Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی محرم الحرام 1431ھ

ہ رسالہ

1 - 15
Volume 26
محرم الحرام 1431ھ, Volume 26, No. 1
زندگی بہت مختصر ہے؟
عبید اللہ خالد
یہ بات سبھی تسلیم کرتے ہیں،لیکن کم ہی لوگ ایسے ہیں جو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالتے بھی ہیں۔ ہر آنے جانے والی گھڑی یہ بتاتی ہے کہ اب ایک لمحہ اور گزر گیا، اب وہ نہیں آئے گا۔ یہ گزرتے ہوئے لمحات یہ بھی باور کراتے ہیں کہ اگر ہوش مند ہو تو آنے والے لمحوں کو اس طرح ضائع نہ کرنا جیسا کہ اب تک کیے ہیں۔ 
زندگی میں کامیابی اور ترقی کا پیمانہ یہ ہے کہ آدمی کے کوئی دو دن ایک سے نہ ہوں۔ اسی پیمانے کا اطلاق نئے سال پر بھی ہوتا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہماری فکر آخرت بھی اس پیمانے سے الگ نہیں۔ گزشتہ برس اگر آپ نے فرائض کی ادائیگی کا اہتمام کیا تھا تو اس سال اس اہتمام کو نہ صرف برقرار رکھا جائے بلکہ کم از کم ایک قدم ضرور آگے بڑھایا جائے۔ مثال کے طور پر، اس سال تکبیر اولیٰ کی فکر بھی کی جائے اوراس کا اہتمام کرنے کی کوشش کی جائے۔ 
لیکن دوسری جانب ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنی جانب دیکھنے کے بجائے دوسروں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ فطرت کا قانون یہ ہے کہ آدمی دوسروں کی جانب دیکھنے اور ان پر تنقید و تنقیص کرنے کے بجائے یہ دیکھے کہ اس نے خود اپنی بہتری کے لیے کیا کیا۔ وہ یہ سوچے کہ اس کا آنے والا کل گزشتہ کل سے کتنا بہتر ہوسکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ کیا کرسکتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا شخص کامیاب و سرخ رو نہیں ہوا جس نے اپنی اصلاح اور بہتری بجائے دوسروں کی اصلاح میں سر کھپایا ہو۔ تبلیغ جو بہ ظاہر دوسروں کے پاس جاکر دین کی بات پہنچانے کا نام ہے، دراصل خود اپنی ہی اصلاح کا ایک عمل ہے۔ چناں چہ آدمی جس سے بات کرتا ہے، وہ خواہ عمل کرے یا نہ کرے بات کرنے والا تو عموماً اس بات پر ضرور عمل پیرا ہوجاتا ہے۔ 
زندگی یقینا بہت مختصر ہے، لیکن یہ بھی ایک نفسانی فریب ہے کہ گزرے ہوئے لمحات بڑے طویل محسوس ہوتے ہیں۔ اس فریب سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آدمی فی الفور اپنی زندگی کو فطرت کے نظام کے تابع کردے۔ فطرت کا یہ نظام سب کا سب اسلامی تعلیمات کی صورت میں مکمل اور زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ اگرچہ مختصر زندگی کو کامیاب بنانے کے دوسرے نظام بھی لوگوں نے ایجاد کیے ہیں، لیکن وہ سب انسانی عقل اور تجربے کی پیداوار ہیں۔ دو انسانوں کا تجربہ اور مزاج یک ساں نہیں ہوسکتا، لہٰذا اس تجربے کی روشنی میں تیار کیا گیا نظام بھی تمام انسانوں کے لیے یک ساں طور پر مفید نہیں ہوسکتا۔
اس کے مقابلے میں اسلام کانظام اللہ تعالیٰ کا تیار کردہ ہے، اور اللہ تعالیٰ وہ ہیں جنھوں نے خود اس کائنات کو تخلیق فرمایا ہے۔ چناں چہ یہ کہنے میں کوئی عار ہے اور نہ کوئی شک کہ اگر کوئی انسان خود کو سو فی صد فطرت کے تابع کرنا چاہتا ہے اور خود کو فطرت کے نظام کے مطابق ڈھال کر اپنے اندر بہتری لانا چاہتا ہے تو صرف اور صرف اسلام ہی اسے وہ راستہ فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے آدمی کامیاب و کامران زندگی گزار سکے اور اپنے آنے والے کل کو گزشتہ کل سے بہتر بنا سکے، اس مختصر سی زندگی میں بھی اور آنے والی لا محدود زندگی میں بھی!



Flag Counter