Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1432ھ

ہ رسالہ

1 - 17
 فکری زوال
مولانا عبید اللہ خالد
قوموں کے زوال کا آغاز فکر کے زوال سے ہو تا ہے، پاکستان میں بالخصوص اور مسلم دنیا میں بالعموم یہ زوال اپنی انتہاؤں کو پہنچا ہوا ہے ۔ آج مسلمانوں کی جو فکری حالت ہے وہ سب کے سامنے عیاں ہے او راس پر یورپ نے کئی سو سال محنت اور تدبیر کی ہے ، تب جاکر اس قسم کے حالات پیدا ہوئے ہیں۔

آج اسی کا نتیجہ ہے کہ امریکا یورپ کی تقلید کو نہ صرف اپنایا جا رہا ہے بلکہ اس تقلید ہی کو اپنی کام یابی کا کلیہ گردانا جارہا ہے اس پر مستزاد اگر کوئی مسلمان یورپی اور امریکی ثقافت اوررنگ ڈھنگ کے خلاف چلے تو اسے ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔

قوموں کا عروج وزوال ظاہری اعتبار سے پوری انسانی تاریخ میں جاری رہا ہے مگر بہت کم قومیں ایسی ہیں جو مادی اور ظاہری اعتبار سے زوال پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ فکری لحاظ سے بھی زوال زدہ ہوں۔ افسوس ، مسلمان ان چند قوموں میں سے ہیں جو ظاہری اعتبار سے زوال یافتہ ہونے کے ساتھ شدید ترین فکری زوال میں بھی مبتلا ہیں۔

فکری زوال ، ظاہری زوال سے کہیں زیادہ خطرناک ہے ، کیوں کہ اگر کوئی فرد یا قوم ظاہری زوال میں مبتلا ہے مگر فکری زوال سے آزاد ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ دوبارہ اپنے عروج کے لیے کوشش کرے اور اپنے مذہب اپنی اقدار اپنی ثقافت کو بقااور عروج بخشے۔ نیز ایسی صورت میں دلوں میں زوال کا ایک غم بھی موجود رہتا ہے جو ہر دم کھٹکتا ہے۔ یہی کھٹک آگے بڑھنے، قربانی دینے او راپنے آپ کو بدلنے پر قوموں کو مجبور کرتی ہے۔

اس کے بر خلاف اگر ظاہری زوال کے ساتھ ، فکری زوال بھی ہو تو زوال زدہ قوم کے افراد میں نہ زوال کا غم ہوتا ہے اور نہ کسی قسم کی کھٹک،آج ہم مسلمان من حیث القوم ہر دواعتبار سے زوال و پستی میں گھرے ہوئے ہیں اور یہ زوال وپستی ہمیں مجبور نہیں کر رہی کہ ہم کیوں کر اس سے نکلیں ہم نے اس شدید حالت کو اپنا تصور اور بلکہ بعض حالات میں سرخروئی سمجھ لیا ہے۔

ضرورت یہ ہے کہ اس ظاہری اور عادی زوال سے نکلنے کے لیے پہلے قوم کو فکری زوال سے نکالا جائے کہ جو اصل سبب ہے ہمارے تمام مسائل کا اور ہماری دگرگوں صورت حال کا اور یہ ذمے داری ہر مسلمان کی ہے ، ہر باشعور سمجھ دار مسلمان کی!
Flag Counter