Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۱ھ - مارچ ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

1 - 11
غدیر خُم اور خلافت علی کے سلسلہ میں امام محمد غزالی  پر بدترین تہمت!
غدیر خُم اور خلافت علی کے سلسلہ میں امام محمد غزالی  پر بدترین تہمت

الحمدللّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
کافی دن ہوئے ہفت روزہ ختم نبوت کے قاری جناب ڈاکٹر عرفان عابد اعوان ...میڈیکل آفیسر شیخ زید ہسپتال رحیم یار خان ...کا شیعہ، سنی اختلافی مسائل اور اس سلسلہ میں ان کے شکوک و شبہات پر مشتمل تفصیلی مکتوب موصول ہوا۔ اس کا جواب لکھنا شروع کیا تو افسوس کہ لکھا ہوا جواب کہیں ادھر ادھر ہوگیا، کچھ عرصہ بعد دوبارہ جب وہ مکتوب سامنے آیا اور اس کا جواب لکھنا شروع کیا تو بدقسمتی سے وہ بھی کہیں گم ہوگیا ، اس کے بعد ایک تو طبیعت سرد ہوگئی اور دوسرے موصوف کا خط اور اس کے مندرجات بھی ذہن سے اوجھل ہوگئے، اب جب وہ مکتوب سامنے آیا تو شرمندگی، ندامت اور مواخذئہ آخرت کے خوف سے تیسری بار اس کا جواب لکھنے بیٹھا ہوں،ہاں البتہ اب کی بار یہ کیا، کہ جتنا لکھتا گیا ،اس کو کمپوزر کے حوالہ کرتا گیا، تاکہ پہلے کی سی صورت حال کا سامنا نہ ہو۔ اس خط میں بنیادی طور پر چار سوالات اٹھائے گئے ہیں:
۱:...اعلان غدیر خُم اور مسئلہ خلافت علی۔ ۲:... وضو میں پاؤں پر مسح کرنے کا حکم۔ ۳:...حدیث قرطاس اور۔ ۴:...فرقہ ناجیہ کی نشاندہی۔
چونکہ پورا جواب کسی قدر طویل ہے، اس لئے صرف اعلانِ غدیر خُم کی حقیقت، اس کا پس منظر اور حضرت علی کی خلافت بلافصل کے سلسلہ میں امام غزالی  کی ”سرالعالمین“ کے حوالہ سے غلط فہمی کے ازالہ کی تفصیلات کو قارئین بینات کی خدمت میں بصائر و عبر کی جگہ پیش کیا جارہا ہے۔ لیجئے! اس خط کا متعلقہ حصہ اور اس کا جواب ملاحظہ ہو:
”جناب حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری صاحب......السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!
عرض حال یہ ہے کہ میرا نام ڈاکٹر عرفان عابد اعوان ہے، پروفیشن کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر ہوں، آج کل کچھ دینی مسائل میں بُری طرح الجھ کر رہ گیا ہوں، صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ میرے والد محترم مسلک اہل تشیع سے تعلق رکھتے ہیں اور والدہ اہل سنت ہیں، تعلیم کے دوران تو مذہبی مسائل سننے اور ان پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ملا، مگر اب جب میں نے اہل سنت اور اہل تشیع کے عقائد کے بارے میں جانا اور یہ جاننا چاہا کہ ان میں سے درست عقائد کس فرقہ کے ہیں؟ تو صورت حال بجائے واضح ہونے کے اور ہی دھندلی ہوتی چلی گئی، میں شادی شدہ ہوں، بیوی بھی اہل سنت ہے اور میرے عقائد بھی فی الوقت اہل سنت والجماعت کے ہی ہیں۔ والد صاحب سے جب بھی بات ہوتی ہے وہ ذہن میں کچھ ایسی باتیں ڈال دیتے ہیں کہ مجھے میری عبادات اور نمازیں مشکوک لگنے لگتی ہیں اور لگتا ہے کہ وہ درست ہیں، جب ان سوالات کا دوستوں سے ذکر کرتا ہوں، اپنے جاننے والے علماء سے مشورہ کرتا ہوں تو کوئی بھی تشفی بخش جواب دینے سے قاصر رہتا ہے، اور میرے شکوک میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے آپ کی تحریریں پڑھتا رہتا ہوں، آپ کی مدلل تحریریں اور عقلی شواہد مجھے متاثر کرتے ہیں، بڑی امید کے ساتھ آپ کو وہ تمام ذہنی اشکالات بھیج رہا ہوں کہ مجھے سمجھادیں۔
میں نے تاریخ کی کتب میں پڑھا ہے کہ غدیرِ خم کے مقام پر حضور نے حضرت علی کو :”من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ“ (بمطابق اصل )کہہ کر اپنے بعد مسند خلافت کے لئے نامزد کردیا تھا، مگر بعد وصالِ رسول باہمی اجماع کے ذریعے حضرت ابوبکر کو خلیفہٴ اوّل چن لیا گیا، جو کہ اہل تشیع کے نزدیک غلط ہے۔
امام غزالی  اپنی کتاب ”سر العالمین“ کے صفحہ :۹ پر لکھتے ہیں کہ:
” غدیر خم میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ”من کنت مولاہ“ فرمانے کے بعد اور اس موقع پر مبارک باد دینے کے بعد جب لوگوں پر خلافت کی ہوأ و ہوس غالب آگئی تو انہوں نے غدیر خم کی تمام باتیں بھلادیں۔“
جہاں تک اہل تشیع کے مسلک سے متعلق کتب کی بات تھی، وہ تو میں یہ سوچ کر کہ: اہل تشیع تو ایسا لکھیں گے ہی، بُھلا سکتا تھا، مگر جب امام غزالی کے خیالات کا پتا چلا تو مجھے حیرت ہوئی اور خلافت کے بارے میں میرے شکوک مزید گہرے ہوگئے۔ والد صاحب کہتے ہیں کہ جب نبی کریم اپنے بعد خلیفہ نامزد کرکے گئے، تو پھر امت کو یہ حق کیسے حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے خلیفہ نامزد کریں اور اس حکم کو پس پشت ڈال دیں؟۔“
ج:... ڈاکٹر صاحب! بلا تکلف عرض کرتا ہوں کہ جب آپ کا مکتوب ملا اور میں نے امام غزالیکی کتاب ”سرالعالمین“ کے حوالہ سے آپ کی تحریر پڑھی تو اوّل و اہلہ میں ، میں نے یہی سمجھا کہ یقینا کہیں نقل میں سھو ہوا ہے،یا پھر جان بوجھ کر خیانت سے کام لیا گیا ہے، چنانچہ سب سے پہلے میں نے امام غزالی کے رسائل تلاش کئے، تو مجھے اپنے کتب خانہ میں ”مجموعہ رسائل امام غزالی“ کی وہ جلد مل گئی جو ایک سے سات تک ہے اور اس میں امام غزالی کے ۲۶ رسائل شائع کئے گئے ہیں، چنانچہ اس جلد کی ورق گردانی سے جب اس کے ۲۲ ویں نمبر پر رسالہ ”سرالعالمین و کشف مافی الدارین“ دیکھا توآپ کی طرح مجھے بھی جھٹکا لگا، پھر جب اس کے متعلقہ صفحہ کا مطالعہ کیا تو بلامبالغہ آپ کے والد صاحب نے جو کچھ کہا اور آپ نے جو لکھا، بعینہ وہ سب کچھ بھی اس میں موجود تھا۔
چونکہ یہ رسائل محمد علی بیضوی کی جانب سے اور ”دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان“ کی طرف سے شائع ہوئے تھے اور لبنان میں اہل تشیع کا غلبہ اور کثرت ہے، اس لئے اس طرف خیال گیا کہ یقینا اس کتاب کی امام غزالی  کی طرف غلط نسبت کی گئی ہے، مگر اس تردید کے لئے مضبوط دلائل و شواہد اور قطعی ثبوت کی ضرورت تھی، اس لئے میں نے متعدد اہل علم سے اس کے بارے پوچھا تو اکثر حضرات نے اس سے لاعلمی اور حیرت و تعجب کا اظہار کیا، تاآنکہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے درجہ تخصص فی الحدیث کے نگران حضرت مولانا عبدالحلیم چشتی دامت برکاتہم سے رابطہ کیا، انہوں نے بھی اس سے لاعلمی کا اظہار کیا، البتہ انہوں نے اس طرف متوجہ کیا کہ حضرت امام غزالی  کے مایہ ناز شاگرد اور ان کی کتاب احیاء العلوم کے شارح علامہ محمد الحسینی زبیدی کی ”اتحاف السادة المتقین“ کا مطالعہ کیا جائے، اس میں یقینا امام غزالی کی تصنیفات کا تذکرہ ہوگا۔
وہاں دیکھا جائے کہ انہوں نے ”سرالعالمین“ کو امام غزالی  کی تصنیفات میں شمار کیا ہے یا نہیں؟ چنانچہ ان کی راہنمائی اور توجہ دلانے پر ”اتحاف السادة المتقین“ ....مطبوعہ دارالفکر بیروت کی طرف رجوع کیا گیا، تو بحمداللہ! اس کے صفحہ:۴۱ پر امام غزالی کی دوسری تصنیفات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا: ”اعود وانعطف الٰی ذکر بقیة مصنفاتہ“ یعنی اب میں ان کی دوسری تصنیفات کے تذکرہ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، چنانچہ اس کے بعد علامہ زبیدی نے حروف تہجی کے اعتبار سے امام غزالی کی تمام تصنیفات کی فہرست لکھی ہے، اس فہرست کو دیکھنا شروع کیا تو حرف ”سین“ کے تحت ”سرالعالمین“ نام کی کوئی کتاب نہ تھی، اس لئے کہ انہوں نے حرف سین کے ذیل میں صرف ایک کتاب ”السر المصوف“ کو درج کرتے ہوئے اس کا تعارف کرانے کے بعد ”حرف الشین“ شروع کردیا ہے، جس سے یقین ہوگیا کہ ”سرالعالمین“ نام کی امام غزالی کی کوئی تصنیف نہیں ہے، اگر بالفرض ان کی ایسی کوئی کتاب یا تصنیف ہوتی تو علامہ زبیدی جیسے محقق، غزالیات کے ماہر اور ان کی تصنیفات کے شارح سے کم از کم مخفی نہ ہوتی اور وہ ان کی تصنیفات میں اس کا ضرور تذکرہ فرماتے۔
بہرحال جب یہ یقین ہوگیا کہ اس کتاب کی امام غزالی کی طرف نسبت غلط بلکہ ان پر بدترین اتہام ہے تو اب اس بات کی ضرورت تھی کہ امام غزالی کی تصنیفات میں سے کوئی ایسی کتاب مل جائے، جس میں انہوں نے بیان عقائد میں مسئلہ خلافت کا تذکرہ کیا ہو، تاکہ پتہ چل سکے کہ خلافت علی رضی اللہ عنہ کے بارہ میں ان کا کیا موقف ہے؟ اور وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اول مانتے ہیں یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو؟ نیز یہ کہ انہوں نے اعلان غدیر خم کا اپنی کسی کتاب میں تذکرہ کیا ہے یا نہیں؟ اگر کیا ہے تو وہ مسئلہ خلافت کو منصوص مانتے ہیں یا صحابہ کرام کا اجماعی؟
چنانچہ اس کے لئے بھی علامہ زبیدی کی اتحاف کی فہرست کی طرف رجوع کیا، تو اس کے حرف ”الف“ میں ”الاقتصاد فی الاعتقاد“ کا نام مل گیا، چنانچہ الاقتصاد تلاش کی گئی تو مکتبہ مصطفی البابی الحلبی واولادہ بمصر، عباس و محمد محمود حلبی وشرکائہ، کا ایک نسخہ مل گیا، اس کی ورق گردانی کی تو اس کے متعدد مقامات پر نہ صرف امام غزالی  نے اس مسئلہ پر بحث کی ہے، بلکہ مسئلہ خلافت کو امامیہ کے خلاف غیر منصوص باور کرایا ہے، چنانچہ اس کے ص: ۱۱۴ پر نہایت وضاحت و صراحت سے لکھا ہواہے کہ:
”فان قیل، فہلاقلتم ان التنصیص واجب من النبی والخلیفة کی یقطع ذلک دابر الاختلاف کماقالت بعض الامامیہ...“
”یعنی اگر یہ کہا جائے کہ تم نے یہ کیوں نہ کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفہ کی جانب سے مسئلہ خلافت کو نصاً بیان کرنا واجب تھا، تاکہ اختلاف کی بنیاد ہی ختم ہوجاتی، جیسا کہ امامیہ کہتے ہیں...“
اس سے صاف اور بالکل واضح طور پر امام غزالی کا مسئلہ خلافت کے بارہ میں موقف واضح ہوجاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد خلافت کے معاملہ میں کوئی واضح ارشاد نہیں فرمایا، جیسا کہ امامیہ کا گمان ہے کہ: آپ نے خلافت کے بارہ میں نصاً ارشاد فرمایا تھا۔
اس کے علاوہ اسی ”الاقتصاد فی الاعتقاد“ کے ص: ۱۱۸ پر خلفائے راشدین کی ترتیب ِ فضیلت کو بیان کرتے ہوئے لکھا:
”فاما الخلفا الراشدون فہم افضل من غیرہم وترتیبہم فی الفضل عند اہل السنة کترتیبہم فی الامامة...“
”یعنی خلفا راشدین دوسرے صحابہ کرام سے افضل ہیں اور اہل سنت کے ہاں ان کی آپس میں ایک دوسرے پر فضیلت کی ترتیب بھی وہی ہے، جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے۔“
اس کے چند سطر بعد فرماتے ہیں:
”وہم قدا جمعوا علی تقدیم ابی بکر ثم نص ابوبکر علی عمر، ثم اجمعوا بعدہ علی عثمان ثم علی رضی اللّٰہ عنہم، ولیس یظن عنہم الخیانة فی دین اللّٰہ تعالیٰ لغرض من الاغراض وکان اجماعہم علی ذلک من احسن ما یستدل بہ علی مراتبہم فی الفضل، ومن ہذا اعتقد اہل السنة ہذا الترتیب فی الفضل...“
”یعنی ان صحابہ کرام کا سب سے پہلے حضرت ابوبکر کی خلافت پر اجماع ہوا، پھر حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کی خلافت کی تصریح کی، اس کے بعد حضرت عثمان اور پھر حضرت علی کی خلافت پر صحابہ کرام کا اجماع ہوا، اور حضرات صحابہ کرام میں سے کسی پر اللہ کے دین کے معاملہ میں کسی قسم کی ذاتی یا دنیاوی غرض کی وجہ سے خیانت کا گمان نہیں کیا جاسکتا۔
حضرات صحابہ کرام کا خلافت کے معاملہ میں اجماع حضرات خلفاء کرام کے ایک دوسرے پر فضیلت اور بیان مراتب کے بہترین دلائل میں سے ہے، اہل سنت والجماعت کا حضرات خلفا کی ایک دوسرے پر فضیلت کی ترتیب کا عقیدہ بھی اسی سے ماخوذ ہے۔“
الغرض آپ نے دیکھا ،روافض و اہل تشیع تو امام غزالی پر یہ تہمت باندھ رہے تھے کہ نعوذ باللہ! وہ حضرت علی کی خلافت کو منصوص مانتے ہیں، نیز یہ کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام کو ہوأ و ہوس کا بندہ مانتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس امام غزالی  نہایت وضاحت و صراحت سے مسئلہ خلافت کو غیر منصوص بلکہ صحابہ کرام کا اجماعی مسئلہ قرار دیتے ہیں اور وہ صحابہ کے اجماع کو کسی دنیاوی غرض سے پاک اور صاف مانتے ہیں ،بلکہ اہل سنت کے ہاں حضرات خلفاء کرام کی آپس میں ایک دوسرے پر مرتبہ و مقام کی فضیلت کو بھی اسی ترتیب کے تابع گردانتے ہیں۔
اس تحقیق کو مزید آگے بڑھانے کے لئے اکابر متأخرین اور اربابِ تحقیق کی کتابوں کی طرف رجوع کیا گیا تو یہ معاملہ اور بھی واضح ہوکر سامنے آگیا، بلکہ نصف النہار کی طرح نکھر کر سامنے آگیا کہ زمانہ قدیم سے روافض اور اہل تشیع کی یہ عیاری، مکاری اوررَوِشِ بد رہی ہے کہ وہ اپنے فاسد و باطل عقائد اور نظریات کی ترویج کی خاطر اپنی جانب سے کوئی کتاب لکھ کر اہل سنت کے کسی نامی گرامی بزرگ، بڑے عالم دین اورمحقق کی وفات کے بعد اس کی طرف نسبت کرکے شائع کردیتے ہیں اور سیدھے سادے مسلمانوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ اہل سنت کا فلاں بڑا عالم اور محقق بھی وہی عقیدہ رکھتا تھا جو ہمارا ہے۔
چنانچہ اس سلسلہ میں جب مسند الہندحضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی شہرئہ آفاق تصنیف ”تحفہ اثنا عشریہ“ کی طرف رجوع کیا گیا تو اس کے فارسی ایڈیشن مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور کے ص:۴۰ پر ”کید بست ویکم“ (اکیسواں مکر) کے تحت یہ تفصیلات ہیں:
”آنکہ کتابے رانسبت کنند بیکے از کبریٰ اہل سنت ودران مطاعن صحابہ وبطلان مذہب اہل سنت درج نمایند ودر اول آن کتاب خطبہ نویسند کہ دروی وصیت باشد بکتمان سروحفظ امانت وآنکہ آنچہ درین کتاب مذکور شود عقیدئہ پنہانی است وآنچہ در کتب دیگر نوشتہ ایم محض پردہ داری وزمانہ سازی است مثل کتاب سرالعالمین کہ آنرا بامام محمد غزالی نسبت کنند و علی ہذا القیاس کتب بسیار تصنیف کردہ اندو بہریک از معتبرین اہل سنت نسبت نمودہ وکسے کہ باکلام آن بزرگ آشنا باشد ومذاق سخن اور ااز مذاق سخن غیر اوامتیاز و تفرقہ نماید کمیاب مے باشد، ناچار عوام طلبہ درین مکر غوطہ خورند وخیلے سراسیمہ وحیران شوند۔“ (تحفہ اثنا عشریہ فارسی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی متوفیٰ ۱۲۳۹ھ)
ترجمہ: ”اکیسواں مکر: یہ کہ روافض کوئی کتاب لکھ کر اس کو اکابر اہل سنت کی طرف منسوب کردیتے ہیں، اور اس میں حضرات صحابہ کرام کے خلاف مطاعن اور مذہب اہل سنت کے بطلان کو درج کرتے ہیں اور اس کے خطبہ یا دیباچہ میں اپنے بھید اور راز کے چھپانے اور امانت کی حفاظت کی وصیت کرتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ اس کتاب میں لکھا ہے، یہی ہمارا دلی اور پوشیدہ عقیدہ ہے، اور ہم نے اپنی دوسری کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے وہ محض پردہ داری اور زمانہ سازی تھا، جیسا کہ کتاب ”سرالعالمین“ خود سے لکھ کر انہوں نے اس کی نسبت حضرت امام غزالی کی طرف کردی ہے، علیٰ ہذا القیاس انہوں ...اہل تشیع ... نے بھی بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں اور ان پر اکابر اہل سنت اور قابل اعتماد بزرگوں کا نام لکھ دیا ہے، ظاہر ہے کہ ایسے افراد بہت کم ہیں جو کسی بزرگ کے کلام سے واقف و آشنا ہوں اور اس کے مذاق سخن یا اس کے اور دوسروں کے کلام میں فرق وامتیاز کرسکتے ہوں، لہٰذا ناچار سیدھے سادے لوگ ان کے اس مکر سے متاثر ہوتے ہیں اور بہت سے حیران و پریشان ہوتے ہیں․․․․ بلکہ بہت سے لوگ اس کو ایک مستند بزرگ یا اہل سنت کے امام کا کلام سمجھ کر اس کو اپناکر اپنا ایمان و عقیدہ غارت کر تے ہیں․․․․۔“
ان تفصیلات کے بعد آنجناب پر واضح ہوا ہوگا کہ آپ کے والد صاحب نے مسئلہ خلافت اور غدیر خم کے اعلان کی بابت جو کچھ حضرت امام غزالی کی طرف منسوب کیا ہے، وہ سراسر جھوٹ، غلط اور امام غزالی پر بہتان و افترأ ہے۔ الغرض یہ امام غزالی کا عقیدہ نہیں، بلکہ اہل تشیع کی مکاری ہے۔
جب آپ جیسا بیدار مغز ...مگر امام غزالی  کے عقائد و تصنیفات سے ناآشنا ...یا میرے جیسا کم علم، اس تحریر اور کتاب پر حضرت امام غزالی کا نام دیکھ کر اس سے متاثر ہوسکتا ہے تو سوال یہ ہے کہ عوام اس سے کیونکر متاثر نہ ہوں گے؟ چلئے !آپ اور میں تو عوام میں سے ہیں، ہمارے ہاں کراچی میں دارالاشاعت اردو بازار کراچی کے نام سے بہت بڑا اشاعتی ادارہ ہے اور یہ ادارہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی قدس سرہ کی اولاد کا ہے اور عام طور پر نایاب و کمیاب کتابوں کی اشاعت اور ان کے اردو تراجم کرکے پوشیدہ خزانے عوام تک پہنچاتا ہے۔
اس ادارہ کی جانب سے حال ہی میں رسائل امام غزالی  کا اردو ترجمہ شائع ہوا ہے، چنانچہ جب آپ کا خط ملا اور میں نے رسائل غزالی کا اردو ایڈیشن دیکھا تو اس میں بھی رسالہ ”سرالعالمین“ اور اس کا ترجمہ موجود ہے، یہ دوسری بات ہے کہ ترجمہ نگارنے اس میں درج شیعہ عقائد کو مشرف بااسلام کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے، مگر اس میں اس کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں کہ یہ رسالہ امام غزالی  کا نہیں ہے۔
اس لئے کہ ترجمہ نگار کو معلوم ہی نہیں کہ یہ رسالہ حضرت امام غزالی  کے سر منڈھ دیا گیا ہے، چنانچہ آئندہ چل کر اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آنے والی نسلیں، اس رسالہ کو بلاتردد امام غزالی  کا رسالہ سمجھ کر اس کے مندرجات کو اپنائیں گی، پھر جب کبھی اہل تشیع اس کا عربی ایڈیشن لاکر اس کے اصل غلیظ مندرجات دکھلائیں گے تو اہل سنت سر پکڑ کر رہ جائیں گے۔
آخر میں ایک بات اور بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ اہل تشیع سے کوئی پوچھے کہ بالفرض! اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کا اعلان کرنا ہی تھا تو یہ کوئی چھپانے کی چیز تو نہیں تھی ...اور نہ ہی یہ چھپانے سے چھپنے والی تھی، بلکہ یہ تو عوام کے فائدہ کی چیز اور امت مسلمہ کو وحدت کی ایک لڑی میں پرونے کا سبب تھی، تو سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع، عرفات، مزدلفہ، منیٰ یا بیت اللہ میں اس کا اعلان کیوں نہ کیا؟ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان جگہوں اور مجمع عام میں اعلان کرنے سے کون سا امر مانع تھا؟
سوال یہ ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے دور،جحفہ کی ایک وادی میں،اور عین حالت سفر میں اس اعلان کرنے کا کیا مقصد تھا؟کہیں اس کا یہ معنی تو نہیں؟ بلکہ یقینا ایسا ہی ہے کہ یہ سب کچھ اہل تشیع کا خانہ زاد ہے، ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی اعلانات کئے، مجمع عام میں کئے ہیں۔
رہا یہ امکان یا الزام کہ عین ممکن ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذباللہ!ا خفا اور تکیہ سے کام لیا ہو، مگر سوال یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح طور پر فرمایا دیا گیا تھا کہ: ” یایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک، وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ“ (مائدہ : ۶۷)...اے رسول! پہنچا دے جو تجھ پر اُترا تیرے رب کی طرف سے اور اگر ایسا نہ کیا تو تونے کچھ نہ پہنچایا اس کا پیغام... کیا کہا جائے کہ اس ارشاد الٰہی کے باوجود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخفا اور تکیہ سے کام لیں گے ؟ ناممکن ہے، بلکہ ایسا سوچناآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ناصرف بدترین تہمت ہے ،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدترین گستاخی ہے ۔
الغرض! کیا اہل تشیع بتلاسکتے ہیں کہ ایسی کون سی مجبوری تھی جس کی بنا پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ اعلان غدیر خم میں کرنے کا فیصلہ کیا؟
اسی طرح یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کا اعلان کرنا تھا تو صاف الفاظ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا نائب بنانے کی بجائے ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“میں ”مولیٰ“ جیسا مبہم لفظ جو رب، مالک، سیّد، منعم، معتق، ناصر، محب، تابع، پڑوسی، حلیف، غلام اور آزاد شدہ غلام وغیرہ مختلف معانی کا احتمال رکھتا ہے، (مرقاة، ج:۵، ص:۵۶۸) یا جو حضرت علی سے محبت، الفت، تعلق اور دوستی کی ترغیب پر دلالت کرتا ہو، کیونکر استعمال فرمایا؟ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو صاف لفظوں میں یہاں تک فرمایا تھا کہ : ”انت منی بمنزلة ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی“ ...آپ کو میرے ساتھ وہی نسبت حاصل ہے جو حضرت ہارون علیہ السلا م کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی،مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا...۔
الغرض! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے موقع پر آپ کو صراحت و وضاحت کے ساتھ اتنے اونچے الفاظ سے یاد فرماسکتے تھے تو اس موقع پر آپ کی خلافت کے لئے واضح کلمات کے بجائے ایسے مبہم الفاظ کیوں استعمال فرمائے؟
ڈاکٹر صاحب! حدیث و تاریخ کا مطالعہ کیجئے! تو اندازہ ہوگا کہ شیعہ حضرات کے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت بلا فصل کے اس استدلال یا دوسرے الفاظ میں گپ کی قلعی کھل جاتی ہے، چنانچہ اس حدیث کی شرح میں شارح مشکوٰة علامہ علی القاری اپنی مشہور کتاب” مرقات“ میں فرماتے ہیں کہ:
”اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ حضرت علی کو حضرت اسامہ نے فرمایا تھا کہ: ”آپ میرے مولیٰ نہیں، میرے مولیٰ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں“ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جس کا مولیٰ، علی بھی اس کا مولیٰ ہے “
اس سے ذرا آگے اسی صفحہ پر علامہ علی قاری علامہ شمس الدین جزری کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ:
”حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب یمن میں تھے تو وہاں لوگوں نے حضرت علی کے بارہ میں کچھ باتیں کیں، جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حجة الوداع کے بعد واپسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی قدر و منزلت کو بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا: ”جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ علی سے بھی محبت رکھے۔“ (مرقاة، ص:۵۶۸، ج:۵)
اس کے ساتھ ہی اگر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی کتاب ”اصلاحی مواعظ“ میں حضرت علی کو مولیٰ کہنے کی وجہ اور اس کے پس منظر کو پڑھ لیا جائے تو معاملہ اور زیادہ واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے، کیونکہ دیکھا جائے تو حضرت شہید نے اس قسم کے تمام اقوال اور تحقیقات کا خلاصہ اور عرق بایں الفاظ کشید کیا ہے:
”مولیٰ کے بہت سے معنی آتے ہیں، ان میں سے ایک معنی محبوب کے بھی ہیں، مطلب یہ کہ جو شخص کہ مجھ سے محبت رکھتا ہو وہ علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے، اور یہ بات اس لئے ارشاد فرمائی تھی کہ حجة الوداع سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو یمن بھیجا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہیں یمن سے مکہ مکرمہ آکر ملے تھے اور وہاں یمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دوسرے حضرات بھی گئے ہوئے تھے، ان کا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا آپس میں کسی بات پر مناقشہ ہوگیا اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی، اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج ہوا کہ جب میری زندگی میں حضرت علی پر اعتراض کئے جارہے ہیں تو بعد میں کیا ہوگا؟ اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طور پر امت کے ذمہ ضروری قرار دے دیا، یہ مطلب ہے اس حدیث : ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ کا۔
اور یہیں سے ”مولیٰ علی“ کی اصطلاح چلی ہے، اہل سنت اس کو مانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمارے محبوب ہیں ، اور ان کی محبت اور ان کی آل و اولاد کی محبت، اہل سنت کے نزدیک جزو ایمان ہے اور جو شخص ان کی محبت سے خالی ہو، اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ایمان سے فارغ ہوجائے گا، نعوذباللہ!۔“ (اصلاحی مواعظ، ص:۱۰۳، ج:۴) الغرض! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غدیر خُم میں:” من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ فرمانا حضرت علی کی خلافت کے اعلان کے لئے نہیں، بلکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی قدرو منزلت بیان کرنے اور حضرت علی کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طور پر امت کی ذمہ داری قرار دینے کے لئے تھا۔اور بحمداللہ! اہل سنت والجماعت اتباع سنت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت کو اپنے ایمان کا جز سمجھتے ہیں۔واللّٰہ اعلم بالصواب۔
وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الاول:۱۴۳۱ھ - مارچ: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 
Flag Counter