Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1430ھ

ہ رسالہ

1 - 15
***
ذوالقعدہ 1430ھ, Volume 25, No. 11
ہماری نسلوں کا معاملہ
مولانا عبید اللہ خالد
تاریخ میں قوموں کا عروج و زوال چند اصولوں سے وابستہ رہا ہے۔ ان میں کمی بیشی کبھی ہوئی ہے اور نہ ہوگی۔ انسانی تاریخ میں جن قوموں نے ان اصولوں کی پاسداری کی، انھوں نے کمال حاصل کیا ا ور جنھوں نے ان اصولوں سے انحراف کیا، انھوں نے ناکامی اور زوال کا منھ دیکھا۔ یہ اصول قوموں کے لیے جتنے مستحکم ہیں، افراد کے لیے بھی اتنے ہی موثر ہیں۔ ان میں سے ایک اصول اپنے پروردگار اور اس کی عطا کردہ قوتِ بازو پر بھروسا ہے۔ قوم یا فرد، جب تک اپنے اندر موجود اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ صلاحیتوں سے کام لیتے رہتے ہیں، اس وقت تک آگے بڑھتے اور سرخ رو ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن جو افراد اور اقوام اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے بجائے دوسروں پر انحصار کرتے ہیں، ان میں نہ آگے بڑھنے کی جرات ہوتی ہے اور نہ کسی کا سامنا کرنے کا یارا۔ ایسے افراد ہوں یا اقوام، دوسروں کی مدد اور تعاون کی طرف نظریں اٹھائے رہتے ہیں۔ ہمارا معاملہ بھی کچھ اسی قسم کا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد چند برس سے زیادہ ہم نے اپنی صلاحیتوں اور اپنے وسائل پربھروسا نہیں کیا۔ پچاس سال کا عرصہ ہمیں قرضوں میں گزارتے ہوئے ہوچکا ہے۔ کوئی بھی قوم جو قرضوں کی بنیاد پر اپنی زندگی کی گاڑی گھسیٹنے کی عادی ہوتی ہے، کبھی کسی کے سامنے آنکھ اٹھانے کی جرات نہیں کرسکتی ، نہ حق بات کہنے کی ہمت پاسکتی ہے۔ یہی کچھ ہمارا حال ہے۔ قرض اور امداد کے نام پر پہلے صرف ہمارے تعلیمی اور معاشی منصوبوں کو مقید کیا جاتا تھا، مگر اب اس امدا د کے نام پر پاکستان سے اپنے دفاع کا حق بھی چھیننے کی سازش کی جارہی ہے۔
اگرچہ کیری لوگر بل کے سیاق و سباق پر بحث مختلف حلقوں میں جاری ہے، مگر اخبارات و رسائل سے جو معلومات ہم تک پہنچی ہیں، وہ یہی ہیں کہ حکومتی ارکان اس بل کی حمایت میں آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہیں جبکہ حزبِ اختلاف ہر طرح کی مخالفت کررہی ہے۔
ہمیں نہ اس حمایت کے بارے میں کچھ کہنا ہے اور نہ اختلاف سے کچھ غرض ہے۔ ہم تو صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جو بھی فیصلہ کیا جائے، وہ اپنے مذہب ملک اور افراد قوم کے مفاد میں ہو۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کے منفی اثرات آنے والی نسلوں پر بھی نہ پڑیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم جو فیصلہ کریں، اس میں محض وقتی فائدہ تو یقینا نمایاں ہو مگر اس کا خمیازہ آنے والی ہماری نسلیں صدیوں بھگتتی رہیں (جیسا فلسطین میں ہوا ہے)۔ ایسی صورت میں شاید چند مہینوں کی وقتی لذت تو ہم حاصل کرلیں، مگر ہمارا آنے والا کل اور ہماری نسلوں کا مستقبل انتہائی تاریک ہوگا۔
نیز اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورتْ ہے کہ کیا واقعی ہمیں قرض کی ضرورت ہے۔ کیا کبھی قرض نے کسی قوم کے مسائل حل کیے ہیں۔ قرض آدمی کو عارضی اطمینان ضرور مہیا کرتا ہے اور اس کی توجہ معاشی مسائل سے ہٹا دیتا ہے، لیکن اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنی توانائی اور توجہ کو اب اپنے دیگر مسائل حل کرنے پر لگائے۔ لیکن اگر قرض کا مقصد صرف لمبی تان کر سونا ہو، جیسا کہ گزشتہ پچاس برس میں ہمارے حکمرانوں کا وطیرہ رہا ہے تو ایسی صورت میں قرض آدمی کو مجبورِ محض بناکر رکھ دیتا ہے۔ 
اسلام میں قرض لینے کو پسندیدہ فعل نہیں سمجھا گیا۔ یہ واقعہ تو بہت معروف ہے کہ جب ایک صحابی نے اپنے کچھ مسائل کا ذکر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں قرض دینے کے بجائے ان کی دو اشیا بکوائیں، پھر انھیں کلہاڑی اور رسی خریدنے اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لانے کو کہا۔ یہ واقعہ اسلامی مزاج کی نمائندگی کرتا ہے کہ آدمی کو جہاں تک ہوسکے، خواہ اپنے گھر کی چیزیں بیچنی پڑجائیں، قرض سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عزت دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے۔ لیکن قرض آدمی کو ذلیل کردیتا ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ فرد ہو یا قوم، اپنے الله اور اس کے دیے ہوئے وسائل پر بھروسا کرتے ہوئے زندگی گزارے، نہ کہ دوسروں کی جیبوں پر نظر رکھے۔ یہ اقدام اسے دنیا میں بھی باعزت بناسکتا ہے اور آخرت کے بارے میں اس کے شعور کو بھی جگا سکتا ہے۔
Flag Counter