 	
محترم اختر امام عادل قاسمی

عائلی زندگی میں ایک ساتھ رہتے ہوئے بہت سی دشواریاں پیش آتی ہیں اور کبھی ایک کی بات دوسرے کو پسند نہیں آتی ہے ، اس تعلق سے قرآن نے ادب کی تلقین کی:﴿ وعاشروھن بالمعروف فإن کرھتموھن فعسیٰ أن تکرھوا شیئاً ویجعل الله فیہ خیراً کثیراً﴾․(نساء:3)

ترجمہ: بیویوں کے ساتھ معروف طریقے پر زندگی گزارو، اگر تم کو وہ پسند نہ آئیں تو بھی ممکن ہے کہ ایک چیز تم کو اچھی نہ لگے او رالله نے اس میں بہت خیر رکھی ہو۔

اسی بات کو ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:

” اپنی بیویوں میں کوئی برائی دیکھ کر ان سے نفرت نہ کرو کہ غور کرو گے تو اس میں کوئی دوسری بات اچھی نکل آئے گی۔“ (صحیحین، کتاب النکاح، باب الوصیة بالنساء)

زمین پر چلنے کا ادب بتایا گیا:﴿ولا تمشِ فی الارض مرحاً انک لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبال طولاً﴾․

ترجمہ: زمین میں اکڑ کر نہ چلو کہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں تک اونچائی میں پہنچ سکتا ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے :﴿ ولا تمش فی الارض مرحاً إن الله لا یحب کل مختال فخور﴾․ (لقمان:2)

ترجمہ: زمین میں اکڑ کر نہ چل، بے شک الله کسی مغرور او رمتکبر کو پسند نہیں کرتا۔

گفت گو کا سلیقہ بتایا گیا کہ نرمی اور ملائمت کے ساتھ اور سامنے والے کی عزتِ نفس کا خیال کرتے ہوئے بات کی جائے ، ارشاد ہے: ﴿فقولالہ قولاً لیناً﴾․ (طہ:2) ترجمہ: ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو۔

﴿واغضض من صوتک إن انکر الأصوات لصوتُ الحمیر﴾․ (لقمان:2)

ترجمہ: پست آواز میں بات کر و،اس لیے کہ سب سے بُری آواز گدھے کی ہے۔

﴿قول معروف ومغفرة خیر من صدقة یتبعھا اذیً﴾․ (بقرة:36)

ترجمہ: اچھی بات کہنا اور درگزر کرنا، اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل آزاری ہو۔

اس طرح قرآنی آداب کی بے شمار مثالیں ہیں ، یہاں صرف بطورنمونہ چند چیزیں پیش کی گئی ہیں۔

تزکیہ
شخصیت کی تعمیر کے لیے تزکیہ کی بھی شدید ضرورت ہے ، قرآنِ کریم نے ایسے شخص کی کام یابی کی ضمانت دی ہے جس نے اپنا تزکیہ کیا:

﴿ قد افلح من زکھا ﴾․ ( الشمس) ترجمہ: جس نے اپنا تزکیہ کیا وہ یقینا کام یاب ہو گیا۔

قرآن کریم نے فرائضِ رسالت میں اس کو شمار کیا ہے:﴿یتلو علیھم آیاتہ ویزکیھم﴾․(آل عمران:164)

ترجمہ: رسول الله صلی الله علیہ وسلم ان کو خدا کی آیات سناتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں۔

تزکیہ کا مطلب ہے اصلاح قلب اور اصلاح باطن، جب تک انسان کا باطن درست نہیں ہوتا، ظاہری وضع داری سے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ باطن کے فساد کے ساتھ دکھاوے کا تقویٰ نفاق کو جنم دیتا ہے او را س سے شخصیت بننے کے بجائے اور بگڑجاتی ہے، دورخاپن انسانیت کے لیے بدترین لعنت ہے، قرآن اور صاحبِ قرآن نے اصلاحِ باطن پر بہت زیادہ توجہ دی ہے اور ایمان کو دل ونگاہ میں راسخ کرنے کی تلقین کی او راس کے لیے خوف خدا، آخرت کی جواب دہی، جہنم کا ڈر اور دنیا وآخرت کی ذلت ورسوائی کے حوالے دیے ہیں اور دکھاوے کے ہر عمل پر وعید سنائی ہے۔

نماز بہت بڑی عبادت ہے، لیکن غفلت وریا کے ساتھ ادا کی جائے تو ثواب کے بجائے گناہ بن جاتی ہے : ﴿فویل للمصلین الذین ھم عن صلاتھم ساھون الذین ھم یُراؤن﴾ ․ (ماعون)

ترجمہ:ان نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے ، جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں اورمحض دکھانے کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔

﴿ان المنافقین یخٰدعون الله وھو خادعھم وإذا قاموا إلی الصلٰوة قاموا کسالی یراؤن الناس ولا یذکرون الله الا قلیلاً﴾․ ( نساء:21)

ترجمہ: منافقین خدا کو دھوکا دیتے ہیں، حالاں کہ وہ خود دھوکہ میں مبتلا ہیں، یہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، محض لوگوں کو دکھانے کے لیے اور الله کو بس برائے نام ہی یاد کرتے ہیں۔

﴿یا ایھا الدین آمنوا لاتبطلوا صدقٰتکم بالمن والأذی کالذي ینفق مالہ رئاءَ الناس ولا یومن بالله والیوم الآخر﴾․ (بقرة:36)

ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلا کر ، یا ایذا پہنچا کر ضائع مت کرو، اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے او رالله اور روزِ آخرت پر یقین نہیں رکھتا۔

دورُ خے پن کو قرآن نے منافقوں کی خاص عادت قرار دیا ہے: ﴿وإذا لقوا الذین قالوا آمنا واذا خلوا الی شیٰطینھم قالوا إنا معکم إنما نحن مستھزؤن﴾․ (بقرة:2)

ترجمہ: اور جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں او رجب اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف مسلمانوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔

ایسے لوگوں کے لیے احادیث میں بھی شدید وعیدیں آئی ہیں:

ایک حدیث میں آیا ہے کہ” قیامت کے دن خدا کے نزدیک سب سے بدتر دورُخے شخص کو پاؤگے جوکچھ لوگوں کے پاس جاتا ہے تو اس کا رخ اور ہوتا ہے اور دوسروں کے پاس جاتا ہے تو اور۔“ (بخاری، کتاب الأدب، باب ماقیل فی ذی الوجھین)

ایک اور حدیث میں ہے:” دنیا میں جس شخص کے دورخ ہوں گے قیامت کے دن اس کے منھ میں دو زبانیں ہوں گی۔“ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب ذی الوجہین)

ایک بار حضرت عبدالله بن عمر سے کہا گیا کہ ہم لوگ امراء وحکام کے پاس جاتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں او روہاں سے نکلتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں؟ بولے ہم لوگ عہدِ رسالت میں اس کا شمار نفاق میں کرتے تھے۔ (صحیح بخاری، باب ماقیل فی ذی الوجہین)

انسان کے باطنی امراض میں بدگمانی خطرناک مرض ہے ، ایسے شخص کو کبھی سکون نہیں ملتا اور نہ دوسروں کو سکون سے رہنے دیتا ہے ، قرآن اس کو بڑا گناہ قرار دیتا ہے او راس سے بچنے کی تلقین کرتاہے۔

﴿یٰایھا الذین آمنوا اجتنبوا کثیراً من الظن إن بعضَ الظن إثم﴾․ (حجرات:2)

ترجمہ: اے ایمان والو! زیادہ بدگمانی سے بچا کرو، بے شک بعض بدگمانی گنا ہ ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس طرح بد گمانی سے بچنا ضروری ہے، اسی طرح بدگمانی کے مواقع سے خود کو بچانا بھی ضروری ہے۔

ایک دفعہ حضور صلی الله علیہ وسلم اعتکاف میں تھے، رات کو ازواجِ مطہرات میں سے کوئی آپ سے ملنے آئیں، آپ صلی الله علیہ وسلم اُن کو واپس پہنچانے چلے کہ اتفاقاً راستہ میں دو انصاری صحابی آگئے، وہ آپ کو دیکھ کر واپس پھرنے لگے، آپ نے فوراً آواز دی اور فرمایا یہ میری بیوی فلاں ہیں، انہوں نے عرض کیا: یا رسول الله! اگر مجھے بدگمانی ہی کرنی ہوتی تو آپ کے ساتھ کرتا؟! ارشاد ہوا شیطان انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے۔( صحیح مسلم، باب انہ یستحب لمن رؤی خالیاً بامرأة… یقول ھذہ فلانة)

باطنی بیماریوں میں ایک بڑی بیماری بخل ہے، قرآن نے اس کی اصلاح کی طرف توجہ دی ہے ، ارشاد فرمایا:﴿ولا یحسبن الذین یبخلون بما آتھم الله من فضلہ ھو خیراً لھم بل ھو شرلھم سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیٰمة﴾․ (آل عمران:18)

ترجمہ: اور جو لوگ اس مال کو، جو خدا نے اپنی مہربانی سے ان کو دیا ہے، روکے رکھتے ہیں ، وہ اس کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں، بلکہ وہ ان کے حق میں بدتر ہیں ، جس مال کو بچانے کے لیے وہ بخل کے شکار ہیں، وہ ان کے گلے میں طوق بنا کر لٹکا دیا جائے گا۔

اس مضمون کی بہت سی آیات قرآن میں موجود ہیں، طوالت کے خوف سے ترک کرتا ہوں۔

اسی طرح حرص وطمع، حسد وبے ایمانی، غیظ وغضب، بغض وکینہ، فخر وغرور ، خود بینی وخود نمائی اور خود رائی وغیرہ بہت سے اندرونی امراض ہیں، جن کا تعلق انسان کے دل ودماغ سے ہے، جن کا قرآن نے خصوصیت سے تذکرہ کیا ہے اوران کی اصلاح پر زور دیا ہے ، طوالت کے ڈر سے صرف آیات کے حوالے پر اکتفا کرتا ہوں( دیکھیے نساء:9، حشر:1، حجر:6، نساء:5، کہف:10، بقرہ:32، نساء:1، اعراف:24، حشر:1، حجر:4، اعراف:2،4،5، ابراہیم:3، مومنون:3، ہود:3، مومن:4، نحل:3، بنی اسرائیل:4، لقمان:2، نساء:8، بقرة:13، وغیرہ)۔

تعلیم
شخصیت سازی کے لیے جس طرح عملی زندگی میں ادب واخلاق، صلاح تقویٰ، کردار کی بلندی، دل ونگاہ کی پاکیزگی اور لب ولہجہ کی شائستگی ضروری ہے، وہیں تعلیم وتربیت اور فکری بالیدگی کی بھی شدید ضرورت ہے کہ اس سے زندگی میں دوام اور شخصیت میں آفاقیت پیدا ہوتی ہے اور انسان دور رس نتائج کے حامل کارناموں کو انجام دینے کے قابل ہو جاتا ہے ، اسی لیے قرآن پاک نے جہاں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے فرائض منصبی پر روشنی ڈالی ہے ، وہاں ایمان واخلاق کے بعد تعلیم کا تذکرہ بھی کیا ہے:﴿لقد منّ الله علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولاً من انفسھم یتلو علیھم اٰیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین﴾․ (آل عمران:164)

ترجمہ: خدا نے اہل ایمان پر بڑا احسان کیا کہ ان ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا، جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں او ران کا تزکیہ کرتے ہیں، کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں، جب کہ پہلے یہ لوگ گمراہی میں مبتلا تھے۔

یہ آیت کریمہ فرائض رسالت اور کارہائے نبوت کے سلسلے میں سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے، اس میں قرآن کریم نے کارِ نبوت کی تمام تفصیلات کو صرف تین عنوانات کے تحت سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ تلاوت آیات تزکیہ اخلاق وعمل تعلیم کتاب وحکمت۔

تلاوت آیات میں بنیادی تعلیم ( جس کو قرأت بھی کہہ سکتے ہیں ) او رایمان ویقین کی آبیاری او رمحنت کی ساری تفصیلات داخل ہیں، اس لیے کہ شخصیت کی ابجد قرأت سے شروع ہوتی ہے او راسی راستے سے قلب وروح میں ایمان اور عقیدہ کا تخم پڑتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اس میں رسوخ حاصل ہوتا ہے ، اسی لیے وحی کا پہلا سبق اس طرح شروع کیا گیا﴿ اقرأ باسم ربک الذي خلق، خلق الإنسان من علق﴾․ ( علق:2-1)

ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام سے، جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو بستہ خون سے پیدا کیا۔

عبد او رمعبود کے درمیان رابطہ اور تعلق کی جتنی تفصیلات ہیں ، وہ بھی تلاوت آیات کی ضمن میں آتی ہیں، اس لیے کہ قرآن خدا کا کلام ہے او رخدا کا کلام پڑھنا گویا اس سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرنا ہے ، رابطہ کی ابتدا بھی یہی ہے اور انتہا بھی یہی، اسی لیے پوری مکی زندگی میں جس کو ہم مختصر لفظوں میں ایمانی دور کہہ سکتے ہیں، اس میں کلمہٴ ایمان او رنماز اورتلاوت کے ماسوا کوئی حکم شرعی (اعمال کی قبیل سے) ہم کو نہیں ملتا اور یہ سب رابطہٴ الہٰی ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔

خلاصہ یہ کہ مذکورہ بالا آیت بتاتی ہے کہ ایمان یعنی الله اور بندے کے تعلق پر محنت فرائض نبوت کی پہلی منزل ہے او رانسان کی شخصیت کی تعمیر بھی اس کا درجہ اولین ہے، جیسا کہ گذشتہ سطور میں ہم عرض کر چکے ہیں۔

دوسرا مرحلہ تزکیہ ہے، اس کی اہمیت پر ہم پچھلے صفحات میں گفت گو کرچکے ہیں۔

تیسرا اور آخری مرحلہ تعلیم وتفکیر ہے، یہی چیز نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کو تمام نبیوں اور رسولوں میں امتیاز بخشتی ہے، یہی آپ کا نسخہٴ انقلاب ہے، یہی بات اس آخری امت کو امتِ وسط بناتی ہے، یہی دعائے خلیل علیہ السلام اور نوید مسیحا علیہ السلام کا حاصل ہے، یہ ختم نبوت کی علامت ہے ، اسی سے حضور خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کے بعد اس امت کی بقا وابستہ ہے اور یہی چیز افراد واقوام کو زندگی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔

کتاب سے مراد قرآنِ کریم ہے اور اس میں خدا کی وہ کتاب بھی شامل ہے، جو وسیع کائنات میں چہار طرف پھیلی ہوئی ہے ، خود قرآنِ کریم بھی بار بار انسانوں کو خدا کی اس کھلی کتاب کی طرف متوجہ کرتا ہے اور عہدِ گذشتہ کے واقعات سے عبرت آموزتا ثر پیدا کرتا ہے:﴿افلا ینظرون إلی الإبل کیف خلقت وإلی السماء کیف رفعت والی الجبال کیف نصبت وإلی الأرض کیف سطحت فذکر إنما أنت مذکر، لست علیھم بمصیطر﴾․ (الغاشیہ)

ترجمہ: کیا یہ نہیں دیکھتے کہ اونٹ کیسے پیدا کیے گئے، آسمان کس طرح اٹھائے گئے، پہاڑ کس طرح نصب کیے گئے اور روئے زمین کیسے پھیلائی گئی؟ آپ ان کو سمجھائیں، آپ ناصح او رسمجھانے والے ہیں، ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہیں۔

اسی طرح کی بے شمار آیات قرآن کریم میں موجود ہیں، بطور نمونہ یہی ایک کافی ہے۔

قرآن اس نئے دور میں علم وعرفان اور فکر وفلسفہ کا بانی ہے ، پہلے کبھی علم کو وہ درجہ نہیں دیا گیا، جو اسلام میں دیا گیا، اسی لیے پہلے کی تاریخوں میں وہ آفاقی شخصیتیں بھی نہیں ملتیں جو عہدِ اسلامی کے آغاز کے بعد ملتی ہیں، قرآن نے دنیا کو نیاذہن اور نئی فکر دی ، اشیا کے حقائق او ران سے پیدا ہونے والے نتائج کی طرف ذہنوں کو متوجہ کیا او ران کو علم وعرفان اور ظلم وجہل کا فرق بتایا، علم کے نور سے شخصیتوں میں چار چاند لگائے او رانسانوں کو ایک نئے علمی دور کے لیے تیار کیا ، یہ قرآن کا وہ معجزانہ کارنامہ ہے، جو اسلام سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔

ہم اس موقع پر قرآن کے اندازِ تربیت، ذہنی ارتقا کے مراحل اورکچھ علمی نکات کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتے ہیں، جس سے اندازہ ہو گا کہ قرآن علم کی بنیاد پر افراد واقوام کو کس طرح تیار کرتا ہے اور قرآنی تعلیمات کی بدولت ایک عام انسان کس طرح بڑے کارناموں کے لائق ہو جاتا ہے۔

ذہن سازی
قرآن نے ایمان وعمل کے بعد انسان کو علم وجہل، نور وظلمت اور تمدن ووحشت کا فرق سمجھایا، اس لیے کہ ذہنی تیاری کے بغیر کوئی نصب العین پورا نہیں ہو سکتا، جب تک انسان کو خیر وشر میں امتیاز نہ ہو گا، وہ شعوری طور پر خیر کو نہیں اپنا سکے گا، ارشاد باری تعالی ہے:﴿ قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون انما یتذکر اولو الالباب﴾․ (زمر:9)

ترجمہ: اے نبی! آپ کہہ دیجیے کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جونہیں رکھتے ہیں ، برابر ہو جائیں گے؟ عقل والے ہی بات سمجھ سکتے ہیں۔

قرآن نے اس قوم کی ترقی کی ضمانت دی جو علم ومعرفت کے راستے پر گام زن ہو:﴿یرفع الله الذین آمنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات﴾․ (مجادلہ:11) ”الله تم میں سے ایمان والوں کے اور اہل علم کے درجات بلند کرتے ہیں۔“

قرآن نے عقل وفکر سے جاہلانہ جمود ختم کرنے کے لیے آفاق وانفس میں غور کرنے کی دعوت دی:﴿ان فی خلق السماوات والارض واختلاف اللیل والنھار لآیات لاولی الالباب الذین یذکرون الله قیاماً وقعودا وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السمٰوات والارض ربنا ما خلقت ھذا باطلاً سبحانک فقنا عذاب النار﴾․ (آل عمران:191-190)

ترجمہ: بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور شب وروز کی گردش میں نشانیاں ہیں، عقل والوں کے لیے جو الله کا ذکر کرتے ہیں ، کھڑے اور بیٹھے او رکروٹ پر لیٹے ہوئے اور غور کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی خلقت میں (پھر بول اٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تونے یہ سب بلاوجہ پیدا نہیں کیا، تو ہر عیب سے پاک ہے ، ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

دعوت انقلاب
جب قرآن نے محسوس کیا کہ اب اس قوم کی حسیت جاگ اٹھی ہے اوراس کی قوت فکر یہ اپنی پرواز کے لیے کسی وسیع خلا کو ڈھونڈھ رہی ہے ، تو فوراً اس نے انقلاب او رحرکت وعمل کی دعوت دی او راس کو سمجھایا گیا کہ دنیا میں انقلابات عدم کے پیٹ سے وجود میں نہیں آجاتے، بلکہ اس کے لیے زبردست محنت کرنی پڑتی ہے، زندہ قوم اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے عزم کے ہاتھوں لکھتی ہے ، وہ امکانات اور وسائل کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا گوارا نہیں کرتی، بلکہ ناممکنات سے امکانات او رمشکلات سے آسانیوں کو فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے، وہ حالات کے بدلنے کا انتظار نہیں کرتی، بلکہ دستِ ہمت سے وہ حالات کا رخ پلٹ دیتی ہے اور اندھیروں سے ڈر کر، وہ اپنا سفر موقوف نہیں کرتی، بلکہ احکام الہٰی کے چراغ اندھیرے راستوں پر جلاتی ہوئی چلی جاتی ہے #
        تقدیر کے پابند نباتات وجمادات
        مومن فقط احکام الہٰی کا ہے پابند

﴿ان الله لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بأنفسھم وإذا أراد الله بقوم سواءً ا فلا مرد لہ ومالھم من دونہ من وال﴾․ (رعد:11)

ترجمہ: بے شک الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب الله کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا او رالله کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مدد گار نہیں ہو سکتا #
        خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
        نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

قرآن نے قوموں کے خیروشر کا مدار خود اس کے اپنے اعمال پر رکھ دیا ہے، جو قوم یہ کہتی ہو کہ کیا کریں حالات اور قسمت نے ہمیں پیچھے کر دیا؟ وہ درحقیقت اپنی بزدلانہ کم ظرفی کا اظہار کرتی ہے، قرآن کہتا ہے کہ جو قوم جیسا عمل کرتی ہے اس کے ساتھ قدرت کا فیصلہ اسی کے مطابق ہوتا ہے:﴿ فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرة شرا یرہ﴾․ (زلزال:8-7)

ترجمہ: جو ذرہ برابر بھی نیک عمل کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا او رجو ذرہ برابر بُرا عمل کرے گا وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔

قرآن نے صاف طور پر اس قوم کو خسارہ کا سودا کرنے والی قرار دیا ہے ، جس میں نورِ باطنی کے ساتھ ساتھ اخلاق وعمل کی اسپرٹ موجود نہ ہو اور قرآن اس کے لیے تاریخ عالم اور حوادث روز گار کو بطور شہادت پیش کرتا ہے، جیسا کہ سورہٴ العصر کے حوالہ سے پچھلے سطور میں عرض کیا گیا۔

انقلابی ہدایات
یہ کسی قوم کو تدریجی انقلاب کی طرف لانے کے لیے قرآن کے طرزِ تعلیم کا دوسرا مرحلہ تھا، فکر وعمل کی پیہم تاکیدات کے بعد جب یہ قوم کسی عمل کے لائق ہو گئی اور علم وفن، تہذیب وتمدن اور تجارت وسیاست کے میدان میں اترنے کے قابل ہو گئی ، تو اس کو کچھ اشارات دیے گئے ، ہدایات واحکام سے نوازا گیا، اسرارِ عالم سے پردہ اٹھایا گیا، عقل وخرد اور فکر وفن کے وہ راز بتائے گئے جو آج تک کسی مصلح قوم نے اپنی قوم کو نہ بتائے تھے اور خود خالق کائنات نے اپنی دنیا کے بعض حقائق وعلل کی نشان دہی کی ، جس کی روشنی میں چل کر آج دنیا فلسفہٴ جدید اور سائنٹفک دور تک پہنچی۔

حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے جس کتاب الہٰی نے فکر وفلسفہ کی بنیاد ڈالی اور لوگوں کو آسمان وزمین او رمخلوقات عالم میں غور کرنے کی دعوت دی وہ قرآن تھا، قرآن سے قبل کسی بڑے سے بڑے آشنائے راز نے بھی ان حقائق کا پردہ چاک نہ کیا، جو خدا کے خرانہٴ غیب میں مستور تھے، اس طرح گویا قرآن ہی کتابِ ہدایت ہونے کے ساتھ فکر وفن کی بھی پہلی کتاب ہے، مگر افسوس کہ خود ہم نے اس کی طرف توجہ نہیں کی اور غیروں کے کاسہ لیس ہو کر رہ گئے #
        دیکھ آکر کوچہٴ چاک گریباں میں کبھی
        قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
        وائے نادانی کہ تو محتاجِ ساقی ہو گیا
        مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو

زبان وقلم کی ضرورت
قرآن نے عہدِ جدید کی تخلیق کے لیے زبان وقلم پر زور دیا، اس لیے کہ عالم الغیب والشہادة خوب جانتا تھا کہ اب جو دور آنے والا ہے، وہ سائنٹفک دور ہو گا، وہ خود اس نئے دور کی بنیاد رکھ رہا تھا اور سائنٹفک دور زبان وقلم پر تعمیر ہو گا، چناں چہ سب سے پہلی وحی جو نبیِ کریم صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوئی، اس کے الفاظ یہ تھے﴿اقرا باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق اقرا وربک الاکرم، الذی علم بالقلم﴾․ (علق)

ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو بستہ خون سے ، پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے ، جس نے علم سکھایا۔

قرآن میں ایک پوری سورت ہی قلم کے نام سے ہے ،اس سورہ کی ابتدا ہی میں الله نے قلم اور لکھنے کی قسم کھائی ہے ، جو قرآنی اسلوب میں قلم کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے﴿ن والقلم وما یسطرون﴾․ (القلم)

ترجمہ: قلم کی قسم اور اس کی جو لوگ لکھتے ہیں۔

ایک طرف قرآن نے مسلمانوں کو زبان وقلم کی جانب متوجہ کرکے ان کو ذرائع ابلاغ وترسیل سے نوازا تو دوسری طرف رموز کائنات کے تعلق سے بعض ایسے اشارات دیے جن سے قوت فکر کو مہمیز ملتی ہے۔

ظواہر طبیعی
قرآن نے بعض آیات میں ان اسباب طبعی کی کرشمہ سازیوں کا ذکر کیا ہے ، جو اکثر لوگوں کی نگاہوں کے سامنے رہتے ہیں، مگر جمود یا غفلت کی بنا پر وہ ان میں غور نہیں کرتے او رنہ ان سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہتے ہیں:﴿ انزل من السمآء ماء فسالت اودیة بقدرھا فاحتمل السیل زبداً رابیاً ومما یوقدون علیہ فی النار ابتغآء حلیة او متاع زبد مثلہ کذلک یضرب الله الحق والباطل فاما الزبد فیذھب جفآءً واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض کذلک یضرب الله الامثال﴾․ (رعد:17)

ترجمہ: آسمان سے پانی اسی نے برسایا، پھر ندی نالے اپنی اپنی گنجائش کے مطابق بہہ نکلے اور پانی کے ریلے نے ابھرتے ہوئے جھاگ کو اوپر اٹھالیا اور آگ میں تپا کر زیور بناتے وقت یہ کام کی دوسری کوئی دھات کو بھٹی میں پگھلایا جاتا ہے ، اس میں بھی ایسا ہی جھاگ اٹھ کر اوپر آجاتا ہے ، اسی طرح الله حق وباطل کی مثال بیان کرتے ہیں ، تو جوکوڑا کرکٹ ہوتا ہے، وہ سوکھ کر ضائع ہو جاتا ہے اور لوگوں کے نفع کی چیز زمین میں رہ جاتی ہے ، اسی طرح الله سچی مثالیں بیان کرتا ہے۔

﴿اولم یر الذین کفروا ان السماوات والارض کانتا رتقا ففتقناھما وجعلنا من المآء کل شیءٍ حی افلا یؤمنون﴾․ (انبیاء:30)

ترجمہ: کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان وزمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے ان کو کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہر جان دار چیز کو بنایا، کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے؟

اس آیت میں زمین وآسمان کی ابتدائی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے، جس کو موجودہ زمانے میں” بگ بینگ“ نظریہ کہا جاتا ہے ، جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق زمین وآسمان کا تمام مادہ ایک بہت بڑے گولے (سپرایٹم) کی شکل میں تھا، معلوم طبیعاتی قوانین کے تحت اس وقت اس کے تمام اجزا اپنے اندرونی مرکز کی طرف کھنچ رہے تھے او رانتہائی شدت کے ساتھ باہم جڑے ہوئے تھے، پھرنا معلوم اسباب کی بنا پر اس گولے کے اندر ایک دھماکہ ہوا اور اس کے تمام اجزا بیرونی سمتوں میں پھیلنے لگے، اس طرح بالآخر یہ وسیع کائنات وجود میں آئی، جو آج ہمارے سامنے ہے:﴿وجعلنا فی الارض رواسی ان تمید بھم وجعلنا فیھا فجاجاً سبلاً لعلھم یھتدون وجعلنا السمآء سقفا محفوظاً وھم عن ایاتھا معرضون﴾․ (انبیاء:32-31)

ترجمہ: او رہم نے زمین میں پہاڑ بنائے کہ وہ ان کو لے کر جھک نہ جائے اور اس میں ہم نے کشادہ راستے بنائے، تاکہ لوگ راہ پائیں او رہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا اور وہ اس کی نشانیوں سے اعراض کیے ہوئے ہیں۔

اس آیت میں زمین کی چند نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے ، جن میں ایک پہاڑوں کے سلسلے ہیں، جو سمندروں کے نیچے کے کثیف مادہ کو متوازن رکھنے کے لیے سطح زمین پر ابھرآئے ہیں، اس سے مراد غالباً وہی چیز ہے ، جس کو جدید سائنس میں ارضی توازن (Isostasy) کہا گیا ہے، اسی طرح زمین کا اس قابل ہونا بھی ایک بڑی نشانی ہے کہ اس میں انسان اپنے لیے راستے بناسکتا ہے ، زمین کہیں ہموار ہے تو کہیں پہاڑی درے او رکہیں دریائی شگاف ہیں۔

اسی طرح آسمان کا محفوظ چھت ہونا بھی بہت بڑی نشانی ہے کہ آسمان او راس کے ساتھ پھیلی ہوئی پوری فضا کی ترکیب اس طرح پر ہے کہ وہ ہم کو سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے بچاتی ہے او رشہاب ثاقب کی یورشوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

﴿وسخر لکم الفلک لتجری فی البحر بامرہ وسخر لکم الانھار،وسخرلکم الشمس والقمر دائبین وسخر لکم اللیل والنھار، واتاکم من کل ما سالتموہ وان تعدوا نعمة الله لاتحصوھا ان الانسان لظلوم کفار﴾․ (ابراہیم:34-32)

ترجمہ: اور سمندر میں کشتیاں تمہارے تابع کر دیں، جو اس کے حکم سے چلتی ہیں او ربہتی ہوئی ندیوں اور نہروں کو تمہارے لیے کام میں لگا دیا اور سورج اور چاند کو تمہاری ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مقرر کیا، جو ایک ضابطہ پر مسلسل چل رہے ہیں او رات اور دن کو بھی تمہارے کام میں لگا دیا اور تمہاری ضرورتوں کے ہر ایک سوال کو اس نے پورا کیا او رالله کی نعمتوں کو اگر تم گننا چاہو تو گنتی کا شمار پورا نہ کر سکو گے، بے شک انسان بڑا بے انصاف اورناشکرا ہے۔

اس آیت میں قرآن نے تسخیر کائنات کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی ہے اور پہلی بار اس راز سے پردہ اٹھایا کہ دنیا کی یہ تمام چیزیں انسان کی خدمت گزار ہیں، ان کا درجہ انسانوں سے بالاتر نہیں، بلکہ فروتر ہے، اسلام سے قبل انسان نادانی کی بنا پر وسیع کائنات کی عظیم الشان مخلوقات سے اتنا مرعوب تھا کہ ان کی پرستش میں اپنی خیر محسوس کرتا تھا، سب سے پہلے قرآن نے اس مرعوبیت کا خاتمہ کیا او رانسان کو اس کا مقام یا د دلایا #
        کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
        مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
   (جاری)
 
Flag Counter