Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1432ھ

ہ رسالہ

1 - 19
کیا یہی معیار ہے
	

مولانا عبید اللہ خالد

گزشتہ دنوں ایک انتہائی ناقابل بیان اور دلوں کوجھنجھوڑ دینے والی خبر نے ہلاکر رکھ دیا۔ قرآن پاک کی بے حرمتی کے حوالے سے جو خبریں گزشتہ ایک سال سے جاری تھیں، صدافسوس وہ مکروہ اور ناپاک ترین جسارت کر دی گئی اور ملعون پادری نے ایک امریکی ریاست میں پہلے قرآن مجید کے خلاف نام نہاد مقدمہ چلایا اور پھر نہ صرف اپنے زعم میں قرآن کریم کو سزا سنائی بلکہ ناقابل بیان سزا دی بھی گئی۔

توہین رسالت سے جو سلسلہ شروع ہوا تھا اب آگے بڑھ کر توہین قرآن تک پہنچ چکا ہے ۔ لیکن اسی کے ساتھ درد انگیز حقیقت یہ بھی ہے کہ جس دورانیے میں یہ ناپاک اقدام کیا گیا، اسی دوران پاکستانی کرکٹ ٹیم نے کوارٹرفائنل میں ویسٹ انڈیز کو شکست دی اور پاکستانی قوم اس فتح کی خوشی میں ایسی مست ہوئی کہ حرمت قرآن کے الم ہی کو بھول گئی میڈیا نے اس میں بڑا کردار یوں ادا کیا کہ کرکٹ میں فتح کی خبر کو خوب کوریج دی گئی اور حرمت قرآن کی خبر کے ساتھ معمول کی خبروں کا سا معاملہ کیا گیا، حال آنکہ دینی اور قومی غیرت کا اصل تقاضا یہ تھا کہ کھیل میں فتح کو ثانوی یعنی دوسری تو کیا، بیسویں حیثیت بھی نہ دی جاتی اور حرمت قرآن کے معاملے کو پہلے نمبر پر رکھا جاتا لیکن ایسا قطعاً نہیں ہوا ، بلکہ یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ عملی طور پر ہم پاکستانی مسلمانوں نے کرکٹ کو پہلے نمبر پر اور قرآن کریم کو کہیں بعد رکھ چھوڑا ہے۔

ہمارے فکری زوال کا ثبوت اس سے بڑھ کر او رکیا ہو سکتا ہے کہ ہم نے اپنی اصل یعنی قرآن کہ جس کی بنیاد پر ہمارے آباء واجداد نے قربانی دے کر یہ ملک حاصل کیا تھا، اسے پس پشت ڈال دیا، جب کہ کھیل کو اپنی فتح اور کامرانی اور کام یابی کا ذریعہ سمجھ لیا ۔ ہمیں اس بات کا بالکل اندیشہ نہیں کہ ہمارے دین وایمان کا کیا بنے گا، ہمیں یہ فکر ستائے جارہی ہے کہ ہماری ٹیم کا کیا بنے گا۔ہائے افسوس!!!

جب تک یہ شمارہ چھپ کر مارکیٹ میں آئے گا اور آپ یہ سطور پڑھنے کے قابل ہوں گے، تب تک ورلڈ کپ کا فائنل ہو چکا ہو گا۔ آج کل یہ بحث بڑے زور وشور سے جاری ہے کہ پاکستان کو ورلڈ کپ جیت کر انڈیا کی سر زمین پر پاکستان کا جھنڈا لہرانا چاہیے۔ شومئی قسمت اس فکر کو اسلامی روح کے مطابق سمجھا جارہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے ، پاکستانی اس فتح کو ”سومناتھ“ کی فتح سے برتر محسوس کر رہے ہیں۔
میں سوچتا ہوں ، کیا کسی قوم کی فکری اور عملی زوال کی پَستی اس سے بھی بڑھ کر ہو سکتی ہے کہ جب وہ کھیل میں ”جیت“ کو اپنی حقیقی کام یابی اور کھیل میں ”ہار“ کواپنی حقیقی ناکامی تصور کرنے لگے۔ قوموں کے پنپنے اور زندہ رہنے کا یہ معیار نہ کبھی رہا اور نہ اب ہے ۔ ہمیں اگر پنپنا اور زندہ رہنا ہے تو اپنی کامیابی اور ناکامی کے اس معیار کو یک سر بدلنا ہو گا۔
Flag Counter