Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1432ھ

ہ رسالہ

1 - 17
سب سے بڑا اثاثہ
عبیدالله خالد
ایک مسلمان کے لیے دنیا میں اور دنیا کے بعد آخرت میں، سب سے اہم شے اس کا الله تعالیٰ کی ذات والا صفات پریقین ہے۔ یہ یقین ہی ہے جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک لاکھ سے زائد انبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام بھیجے۔ یہ یقین ہی ہے جسے جِلا بخشنے کے لیے خاتم الانبیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں تیرہ برس تک خود اور اپنے صحابہ کو مجاہدے کی چکی میں پیسا۔ یہ یقین ہی ہے جو ایک مسلمان کو دنیا کی تمام تر صعوبتوں کے باوجود خدا سے مایوس نہیں کرتا، اور یہ یقین ہی ہے جس کی بہ دولت آدمی اللہ کے لیے بڑی سے بڑی قربانی بے خوف و خطر دے ڈالتا ہے۔

اس یقین کی بہ دولت تاریخ انسانی میں اللہ کے نیک بندوں نے وہ وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ عقل بھی حیران رہ گئی۔ اس ایمان کی بہ دولت مسلمانوں نے اللہ کی مدد کے طفیل وہ محیر العقول کام کیے جن سے تاریخ بھی انگشت بہ دنداں ہے۔

یہی یقین، یہی ایمان آدمی کو دنیا میں آگے بڑھاسکتا اور مشکلات سے نکال سکتا ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ ایسا نہیں کہ جس کی بہ دولت آدمی مشکلات کے گرداب سے نکل سکے اور زندگی کو بہتر بناسکے۔ عمل کہ جس کی بنیاد پر انسانی عادات تبدیل ہوتی ہیں، ان کی اصل ایمان ہی ہے۔

مسلمان کی قوت اور شوکت کا یہ راز اسلام اور مسلم دشمنوں کو بھی معلوم ہے، اسی لیے آج جتنی زیادہ محنت مسلمانوں کے یقین اور ایمان کو خراب کرنے اور بدلنے کے لیے کی جارہی ہے، شاید ہی کسی دوسرے شعبے پر ہو۔ اغیار و کفار کو معلوم ہے کہ قرنِ اول ہو یا بعدکا کوئی زمانہ، ہر دَور میں مسلمانوں نے ایمان ہی کی بہ دولت بڑے بڑے معرکے سر کیے اور دشمنوں کی تمام تر تیاریاں اور حربے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اس لیے اس وقت بہت ہی ہنر مندی،زیر کی اور عیاّری کے ساتھ تمام وسائل مسلمانوں کے عقائد اور یقین کو خراب کرنے اور انھیں ان کی اصل یعنی اللہ، رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)، قرآن، حدیث، سنت، اجماعِ امت سے بد ظن کرنے یا بے راہ کرنے میں صرف کیے جارہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایک طرف پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کیا جارہا ہے تو دوسری جانب مختلف ایسے حلقوں کو نمایاں کیا جارہا ہے جو سراسر اسلام کے بنیادی عقائد پرتیشہ زنی کرتے ہیں۔ نئی نسل خاص طور پر ان کا ہدف ہے۔

یقین کیجیے، ایک مسلمان کے لیے اس کا سب سے بڑا اثاثہ صرف اور صرف اس کا ایمان ہے۔ دنیاوی اعتبار سے تو مسلمان پس ماندہ ہیں ہی، اگر یہ ایمان کا جوہر بھی ہاتھ سے چلا گیا تو پھر ہم مسلمان خسرالدنیا والاخرة کے مصداق کے سوا کچھ نہیں ہوں گے۔ لہٰذا، ہمیں اس وقت سب سے زیادہ فکر اس بات کی کرنی چاہیے کہ کیوں کر ہمارے اور ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کے عقائد محفوظ رہیں اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ اس دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے اللہ کی طرف چلے جائیں۔

Flag Counter