Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالحجہ1430ھ,

ہ رسالہ

1 - 16
***
ذوالحجہ1430ھ, Volume 25, No. 12
قربانی، قربانی کی روح کے ساتھ
مولانا عبید اللہ خالد
سا ل کا آخری مہینہ آگیا۔ایک سال موت کے اور قریب ہو گئے۔ زندگی میں جنت بنا نے اور جہنم سے بچنے کا ایک موقع اور کم ہوگیا۔ اس دوران جس نے جنت کی تعمیر جا ری رکھی، وہی خوش نصیب ہے؛ جو جہنم کے گڑھے کھو دتا رہا، وہ بدنصیب رہا۔ یہی زندگی کا قا نون ہے۔ ازل سے دنیا اسی قا نون کی پا بند ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک یہی سلسلہ جا ری ہے۔
ہر ماہ وسال میں زندگی کے مختلف واقعا ت سے ہمارا سابقہ پڑتا ہے۔ یہ واقعا ت زندگی کے نشیب و فراز سے وجود میں آتے ہیں۔ ان واقعا ت کے نتیجے میں اگر کچھ انسان فطرت کے اس سبق کو سن لیتے ہیں، اس پر توجہ دیتے اور اس سبق کی روشنی میں زندگی کو بدلتے ہیں، وہی آنے والے دنوں میں نہ صرف جنت کی تعمیر کرتے ہیں بلکہ اس دنیا کی زندگی کو بھی جنت نظیر بنالیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اپنی زندگی کے نشیب و فراز سے سبق نہیں لیتے اور نہ زندگی بدلنے پر توجہ دیتے ہیں، وہ آنے والے دنوں میں مزید مسائل و مصائب میں گھرتے چلے جاتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسے اپنا مقدر سمجھ کرنعوذ بالله، الله تعالیٰ پر افترا باندھتے ہیں۔
یہی حال آج پوری امت مسلمہ کا ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز سے سبق لینے کی صلاحیت ماند پڑچکی ہے اور ذلت و نکبت کو اپنا مقدر سمجھ کر یہ قوم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے کہ شاید کوئی معجزہ رُو نما ہوجائے۔ حالات و کیفیات کا درس یہ ہے کہ اپنی فکر کو بدلو، زندگی کے رہن سہن کو بدلو اور قربانی دو․․․مگر کج فکری، مغربی طرزِ حیات اور تن آسانی و عیاشی نے ہمیں سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت ہی سے محروم کردیا ہے۔ شومئی قسمت، ہمارا مذہب جو اول تا آخر، قربانی و بے غرضی ہے اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کا پیش خیمہ ہے، ہم اس سے دور بہت دور جا پڑے ہیں۔ 
دین جو روح پرور ہے، مگر اب چند روایتوں میں مقید ہوکر رہ گیا ہے۔ ہمارے اسلاف کے وہ واقعات جو ہمیں کچھ کرنے اور آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں، ان کا تذکرہ محض افسانہ پردازی کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ دین اور دینی احکام کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے، اور آج کے دور کے تقاضوں سے اسے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 
قربانی جو اس ماہ کا خاص الخاص سبق ہے، اس کے ساتھ بھی ہم نے یہی ظلم کیا۔ قربانی کا عمل ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی یاد دلاتا اور ہم سے ان کی سی روح اپنے کردار کے اندر پیدا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن قربانی جیسا اتنا بڑا عمل بھی محض نمود و نمائش اور کھانے کمانے کا گورکھ دھندا بن چکا ہے۔ 
حضرت ابراہیم و اسماعیل اور کی قربانی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر ہمیں کچھ کرنا ہے تو خدا کی خوشی کے لیے اپنی قربانی کریں، اپنی خواہشات کی قربانی کریں، اپنے طرزِ زندگی کی قربانی کریں، اپنے شب و روز کے معمولات کی قربانی کریں تاکہ اس قربانی کے نتیجے میں خدا ہم پر دنیا اور آخرت کی فلاح ونجات کے دروازے کھول دے۔ 
یقین کرلیجیے، کوئی فرد یا قوم کبھی قربانی کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکی۔ اس کائنات کے فطری نظام میں عزت، خوشی، کامیابی اور ترقی کے لیے قربانی کا عمل اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ انسانی زندگی کے لیے سانس کا عمل۔ 
جو قومیں ․․․ تاریخ گواہ ہے․․․ قربانی کا عمل ترک کردیتی ہیں، وہ پستی، ذلت اور ناکامیوں کی تاریکیوں میں دم گھٹ کر ختم ہوجاتی ہیں۔ کسی فرد یا قوم کو قربانی ہی کا عمل آگے بڑھاتا اور زندہ رکھتا ہے۔ یہی اس دنیا کا نظام ہے اور یہی اللہ کی سنت۔ حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل کی قربانی ہمیں اس قانون پر اس کی روح کے ساتھ عمل کرنے کی یاد دلاتی ہے۔ اگر آپ اس سال اس نیت کے ساتھ جانور کی قربانی کرتے ہیں تو اگلا سال آپ کی کامیابیوں کا سال ہوسکتا ہے، اور اس بات کی علامت بھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قربانی قبول کرلی ہے۔ (اِن شاء اللہ)
Flag Counter