Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1430ھ

ہ رسالہ

1 - 14
***
شعبان المعظم 1430ھ, Volume 25, No. 8
خدا کا قانون ، سب کے لیے ہے!
مولانا عبید اللہ خالد
انسان کی تمام صفاتِ رذیلہ میں ”تکبر “اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ نا پسند ہے۔ تکبر انسان کی سوچ اور فکر پر جمود طاری کردیتا ہے۔پھر وہ درست فیصلہ کرنے اور سچ کو برداشت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ جبکہ تکبر کرنے والا سمجھتا رہتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ عقل مند اور سب سے زیادہ طاقت وَر ہے۔ تاریخ انسانی میں اس فکر نے انسان کو سب سے زیادہ تباہ کیا ہے، بلکہ حکومتوں کی حکومتیں اس مزاج کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہوئیں اور نیست ونابود ہوگئیں۔ 
کہتے ہیں، تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ کچھ ایسا ہی اب امریکا کے ساتھ ہے۔ امریکا کی موجودہ سیاسی اور خارجہ پالیسی اس مزاج کا شاخسانہ ہے جسے تکبر کا نام دیا جاتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے۔ صرف تین ہزار افراد کی نائن الیون میں ہلاکت پر افغانستان کے لاکھوں مردوں، عورتوں، بچوں کو ہلاک ومعذور اور بے گھر کر دینا، پھر من گھڑت الزامات کی بنیاد پر عراق میں انسانی خون بہانا، ڈاکٹر عافیہ جیسی بے خطر عورت کو اغوا کرکے اسے شدید اذیت سے دوچار کرنا، پاکستان میں محض شک کی وجہ سے گھر وں میں سکون سے رہنے والوں کو ڈرون حملوں کے ذریعے ہلاک اور بے گھر کرنا اسی تکبر کا شاخسانہ ہے جس کے زعم میں امریکی مبتلا ہیں۔ 
دہشت گردی آج دُنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اسے حل کرنے کے لیے جو اقدامات اختیار کیے جارہے ہیں، کیا وہ دہشت گردی پر قابو پانے میں معاونت کرتے ہیں یا دہشت گردی کے مزاج کو مزید ہوا دیتے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین اور دانش وَر بار بار یہ باور کرا چکے ہیں کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے نہتے شہر یوں پر بلا جواز بمباری یا پھر شک کی وجہ سے کسی کو اغوا کرلینا بجائے خود دہشت گردی ہے۔ یہ حقیقت عالمی سطح پر خارجہ اور سیاسی پالیسیاں تشکیل دینے والے ماہرین اور مختلف ملکوں کے تھنک ٹینک تسلیم کرچکے ہیں کہ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں امریکی انتظامیہ نے جس قسم کی حکمت عملی اختیار کی ہے، وہ کسی صورت مثبت نتائج کی حامل نہیں ہوسکتی۔
ایک جانب تمام غیر جانب دار ماہرین کی رائے ہے جو امریکی حکمت عملی کے خلاف ہے تو دوسری جانب امریکا اپنے غرور میں مبتلا ہر وہ اقدام کررہا ہے جسے وہ اپنی دانست میں درست خیال کرتا ہے اور اس کے لیے اسے کسی کی رائے کی قطعاً کوئی پروا نہیں ہے۔
اس کے قوانین دو رخ رکھتے ہیں: امریکی کو وہ تمام اختیارات اور وسائل مہیا ہیں جن کی ایک انسان کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے ضرورت پڑسکتی ہے، لیکن غیر امریکی اور بالخصوص وہ جو امریکا کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اس کے لیے نہ صرف امریکی قانون میں انصاف کی کوئی جگہ ہے، بلکہ دنیا بھی اس کے لیے تنگ ہے۔ اور دنیا کو تنگ کرنے والے کوئی اور نہیں، خود امریکی گماشتے ہیں جو دنیا بھر کے ماحول کو اس طرح تشکیل دینے پر تلے ہوئے ہیں جہاں غیر امریکی کے لیے کوئی جائے پناہ نہ بچے۔ 
لیکن کیا تاریخ میں اس سے پہلے کوئی برتر قوم کسی مفتوح قوم کو محض ظلم اور استبداد کے ذریعے ختم کرسکی؟ کیا یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اس دنیا میں حکم رانی کا حق صرف امریکیوں کو ہے اور قانونِ قدرت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس دنیا میں جس قوم نے ترقی اور عروج حاصل کرکے اپنے زعم میں دیگر اقوام کو کم تر و بے بس سمجھ کر ان پر ظلم توڑا، خدا نے اسے نشانِ عبرت بنادیا۔ خدا کے اس قانون سے نہ پہلے کوئی آزاد تھا اور نہ آج آزاد ہے․․․ اقوام بھی اور افراد بھی!

Flag Counter